آنسو اس کے رخساروں پر رواں
تھے۔اس نے اپنے جرنیلوں کو بلایا اور کہا۔’میں اس دنیا سے جلد رخصت ہونے
والا ہوں۔ میری تین خواہشات ہیں۔ ان پر ہر صورت عمل ہونا چاہیئے‘۔جرنیلوں
نے اپنے بادشاہ کی آخری خواہشات کی پاسداری کرنے پر اتفاق کیا ۔’یہ میری
پہلی خواہش ہے ‘ اس نے کہا ۔’ میرے ڈاکٹراکیلے میرا تابوت لے کے جائیں یہ
ضروری ہے‘۔تھوڑے سے وقفے کے بعد اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔’ میری
دوسری خواہش یہ ہے کہ جب میرا تابوت قبر کے لئے لے کر جایاجا رہا ہوگا،
قبرستان کے راستے میں سونے، چاندی اور قیمتی پتھر جو میں نے اپنے خزانے میں
جمع کئے ہیں بکھیردیے جائیں۔ بادشاہ نے مسلسل کہا۔’میری تیسری اور آخری
خواہش یہ ہے کہ میرے دونوں ہاتھ میری تابوت سے باہر لٹک رہے ہوں۔ لوگ جو
وہاں جمع ہوئے تھے بادشاہ کی عجیب خواہشات پر حیران رہ گئے لیکن کوئی بھی
اپنے ہونٹوں پر سوال لانے کی ہمت نہ کر سکا۔بادشاہ کے پسندیدہ جنرل نے اس
کے ہاتھ کو چوما اور اپنے دل کے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔’اے بادشاہ، ہم آپ کو
یقین دلاتے ہیں کہ آپ کی ہر خواہش پوری ہو جائے گی لیکن ہمیں بتا دیں کہ
کیوں آپ نے ایسی عجیب خواہشات کی ہیں؟‘ اس پر بادشاہ نے ایک گہراسانس لیا
اور کہا ’میں دنیا کے لئے تین سبق چھوڑ جانا چاہتا ہوں جو میں نے سیکھے ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ میرے ڈاکٹرمیرے تابوت کو اٹھائیں تاکہ لوگوں کو احساس ہو
کہ کوئی ڈاکٹر کسی بھی جسم کا واقعی علاج نہیں کر سکتے ہیں۔وہ بے بس ہیں
اور ایک شخص کو موت کے چنگل سے نہیں بچا سکتے ۔لہذا کسی انسان کی زندگی کی
کوئی ضمانت نہیں۔قبرستان کے لئے راستے پر سونے، چاندی اور دوسری دولت
بچھانے کا مقصد یہ ہے کہ میں نے ساری زندگی میں جو مال ودولت جمع کیا اس
میں سے کچھ بھی اپنے ساتھ نہیں لے جا سکا۔اور یہ مال کا پیچھا کرنا وقت کی
سراسر بربادی ہے۔اور میرے ہاتھ تابوت سے باہر بے ربط اس لیے ہونے چاہئیں تا
کہ لوگوں جان جائیں کہ میں خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی ہاتھ جا رہا
ہوں۔الیگزنڈر دی گریٹ جسے دنیا سکندرِاعظم کے نام سے بھی جانتی ہے33سال کی
عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔جاتے جاتے وہ ساری دنیا کے لئے پیغام
چھوڑگیا۔عظیم سلطنتوں کو فتح کرنے والا خالی ہاتھ جا رہا تھا۔
پرانے آدمی نے خوف کے سہارے زندگی بسر کی ہے۔ خوف نے تین ہزار سالوں میں
پانچ ہزار جنگیں کرائیں ہیں۔کروڑوں لوگوں کا قتل کرایا ہے۔خوف نے ایٹم بم
بنوائے۔لاکھوں کے مرنے کا سامان تیار کروایا ہے۔پرانا آدمی ہر وقت خوف کی
باتیں کرتا ہے۔خوف موت کی طرف لے جاتا ہے۔پرانا آدمی ہر وقت موت کی باتیں
سوچتا ہے۔اس نے ساری زندگی ڈرتے ہوئے گزاری ہے۔اگر آپ خوف کے ساتھ زندگی
بسر کرتے ہیں تو آپ ایسی صورتحال پیداکر لیتے ہیںجس سے آپ کو بہت زیادہ خوف
آتا ہے۔اگر آپ محبت کرتے ہیں تو آپ کو چاہے جانے کے بہت سے مواقع ملیں
گے۔اب نئے آدمی کی پیدائش ہونے جارہی ہے۔نیا آدمی خوف میں زندگی نہیں
گزارناچاہتا اور نہ ہی مال و دولت کے پیچھے بھاگ کر اپنی زندگی ضائع
کرناچاہتا ہے۔نیا آدمی محبت میں زندگی گزارناچاہتا ہے۔امن میں زندگی
گزارناچاہتاہے۔وہ دیواریں نہیں بنا نا چاہتا بلکہ وہ پہلے سے بنی ہوئی
دیواروں کو گرانا چاہتا ہے۔نئے آدمی کی سوچ محدود نہیں ہے اس کی سوچ
عالمگیر ہے۔وہ پوری دنیا کو امن میں اور محبت میں بدلنے جارہا ہے۔
نیا آدمی سیاسی نہیں ہے انقلابی ہے کیونکہ سیاست کی بنیادیں نفرت‘خوف اور
تباہی میں پیوست ہیں۔نیا آدمی تخریبی نہیں بلکہ تخلیقی ہے۔وہ بہت ذہین ہے
اور سیاست میں شامل ہونا اس کی توہیں ہے۔سیاست نہیں ہونی چاہیئے اور نہ ہی
سیاسی پارٹیاں۔اگر ہمیں نئے آدمی کی ذہانت سے فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں بھی
نیا آدمی بننا ہوگا۔اس سسٹم کو بدلنا ہوگا۔نیا آدمی اس سسٹم میں شامل ہو کر
خود کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔اگر ہمارا حکومتی نظام میرٹوکریسی پر ہو جائے
تو نئے آدمی کی اہلیت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔اب ہمیں سمجھدار ہونا
ہوگا۔نیا آدمی بننا ہوگا۔انقلابی آدمی بننا ہوگا۔نئے آدمی کو آگے لانا
ہوگا۔نئے آدمی کو پہچاننا ہوگااور نئے آدمی کی تخلیقیت سے فائدہ اٹھانا
ہوگا۔پرانے آدمی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔نیا آدمی تعصبات میں زندگی نہیں
گزارے گا۔پرانا آدمی غلام تھا جبکہ نیا آدمی آزاد ہے۔نیا آدمی
”قربانی“اور”فرض“جیسے الفاظات کی بھینٹ نہیں چڑھے گا۔اب کوئی مذہبی یا
سیاسی پارٹی اس کا استحصال نہیں کر سکتی۔”جاﺅ اور جاکر مر جاﺅ کیونکہ
تمہارا ملک حالتِ جنگ میں ہے“وہ ایسی باتوں میں نہیں آئے گاکیونکہ وہ امن
چاہتا ہے۔وہ خوف اور موت سے بے پرواہ ہے۔وہ خوشی کے ساتھ زندگی گزارنا پسند
کرے گا۔وہ زندگی کو celeberateکرنا پسند کرے گا۔ وہ کائنات کے ایک ایک ذرے
میں اپنا ساز تلاش کرے گا۔اور فطرت سے لطف اندوز ہوگا۔وہ مال و دولت جمع کر
کے غریب کا استحصال نہیں کرے گا۔نیا آدمی نفرت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا
ہے۔وہ محبت بانٹنا چاہتا ہے۔ |