پاکستان کی موجودہ آبادی
تقریباََ19کروڑ افراد پر مشتمل ہے جس میں سے 17 فیصد افراد خطِ غربت سے
نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں یعنی کہ اگر ایک شخص روزانہ کی بنیاد پر 1.25
ڈالر یا اس سے زیادہ کماتا ہے تو وہ اس نشان سے اوپر ہے۔ یہ ایک المیہ ہے
کہ دنیا بھر میں ایسے خطے بکثرت موجود ہیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے
کے باوجود بھی معاشی اور سماجی طور پر کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
افریقی ممالک کو ہی لے لیجئے کہ براعظم افریقہ کس طرح ہیرے جواہرات کی دولت
سے مالامال ہے مگر پھر بھی اس کے رہنے والے مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ وجہ
یہی ہے کہ کچھ عالمی قوتیں نہیں چاہتی کہ افریقہ کے لوگ سکھ کا سانس لیں۔
پاکستان بھی ایک ایسے محل و قوع پر موجود ہے کہ ربِ ذولجلال نے ہمیں بے
پناہ نعمتوں سے نواز رکھا ہے ۔ ہمارے پاس سال کے چار موسم ہیں۔ طویل برف
پوش پہاڑی سلسلے شمال میں ہیں تو جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے، جو پورا سال
بحری آمدورفت کے لیے موزوں رہتا ہے۔ بلوچستان کے پہاڑوں میں چھپے معدنی
ذخائر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ وطنِ عزیز کو خدا تعالیٰ نے اَن گِنت
نعمتوں سے نوازا ہواہے ۔ کہیں سر سبز میدان وسیلہئ خوراک بن رہے ہیں تو
کہیں طویل ریگستان اپنی وسعتوں میں افادیت سموئے بیٹھے ہیں۔ یہ سب نعمتیں
نہیں تو اور کیاہیں؟ بس ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان کو فائدہ مند بنانے کا
ہنر آنا چاہیے ۔ مگر افسوس ، صد افسوس ہمار ے ارباب اختیار کو سیاست گری
اور تعیش پسندی سے اتنی فرصت کہاں کہ قوم کو اِن نعمتوں سے فیض یاب کر سکیں۔
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں چند چونکا دینے والے اعداد و شمار پیش
کیے گئے جو کسی بھی شخص کو دانتوں میں انگلیاں دبانے کے لیے کافی تھے ۔
بتایا گیا کہ ایوان صدر کے باورچی خانے کی تزئین و آرائش پر 26 کروڑ روپے
لاگت کا تخمینہ لگایاگیا ہے۔ ادھر ایک نہایت اہم سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایک
ایسے ملک کو ، جہاں کی 17 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی
ہے،یہ زیب دیتا ہے کہ اُس کے ایوان صدر کے باورچی خانے اتنی رقم خرچ کی
جائے؟ ہر عام فہم شخص اس سوال کا جواب نا ں کی صورت میں دے گا ۔ اتنی خطیر
رقم محضِ ایک باورچی خانے کی مرمت اورتزئین کے لیے مختص کرتے وقت ایسا کرنے
والوں کو اُن بے شمار چولہوں کا خیال نہ آیا جو محضِ اس لیے ٹھنڈے پڑے ہیں
کہ آمدنی ضرورت سے کم ہے۔ ان 26 کروڑ سے تیرہ ایسے کارخانے لگ سکتے ہونگے
جن میں بے شمار بے روزگاروں کو روزگار مہیا ہوسکتا، اور ایسی بے شمار
مائوںکو محض اس لیے اشک نہیں بہانے پڑیں گے کہ ان کے بچے بھوکے سو گئے۔ کاش
ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اپنی تمام تر توجہ عوام کی فلاح و بہبود
کو دیں نہ کہ عیش وعشرت کو۔
عوام سے اس زیادتی پر موجودہ حکومت کو ہی نہیں بلکہ گزشتہ ادوار کے
حکمرانوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا ۔ سب نے جتنا موقع پایا، اتنے ہی
اپنے ارمان نکالے اور ارمانوں کی تکمیل کے اس چکر میں بیچارے عوام غربت کی
سختی سہتے رہے ۔ ارباب اختیار کی یہی بے ضابطگیاں ہیں جو اہل ِوطن کو اس
نہج تک لانے کی ذمہ دار ہیں، کہ مادرِوطن کی 60.3% آبادی دو ڈالر یومیہ
یعنی قریباََ 170 روپے روزانہ پر گزر بسر کر رہی ہے۔ اگر اِن اعدادو شمار
کا موازنہ بھارت اور بنگلہ دیش سے کیا جائے تو ہم کافی پیچھے ہیں۔ اب یہ
خبریں روزانہ کا معمول بن گئی ہیں کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مزید
اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گیس کا تو ذکر ہی مت کیجئے ۔ اس کی مثال تو عید کے
چاندکی سی ہو گئی ہے۔ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل کی صنعت، جس کا ایک بڑا حصہ
گیس پر چلتا ہے، گیس کی طویل بندش کا شکار ہے، جس سے ہزاروں مزدور بے
روزگار ہو گئے ہیں۔ اس نا انصافی کے راگ الاپنے کا تب تک کوئی فائدہ نہیں،
جب تک عوام کی دولت خواص کے ہاتھوں لٹنا نہیں رکتی ورنہ ،ہم یوں ہی سر
پیٹتے رہ جائیں گے۔
پاکستان کے عوام کی غربت کی ایک وجہ آبادی کے زیادہ ہونے کو بھی گردانا
جاتا ہے۔ اگر لوگوں کی اس بڑی تعداد کو مثبت پہلو سے دیکھیں تو معلوم ہو گا
کہ یہ کثیر آبادی بھی ایک نعمت ہے۔ ہمارے پاس افردی قوت بکثرت موجود ہے ،جس
کو اگردر ست ا نداز میں بروئے کار لایا جائے، تو وطنِ عزیز کے لوگوں کی
قسمت بدل سکتی ہے۔ اگر صاحب اختیار پیٹ پوجا سے فراغت حاصل کریں اور خزانے
کو صنعتیں چلانے کے لئے استعمال کریں تو بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا
ہے۔ صنعتوں کو چلانے کے لئے ایندھن درکار ہوتا ہے ،وہ الحمداللہ پاکستان
میں موجود ہے، صرف اسے نکالنے کی دیر ہے۔ نہ صرف صنعتوں پر بلکہ زراعت پر
بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اسے نت نئے اورجدید خطوط پر استوار کرنا
ہوگا۔ اس طرح اناج کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور نتیجے کے طور پرزراعت سے
وابستہ لوگوں کی آمدنی بڑھے گی۔
معاشی ترقی کے ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے جن میں پاکستان کے قدرتی وسائل سے
بھر پوراستفادہ کیا جائے ،تاکہ ہمیں دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں
۔ سرکاری شاہ خرچیوں کو جو کہ قومی دولت کے بل بوتے پر کی جاتی ہیں لگام
دینی چاہیے۔ ایسے بے شمارمنصوبے تو پہلے بھی فائلوں کی زینت بن چکے ہیں مگر
ان میں سے کسی پر ابھی تک عمل نہیں ہوا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو
یقینی بنایا جائے کہ معاشی ترقی کے پلان کو عملی جامہ پہناکر پایہئ تکمیل
تک پہنچا یا جائے ۔ اِس ضمن میں اِس بات کا خاص خیا ل رکھا جائے کہ جب
حکومتیں تبدیل ہوں تو وہ سیاسی سکور بڑھانے کے چکر میں پالیسی کا خاتمہ نہ
کردیں ، بلکہ صرف ایسی تبدیلیاں لائے جو کہ تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ملک
کو بہتری کی جانب لے جائے۔ اسی میں ملک و قوم کا مفاد پوشیدہ ہے۔ |