549 / 1. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ
رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ
مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ،
وَفِيْهِ قُبِضَ وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ فَأَکْثِرُوْا
عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ،
قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! کَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْکَ
وَقَدْ أَرِمْتَ؟ يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ قَالَ صلي الله عليه وآله وسلم :
إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 1 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : فضل يوم
الجمعةو ليلة الجمعة، 1 / 275، الرقم : 1047، وفي کتاب : الصلاة، باب : في
الاستغفار، 2 / 88، الرقم : 1531، والنسائي في السنن، کتاب : الجمعة، باب :
بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 / 91،
الرقم : 1374، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة، باب : في فضل
الجمعة، 1 / 345، الرقم : 1085.
’’حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر
ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی
اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن
مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔
صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو
کیسے پیش کیا جائے گا؟ جبکہ آپ کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیائے
کرام کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے۔‘‘
550 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله
عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ
اﷲُ عَلَيَّ رُوْحِي، حَتَّي أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 2 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : المناسک، باب : زيارة
القبور، 2 / 218، الرقم : 2041. و أحمد بن حنبل في المسند 2 / 527، الرقم :
10827، والبيهقي في السنن الکبري، 15 / 245، الرقم : 10050، و في شعب
الإيمان، 2 / 217، الرقم : 1581، 4161، وابن راهويه في المسند، 1 / 453
الرقم : 526.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بھی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو بیشک اﷲ
تعالیٰ نے مجھ پر میری روح لوٹا دی ہوئی ہے (اور میری توجہ اس کی طرف مبذول
فرماتا ہے) یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
551 / 3. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ
صلي الله عليه وآله وسلم : اَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ
الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ وَإِنَّ
أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّي
يَفْرُغَ مِنْهَا قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَبَعْدَ
الْمَوْتِ إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ
الْأَنْبِيَاءِ فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ يُرْزَقُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه
بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
الحديث رقم 3 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ذکر وفاته
ودفنه صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 524، الرقم : 1637، والمنذري في
الترغيب والترهيب، 2 / 328، الرقم : 2582.
’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا
کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے،
اس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، کوئی
شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے فارغ ہونے تک اس کا درود مجھے پیش
کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اور
(یا رسول اﷲ!) آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا : ہاں وصال کے بعد بھی (اسی طرح پیش کیا جائے گا کیونکہ) اللہ
تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام
کر دیا ہے۔ پس اﷲ عزوجل کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق بھی دیا جاتا
ہے۔‘‘
552 / 4. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي
الله عليه وآله وسلم : مَنْ زَارَ قَبْرِي بَعْدً مَوْتِي کَانَ کَمَنْ
زَارَنِي فِي حَيَاتِي.
رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 4 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 406، الرقم : 13496،
والدارقطني عن حاطب رضي الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم : 193 والبيهقي
في شعب الإيمان، 3 / 489، الرقم : 4154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت
کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔‘‘
553 / 5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ
صلي الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ
تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ
الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَکَرِبْتُ کُرْبَةً مَا کَرِبْتُ مِثْلَهُ
قًطُّ، قَالَ : فَرَفَعَهُ اﷲُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ. مَا يَسْأَلُوْنِي
عَنْ شَيءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ. وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ
مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوْسَي عليه السلام قَاءِمٌ يُصَلِّي،
فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَةَ. وَإِِذَا
عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ
بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ. وَإِذَا
إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ
صَاحِبُکُمْ (يَعْنِي نَفْسَهُ) فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ
فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ قَائِلٌ : يَا مُحَمَّدُ، هَذَا
مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ
فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.
الحديث رقم 5 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : ذکر المسيح
ابن مريم والمسيح الدجال، 1 / 156، الرقم : 172، والنسائي في السنن الکبري،
6 / 455، الرقم : 11480، وأبو عوانة في المسند، 1 / 116 الرقم : 350،
وأبونعيم في المسند المستخرج، 1 / 239، الرقم : 433، والعسقلاني في فتح
الباري، 6 / 487.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے خود کو حطیم کعبہ میں پایا اور قریش مجھ سے
سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی
کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی
وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا،
تب اﷲ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت
المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (اسے دیکھ دیکھ کر) انہیں بتا دیتا
اور میں نے خود کو گروہ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا۔ میں نے دیکھا
کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے، اور وہ قبیلہ شنوءہ کے
لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر (دیکھا کہ) حضرت عیسیٰ بن
مریم علیہما السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت
مشابہ ہیں، اور پھر دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ
تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان
کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب
انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو
مجھے ایک کہنے والے نے کہا : یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں
سلام کیجئے۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے
سلام کیا۔‘‘
554 / 6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي
الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَتَيْتُ، (وفي رواية هدّاب:) مَرَرْتُ عَلَي
مُوْسَي لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ
قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ
وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 6 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب : من فضائل موسي
عليه السلام، 4 / 1845، الرقم : 2375، والنسائي في السنن، کتاب : قيام
الليل وتطوع النهار، باب : ذکر صلاة نبي اﷲ موسي عليه السلام، 3 / 215،
الرقم : 161. 1632، وفي السنن الکبري، 1 / 419، الرقم : 1328، وأحمد بن
حنبل في المسند، 3 / 148، الرقم : 12526 - 13618، وابن حبان في الصحيح، 1 /
242، الرقم : 50، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 13، الرقم : 7806، وابن
أبي شيبة في المصنف، 7 / 335، الرقم : 36575، وأبو يعلي في المسند، 6 / 71،
الرقم : 3325، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 362، الرقم : 1205، والديلمي في
مسند الفردوس، 4 / 170، الرقم : 6529، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 205،
والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 444.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس
آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ) سرخ ٹیلے کے پاس سے
میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں
کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے۔‘‘
555 / 7. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضي الله عنه قَالَ :
لَمَّا کَانَ أَيَامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ
صلي الله عليه وآله وسلم ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيْدُ
بْنُ الْمُسَيَبِ رضي الله عنه مِنَ الْمَسْجِدِ، وَکَانَ لَا يَعْرِفُ
وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلاَّ بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ
صلي الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَ مَعْنَاهُ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
وَانْفَرَدَ بِهِ.
الحديث رقم 7 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : (15)، ما أکرم اﷲ تعالي نبيه
صلي الله عليه وآله وسلم بَعْدَ مَوْتِهِ، 1 / 56، الرقم : 93، والخطيب
التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 400، الرقم : 5951، والسيوطي في شرح سنن
ابن ماجه، 1 / 291، الرقم : 4029.
’’حضرت سعید بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ایام حرّہ (جن
دنوں یزید نے مدینہ منورہ پر حملہ کروایا تھا) کا واقعہ پیش آیا تو حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں تین دن تک اذان اور اقامت
نہیں کہی گئی اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ (جو کہ جلیل القدر تابعی
ہیں انہوں نے مسجد نبوی میں پناہ لی ہوئی تھی اور) انہوں نے (تین دن تک)
مسجد نہیں چھوڑی تھی اور وہ نماز کا وقت نہیں جانتے تھے مگر ایک دھیمی سی
آواز کے ذریعے جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے
سنتے تھے۔‘‘
556 / 8. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ
اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ
يُصَلُّوْنَ.
رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَي وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَابْنُ عَدِيٍّ
وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ : وَأَرْجُوْ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ.
والعسقلاني في الفتح وقال : قد جمع البيهقي کتابًا لطيفًا في حياة الأنبياء
في قبورهم أورد فيه حديث أنس رضي الله عنه : الأنبياء أحياء في قبورهم
يصلّون. أخرجه من طريق يحيي بن أبي کثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن
سعيد وقد وثّقه أحمد وابن حبّان عن الحجاج الأسود وهو ابن أبي زياد البصري
وقد وثّقه أحمد وابن معين عن ثابت عنه وأخرجه أيضاً أبو يعلي في مسنده من
هذا الوجه وأخرجه البزار وصحّحه البيهقي.
الحديث رقم 8 : أخرجه أبو يعلي في المسند، 6 / 147، الرقم : 3425، وابن عدي
في الکامل، 2 / 327، الرقم : 460، وقال : هذا أحاديث غرائب حسان وأرجو أنه
لا بأس به، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 119، الرقم : 403، والعسقلاني في
فتح الباري، 6 / 487، وفي لسان الميزان، 2 / 175، 246، الرقم : 787، 1033،
وقال : رواه البيهقي، وقال : ابن عدي : أرجو أنه لا بأس به، والذهبي في
ميزان الاعتدال، 2 / 200، 270، وقال : رواه البيهقي، والهيثمي في مجمع
الزوائد، 8 / 211، وقال : رواه أبو يعلي والبزار، ورجال أبي يعلي ثقات،
والسيوطي في شرحه علي سنن النسائي، 4 / 110، والعظيم آبادي في عون المعبود،
6 / 19، وقال : وألفت عن ذلک تأليفا سميته : انتباه الأذکياء بحياة
الأنبياء، والمناوي في فيض القدير، 3 / 184، والشوکاني في نيل الأوطار، 5 /
178، وقال : فقد صححه البيهقي وألف في ذلک جزءا، والزرقاني في شرحه علي
موطأ الإمام مالک، 4 / 357، وقال : وجمع البيهقي کتابا لطيفا في حياة
الأنبياء وروي فيه بإسناد صحيح عن أنس رضي الله عنه مرفوعا.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں
زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابویعلی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور اس
حدیث کو امام ابن عدی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن عدی نے
فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔
امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی نے انبیاء
کرام علیہم السلام کے اپنی قبروں میںزندہ ہونے کے بارے میں ایک خوبصورت
کتاب لکھی ہے جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی وارد کی ہے کہ
انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں اور صلاۃ بھی ادا
کرتے ہیں۔ یہ حدیث انہوں نے یحی بن ابی کثیر کے طریق سے روایت کی ہے اور وہ
صحیح حدیث کے رواۃ میں سے ہیں انہوں نے مستلم بن سعید سے روایت کی اور امام
احمد بن حنبل نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور ابن حبان نے یہ حدیث حجاج اسود
سے روایت کی ہے اور وہ ابن ابی زیاد البصری ہیں اور انہیں بھی امام احمد نے
ثقہ قرار دیا ہے۔ اور ابن معین نے حضرت ثابت سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ اور
امام ابو یعلی نے بھی اپنی مسند میں اسی طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے اور
امام بزار نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا
ہے۔‘‘
مزید احادیث کے لیے لنک:
https://www.minhajbooks.com/english/control/btext/cid/2/bid/35/btid/507/read/txt/باب%20نہم-Al-Minhaj%20as-Sawiyy%20min%20al-Hadith%20an-Nabawiyy.html |