ذرائع ابلاغ میں شائع
اعدادوشمارکا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ساری دنیا میں اس وقت کمزورترین
حالات سے گذرنے والی اگر کوئی قوم ہے تو وہ مسلمان ہے۔ عام اتفاق رائے یہ
ہے کہ ہندوستان میں مسلمان بڑی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ہندوستانی
مسلمان بھی اِ س حقیقت کے سلسلے میں دو رائے نہیں رکھتے کہ نہ صرف ہندوستان
بلکہ سارے عالم کے مسلمان زبوں حالی کے دلدل میںپھنسے ہوئے ہیں۔کل ملا کر
کیفیت یہ ہے کہ پونے دوسو کروڑ نفوس پر مشتمل یہ عالمی قوم اپنی ذلّت و
نکبت کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔بد بختی کے عمیق اور سیاہ
سمندرمیںخوشحالی کے کچھ چمکدار جزیرے ہو سکتے ہیں بلکہ ہیں لیکن ان کے ہونے
نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔یہی وجہ ہے کہ آج حج بیت اللہ کا سفر بھی
گداگری کے ریکٹ کی نذر ہوگیا ہے۔حج کمیٹی آف انڈیا کے چیف ایگزی کیٹیو افسر
ڈاکٹر شیخ شاکر حسین نے گذشتہ روز اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مغربی بنگال کے
166 حاجی سعودی عرب میں روپوش ہوگئے ہیں۔ ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران انہوں
نے یہ افسوسناک انکشاف کیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حج کے بہانے سعودی عرب
جاکر بھیک مانگنے کا ریکٹ مرشدآباد میں چل رہا ہے جہاں سے متعدد افراد کو
بھیک مانگنے کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ یہ لوگ ان کے اخراجات اٹھاتے ہیں اور
انہیں کچھ مخصوص رقم بھیک مانگنے کے عوض دے دی جاتی ہے۔چیف ایگزی کیٹو افسر
موصوف کی مانیں تورواں سال کے دوران مالدہ و مرشدآباد کے یہ معذور لوگ بھیک
مانگتے ہوئے جب سعودی عرب میں پکڑے گئے تو اس کی اطلاع نہ صرف ہندوستانی
سفارت خانہ اور حج کمیٹی کو دی گئی بلکہ ان بھکاریوں کے انکشافات کی بنیاد
پر اس پورے ریکٹ کے ماسٹر مائنڈ مرشدآباد کے شرف الحق کو گرفتار کیاگیا ۔ڈاکٹر
شیخ شاکر حسین کی مانیں تو یہ لوگ سعودی عرب جاکر حج کمیٹی کی عمارتوں میں
نہیں ٹھہرتے بلکہ ادھر ادھر جاکر بھیک مانگنے میں مصروف ہو جاتے ہیں جبکہ
اس قسم کے غیر قانونی کام کرنے والوں کی کوئی ذمہ داری حج کمیٹی پرعائد
نہیں ۔موصوف نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ پابندی کے باوجود اتنی بڑی تعداد
میں معذور افراد روانہ ہوجاتے ہیں اور انہیں ریاستی حج کمیٹی یا امیگریشن
پر روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ہر سال نیا پاسپورٹ
بنوالیتے ہیں اور ضابطے کی خانہ پری کرکے ریاستی حج کمیٹی کے ذمہ داروں کی
آنکھوں میں دھول جھونک کر سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں۔ڈاکٹر شاکر حسین کے
مطابق مغربی بنگال کے یہ لوگ سعودی عرب میں روپوش ہوگئے ہیں۔ ان کے خلاف
سعودی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انہیں ہندوستان واپس لانے کی
ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے کیوں کہ ہماری تمام حج پروازیں مکمل ہوگئی ہیں۔
واضح رہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کے رکن اور مغربی بنگال کی کوآرڈی نیٹر
افروز بیگم کے مطابق یہ تمام روپوش 166 حاجی معذور ہیں جبکہ ان میں سے
بیشتر حاجی مکہ مکرمہ میں بھیک مانگتے ہوئے گرفتار کرلئے گئے نیز باقی
روپوش حاجیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں اور کس حال میں
ہیں۔ افروز بیگم کی مانیں تو یہ تمام لوگ مرشدآباد اور مالدہ کے ہیں۔ انہوں
نے کہا کہ وہ خود اس سال حج پر گئی تھیں، اس دوران جب وہ مکہ میں ان کی
بلڈنگ میں گئیں تو یہ لوگ اپنے کمرے چھوڑ کر کہیں چلے گئے تھے۔انہوں نے اس
بات پر حیرت ظاہر کی کہ حج کمیٹی کی طرف سے معذور افراد کے سفر حج پر
پابندی کے باوجود کولکاتا سے پوری ایک پرواز میں معذور حاجی بھرکر بھیج دئے
گئے۔یہ ہے مسلمانوں کی کسمپرسی کی حالت۔ اِس پر مستزاد یہ کہ اِسے کم از کم
اِس کسمپرسی کے ساتھ ہی سہی، چین سے جینے نہیں دیا جاتا بلکہ اِس کے خلاف
ظلم و ستم کی بھٹیاں سلگتی رہتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس کی نوبت آتی ہی کیوں ہے ؟ جواب جاننے کیلئے جب حوالاجات
کھنگالیں تو پہ چلا کہ دراصل طاقتور قومیں کمزور اقوام کو بہت کم برداشت کر
پاتی ہیں۔اِس صورتحال سے گھبرا کر اِس قوم کے نوجوان یا تو ہتھیار اٹھا
لیتے ہیں یا کاسہ گدائی تھامے ہوئے ظالم کی خوشنودی پر اتر آتے ہیںجبکہ
ہتھیار اٹھالینا متعدد وجوہات کی بناءپر ہر ایک کے بس کی بات نہیں
ہوتی‘لہٰذا زیادہ تران کیلئے آخری چارہ کار کے طور پر جو چیز باقی رہ جاتی
ہے وہ حقوق کے حصول کی مہم ہی ہے‘خواہ وہ پرامن ہی کیوں نہ ہو یا جمہوری
سیٹ اپ میں حاصل اِجازت کے تحت ہی کیوں نہ چلائی جائے۔دلچسپ مگر عبرت انگیز
بات یہ ہے کہ جو عناصر اِس صورتحال کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں ان ہی سے
مسلمان حق و انصاف کی امید رکھتے ہیںاور ان ہی سے اپنے حقوق کے طلب گار بن
جاتے ہیں۔نہ صرف ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی جہاں کہیں مسلمان آباد
ہیںکم وبیش اِسی طریقہ کارکے خوگر نظر آتے ہیں۔حقوق انسانی کے لشکر وں نے
بھی اِنہیںآداب گدا گری کادرس خوب دے رکھا ہے کہ کیوں اور کس طرح ظالموں کو
موم کیا جائے یا اِن سے اپنے حقوق کی لڑائی کس طرح چھیڑی جائے۔ اول تو یہ
اِنہیں اقلیت و اکثریت کا فلسفہ سکھا تے ہیں،پھریہ باور کراتے ہیں کہ اقلیت
کواکثریت کے در پر سوالی بن کر بس مانگتے رہنا چاہئے،خواہ اکثریت دینے پر
راضی ہو یا نہ ہو۔اِس ذہنیت کو فروغ دینے والوں کی ذہنی سطح اس قدر پست
ہوتی چلی جاتی ہے کہ یہ بالآخر اقلیتوں کو بھیک منگوں کا گروہ بنا کررکھ
دیتے ہیں۔اِس کا نفسیاتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقلیتیں مانگتے رہنے ہی کو
ایک حق سمجھنے لگتی ہیں اوراِس کیلئے مہم جوئی میں مصروف ہو جاتی ہیں جس کی
موجودہ مثال مسلم ریزرویشن ہے۔پھرجب یہ جدوجہد کامیاب ہوجاتی ہے تو اِس کی
شکل یہ ہوتی ہے کہ اِن کے اِس حق کو ملک کے دستور میں جگہ نصیب ہوتی ہے اور
انہیں اپنے حقوق طلب کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ مانگتے رہنے ہی
کو ایک حق کے طور پر اجاگر کرتے ہوئے ان کے سر کے تاج میں دستوری بھکاری کا
طرہ ٹانک دیا جاتا ہے تاکہ وہ خوب اچھی طرح محسوس کر لیں کہ انہیں اب
مانگنے کا حق حاصل ہو گیاہے۔پھر اِس حق کے حصو ل کیلئے پارٹیاں وجود میں
آتی ہیں، لیڈر شپ وجود میں آتی ہے اور احتجاج ،نعرے،جلوس، وعدے، تجاویز ،
جلسے، دھواں دار تقریریں، شور شرابے اور ہلڑ بازی کاطوفانی بازار گرم ہوتا
ہے۔اکثریت نواز سیاسی پارٹیوں کی سیاسی دکانیں خوب چمکتی ہیں۔مسلمانوں کے
دانشور، سیاسی رہنما، مذہبی جماعتیں سب کے سب اِنہیں یہی درس دینے میں
مصروف ہو جاتے ہیں کہ انہیں حقوق کی لڑائی لڑنی ہے جو انہیں از روئے دستور
حاصل ہیں۔
|
|
یہ اس قوم کا حال ہے جس کا دستورِ زندگی ایک ایسی عظیم الشان کتاب اور ایسی
عملی زندگی پیش کرنے والی شخصیت ہے جنھوں نے اپنی ذات کیلئے کبھی کسی حق کو
طلب کرنا تو درکنار اس کا کہیں اِشارہ تک نہیں ملتا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے
کہ اِس کتاب نے اِس کے ماننے والوں کو صرف دینا سکھایا تھا، لینا یا مانگنا
نہیں۔غرض دعوت کے عمل سے محرومی نے امت کی کوئی چول سیدھی نہیں چھوڑی۔در در
سے مدد طلب کرنے والے بھول گئے کہ مدد صرف خالقِ کائنات سے طلب کی جانی
چاہئے اِیاک نستعین یعنی تیری ہی ہم مدد چاہتے ہیں۔جو امت دن میں متعدد
دفعہ محض خدا سے مدد طلب کرنے کادعویٰ کرتی ہے ،کیا اسے یہ زیب دیتاہے کہ
وہ اپنے ہاتھوں میں کاسہ گدائی لئے مختلف دروازوں پر بھیک مانگتی پھرے،
چاہے یہ بھیک حقوق ہی کی کیوں نہ ہو۔یہ بات عقل میں سماتی بھی نہیں کہ کوئی
کیسے کسی کو دینے کے قابل بن سکتا ہے جبکہ اِس کائنات کی ہر شے اسی خالق و
مالک کے در کی بھکاری ہے جس کی مدد طلب کرنے کا ہم ہرلمحہ دعویٰ کرتے رہتے
ہیں۔حوالوں کی طرف نگاہ کریں تو اس کی واضح تائید ہوتی ہے۔ اہل علم کے
نزدیک 55ویں سورة کی 29ویں آیت میں اللہ تعالیٰ کا اِرشادمنقول ہے کہ
آسمانوں اور زمین(کے چپہ چپہ میں)جو شے بھی موجود ہے(اس کی بارگاہ میں)دستِ
سوال دراز کئے کھڑی ہے ( تو دوسری جانب ان سائلوں کی دست گیری کرنے میں وہ
ایک نئی شان کے ساتھ ہر دن (مسلسل برسرِ کار ہے)۔اِسی طرح 22ویں سورة کی
73ویں آیت بھی امت کیلئے عبرت کا سامان فراہم کرتی ہے کہ اے کرہ ارض کے
باشندو‘ایک تمثیل پیش کی جاتی ہے،جسے توجہ سے سماعت کرو:اللہ کی بجائے(یہ
جو تم)جن جن کوپکارتے رہتے ہو،یہ(سب کے سب) ایک مکھی کو معرض ِ وجود میں
لانے کیلئے مجتمع ہو جائیں(تو تم دیکھو گے کہ) وہ ایک مکھی کی بھی تخلیق ہر
گزنہیں کر پائیں گے۔(تخلیق تو دور کی بات ہے) اگر کوئی مکھی اِن سے کوئی شے
جھپٹ لے جائے تب بھی وہ اس کی باز یافت نہیں کر سکیں گے۔(یہ تمثیل اِس
حقیقت پر مہرتصدیق ثبت کردیتی ہے کہ کس قدر)ضعف زدگی کا مارا ہوا ہے، طلب
گار بھی اور وہ بھی جس سے طلب کیا جارہا ہے۔
دراصل مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ وہ امیر ہو ں کہ غریب،صاحبِ مال
ہوں کہ تنگ دست انہیں بس عطا کرتے رہنا ہے،اللہ کے ضرورت مند بندوں کو دیتے
رہنا ہے۔ اللہ ایسے ہی رحم دل انسانوں کو پسند کرتا ہے۔کتاب اللہ میںلیتے
رہنے کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔ سورہ آل عمران کی آیت134 میں کتنے واضح
الفاظ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جولوگ ہر حال میںانفاق کرتے ہیں، خواہ بد
حال ہوں یا خوشحال، جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں، اورانسانوں کے قصوروں کو
معاف کردیتے ہیں۔ سلوک احسن کرنے والے ایسے ہی لوگ اللہ کو بڑے محبوب
ہیں۔اِس انسانیت نواز تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی کچھ اس انداز میں ذہن
سازی کی گئی تھی کہ لوگوں کو دیتے رہنے کے اِس عمل کا کوئی صلہ حاصل کرنے
کی آرزو ان کے وہم و گمان تک میں نہ آئے بلکہ وہ لوگوں پر عطایاکرتے ہوئے
اعلان کریں کہ یہ سب کچھ صلے سے بے نیاز ہو کر کیا جارہا ہے۔رب تعالیٰ نے
76ویں سورة کی نویں آیت میں اِس کا درس دیا ہے کہ اس طرح کی سوچ والے جب
دوسروں کو عطیہ کرتے ہیں تو ان کا یہ قول ہوتا ہے کہ) جو کچھ بھی ہم تمہاری
مدد کررہے ہیں، یہ اللہ کی توجہ اور اسکی رضا حاصل کرنے کیلئے ہے۔ ہم تم سے
اس کا کوئی بدلہ یا تبادلہ نہیں چا ہتے اور نہ ہی تمہارا شکریہ اور ممنون
کرم ہونا(ہمیں مطلوب ہے)۔
دعوت دین کو چھوڑ کر مادہ پرستی میں مبتلا ہونے کی دین ہے کہ اس نے بندگان
خدا پر خرچ کرنے کونقصان کا سودا باور کرایا اور قلاش ہو نے کے خوف کو
لوگوں کے دلوں میں کچھ یوں بٹھایا کہ لوگ بخیل بنتے چلے گئے جن میں کثیر
تعداد میں اب مسلمان بھی شامل ہیں۔ حالانکہ سورہ بقرہ کی 261ویں آیت
میںبشارت سنائی گئی کہ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان
کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے7 بالیاں نکلیں
اور ہر بالی میں 100دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی
عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔اِسی طرح65ویں سورہ کی
تیسری اور چوتھی آیتوں میں اللہ نے مسلمانوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ...اور
جو اللہ سے ڈر تا رہے گا اپنی ہرسرگرمی میں،تقویٰ کرتا ہوگا،تو اللہ
پریشانی کے معاملات میں اس کیلئے باہر نکلنے کا راستہ یعنی EXITیاWay
Outبنادیگا اور اسے ایسی جگہ سے رزق یا Provisionsفراہم کریگاجس کا اس نے
سوچا بھی نہ ہوگا اور جوکوئی اللہ پر توکل کرتا ہو ، اس پربھروسہ کرتا
ہو،تو اللہ اس کو کافی ہوجائے گا...جبکہ مسلمان اپنی بد بختی کا رونا روتے
پھرتے ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ زمین میں ہمیں قرار نصیب نہیں۔ہماری ہوا اکھڑ
گئی ہے لیکن ہمیں یہ تجزیہ کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ یہ صورتحال آخر
کیوں پیدا ہوئی اور اس کے اسباب کیا ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جو قوم بندگانِ خدا
کے لیے نفع بخش نہیں ہوتی وہ یا تو دنیا میں بے اثر ہو کر رہتی ہے یا مٹا
کر رکھ دی جاتی ہے۔13 سورة الرعد کی ستراویں آیت کا مضمون اِسی حقیقت پر
دلالت کرتا ہے کہ اللہ نے آسمان کی بلندیوں سے بارش نازل کی،سو اپنی اپنی
مقدار میں ندی نالے بہہ نکلے اور اٹھا لایا بہاؤ جھاگ یاکچرا پھولا ہوااور
معدنیات سے زیورات اور قیمتی کارآمد اشیاءبنانے کیلئے جب آگ میں تپایا جائے
تو اس میں بھی اسی طرح جھاگ ابھرتا ہے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ حق اور
باطل کو۔ تو جو جھاگ یا کچرا ہوتا ہے وہ سوکھ کرمعدوم ہوجاتا ہے اور جو
انسانوں کیلئے نفع بخش ہوتا ہے، اسے اللہ زمین میں ٹھہراؤ عطا کرتا
ہےEstablish کرتا ہے(اسے)،اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں۔ امت مسلمہ آج
زمین پر بے اساس ہے تو اِس کا سبب یہی ہے کہ ہم انسانیت کیلئے منفعت بخش
نہیں رہی جبکہ اس کی ذمہ داری رہتی دنیا تک پورے عالم کی ہے۔ یہ مانگنے
والی قوم نہیں بلکہ دینے والی ہے۔اس نے کتاب اللہ کو کیا چھوڑا کہ شیطان نے
اچک لیا اور ہر چہار جانب سے اسے یہی درس ملنے لگا کہ اپنی زندگی مانگتے
ہوئے گزارنی ہے۔ دنیاسے محض لینا ہے‘ دنیا کو دیناکچھ نہیں ہے۔
جس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کا امت کو دعویٰ ہے، وہ کیا تھے، اور
انہوں نے کیا اسوہ امت کیلئے چھوڑا؟21 سورة کی 127ویں آیت میں خودحق تعالیٰ
نے واضح کیا ہے کہ ہم نے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سارے جہانوں
کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رحمت بناکر بھیجے
جانے کا مطلب آخرکیا ہے؟یہی نا کہ دنیا جن کی کرم فرمائیوں سے زیر بار ہو
جائے۔کیا کوئی مانگنے والی قوم کسی کیلئے رحمت بن سکتی ہے؟نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم خرچ کرنے سے متعلق گفتگو کو آیات قرآنی اور احادیث کے
ذریعہ اِس قدر عام فرما دیا تھا کہ آپ سے لوگ پوچھتے رہتے تھے کہ کیا اور
کن مدوں پر خرچ کریں؟یقین نہ آئے تو سورہ البقرہ کی215ویں آیت دیکھ لیجئے
کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ،لوگ آپسے دریافت کرتے ہیں : ہم کیا خرچ
کریں؟جواب دیجیے کہ جوخیر بھی(جیسے نیکی، حسن لوک، بھلائی، مال یا وقت) تم
خرچ کرو، اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروںپر
خرچ کرواور خیر(کے ان کاموں میں سے ) جوبھی کام تم انجام دو گے، اللہ اس سے
باخبر ہوگا۔پھر وارننگ بھی دیتے کہ کسی پر احسان جتانے کی ضرورت نہیں،سورہ
البقرہ کی264ویں آیت میں یہ وارننگ موجود ہے کہ ے ایمان والو! اپنے صدقات
کو ، احسان جتا کر اورجذبات کو ٹھیس پہنچا کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ
ملادو جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے۔پھرکسی پر خرچ کرنے
کی جو اسپرٹ ‘جذبہ اور تھی وہ سورة الدہر کی8ویں ا ور9ویں آیتوں میں کچھ
اِس طرح بتائی گئی کہ اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کوطعام
فراہم کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے
ہیں، ہم تم سے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ ہدیہ شکریہ۔
دوسری سورة البقرة کی 173ویں آیت میں نیکیوں کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ
یہ ہے کہ محض، اپنے چہروں کومشرق و مغرب کی سمت پھیر لینے کا نام نیکی نہیں
ہے بلکہ اصل نیکیوں کی جو فہرست گنائی گئی ہے اِس کا بیشتر حصہ لوگوں کو
دینے ہی سے عبارت ہے جیسے حب اللہ کی بنیاد پراپنے اقرباءکی مالی
امداد،یتیموںکی مالی امداد،مسکینوںغریبوں اور محتاجوںکی مالی
امداد،مسافروں(یا راستوں میں مختلف مقاصد کیلئے دوڑ دھوپ کرنے والوں کی)
مالی ضروریات اورPublic Utilities itemsسے متعلق خدمات پر خرچ ،دستِ سوال
دراز کرنے والوں کی (بخوشی)مالی اعانت،متنوع Liabilities کے نرغے میںپھنسے
ہوئے لوگوں(یاقیدیوں) کا مالی (و قانونی) تعاون...،زکوٰة کی ادائیگی کا
اہتمام....
جبکہ اپنے زمانہ میں پیغمبروں نے کبھی اقتدارِ وقت سے کوئی حق طلب نہیں کیا۔
قرآن حکیم نے جن پیغمبروں کے تذکرے بیان کئے ،وہ تمام اِس حقیقت پر گواہ
ہیں۔ہر پیغمبر نے اپنے سرکش مخاطبین سے یہی کہا کہ میں جو کچھ پیش کر
رہاہوں‘ اِس کا تم سے میں کوئی اجر نہیں چاہتا۔میرا اجر تو اللہ کے پاس
محفوظ ہے۔آخر میں ہم وہ مشہور حدیث پیش کریں گے جس میں نہایت واضح الفاظ
میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کے طرزِ زندگی کو ایک صحیح سمت
عطا کی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے رب نے مجھ کو 9 باتوں کا حکم دیا
ہے:1چھپے اور کھلے، ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہوں۔2ناراضی اور خوشی ، ہر
کیفیت میں انصاف کی بات کروں۔3 تنگ دستی اور مالداری،ہر حالت میں میانہ روی
اختیار کروں۔4 جو مجھ سے ناطہ توڑے میں اس سے ناطہ جوڑوں۔5 جو مجھے محروم
رکھے ،میں اسے عطا کروں۔5 جو مجھ پر ظلم کرے ، میں اسے معاف کردوں۔6 میری
خاموشی غورو فکر کیلئے ہو۔7 میرا بولنا اللہ کی یاد اور ذکر کے تحت ہو۔8
میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو9 معروف اور اچھی باتوں کا حکم کرتا رہوں اور
منکرات اور بری باتوں سے منع کرتا رہوں۔ جامع الاصول میں اسے امام رزین نے
اسے روایت کیا ہے۔ |