امریکہ میں محققین نے جینیاتی طور پر تبدیل
شدہ ریشم کے کیڑے بنائے ہیں جو انتہائی مضبوط ریشم بن سکتے ہیں۔
ریشم کے ان کیڑوں کی تیاری کی تحقیقی رپورٹ نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے
جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
یونیورسٹی آف وایومنگ کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ان کا ہدف کیڑوں کی
ریشم کو مکڑے کی ریشم جتنا مضبوط بنانا ہے۔
برابر وزن کا موازنہ ہو تو مکڑوں کی بنی ہوئی ریشم سٹیل سے زیادہ مضبوط
ہوتی ہے۔
سائنسدان اور محققین کئی دہائیوں سے اس قدر مضبوط ریشم بنانے کی کوشش کر
رہے ہیں۔ مگر کیوں کہ مکڑے بہت کم تعداد میں ریشم بنتے ہیں اور ایک دوسرے
کو ہلاک بھی کر سکتے ہیں، اس وجہ سے ان کو کاروباری مقاصد کے لیے پالنا
مفید نہیں ہوتا۔
دوسری جانب ریشم کے کیڑوں کو پالنا بھی آسان ہے اور وہ کثیر مقدار میں ریشم
بھی پیدا کرتے ہیں مگر ان کیڑوں کی ریشم انتہائی کمزور ہوتی ہے۔
محققین بہت عرصے سے ان دونوں خوبیوں، مضبوطی اور کثرت، کو ملانے کی کوشش کر
رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ مکڑوں کے جین کیڑوں میں ڈال کر ریشم بنانے کی کوشش
کرتے رہے ہیں جو کہ اب تک ناکام رہیں تھیں۔
پروفیسر ڈون جاروس کی سربراہی میں یونیورسٹی آف وائومنگ نے جو کیڑے بنائے
ہیں وہ بظاہر کیڑوں کی اور مکڑوں کی ریشم کا ایک مرکب ُبن رہے ہیں جو کہ
مضبوط بھی ہے اور زیادہ تعداد میں بھی بنی جا رہی ہے۔
اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے ڈاکٹر کرسٹوفر ہولینڈ
کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق تجارتی سطح پر مضبوط ریشم بنانے کی طرف ایک اہم
قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ریشم کے کیڑے اپنی
ریشم کے ساتھ ساتھ مکڑوں کی ریشم کو بھی ملا کر بُن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس تحقیق نے جو ریشم بنائی ہے اس کی میکینیکل خصوصیات بھی
بہتر ہیں۔
اس ریشم کا اہم استعمال میڈیکل کی دنیا میں ہو سکتا ہے جیسے کہ مضبوط تر
جلد کے ٹانکے یا مصنوعی اعضاء کا بنایا جانا۔ یہ ریشم پلاسٹک کا متبادل بن
کر ماحول کے لیے بھی بہتر ہو سکتی ہے کیونکہ پلاسٹک کو بنانے میں کافی
تونائی استعمال ہوتی ہے۔
انتہائی مضبوط ریشم کی تیاری ایک بہت پرانا خواب ہے اور افسانوی کردار
’سپائیڈر مین‘ بدمعاشوں سے لڑنے اور بڑی عمارتوں سے لٹکنے کے لیے مکڑے کی
ریشم کا استعمال کرتا ہے۔
دوسری جانب ان کیڑوں کے کاروباری سطح پر استعمال سے ان کے ماحول پر نامعلوم
اثرات کا خدشہ بھی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کیڑوں کے فوائد ممکنہ نقصانات سے زیادہ ہیں۔ |