شیخ بہاء الدین شطاری اور رسالۂ شطّاریہ

یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری بدایونی مدظلہ العالی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے پیش کیا گیا ہے

حضرت سیدنا شاہ بہاء الدین انصاری قادری شطاری قدس سرہٗ ہندستان میں سلسلہ قادریہ برکاتیہ کے پہلے بزرگ ہیں- اسی لیے آپ کو امام سلسلۂ قادریہ فی الہند کے مبارک خطاب سے یاد کیا جاتا ہے- شہزادۂ غوث اعظم حضرت سیدنا شیخ احمد جیلی قدس سرہٗ سے علوم باطنیہ کی تکمیل کر کے آپ کے ہاتھ پر سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے جملہ اوراد و اشغال کی اجازت کے ساتھ حضرت احمد جیلی قدس سرہٗ نے خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس خرقۂ خلافت سے بھی نوازا- آپ کا وصال ۱۹؍صفر ۹۲۱ھ (اور بعض مؤرخین کے نزدیک ۱۱؍ذی الحجہ) میں ہوا- آپ کا مزار دولت آباد ضلع اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں زیارت گاہ خاص و عام ہے- حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی آپ کے فضل و کمال کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں …
’’صاحب حالات و جامع برکات و کرامات بود‘‘
(ترجمہ : آپ صاحب حال اور جامع برکات و کرامات تھے)
آپ صاحب ولایت ، جامع شریعت و طریقت تھے- عبادت و ریاضت میں یگانہ اور راہ سلوک میں مرشد زمانہ تھے، ساتھ ساتھ صاحب تصنیف بھی تھے- آپ کی مبارک تصنیف رسالہ فی الاوراد والاشغال المعروف بہ رسالۂ شطاریہ صوفیا اور ارباب طریقت کے درمیان مشہور و مقبول رہا ہے- یہ رسالہ آپ نے اپنے مرید خاص اور احب الخلفا حضرت سیدنا شاہ ابراہیم ایرچی کے لیے تحریر فرمایا-
حضرت شاہ تراب علی قلندر صاحب کاکوروی تحریر فرماتے ہیں …
’’رسالہ کہ شیخ بہاء الدین در طریقۂ شطاریہ تصنیف کردہ گویند کہ برائے اورا (سید ابراہیم ایرچی) کردہ (کشف المتواری، ص: ۷۹)-
یہ مبارک رسالہ آج تک نظر سے نہیں گزرا اور نہ ہی اب تک کسی کتب خانے میں اس کے قلمی نسخہ کے موجود ہونے کا علم ہوا ہے- البتہ اس رسالے سے بعض اہم اور مفید اقتباسات حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب اخبار الاخیار میں نقل کیے ہیں- اسی سے چند مفید اور اہم اقتباسات تلخیص و ترجمہ کر کے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں-
حضرت شیخ بہاء الدین رسالۂ شطاریہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ خدا وند قدوس تک رسائی کے طریقے مخلوق کے انفاس کے برابر ہیں یعنی بہت ہیں- ان سارے طریقوں میں تین طریقے زیادہ مشہور و معروف ہیں …
پہلا طریقہ - اخیار ہے اور وہ نماز، روزہ، تلاوت قرآن مجید، حج اور جہاد ہے- اس طریقے پر چلنے والے طویل سفر طے کرنے کے باوجود بہت کم ہی منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں-
دوسرا طریقہ - اس میں اخلاق ذمیمہ کی تبدیلی، تزکیۂ نفس، تصفیہ دل اور جلائے روح کے لیے مجاہدات و ریاضت کیے جاتے ہیں- اس راستے سے منزل مقصود تک پہنچنے والوں کی تعداد پہلے طریقہ کی بنسبت زیادہ ہے-
تیسرا طریقہ - شطاریہ ہے- اس طریقہ پر چلنے والے ابتدا ہی میں ان منازل سے آگے نکل جاتے ہیں جن پر دوسرے طریقوں کی بنسبت زیادہ عمدہ اور تقرب الی اللہ کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے- طریقۂ شطاریہ کے دس اصول ہیں :
(۱) توبہ :- اللہ کے علاوہ ہر شے سے خروج کا نام توبہ ہے-
(۲) زہد :- زہد نام ہے دنیا، اس کی محبت اس کے سامان اور اس کی خواہشات کو ترک کرنے کا-
(۳) توکل:- توکل اسباب دنیا سے کنارہ کشی کو کہتے ہیں-
(۴) قناعت: - خواہشات نفسانیہ کے ترک کو قناعت کہتے ہیں-
(۵) عُزلت: - خلق سے میل جول کے ترک کو کہتے ہیں-
(۶) توجہ الی الحق: - یہ ہر اس چیز کے چھوڑنے کا نام ہے جو غیر حق کی طرف داعی ہو- یہ وہ منزل ہے جہاں خداوند قدوس کے علاوہ کوئی مطلوب، محبوب اور مقصود باقی نہیں رہتا-
(۷) صبر: - یہ انسان کا مجاہدہ کے ذریعہ لذتوں کو چھوڑنا ہے-
(۸) رضا: - اللہ کی رضا میں داخل ہو کر نفس کی رضا سے نکلنے کا نام ہے- اس طرح کہ احکام ازلیہ کو تسلیم کرے اور خود کو بغیر کسی اعراض کے مصلحت خدا وندی کے حوالے کر دے-
(۹) ذکر :- یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ تمام مخلوق کے ذکر کا ترک ہے-
(۱۰) مراقبہ: - یہ اپنے وجود اور قوت سے نکلنے کا نام ہے-
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اسماے ذکر کی تین قسمیں ہیں :
اول : اسم جلال، دوم : اسم جمال، سوم : اسم مشترک-
جب اپنے اندر صفت رعونت و درشتی دیکھے تو پہلے اسم جلال میں مشغول ہوتا کہ اس کا نفس مطیع و فرماں بردار ہو جائے- اسم جلال جیسے یا قہار، یا جبار، یا متکبر-
اس کے بعد اسمِ جمال میں مشغول رہے جیسے یا مالک یا قدوس یا علیم ہے- اس کے بعد اسم مشترک میں مشغول ہو جیسے یا مومن یا مہیمن ہے اور اگر اپنے اندر صفت و انکساری و تواضع اور خاکساری دیکھے تو پہلے اسم جمال میں مشغول ہو- بعدہٗ اسم مشترک میں اور اس کے بعد اسم جلال میں مشغول رہے تاکہ دل صاف ہو اور ذکر دل میں جم جائے-
ذاکر و سالک کے مراتب کے بارے میں حضرت شیخ تحریر فرماتے ہیں … اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسما کے ذکر کا ’’مقام تلوین‘‘ ہے اور دسویں اسم کے ذکر کا مقام ’’مقام تمکین‘‘ ہے- اسماے باری تعالیٰ میں ’’اللہ‘‘ اسم ذات ہے باقی ننانوے نام اسماء صفات ہیں- جب تک ذاکر اسماے صفات کے ذکر میں مشغول رہتا ہے مقام تلوین میں رہتا ہے اور اسم ذات کے ذکر سے مقام تمکین میں آ جاتا ہے- لفظ اللہ اللہ اللہ کی تابش سے فانی وجود مٹ جاتا ہے اور مضمحل ہو جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں مرتبۂ فنا حاصل ہو جاتا ہے- وجود فانی کے محو و معدوم ہونے کا یہی مطلب ہے اور جب خود سے فانی ہو جاتا ہے تو مرتبۂ بقا حاصل ہو جاتا ہے لہٰذا مرید صادق کا دل بغیر ذکر کے ہرگز کشادہ نہیں ہو سکتا اور جب دل کشادہ منور ہوجاتا ہے تو اس پر تمام اشیا کی حقیقتیں منکشف و ظاہر ہوتی ہیں اور عالم ارواح سے ملاقات ہو جاتی ہے-
آگے چل کر حضرت نے ذکر کشف ارواح کے دو طریقے رقم فرمائے ہیں : ایک طریقہ یہ ہے کہ یا احمد کو دائیں جانب کہے اور یا محمد کو بائیں جانب کہے اور دل پر یا رسول اللّٰہﷺ کی ضرب لگائے- دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یا احمد کو اپنے دائیں جانب کہے اور یا محمد کو اپنے بائیں جانب اور دل میں یا مصطفٰی کا خیال کرے تمام ارواح کا کشف ہو جائے گا- نیز اسماے ملائکہ مقربین بھی یہی تاثیر رکھتے ہیں- ذکر اسم شیخ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ یا شیخ یا شیخ ہزار بار اس طرح کہے کہ حرفِ ندا (یعنی یا) کو دل سے کھینچ کر اپنے دائیں طرف لے جائے اور لفظ شیخ کی ضرب دل پر لگائے-
ذکر درازی عمر کے بارے میں فرماتے ہیں فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک ایک ہزار مرتبہ ھوالحی القیوم پڑھے اور بعد نماز ظہر ایک ہزار مرتبہ ھوالعلی العظیم پڑھے اور بعد عصر ھوالرحمٰن الرحیم ایک ہزار مرتبہ پھر بعد مغرب ھوالغنی الحمید ہزار بار اور بعد عشا ھواللطیف الخبیر ایک ہزار بار پڑھے(۱) - انشاء اللہ عمر میں برکت ہوگی-
مزید فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ فکر ذکر سے افضل ہے اس لیے کہ فکر شغلِ باطنی ہے اس پر خدا کے علاوہ غیر مطلع بھی نہیں ہوتا- رب قدیر ہمیں بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے فیوض و برکات سے ہماری دنیا و عقبیٰ کو تابناکی عطا فرمائے (آمین)-
ماہنامہ تصوف ملی کلکتہ
نومبر ۲۰۰۵ء
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440397 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.