اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا
جب وطن عزیز میں ایک باپ کماتا تھا اور درجن بھر بچے کھاتے تھے جبکہ آج
درجن بھر بچے مل کر بھی ایک باپ کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔اعداد و
شمار اور اعلٰی قسم کی تجارتی اصطلاحات اور غیر ملکی سرمایہ کاری
گلوبلائزیشن جیسی پالیسی کے سراب نے قوموں کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ہندوستان
میں خوردہ کاروبار کو غیر ملکی سرمایہ کے ہاتھوں میں دینے کے مرکزی حکومت
کے فیصلے کی معطلی کے تذکرے میں عوام جوہری معاہدہ کو بھی فراموش کر بیٹھے
ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے جوہری معاہدے کی پوری کاروائی پر نظر
دوڑائیں توپتہ چلے گا کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پارلیمنٹ میں یہ کہہ دیا
تھا کہ حکومت کے پاس یہی واحد ایجنڈا نہیں ہے۔ یو پی اے ایک حکومت کی حمایت
کرنے والی بائیں بازو کی جماعتوں نے اس وقت غلطی سے یہ سمجھ لیا تھا کہ
منموہن سنگھ حکومت نے ایٹمی معاہدے کے معاملے میں اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے
ہیں۔ زمینی تحریک کمزور ہو گئی تھی جبکہ یہ طے ہے کہ عالم گیریت کی ساری
پالیسیوں کو یکے بعد دیگرے نافذ کیا جانا ہے‘حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی
ہو‘ چھری عام آدمی کے ہی گلے پر چلنی ہے جبکہ 1991 کے بعدتو ایسی کسی
پالیسی کے بارے میںقطعی یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت نے اسے ہمیشہ
کیلئے واپس لے لیا ہے۔
ایسی صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ عالم گیریت کے ہر فیصلے پر حکومت کیسے
حمایت یکجا کرتی ہے اور نتیجے کے طور پر ملک کے لوگوں کو کیا سہنا پڑا ہے۔
پرچون تجارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حق میں حکومت کی دلیل تھی کہ اس
سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے‘صارفین کو فائدہ ہوگا‘ کسانوں کو بھی اس کا
فائدہ پہنچے گا۔ بے شک یہ دلیلیںانتہائی دلکش ہیں لیکن کچھ سوال ہیں جنہیں
سمجھ لیا جائے تو حکومت کے ان دلائل پر آنکھیں بند کرکے متفقہ رائے دی جا
سکتی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ حکومت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ اب تک جو اقتصادی
نظام قائم کیا گیا ہے ‘وہ بچولیوں والی معیشت رہی ہے۔ یہ نظام کس نے قائم
کیا ہے؟ حکومت کو اب بچولیوں کی پروا نہیں ہے۔ وہ بچولیوں کی جگہ ایک نئی
طاقت یا نئے ڈھانچے کو کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان
میں بچولیوں والی معیشت نے روزگار کے جو مواقع پیدا کئے ہیں وہ اب ختم ہو
جائیں گے۔ ان کی جگہ بازارکے نئے نظام میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں
گے۔ روزگار کا ختم ہونا بمقابلہ روزگار کا پیدا ہونا ایک نظام کے ختم ہونے
اور دوسری کے شروع ہونے کے عام اصول ہیں۔ حکومت صرف اس بات پر زور دے رہی
ہے کہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
دوسرا دلیل بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ بچولیوں کو ملنے والا فائدہ صارفین اور
پیداوار کرنے والے کو ملے گا۔ یعنی بچولیوں کو ملنے والا منافع تین حصوں
میں بٹ جائے گا۔ پہلا حصہ غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے والوں کا ہوگا۔ دوسرا
صارفین اور پیداواری حصے میں جائے گا لیکن یہ کب تک؟ جبکہ اس طرح کی
پالیسیوں کونافذ کرنے کیلئے حمایت چاہئے ‘تاوقتیکہ بڑی غیر ملکی سرمایہ کے
بازار میں پاؤں نہ جم جائیں‘ یہی حقیقت ہے۔
دنیا میں کہیں بھی بڑی سرمایہ نے اپنا حق جمانے کے بعد عام لوگوں کے ساتھ
رعایت نہیں برتی ہے۔ یہ اس کے مزاج کے برعکس ہے۔ اسے دوسری کئی مثالوں سے
بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلا ، یہ دیکھیں کہ جب ڈاک خدمات کی نجکاری کی جا
رہی تھی تو یہ دعوی کیا گیا کہ کورئیر کمپنیاں آئیں گی تو روزگار کے مواقع
بڑھیں گے۔ یقینا بڑھے لیکن پوسٹ آفس سے نوکریاں غائب ہوگئیں۔ دوسری حقیقت
یہ ہے کہ پوسٹ آفس میں ایک ڈاکیہ کو مہینے میں جو تنخواہ اور دیگر سہولتیں
ملتی ہیں اتنے میں کورئیر کمپنیوں میں 4سے5 آدمی کام کرتے ہیں۔
فرق کسے پڑا حکومت کو یا عام آدمی کو؟جبکہ نہرو جی اپنے لفوظات میں کہتے
ہیں کہ میں ہر منصوبے کے پیچھے دیکھتا ہوں کہ اس سے عام آدمی کو کیا فائدہ
پہنچے گا۔ فرق صرف یہ آیا کہ حکومت کی جانب سے ایک خاندان کو جو رقم دی
جاتی تھی وہ نجی کمپنیوں کی طرف سے چار پانچ خاندانوں کے درمیان بٹنے لگی۔
حکومت یہ کام نہیں کر سکتی تھی۔کیا یہ آئینی طور پر غلط نہیں ہے؟
نجکاری سے عام خاندان کی زندگی سطح میں کس حد تک بہتری دکھائی دیتی ہے؟
نجکاری عام معیار زندگی میں بہتری کیلئے ہے یا پہلے کی زندگی کی سطح کو
مزید گرانے کیلئے؟ کورئیر کمپنیوں کے مزدوروں کی بہتری سے معاشرہ زیادہ سے
زیادہ اس بات پر مطمئن کہا جا سکتا ہے کہ وہ کم از کم مزدوری کی ادائیگی کر
رہی ہیںجبکہ حکومت پر کم از کم تنخواہ دینے کی ہی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ
اسے بالترتےب بڑھانا بھی تھا۔ نجی ہاتھوں میں آ کر یہ شعبہ محض کم از کم
مزدوری تک سمٹ کر رہ گیا۔ دوسرے یہ کہ حکومت نے اس کم از کم مزدوری کے بدلے
نجی کمپنیوں کو آٹھ گھنٹے کی بجائے زیادہ سے زیادہ کام لینے کی بھی چھوٹ دے
دی۔ اس طرح روزگار کے مواقع بڑھنے کے صحیح معنی کیا ہوئے ؟ سہولت یا مصیبت
؟
اس حقیقت کوایک دوسری مثال کے ذریعے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ منریگا کے تحت
100 دن تک کام کی ضمانت کا قانون بنا کر حکومت نے اپنے آپ کو’عوام
دوست‘کہلانے کا انتظام کر لیا لیکن اگر کوئی2 سوال پوچھے تو کیا جواب ملیں
گے؟ ایک ، کام کی ضمانت کے اس قانون میں مساوی یا کم از کم مزدوری کی
پالیسی کو کیوں غائب کر دیا گیا۔ دوسرے ، جہاں ملک کی سیاسی نظام کے سامنے
یہ سوال تھا کہ بے روزگاری ختم کریں ، ہر ہاتھ کیلئے کام دیا جائے تو کیااس
سے وہ مقصد پورا ہو گیا؟روزگار کا مطالبہ سال میں محض 100 دن کیلئے نہیں
تھا لیکن منریگا کے تحت صرف 100 دن کی مزدوری کا بندوبست کیا گیا۔ کیا100
دن کی مزدوری کے بوتے پر365 دن جینے کے انتظام پر مبنی روزگار پروگرام
کوتعمیری قرار دیا جاسکتا ہے ؟بصورت دیگر کیا اسے تخریبی نہ کہیں؟حکومت صرف
نئے قانون بنانے اور پرانے قانون نافذ کرنے کے کھیل سے یہ ثابت کرنے کی
کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنی سماجی ذمہ داری پوری کرنے میں مصروف ہے جبکہ
نجکاری کے اس دور میںبھی تین چوتھائی آبادی محض 20 روپے یومیہ سے کم پر گزر
بسر کرنے پر مجبور ہے۔
ٹکڑوں یا جزیا ت میںبانٹ کر ہم پالیسیوں اور ان کے اثرات کا جائزہ کیوں
لیں؟ کل ملا کر تو عالم گیریت کی پالیسیوں کی دین یہ ہے کہ دو لاکھ سے
زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ کثیر الملکی نظام کی حمایت کی یہی دلیل دی
گئی تھی کہ اس سے پیداوار کرنے والے کو فائدہ ہوگا۔ مارکیٹ کی بنیاد پر
نظام میں مقابلہ بڑھے گا تو صارفین کو فائدہ ہوگا۔ کچھ دنوں پہلے ایک ایس
ایم ایس آیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مہنگائی بڑھتی نہیں ہے ، گھومتی رہتی
ہے۔ جب موبائل فون آیا تھا تو ایک کال کی قیمت اٹھارہ سے بیس روپے تھی۔ آج
موبائل فون ایک پیسہ فی سیکنڈ ہے جبکہ آج دودھ کی قیمت اس وقت کی موبائل
فون کال سے بہت زیادہ ہو گئی ہے‘ تو پڑی نا غریب کے پیٹ پر لات؟
عالم گیریت کی پالیسیوں کے مرکز میں عام عوامی زندگی کو بہتر بنانا نہیں ہے
بلکہ متعدد افرادکی زندگی کو بدتر حالت میں لے جا کر بعض کی زندگی کی حالت
کو بہتر دکھانامقصود ہے۔ درمیانی طبقہ اگر خوشحال ہوا ہے تو دوسری طرف
غریبوں کا جینا مزید محال ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کی
تعداد بھی بڑھی ہے۔ 1973تا74 میں جب متعینہ معیا زندگی فی کس قومی آمدنی کے
تقریبا 62 فیصد تھا تو اس کا پیمانہ کیا تھا اور اب اس کاموجودہ پیمانہ کیا
ہے؟
نمونہ کے طور پر 2004تا2005 میں زندگی گذرنے کیلئے فی کس قومی آمدنی کے
سترہ فیصد کے آس پاس تھی۔ ان 32 برسوں کی مدت میںفی کس قومی آمدنی
2004تا2005 کی قیمتوں کی بنیاد پر 26.4 گنا زیادہ ہو گئی۔ اس نظریہ سے ترقی
کے دعوے کی سیاست پر ایک نظر بغورڈالنی چاہئے۔دوسری بات یہ کہ ہم نے اپنا
ترقی کاکوئی پیمانہ طے نہیں کیا ہے۔ ہم دنیا کے بڑے سرمایہ دارانہ نظام کی
تعریفوں کے مطابق اپنی ترقی کا پیمانہ طے کرتے ہیں۔ کہا گیا کہ توانائی کی
کھپت ترقی کا پیمانہ ہوگی ؟ کیا جوہری معاہدے کیلئے اپنے جمہوری اصولوں کو
بھی طاق پرنہیں رکھ دیاگیا؟ ترقی کے پیمانے اپنے ہوں تو ہم یآسانی سمجھ
سکتے ہیں کہ محض پیسہ آنے سے معاشرے کی ترقی نہیں تسلیم کی جا سکتی۔ پیسہ آ
رہا ہے لیکن خیالات میں پسماندگی اورعدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ یکساں اقتصادی
ترقی کی پالیسی نہ ہونے سے سماجی سطح پر طرح طرح کی بے ضابطگیاں وجود
میںآتی ہیں۔ اشتراکیت پسندوں کی سوچ یہ رہی ہے کہ سرمایہ دادانہ نظام کا
فروغ ہوگا تو سماجی مساوات ختم ہو جائے گی لیکن یہ نہیں ہوا۔اشتراکیت نے
سرمایہ دارانہ نظام کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے موقع دیئے لیکن سرمایہ
دارانہ نظام کی توسیع دراصل معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہ نظام سماجی
سطح پر دوریاں بڑھا رہا ہے۔ پرچون تجارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری ،سرمایہ
دارانہ نظام کی توسیع ہے ، نہ کہ صارفین اور کسانوں کو فائدہ پہنچانے کی
کوئی پالیسی۔
بچولئے پر مبنی نظام پیداوار کرنے والوںاور صارفین کیلئے استحصال کرنے
والانظام ہے تو حکومت کی ذمہ داری یہ بنتی تھی کہ وہ اس کے خلاف سیاسی
ماحول بناتی۔سرمایہ دادرانہ نظام کے راستے پر جانے کی بجائے تعاون پر زور
دیتی۔ تعاون تحریک اسی طرح کے استحصال پر مبنی نظام سے پروڈیوسر اور صارفین
کو فائدہ کی پوزیشن میں لانے کیلئے شروع ہوا تھا۔ سیاسی انتظامات ہمیشہ
اپنی پالیسیوں کو عام لوگوں کیلئے فائدے مند بتاتی ہیں لیکن اصل بات نتیجہ
آنے پر دکھائی دیتی ہے۔آج جب دنیا کا سرمایہ دادرانہ نظام اپنے شدید ترین
بحران سے دو چار رہی ہے ، ایسے وقت میں وہ ہندوستان جیسے ممالک میں صارفین
اورآجروں کی فلاح و بہبود کے ارادے سے تو نہیں آ سکتا۔ ان کا ارادہ
ہندوستان جیسے ممالک کے ذریعہ اپنے بحران کو دور کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ اس
میں ہندوستان کے کچھ لوگوں کو اپنی خوشحالی بڑھانے کا موقع بھی مل جائے
لیکن اسے ملک کے عام لوگوں کی خوشحالی تو نہیں کہی جا سکتی۔
سیاسی مبصرین کے نزدیک حکومت نے پارلیمنٹ کو اپنی پالیسیوں پر مہر لگانے کا
ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے عالم گیریت کی پالیسیوں کی حمایت کرکے
تحریکوں کے دلائل کوکھوکھلا کر دیا ہے۔ اسی لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کے
فیصلے کو سیاسی پارٹیوں کے ذمہ چھوڑ کر اس کی معطلی کو مستقل سمجھنا بہت
بڑی بھول ثابت ہو سکتی ہے۔ بچولیوں کو ختم کرنے کا مطلب دوسرے نئے بچولیوں
کیلئے راستہ کھولنا نہیں ہو سکتا۔ وہ بچولئے جو آج اشتہارات میں آم کھلاتے
دکھائی دیں گے ، کل گٹھلی بھی چھین لیں گے اور کوئی خبر لینے والا بھی نہیں
ہوگا۔اگر ایک گمراہ کن نظام ،سوشلزم یااشتراکیت پر مبنی ہو یا سرمایہ دارنہ
نظام پر ٹکا ہو‘ وہ نظام باطل ہی رہتا ہے ۔یہ فلسفہ عقل سے بالاتر ہے کہ حق
کے بغیرکوئی بھی نظام کامیابی سے کیسے ہوجائے گا؟کیا ہمارے مسلم دانشور اور
مفکرین اس نکتہ پر سنجیدگی سے غور کرنا پسند کریں گے؟ |