اس بات سے کوئی انکار نہیں کر
سکتا کہ اردو ادب کا شمار دنیا کی کسی بھی دیگر زبان کے ادب کے مقابلہ میں
کہیں سے کہیں تک دوئم نہیں۔حالانکہ ہم زبانوں کے ادب کا موازنہ نہیں کر
سکتے کیونکہ ہر زبان کا ایک اپنا الگ ہی مقام ہوتا ہے مگرہاں یہ کہنا غلط
نہ ہوگا کہ اردو ادب بہت سی زبانوں کے ادب سے دو قدم آگے ہے ۔ مگرموجودہ
دور میںجہاں تک اردو میں بچوں کے ادب کا تعلق ہے ، حالت تشویشناک ہے۔
اپنی سوچنے پر مجبور کر دینے والی تخلیق ”اردو میں بچوں کا ادب اور اس کے
مسائل“(ہفتہ وار” اُجالہ“، کلکتہ ، 23فروری ، 2003) میں عالمی شہرت یافتہ
شاعر ومعتبر ناقدجناب ڈاکٹرمحبوب راہی ، یہ سبھی جانتے مانتے اور اس کا
اظہار و اعتراف بھی کرتے ہیں کہ بچے قوم کی امانت اور اس کے روش مستقبل کی
زمانت ہوتے ہیں۔ وہ معاشرہ کی ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں، ملک و قوم کے
سنوارنے یا بگاڑنے کا انحصار انہیں پر ہوتا ہے مگر باوجود ان تمام باتوں
کے، اردو شعر و ادب کے تخلیق کاروں نے ادبِ اطفال کی تخلیق پر اتنی توجہ
نہیں دی کہ جتنا اس کا حق ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے کردار کی تشکیل و
تعمیر کے لئے ان کی ذہنی تربیت کلیدی اہمیت رکھتی ہے اور بچپن میں اس کا
انحصار بچوں کے ادب یعنی رسالوں ، کہانی کی کتابوں و بچوں کے ناولوں وغیرہ
پر ہی ہوتا ہے ۔
اگر ہم ایک سروے کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ زیادہ تر نامور ادیبوں نے اپنا
ادبی سفر بچوں کے لئے رسائل و اخبارات میں اپنی کاوشیں چھپوا کر شروع کیا ۔
ان میں سے بھی زیادہ تر ادیب ایسے ہیں کہ جنہوں نے بچپن میں ہی چوتھی،
پانچویں جماعت سے اپنی چھوٹی موٹی کوششوں سے لکھنا شروع کیا ۔ ان میں سے
بہت سے تخلیق کار ایسے بھی رہے جنہوں نے صحافت کو اپنا ذریعہ معاش یا شغل
بنا لیا اور جن میں راقم بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر محبوب راہی کہتے ہیں کہ بچوں کے ادب کے ساتھ نہ صرف اردو بلکہ دیگر
زبانوں میں بھی انصاف نہیں ہوا ہے ۔ جو لوگ بچوں کے لئے کہانیاں لکھتے ہیں
ان کا محنتانہ کافی حد تک مضحکہ خیز ہوتا ہے کیونکہ بڑوں کے لئے لکھنے والے
ادیبوں یا صحافیوں کو اہمیت زیادہ دی جاتی ہے ۔ان کا وقار بھی بلند سمجھا
جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بچوں کے ادب کو کمتر درجہ کا ادب سمجھ کر تخلیق کار
اپنے تخلیقی سفر کا رخ بظاہر کچھ ایسی سمتوں کی جانب موڑ لیتا ہے کہ جہاں
قدر افزائی، شہر ت و ناموری اور عزت کے ساتھ اسے دولت کمانے کا موقع بھی
ملتا ہے۔حالانکہ دوسری زبانوں میں ایسا نہیں۔ اگر ہم فرانسیسی ، انگریزی،
چینی ، جرمن و ہسپانوی زبانوں معائنہ کریں تو پائیں گے کہ ان میں نہ تو
بچوں کے ادب کی کمی ہے اور نہ ہی ان کے تخلیق کاروں کے لئے دولت کی کوئی
کمی مگر اردو میں تفلی ادب کا فقدان ہے ۔ اب سے تقربیاً 40-45سال قبل صورت
حال اتنی بد تر نہیں تھی مگر اب تو سوائے چند رسائل کے، اردو ادب میں کچھ
نہیں رہ گیا ہے۔
بقول مایہ ناز اردو ادیب و محقق ڈاکٹر قمر رئیس پہلی بات تو یہ کہ اردو میں
بچوں کا ادب بہت کم لکھا گیا ہے اور جو لکھا گیا ہے اس میں سے تقریباً آدھے
سے زیادہ ایسا ہے کہ جس میں بچوں کے مزاج، ذہنی میلانات ، فطری تقاضوں ،
طبعی رجحانات اور ان کی خواہشات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ
بھی ہو سکتی ہے کہ ہم لوگ طفلی ادب کا شمار ادبِ عالیہ میں نہیں کرتے۔
ہمارے بچپن کے محبوب و معروف بچوں کے ادیب جو کہ اردودنیا کے بچوں کے عظیم
ترین ناول نگار ومثالی فوٹوگرافر بھی تھے اور”خوفناک جزیرہ“، ”کالی دنیا“،
”نیلی دنیا“وغیرہ کے علاوہ بے شمار کہانیوں کے تخلیق کار بھی تھے، اس ضمن
میں فرماتے ہیں:” یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بچوں
کے ادب و اس کے ادیبوں کو و اہمیت نہیں حاصل جو ہونی چاہیے تھی۔ لوگوں کا
عام خیال اس بارے میں یہ ہے کہ محض تفریح کے لئے یا تضیع اوقات کے لئے کچھ
دیوانے اس جانب بےکار ہی چل پڑے ہیں۔“ سراج انور صاحب مزید فرماتے ہیں کہ
بچوں کے لئے لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔راقم ان کی اس بات سے سو فیصد
متفق ہے ۔یہ کیسی دل سوز بات ہے کہ آج اگر ہم سراج انور کے بچوں کے ناول
خریدنے بازار میں نکلیں تو وہ کہیں پر بھی نہیں ملیں گے۔افسوس صد افسو س کہ
کسی بھی اردو ادرہ نے ان کو دوبارہ شائع کرنے کی بات نہیں سوچی۔ بقول ڈاکٹر
محبوب راہیبچوں کے ادب کی بنیاد بھی ایسے عناصر پر ہونی چاہئے جن میں ان کی
فطری جبلتیں کار فرما ہوں اور بچوں کے ذوق و وجدان سے ہم آہنگ ہونا ادب کی
اولین شرط ہے ۔ ہینری گومیز کا ایک مشہور قول ہے : ”نہ والدین ، نہ معلم،
نہ مصنف، بلکہ خود بچے یہ تعین کرتے ہیں کہ ان کا ادب کیا ہے ۔اصل میں تو
بچوں کا ادیب وہی ہے کہ جو ان کے دل و دماغ کو اپنی جانب کھینچ لے۔
بقول ڈاکٹر سیفی پریمی، کسی قوم کی بقا کی زمانت اور مستقبل کی امید اسی
قوم کے نونہال تصور کئے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں
کے ادب کی بنیادی حیثیت ہے۔اسی طرح سے حضرت عبدالقوی دسنوی بچوں کے ادب کی
تخلیق کے سلسلہ میں کن کن امور کو پیش نظر رکھنا چاہئے ، سلسلہ سے کہتے ہیں
کہ بچوں کے لئے لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور خاص طور سے بچوں کے شاعر
کو اس سلسلہ میں تجربات کی بہت سی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسے بچوں کا
مزاج داں اور زبان داں ہو نا چاہیے۔ ان کی پسند ، نا پسند ، رغبت و نفرت کے
جذبوں سے اسے آگاہ ہو نا چاہیے۔ بقول بچوں کے شاعر جناب عادل اسیر دہلوی،
بچوں کا شاعر وہی کامیاب ہوتا ہے جو خود بچہ بن جائے اور اُن میں گُھل مِل
جائے۔ بچے اس سے اجنبیت محسوس نہ کریں اور وہ بچوں کی روِش کے ساتھ چل پڑے
۔
اردو ادب کے بہت سے جواہر پارے ایسے رہے ہیں کہ جنہوں نے اپنے آپ کو بچوں
کے ادب کی تخلیق کے لئے وقف کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ بڑوں کے ادب و دیگر
اصناف میں بھی انہوں نے کچھ نہ کچھ لکھا جیسے مولانا محمد حسین آزاد
،امتیاز علی تاج ، نظیر اکبر آبادی، اسماعیل میرٹھی، حفیظ جالندھری، کرشن
چندر، عشرت رحمانی، شوکت تھانوی، حسرت جے پوری ، ڈاکٹر ذاکر حسین، افسر
میرٹھی، احمد ندیم قاسمی، ڈپٹی نظیر احمد، شبلی نعمانی ، حجاب امتیاز علی،
اقبال ، حالی، چکبست، مولوی ذکاءاللہ ، اکبر الہ آبادی، تلوک چند محروم،
میرزا ادیب، درگا سہائے، آلِ احمد سرور، شفیع الدّین نّیر، حاجرہ نازلی،
رعبد الغفّارمدہولی، صالحہ عابد حسین، خدیجہ مستور ،نریش کمار شاد،یکتا
امروہوی ، م۔م۔، راجندر، کوثرچاندپوری، انورالحسین ہاشمی، محوی صدیقی، عصمت
چغتائی، رضیہ سجاد ظہیر، کنہیا لعل کپور، قتیل شفائی ، عادل رشید، حسرت جے
پوری، اظہر افسر ،سلام مچھلی شہری ، پرکاش پنڈت، قیصر تمکین،راجہ مہدی علی
خان،نریش کمار شاد، کیف احمد صدیقی، ناوک حمزہ پوری، غلام احمد فرقت ،
واجدہ تبسم، جیلانی بانو، سعید امرت ، محشربدایونی ،علقمہ شبلی، نیاز حیدر
، پرشوتم سنگھ ، ماچس لکھنوی ، قیصر سرمست، خلیق انجم اشرفی، اشتیاق
بچھرائیونی، ابرار محسن، ذوالنورین صدیقی مسحور، مشتاق اعظمی،شکیل انوار
صدیقی،اکبر رحمانی جلگانوی، مشتاق احمد نوری،م۔ ندیم ، پرکاش پنڈت،
مضطرہاشمی ، ظفر پیامی، سعید لدھیانوی، سیفی سیوہاروی، خدیجہ سیفی، رام پال
،عدیل عباسی جامعی چڑیا کوٹی، م۔ع۔غم، شکیل جاوید، ساحل صدیقی، مسعود
انصاری، کاوش پرتا پ گڑھی، نازش انصاری ، فریدہ خان، ناصر صدیقی، قدیر
جاوید پریمی، شمیم اختر ، م۔ ک۔ محتاب، خضر دانش ادیب، فرحت قمر، احمد جمال
پاشاہ، جرم محمد آبادی، مناظر عاشق ہرگانوی،انوار اشفاق، سُرجیت، ہر چرن
چاولہ ، لطیف فاروقی، ڈاکٹر شکیل الرحمن، نواز دیوبندی، محمد قاسم صدیقی،
سیف الرحمن عباد ، اوشا سیٹھ، نسرین انجم ، احمدوسیع ،ڈاکٹر کیول دھیر،
فیضان اعظمی، مختار بارہ بنکوی، الیاس احمد گدی، محبوب نکہت ، قائد حسین
رضوی کوثر ، سعید سہروردی ،شوکت پردیسی، غلام حیدر، غلام ربانی تاباں، ولی
شاہجہاں پوری، متین طارق، انیس مرزا ، دیوان تاراچند، نیاز حیدر ، کے۔پی۔
سکسینہ، اعزاز افضل، شمیم کرہانی، ئیس امروہوی، بلونت سنگھ ، نجم مظفر
نگری، متین طارق باغپتی، راجیومرزا وغیرہ۔
یہاں اگر ہم ”کھلونا بک ڈپو“، ”مکتبہ الحسنات“ ،” مکتبہ جامعہ لمٹیڈ“وغیرہ
کا ذکر نہ کریں تو بڑی نا انصافی ہوگی۔ بچوں کے ادب کے تعلق سے یہ تمام
ادارے خود میں ایک تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔حالانکہ یہ وقت کی ستم ظریفی
اور اردو کی بدبختی ہے کہ ”کھلونا بک ڈپو“ کا اب وجود نہیں رہا ۔یہ وہی
ادارہ تھا کہ جس کی چھوٹی چھٹی اردو کی کتابیں پڑھ کر ہم نے اپنی اردو
سیکھی۔ آج بھی راقم تصدیق کے ساتھ یہ بات کہ سکتا ہے کہ” کھلونا بک ڈپو “،
نئی دہلی کے ذریعہ طبع کی گئی بچوں کی کتابوں جیسا طفلی ادب کا خزانہ آج تک
ہماری نظر سے نہیں گذرا جس کے جواہرات میں یہ کتابیں شامل ہیں: ”جادو کا
دروازہ“، ”بھوتوں کا خزانہ“، ”نیلی کھوپڑی“ ، ”چاند کی چوری“، ” چینی بلبل“
، ”چوہوں کی حکومت“، ”تین ہیرے“، ” بندروں کا تھیٹر“، ” چڑیا گھر“ ، ” شیر
کی بیٹی، ” مانو کے کارنامے“، ”ہلال کی کہانیاں“، ’ ’شاہی نجومی“ ، ”تیسری
آنکھ“ ، ”انوکھا مقدمہ“ ، ”بونوں کی دنیا“ ، ”نرالا جانور“، ”لنگڑی کتاب“،
”اڑتا پہاڑ“ ، ”ہیروں کاسوداگر“، ” شیخ چِلّی کا مشاعرہ“، ” آٹے کا پتلا“،
” موٹر نمبر 786“، ”صحابہ کی جانبازیاں“، ”اقوال زریں“، ”مزدور کا بیٹا“ ،
”چاند کی دلہن“، وغیرہ۔ یہ تمام کہانیوں کی کتابیں ہمارے محلہ احاطہ کالے
صاحب ،نیا محلہ اورپھاٹک پنجابیان میں ایک آنہ سے دو آنہ فی روز مل جایا
کرتی تھیں اور بچوں میں ان کی بڑی چاہت رہتی تھی کیونکہ وہ لائبریرین سے
روز ان کی ڈیمانڈ کیا کرتے تھے۔ کچھ کتابیں تو ان میں ایڈوانس میں بک ہو
جاتی تھیں۔ اب نہ یہ کتابیں رہیں اور ”کھلونا“، ”ٹافی“، ”شریر“، ”جنت کا
پھول“، ”چنگاری“ وغیرہ جیسے بچوں کے رسالے رہے اور نہ ہی اس زمانہ کی اردو
۔ یہ تمام چیزیں داستانِ پارینہ بن چکی ہیں۔ کاش کہ کوئی اردو کا جادوگر
آئے اور ان کتابوں و رسائل کو واپس لے آئے! کوئی لوٹا دے میرے اردو کی ان
کتابوں کے بیچ گذرے بچن کے دن! |