ہردلعزیز بننے کا انوکھا راز

کیا آپ کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو دوسروں کی خامیوں پر نظر رکھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اپنے بارے میں یہ خوش فہمی دل سے نکال دیں کہ لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں؟ یا لوگ آپ کی قدر کرتے ہوں گے۔ اگر آپ کا رویہ ہر وقت ناقدانہ رہتا ہے تو آپ دوسروں سے یہ توقع رکھنی چھوڑ دیں کہ وہ آپ کے اچھے کاموں کو سراہتے ہوں گے اور آپ کا دل سے احترام کرتے ہوں گے۔ اسی طرح اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ دوسروں کو ان کی خامیاں بتائیں گے اور وہ اس کی اصلاح کرلیں گے تو شاید آپ غلطی پر ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کے روشن پہلو‘ ان کی ذاتی خوبیوں اور اچھائیوں کو تلاش کرنے کی عادت ڈالیں۔ پھر آپ دیکھئے کہ وہ لوگ خودبخود اپنی کمزوریوں اور عیوب کا اعتراف کرلیں گے۔

اگرچہ یہ مثال ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ ہمارے کئی ساتھیوں نے نہ سنی ہو اس لیے اسے بیان کرنا ہی بہتر ہوگا۔ ایک تجارتی مشیر کا کہنا تھا کہ شروع میں جب اس نے یہ پیشہ اختیارکیا تو اسے اس میں بہت کامیابی ہوئی۔ وہ کسی بھی جگہ پہنچ کر ذرا سی دیر میں لوگوں کی خامیوں کو تلاش کرلیتا اور ان کو بتادیتا کہ ان کے کام میں کیا کیا خامیاں اور کیا کیا عیب ہیں لیکن اس کا کہنا ہے کہ اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ لوگ اس بات کو ناپسند کرتے تھے اور ناگواری کا اظہار کرتے تھے حالانکہ اس کا ارادہ کوئی ان کی دل آزاری کرنا ہرگز نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اس خامی کو دور کرنے سے وہ کمپنی یا وہ شخص زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اپنے معاشرتی حلقے میں بھی لوگ اس کی صحبت کو ناپسند کرنے لگے اور بعض تو مشتعل بھی ہوجاتے تھے تب اس نے اپنے ایک اوردوست سے مشورہ کیا جو ہر دلعزیز سمجھا جاتا تھا۔ اس نے اسے بتایا کہ جب کبھی میں کسی تجارتی حلقہ میں جاتا ہوں تو سب سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ سیلز مینوں کے کام میں کون کون سی خوبیاں ہیں اور پھر میں انہیں ان خوبیوں پر مبارکباد دیتا ہوں اور ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ تعاون کرکے مزید ایسی خوبیاں اور کامیابی کی راہیں تلاش کرسکتے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ یہ سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ یہ طریقہ زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے اگر آپ کسی شخص کو یہ اطمینان دلائیں کہ اس کی ذات میں بہت سی خوبیاں ہیں آپ ایک دو کی نشاندہی بھی کریں اور پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ خود اس بات کا اعتراف کرے گا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اسمیں ابھی فلاں خامیاں بھی ہیں۔ نہ صرف اپنی ذات میں بلکہ اپنے شعبے سے متعلق بھی وہ چند کمزوریوں کی خود نشاندہی کردے گا لیکن کیا کیا جائے اس حضرت انسان کا کہ وہ عام طور پر تنقیدی رویہ اختیار کرتاہے۔ کم لوگ ہیں جو تنقید برائے تعمیر کا راستہ منتخب کرتے ہیں ایک ماہر نفسیات اپنی کتاب میں اسی پہلوپر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ ایک شخص اس کے پاس آیا اور اپنی بیوی کی شکایت کرنے لگا۔ شکایت کیا بلکہ شکایتوں کے ڈھیرکہیں۔ چند منٹ میں اس نے یہ ثابت کردیا کہ اس کی بیوی دنیا کی نالائق ترین عورت ہے اور اب وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ اسے طلاق دے دیگا۔ اس کے خیال میں اب اس کے علاوہ کوئی اور صورت باقی نہیں بچی تھی۔

ماہر نفسیات نے اس کی باتیں غور سے سنیں اور پھر کہا کہ دیکھو تمہاری بیوی میں اتنی ساری برائیاں ہیں لیکن کچھ اچھائیاں بھی تو ہوں گی کیونکہ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس میں برائیاں ہی برائیاں ہوں۔ ماہر نفسیات نے اسے کاغذ اور قلم دیا اور کہا کہ اس پر اپنی بیوی کی چند اچھائیاں بھی لکھو اور پندرہ منٹ تک ماہر نفسیات کمرے سے باہر چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس شخص نے چار خوبیاں لکھی تھیں جو اس کی بیوی میں موجود تھیں۔

اب ماہر نفسیات نے اسے بتایا کہ اس پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ تم دونوں میاں بیوی بھی اسی غلطی کا شکار ہو جس میں عام ازدواجی جوڑے نظر آتے ہیں۔ تم دونوں ایک دوسرے کو غیرضروری طور پر نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہو۔ ایک دوسرے پر تنقید کرنے کے عادی ہو اور صرف ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھتے ہو۔ تم ایک دوسرے پر تنقید کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے لیکن تم چاہو تو اپنی یہ بری عادت تبدیل کرسکتے ہو ۔ صرف ان چار خوبیوں کو لے لو جو اس وقت تم کو اپنی بیوی میں نظر آرہی ہیں اور ان کے علاوہ بھی اپنی بیوی میں خوبیاں تلاش کرو جو ہو سکتا ہے کہ دل میں تم انہیں تسلیم کرتے ہو لیکن زبان پر نہیں لانا چاہتے۔ شاید اس سے تمہاری انا کو تسکین ملتی ہے۔ ماہر نفسیات نے اس سے کہا کہ دیکھو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے ایک دوسرے کو بلند کرو اور اسے سمجھائو کہ وہ بھی یہی رویہ اختیار کرے۔ صرف چند ہفتے اس پر عمل کرکے دیکھو اور پھر مجھے نتیجے سے آگاہ کرو۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ پھر اس شخص کے دل میں کبھی بیوی کو طلاق دینے کا خیال پیدا نہیں ہوا۔ اگر آپ کسی کے عمل کو پسند کرتے ہیں تو اس سے کہیں کہ آپ کا یہ کام مجھے بہت پسند ہے۔ اگر آپ کسی کے عمل کو پسند کرتے ہیں تو اس سے کہیں کہ آپ کا یہ کام مجھے بہت پسند ہے۔ اگر آپ کسی کے عاجزانہ رویے سے متاثرہیں تو اس سے کہیں کہ اس کا یہ رویہ انتہائی متاثر کن ہے اور آپ اس کی قدر کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو اچھائیوں پر نہ صرف دوسروں کو قائم رہنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے بلکہ انہیں مزید اچھے رویوں اور اچھی عادات اختیار کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ ان کے دفتر میں فیکٹری میں یا جہاں بھی وہ کام کرتے ہیں ان کے افسران اور ان کے ساتھیوں میں کیا برائیاں ہیں کم لوگ ایسے ہیں جو اچھائیوں کو تلاش کرتے ہیں۔

اس بات سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہر شخص اور ہر جگہ میں صرف اچھائیاں اور خوبیاں ہی ہوتی ہیں اور برائیاں یاعیوب یکسر نہیں ہوتے اور نہ ہمارا یہ مقصد ہے کہ لوگوں اور ماحول میں موجود خامیوں کو یکسرنظرانداز کردیا جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش ہی نہ کی جائے۔

کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انسان خواہ کیسے بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں سب یکساں ہیں۔ اگر آپ ان سے لڑتے ہیں ان کی مخالفت کرتے ہیں اگر آپ ہمیشہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ لوگوں میں کون کون سی خامیاں اور کیا کیا کمزوریاں ہیں تو آپ ہمیشہ دشواریوں کا شکار رہیں گے اور لوگ آپ کو ناپسند کریں گے۔ لیکن اگر آپ خود میں یہ عادت ڈالیں گے کہ لوگوں‘ جگہوں اور خیالات میں خوبیاں اور اچھائیاں کیا کیا ہیں؟ تو آپ لوگوں کو اپنا دوست بنائیں گے لوگ آپ کو پسند کرینگے اور یہ بھی کہ وہ خود اپنی کمزوریوں کا نہ صرف اعتراف کرینگے بلکہ انہیں دور کرنے کی کوشش بھی کرینگے۔
Jaleel Ahmed
About the Author: Jaleel Ahmed Read More Articles by Jaleel Ahmed: 383 Articles with 1217684 views Mien aik baat clear karna chahta hoon k mery zeyata tar article Ubqari.org se hoty hain mera Ubqari se koi barayrast koi taluk nahi. Ubqari se baray r.. View More