سوات میں طالبان کے خلاف پاک فوج
نے آپریشن کیا اور کچھ طالبان کی لاشیں ملیں تو انسانی حقوق کی قومی
تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے سب بول اٹھے اور پاک فوج پر انسانی حقوق کی
خلاف ورزی کا الزام دھر دیا اور یہ تحقیق بھی نہ کی گئی کہ کیا واقعی یہ سب
پاک فوج کا کیا دھرا تھا بھی یا نہیں ۔ ملک میں اقلیتی برادری کے ذاتی
اختلافات کے نتیجے میں ہونے والے کسی حادثے پر بھی انسانی حقوق کا مسئلہ
اٹھا دیا جاتا ہے آئین کی شقوں کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دے کر اسے
تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا جاتا ہے ۔ بین الاقوامی تو ایک طرف ہمارے
اپنے انسانی حقوق کے داعی بھی چیخ چیخ کر ان معاملات کو اچھا لتے ہیں اپنی
خامیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے تا کہ ان کے درست ہونے کا کم از کم امکان ہی
موجود رہے لیکن ملک کی ساکھ کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے جس کا دھیان کسی
کو نہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا اور اداروں کی ایسی
رپورٹس کو مزید اچھال دیا جاتا ہے اور اگر انہوں نے کوئی کسر چھوڑی بھی ہو
تو اسے ہمارے اپنے پورا کر دیتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ سارے انسان
دوست اس وقت خاموش رہتے ہیں جب اہل مغرب کسی بہت ہی گھناؤنے جرم میں ملوث
ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جب امریکی فوجیوں کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی
جس میں چار امریکی فوجی تین طالبان کی لاشوں پر پیشاب کرتے ہوئے نظر آرہے
ہیں یعنی انسان کی جتنی توہین کی جاسکتی ہے وہ کی گئی ہے لیکن حیرت ہے کہ
نہ وہ شور اٹھا نہ وہ واویلا ہوا جو ہمارے ہاں ہونے والے چھوٹے چھوٹے
واقعات پربھی اٹھا دیا جاتا ہے ۔
امریکی فوج کے ذمے یہ پہلا جرم نہیں ہے بلکہ ایک لمبی فہرست ہے جو اس فوج
سے منسوب ہے ویت نام سے لیکر عراق اور عراق سے لیکر افغانستان تک ہزاروں
ایسی کہانیاں ہیں جو انسانیت سوز ہیں ۔وہی امریکہ جو نہ صرف دنیا کو انسانی
حقوق کے تحفظ کا درس دیتا ہے بلکہ ان حقوق کی آڑلے کر ملکوں کے ملک تاخت و
تاراج کر دیتا ہے دراصل یہ ایک طریقہ ہے ایک راستہ ہے کہ کیسے دوسرے ممالک
میں اپنی فوج داخل کی جا سکے اور وہاں کے وسائل پر قبضہ کیا جا سکے ۔ اسے
پاکستان ، افغانستان اور عرب ممالک میں دلچسپی اپنی توانائی کی ضروریات
پوری کرنے کے لیے ہیں۔ اس لیے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہماری بھلائی کا کوئی
منصوبہ لے کر آئیں گے سراسر حماقت ہے ،ہاں زمانہ قدیم میں فاتح افواج جو
بربریت کرتی تھیں امریکی فوج نے وہ وطیرہ اور دور ابھی تک نہیں چھوڑا لیکن
صرف بڑا ملک ہونے کی وجہ سے اُسے چھوٹ دی جارہی ہے۔ طالبان سے نظر یاتی
اختلاف اپنی جگہ، لیکن دنیا کا کوئی قانون لاش کی بے حرمتی کی اجازت نہیں
دیتا اور جہاں ہمارے ملک میں معمولی معمولی باتوں پر واویلا کیا جاتا ہے،
اُنہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے اور ہماری فوج، آئی ایس
آئی اور دیگر قومی اداروں کو بہت بڑا مجرم بنا دیا جاتا ہے وہیں ان لوگوں
کے جرائم سے چشم پوشی کی جاتی ہے ۔ اگر چہ مسلمان فوج ہونے کی حیثیت سے
کوئی پاکستانی فوجی ایسا کام کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس واقعے پر
ایمنسٹی انٹر نیشنل چیخا نہ ہیومن رائٹس واچ، نہ ایشیا واچ اور نہ ہی
پاکستانی ادارہ حقوق انسانی کو اعتراض ہوا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے
ادارے یہ سب کچھ روک سکتے ہیں لیکن کم از کم وہ اس امر کو دنیا کے سامنے تو
لا سکتے ہیں کہ وہ امریکہ جو پاکستان کو شدت پسند سمجھتا ہے خود سب سے بڑا
شدت پسند اور دہشت گرد ہے لیکن ہوا ایسا کہ نہ صرف عالمی تنظیمیں بلکہ خود
کو پاکستان میں انسانیت کے بڑے علمبردار اور ٹھیکیدار کہنے والی شخصیات
عاصمہ جہانگیر، علی دایان اور ماروی سرمد جو اپنے اداروں کے خلاف بولتے
تھکتے نہیں یہ سب کچھ دیکھ کر بھی چپ رہے بلکہ نامی گرامی اینکرز اور سیاسی
شخصیات بھی خاموش رہیں۔ امریکی فوجیوں کی یہ حرکت نہ صرف انسانی اقدار کے
خلاف ہے بلکہ فوجی اصولوں کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے جو دنیا کے کسی قانون
میں بھی جائز نہیں۔یہ بہت اچھا موقع تھا کہ انسان اور انسانیت کے یہ ہمدرد
بولتے اور امریکہ اور اہل مغر ب کو ان کا اصلی چہرہ دکھاتے اُنہیں بتاتے کہ
اسلام اپنے کسی ماننے والے کی ایسی حرکت پر اُسے سخت سزا کی وعید سناتا ہے
پھر وہ اسلام اور مسلمانوں کو تنگ نظر اور شدت پسند کیسے سمجھتے ہیں اور
کیسے اپنی انسانیت دوستی کا چرچا کرتے ہیں لیکن حسب معمول اس واقعے پر چپ
سادھ لی گئی۔ میری اِن انسانیت کے علمبرداروں سے گزارش ہے کہ اپنے گریبان
میں جھانکنا بہت اچھی بات ہے اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھنا بھی بہت احسن ہے
لیکن دوسروں کی کوتاہیوں سے صرف اپنے مفاد کے لیے صرف ِنظر کرنا اور مظالم
پر چپ رہنا ظالم کی مدد کرنے کے مترادف ہے ۔ ہمیشہ مغرب کی انسانیت دوستی
پر دادوتحسین کے ڈونگر ے برسانے والے اِن لوگوں کو اِس واقعے پر کم از کم
اظہار خیال ہی کر لینا چاہیے تھا ۔امریکہ سے اِن فوجیوں کو سزا دینے کا
مطالبہ کر لینا چاہیے تھا اور ان پر یہ بھی واضح کر دینا چاہیے تھا کہ
اسلام کو بد نام کرنے کی بجائے خود اپنے آپ کو درست کریں ،وہ دنیا کے
ٹھیکدار نہیں، دنیا کے کونے کونے میں امن کے نام پر فساد برپا کرنے کی
بجائے خود کو ظلم کرنے سے روکیں تو امن خود بخود قائم ہوجائے گا۔ |