چند ماہ قبل سہا اردو اخبار میں
ایک سرخی ”فلمی اسٹائل میں لڑکی کا اغوا“ پڑھنے کو ملی جس سے پورے طور پہ
یہ بات کھل جا تی ہے کہ فلم ہمارے معا شرے کیلئے کتنا سود مند کتنامضر ہے !فلمی
اسٹائل میں صرف اغوا کا ہی مسئلہ نہیں ہے ،لو گوں نے تو اپنا ہر ہرلمحہ
فلمی اسٹائل میں ہی گزارنا شروع کر دیا ہے ۔کیوں کہ فلموں میں بہت ہی دلکش
انداز اور آسان لب و لہجے میں طرح طرح کے خرا فات اور برا ئیوں کی طرف لو
گوں کی ذہن ساز کی جا تی ہے ۔کسی فلم میں ڈاکہ زنی ،چوری اور لوٹ ما ر کی
کا ر کر دگی پیش کی جا تی ہے تو کسی میں قتل و غارت ،خود کشی ،شرا ب نو شی
اور دھوکا با زی پر ابھا راجا تا ہے ،حتیٰ کہ کو ئی بھی فلم فحا شیت عر یا
نیت ،خرا فا ت و آوار گی اور شہو انی منا ظر سے خا لی نہیں ہو تی ۔یہی وجہ
ہے کہ آج معا شرے میں طرح طرح کی برا ئیاں بڑی تیزی کے ساتھ پنپ رہی
ہیں۔جگہ جگہ لوٹ گھسوٹ اور ڈاکہ زنی کا با زار گرم ہے آئے دن اخبا روں میں
بیٹے کے ہا تھ با پ کا قتل اور بیٹے کا قتل باپ کے ہاتھ جیسے وا ردات عا م
سی بات ہوکر رہ گئی ہیں۔بے حیا ئی اور فحا شیت و عر یا نیت کی انتہا ہو گئی
ہے ۔سر عام سڑ کوں اور پا رکوں میں بوس و کنا ر تہذیب و تمدن کا حصہ بنتا
جا رہا ہے اور شا دی سے پہلے ماں بننے کی خبریں بکثرت رو نما ں ہو رہی ہیں
،چھوٹے چھوٹے بچے فلم کے ذریعے جنسیات کے تعلق سے وہ با تیں سمجھنے لگے ہیں
جو ان کیلئے تباہ کن اور پر خطر ثابت ہو رہی ہیں ۔خوا تین کمیشن کے چئیر پر
سن ممتا شرما نے یہ تو بیان دے دیا کہ” میڈیا اور ٹیلی ویژن کے ذریعے شا ئع
کی جا رہی فحا شیت کا چھو ٹی عمر کے بچوں کے ذہن پر غلط اثر پڑتا ہے جس سے
وہ جنسی تشدد کی جا نب ما ئل ہو تے ہیں ایسے میں کورس میں جنسی تعلیم کو شا
مل کر نا سود مند ہو سکتا ہے “لیکن انھوں نے جڑو بنیاد کو ختم کر نے کی بات
نہ کی بات تو تب بنتی جب وہ برا ئیوں کی جڑ و بنیا د کے خاتمے کی بات کر
تیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جب سے ٹی وی اور فلمیں عا م ہویں برا ئیاں بھی اسی تنا سب
سے پھیل رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب مجرموں سے ان کے جرم کر نے کی وجہ پو چھی
جا تی ہے تو ان میں اکثر کا یہی اعتراف ہو تا ہے کہ مجھے فلاں فلم دیکھ کر
یہ کرائم کر نے کاجذبہ پیدا ہوا ،مجرموں کا یہ اعترف کیا اس بات کا اعتراف
نہیں ہے کہ فلم ہما رے لیے انتہا ئی خطر ناک اور تباہ کن ہے ؟۔بے حیا ئی
اور فحاشیت و عر یا نیت کو عام کر نے میں فلموں نے جو اہم رول ادا کیا ہے
اس کی ایک ہلکی سی جھلک یہ بھی ہے کہ آج ماں بیٹے ،باپ بیٹی وغیرہ ایک ساتھ
بیٹھ کر پردہ سیمی یا ٹی وی پر فلمیں دیکھنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں
کر تے جو فحاشیت و عر یا نیت اور شہوا نی منا ظر سے لبریز ہو تی ہیں ۔بیشک
بے حیا ئی، برا ئیوں کی ایسی جڑ ہے جس سے بے شمار برا ئیوں کو فروغ ملتا ہے
،مقو لہ ہے ”بے حیا باش وہر چہ خوا ہی کن“بے حیا ئی اور عر یا نیت کو پھیلا
نا یہو دو نصاریٰ کا اہم مشن ہے جس کو فلم ایکٹروں کے ذریعے کا فی تقویت مل
رہی ہے ،اسی لئے یہو د نصاریٰ خطیر رقم فلم ایکٹروں کے پیچھے خرچ کر تے ہیں
اور اس طرح فحا شیت کی تشہیر کرتے ہیں ،بلکہ جو فلم اکٹر فلم میں جتنی زیا
دہ بے حیا ئی کا مظاہرہ کر تا ہے اسی قدر اس کی پزیرائی کی جا تی ہے ۔
اسلام میں تو حیا کو نصف ایمان کہا گیا ہے ،اور المیہ یہ ہے یہود و نصاریٰ
کا پورا زور حیا کو پا ش پا ش کر نے میں ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام و
مسلمین کو کسی حد تک متزلزل کیا جا سا ئے جس کے داو پر انھوں نے زن و زر کے
علاوہ اپنی بیٹیوں تک کی عزت و عصمت کی بھی پاس و لحاظ نہیں رکھا !! ذرا ہو
ش کے نا خن لیں اور اگر ملک و ملت کا ذرا سا بھی درد ہو تو حتیٰ الامکان کو
شش کریں کہ بے حیا ئی اور عر یا نیت کا کسی طرح خاتمہ ہو،کیوں کہ حدیث رسول
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس کے پاس ایمان ہو گا وہ ضرور حیا دار ہو گا
اور جس کے پاس حیا نہ ہو وہ ایمان والا نہیں اور ساتھ ہی یہی انسا نیت کا
تقا ضا بھی ہے کہ انسا نیت کو حیوانیت میں تبدیل ہو نے سے بچا یا جائے ۔
اٹھا ئیس نومبر 2011 بروز اتور سہا را اردو اخبار میں شائع شدہ ایک انسا
نیت کو شرما تی افسوس نا ک خبر بطور حوالہ من و عن نقل کر تا ہوں جس سے فلم
بینی کے مہلک اثرات کا بہ خوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔”ضلع بجنور،
تھانہ چاندپور علاقہ کے تحت گا ؤں خان پور کے شمشیر احمد کی گیارہ سالہ
لڑکی انجم دو روز قبل اپنے گھر سے اسکول میں پڑھنے گئی تھی ۔بتا یا جا تا
ہے کہ جب وہ شام تک اپنے گھر نہیں لو ٹی تو گھر وا لوں نے اس کو تلاش کیا
لیکن اس کا کہیں پتا نہیں چلا بعد میں معلوم ہو اکہ وہ اسکول سے دس بجے کے
بعد اپنے نا نا کے گھر گاؤں سلطان پو رچلی گئی تھی ا س کے بعد جب وہ سہیلی
کے گھر گئی تو وہاں اس نے ٹی وی پر فلم دیکھی اس دوران اس کی سہیلی کا باپ
وہاں آگیا اور اس نے مو قع دیکھ کر انجم کے ساتھ منھ کا لا کیا او ر اس کا
گلا گھونٹ کر گنے کے کھیت میں ڈال دیا “۔
مجھے اس واقعہ کو پیش کر کے آپ کو عصمت دری اور قتل کی خبر دینا مقصود نہیں
ہے یہ سب خبریں تو روز بروز رونما ہو تی ہی رہتی ہیں مجھے تو وار دات و
جرائم کی جڑ اور بنیاد کی طرف تو جہ دلا نا مقصود ہے ذرا غور کریں ایک شا
دی شدہ بال بچہ والا شخص کیو ں کر ایسی گھناؤنی اور گندی حرکت کی طرف مائل
ہو سکتا ہے! یقینا اس وقت فلم کے شہوا نی منا ظر نے اس کے جنسی جذبات کو
جھنجھو ڑا ہو گا جس سے وہ نفس پر قا بو نہ پاکر ایسی حرام کاری کی طرف ما
ئل ہو گیا ۔اسی طرح نہ جانے کتنے نو جوانوں اور بچوں کو فلموں نے تبا ہی کے
دہانے پر لا کھڑا کیا ،اگر اب بھی فلموں ،سریلوں اور ان جیسی خرافات کا با
ئیکا ٹ نہ کیا گیا تو ہما ری نسل آئندما ڈرن بننے کے چکر میں جا نوروں سے
بھی بد تر ہو جا ئے گی ۔
لہذا آج فلم بینی پر روک لگانا سخت نا گریز ہے جس کی بہتر تطبیق یہی ہو
سکتی ہے کہ نہ خود ہم فلم دیکھیں اور نہ اپنے اولاد دو احباب کو دیکھنے دیں
اور اس کے مضر اور مہلک اثرات کو ان کے سامنے بیان کریں میرا یقین ہے کہ
اگر ملک و ملت کا ہر دفرد اس مہلک جرا ئم کے تئیں بیدار ہو جا ئے تو ضرور
ان لو گوں کے دھندے ماند پڑ جائیں گے جنہوں نے انسانی اقدار کی پا مالی کو
اپنا مقصد حیا ت بنا رکھا ہے ۔لیکن ابھی ابھی کچھ ایسے اخبار ہیں جنکے
صفحات ان فلم سازوں کی تشہیر کے لئے خاصہیں جسمیں انکی عریاں تصویریں اور
انکی برائیوں کو پھیلا نے میں کامیا ب کہا نیو ںکو انٹر و یو کے طریقے پر
پیش کیا جاتا ہے ۔ افسوس صد افسوس !کو ئی سوچ سکتا ہے کہ وہ اردو اخبار جسے
مہذب جانا جا تا ہے ایسا کر بھی سکتا ہے ۔ آج ہما رے د ل و دماغ پر ایسا پر
دہ پڑ گیا ہے کہ فلم ایکٹروں کوہم اپنا ماڈل رول اور ہیرو تصور کر نے
لگے!ذرا سوچیں تو سہی جنہوں نے پیسے کی ہوس میں دین و ایمان تک کا سودا کر
رکھا ہو جن پر مال و زر کا بھوت اس قدر سوار ہو کہ اس کے سامنے وہ اپنی
ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو عریاں کر کے تما شہ فرا ہم کر تے ہوں، جن کے شب
و روز کا مشغلہ ہی بے حیا ئی اور حرام کاری کی تشہیر و توسیع ہو بھلا ایسے
لوگ رول ماڈل اورہیرو کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اگر کو ئی عام شخص ان جیسی حر
کتیں کر تا تو ہم ضرور اس پر قد غن لگا تے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر تے
،تو پھر ہم کیوں فلم ایکٹروں کے تئیں خاموش ہیں ،جنہوں نے ہما رے نوجوانوں
اور بچوں کے کردار و اخلاق کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، دن بدن آپس میں فتنہ
وفساد کے امنڈتے سیلاب کے ذمہ دار بھی یہی فلم ایکٹر زہیں ،جو کبھی آذان
نام کی فلم نکال کر مسلمانوں کو ور غلاتے ہیں ،کبھی رسا لت نام کی فلم نکال
کر اسلام کی تو ہین کر تے ہیں اور مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑ کر پیش کرتے
ہیںتو کبھی بال جیسی فلم نکال کر اسلام کے آفا قی نظام کے ساتھ کھلواڑ کر
تے ہیں ۔
اپنے قوم و ملت کے درد مندوں سے التجا کر تا ہوں کہ وہ ضرور با لضرور فلم
اور فلم ایکٹروں کی حقیقت کو طشت از بام کر کے قوم و ملت کے افراد کو
اخلاقی بحران سے بچائیں اور معاشرے میں عریا نیت و فحا شیت کے بڑھتے رجحا
بات پربر وقت ضرب لگا ئیں تا کہ نسل آئند ان بیہو دہ خرا فات اور جرا ئم کے
زد و چپت میں نہ آسکے۔
انوار رضا
جامعہ حضرت نظام الدین اولیا ئ،نئی دہلی |