خواہش

ہر انسان کی کوئی نہ کوئی خواہش ہوتی ہے اسی طرح بحیثیت انسان میری بھی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ میں محبت کا ایسا تناور درخت بن جاؤں جو بلا تفریق بے غرض اور بے لوث ہو کر دکھوں کی دھوپ میں سفر کرنے والے ہر مسافر کے تمازت زدہ وجود کو اپنی محبت کی چھاؤں تلے سستانے کا سامان کر سکے اور مجھے کبھی اس چھاؤں کے بدل میں صلے کی طلب نہ ہو لیکن افسوس کوشش کے باوجود بھی مجھے اپنے اندر محبت کے صلے کی طلب محسوس ہوئی ہے کسی بھی چیز کی چاہت کرنا آسان لیکن اسے پانا بہت مشکل ہے سو اکثر و بیشتر اپنی چاہت و طلب کی ناکامی کا سامنا رہا ہے جو بارہا دل کے اضطراب و بےچینی کا باعث بھی بنتا رہا ہے یہ بےچینی و اضطراب صلہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس احساس کی وجہ سے ہے کہ میں نے بھی خاص انسان بننے کی بجائے عام ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے صلے کی طلب رکھی جبکہ ہمیشہ وہ خاص انسان بننا چاہا جو تمام لوگوں سے کسی بھی قسم کی غرض سے بالا تر ہو کر یا کوئی فیض اٹھائے بغیر دوسروں کے لئے اپنے دل میں جذبہ محبت رکھتا ہو

 یہ شاعری نہیں جذبات ہیں خواہش ہے اور چاہت ہے جو مجھے چین سے نہیں رہنے دیتی جو میرے تخیل کو کچھ ایسا کام کر گزرنے کے لئے اکساتی ہے جو سب کے فائدے میں ہو جس سے کوئی اچھی بات سیکھ سکے کوئی اچھا کام سیکھ سکے اور جس سے کسی کے دل میں اچھی سوچ بیدار ہو سکے میری وجہ سے کچھ تو اچھا کر سکے لیکن افسوس کہ یہ خواہش محض خیال اور چاہت ہی رہی عملی طور پر دوسروں کے لئے مجھ سے کچھ نہ ہو سکا میرے الفاظ کا دائرہ میرے اپنے گرد کھنچا رہا جس نے ہمیشہ مجھے اپنی ہی ذات کے حصار میں قید رکھا اور مجھے اپنی ذات کے دائرے سے باہر نہ آنے دیا میری یہ بھی خواہش رہی کہ ہر انسان کی یہی خواہش ہو کہ وہ بےغرض ہو کر اس طرح انسانیت کی خدمت کرے کہ اسکا شمار ان خاص لوگوں میں ہو جائے جو اللہ تعالٰی کی محبت و قربت کے حقدار بن جاتے ہیں ممکن ہے کہ ہر انسان کی یہی خواہش ہو لیکن وہ بھی میری طرح اپنی ذات کے حصار کے قیدی ہوں لیکن ایسا بھی نہیں کہ گلستان حیات ایسے پھولوں سے بالکل ہی خالی ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو انسانیت کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور انسان سے محبت رکھتے ہیں ان لوگوں کے افکار و اعمال دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ چلو ہم نہ سہی کوئی تو ہے جسکا شمار خاص انساانوں میں ہوتا ہے جو اپنی ذات کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی دوسروں کا احساس کرتے ہیں دوسروں کے بارے میں سوچتےاور بے غرض محبت رکھتے ہیں اور ایسے کام کرتے رہتے ہیں جو دوسروں کے لئے سودمند ہو اور خود انسانیت کے لئے اور ان کے اپنے لئے باعث فخر واجر ہوتا ہے یوں تو انسان کا انسان ہونا ہی سب سے بڑا فخر ہے بشرطیکہ انسان اپنے مقام کو پہچانتا ہو اپنے آپ سے مکمل آگاہی رکھتا ہو اپنی ذات میں مکمل ہو جو لوگ خو اپنی تکمیل کر لیتے ہیں وہی دوسروں کی تکمیل میں بھی معاون ہوتے ہیں شاید میں اپنی ذات میں اب تک نامکمل ہوں اسی لئے دوسروں کے لئے مجھ سے آج تک کچھ نہ ہو سکا دوسروں کے لئے کچھ کرنا فی الحال میرے اختیار سے باہر ہے کیونکہ جو انسان اپنے لئے کچھ نہ کرسکے وہ دوسروں کے لئے کیسے کر سکتا ہے اگر ہم اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھ لیں انسان سے محبت کرنا سیکھ لیں اپنی تکمیل کرنا سیکھ لیں تو ہم انسانیت کی تکمیل کر سکتے ہیں اور اپنے اندر پنپنے والی نیک خواہشات کا حصول ممکن بنا سکتے ہیں اللہ ہماری نیک خواہشات کی تکمیل میں ہماری مدد فرمائے آمین
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 458502 views Pakistani Muslim
.. View More