ہم نے بارہا چاہا کہ دنیا کے خار
دار جنگل سے خود کو بچا کر چلیں کہیں دامن ان کانٹوں سے الجھ کر تار تار نہ ہو
جائے سو دامن کے ساتھ ساتھ وجود کو بھی سمیٹ لیا کہیں کوئی کانٹا جسم کو زخمی
نہ کر دے جب اس دنیا مں آئے ہیں سفر تو کرنا ہی پڑے گا سو خود کو سمیٹتے ہوئے
آغاز سفر کر دیا مگر یہ سفر آسان نہیں تمام راستہ خار و انگار سے بھرا ہوا ملا
خود کو سمیٹ لینے کے باوجود بھی خود کو خار و انگار سے محفوظ رکھنا ممکن نہ رہا
دامن تو کیا یہ وجود بھی ان کانٹوں کی زد سے محفوظ نہ رہ سکا اور ہمارا دامن
تار تار اور وجود زخموں سے لہو لہان ہو گیا لیکن اس کے باوجود بھی شوق آوارگی
شوق سفر بدستور قائم و دائم رہا اور یہ سفر ناتمام آج بھی کسی نامعلوم منزل کی
سمت جاری و ساری ہے اور ہم زخموں کی پرواہ کئے بغیر بڑھتے جارہے ہیں سفر کرتے
جارہے ہیں جوں جوں آگے بڑھ رہے ہیں راستہ تنگ ہوتا جارہا ہے دامن کانٹوں کے
چنگل میں بری طرح پھنستا جارہا ہے جسے ہمیں سفر سے روکنا چاہ رہا ہے دوران سفر
بارہا یہ سلسلہ جاری رہا ہم الجھے لڑکھڑائے گرے سنبھلے اور پھر چل پڑے کہ شوق
کی منزل کسی رکاوٹ کسی دیوار کسی خار یا کسی انگار کی پرواہ نہیں کرتا اسے تو
بس سفر کرنا ہے اور کرتے جانا ہے منزل ملے نہ ملے شوق کو پانا ہے جہاں تک ممکن
ہو سکے خود کو بچاتے ہوئے ہر راستے سے گزرتے جانا ہے اللہ تبارک و تعالٰی ہر
سفر میں ہمارا اور سب کا حامی و ناصر ہو آمین |