یوروپ میں نسلی ‘علاقائی اور
مذہبی عصبیت کے اشاروں کے دوران گذشہ برس اندھا دھندفائرنگ کے بعدبے قصوروں
کو موت کی نیند سلانے کے بعد یوروپی ملک ناروے اپنی معاشرتی اور انتظامی
دہشت گردی کی وجہ سے پھر خبروں میں آگیا ہے۔ اس مرتبہ ناروے میںقانون کے
نام پر دو معصوم ہندوستانی بچوں کومقامی قانون کے نام پرمقیدکئے جانے اور
ان کے ماں باپ سے جبری طور پرجدا کرنے کے آٹھ ماہ طویل مدت کے بعد
بالآخرامید کی شعاع پیدا ہوئی ہے۔یہ دن یونہی دیکھنا نصیب نہیں ہوگیا بلکہ
سرکاری سطح پر حکومت ہند کی مداخلت سے ممکن ہوسکا ہے۔ان بچوں کو پرورش ٹھیک
سے نہ کرنے کا الزام لگا کر ناروے کی سرکاری اطفال ایجنسی کی طرف سے
زبردستی اپنے پاس رکھنے کے آٹھ ماہ بعد ناروے حکومت نے پیر کو آخر کار کہا
کہ وہ اس معاملے پرنہ صرف ہندوستانی حکومت کی’ تشویش اور خدشات‘ کی پرواکی
ہے بلکہ وہ اس معاملے کا حل ڈھونڈنے کی ’کوشش‘ کر رہے ہیں۔ناروے کے وزیر
متنالک نے آج ایک مختصر بیان میں یہ ’مژدہ‘ سنایا۔ان کے بیان میں کہا گیا
کہ آئندہ اس مسئلے پر سرگرمی سے غور کیا جانا جاری رہے گا۔ خیال رہے کہ
ناروے میں رہائش پذیرہندوستانی والدین کے بچے تین سالہ ابھجنان اور ایک
سالہ ایشوریہ کو گزشتہ ماہ مئی میں ناروے کی تحفظ اطفال ایجنسی نے یہ کہہ
کر ان سے چھین کر اپنے قبضہ میں لے لئے تھے کہ ان کی پرورش ٹھیک سے نہیں ہو
رہی ہے۔اس معاملے پر اس ماہ ہندوستانی حکومت کی سخت رویے کے بعد ناروے کی
حکومت نے پیر کو یہ بیان جاری کیا۔ وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا نے بھی گذشتہ
روز اس بابت ناروے میں ہندوستانی سفیر سے بات کی تھی۔
|
|
گزشتہ 12 جنوری کو ہندوستانی سفارت خانے کے حکام کا ایک دستہ بھی اوسلو کے
اس سرکاری پرورش گھر میں یہ جاننے گئے تھے کہ وہاں ان بچوں کو کس طرح سے
رکھا جا رہا ہے۔ ان افسران نے تحفظ اطفال داخلہ سے کہا تھا کہ بچے وہاں
ہندوستانی ثقافت سے بالکل مختلف ماحول میں ہے اچھا ہو ان بچوں کو ان کے
والدین کے ساتھ ہندوستان واپس بھیج دیا جائے۔خیال رہے کہ ان بچوں کے نانا
نانی نے بھی گزشتہ ہفتہ کے روز مارکسی لیڈر ورندا کرات کے ساتھ صدر جمہوریہ
پرتبھا پاٹل سے ملاقات کرکے ان بچوں کو سرکاری پرورش گاہ سے نکال کر بچوں
کے والدین کے پاس بھجوانے کی درخواست کی تھی۔
ناروے میں جاری یہ دہشت گردی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ اسے سمجھنے کیلئے ماضی
کے اوراق الٹنے ہوں گے۔پرانا پتھر کا زمانہ 10000 قبل مسیح آج سے 18000 سال
پہلے نارڈک کا پورا حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا جو کہ گلیشئر کی صورت میں تھا۔
10000 قبل مسیح سال پہلے درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے برف پگھلنا شروع
ہوئی۔ تو اس طرح ناروے کا ساحل برف سے آزاد ہو گیا۔ اس کے بعد یہاں لوگوں
سے بسنا شروع کیا۔ جو کہ جانوروں کا شکار اور ماہی گیری سے گزارہ کرتے تھے۔
آہستہ آہستہ انہوں نے پتھروں، درختوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھال سے ہتھیار
بنانا شروع کیے۔ یہ لوگ غاروں اور کھال کی بنے ہوئے خیموں میں رہتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں مزید تبدیلی آتی گئی۔ بہت سے لوگ یہاں آ
کر آباد ہونے لگے۔ تقریباً 6000 قبل مسیح تک ساحل اور پہاڑوں پر کافی آبادی
بڑھ گئی۔ تاریخ میں اس کا پتہ نہیں ملتا کہ یہ لوگ کہاں کہاں سے آئے لیکن
اندازہ یہی لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ جنوب کی طرف سے یا مغربی جزیروں سے آئے
تھے۔ اور یہ لوگ شمال کے طرف روس کے راستے سے بھی آئے ہوں گے۔
ناروے کے حالات کو سمجھنے کیلئے تاریخ کاقبل ازمسیح قدیم پتھر کے زمانے میں
جانا ہوگا جسکے بعد کے زمانے کونیا پتھر کا زمانہ کہا جاتا ہے جوقریب
1800سے4000قبل مسیح محیط ہے۔ سب سے بڑا فرق جو ان دو پتھر کے زمانے میں تھا
وہ یہی تھا کہ نئے پتھر کے زمانے میں کھیتی باڑی کا آغاز ہوا جو کہ مختلف
اناج، غلہ گندم، جو اور باجرہ وغیرہ کی صورت میں تھا۔ لوگوں نے اس زمانے
میں گھروں میں گائے اور بھیڑوں کو بھی پالنا شروع کیا۔ کھیتی باڑی کا طریقہ
جنوب کی طرف سے آئے ہوئے لوگوں نے یہاں پھیلا دیا تھا۔ کھیتی باڑی کی وجہ
سے لوگوں نے مستقل رہنا شروع کر دیا۔ 2000 قبل مسیح تک شکار اور ماہی گیری
سب سے بڑا پیشہ تھا۔ جس کا اندازہ ہمیں پتھروں پر جانوروں کی تصویروں سے
ہوتا ہے۔ جو وہ لوگ پتھروں وغیرہ پر بنایا کرتے تھے۔ اس دور کے آخر تک
کھیتی باڑی کے پیشے نے بہت اہمیت حاصل کر لی تھی۔1800 سے 500 تک کے زمانے
کو دھاتوں کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس زمانے کے امیر لوگوں نے کانسی اور ٹین
سے ہتھیار اور زیورات بنانے شروع کئے لیکن ابھی تک کافی لوگ پتھروں، ہڈیوں
اور درختوں سے ہی ہتھیار وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ کھڈی پر کپڑا بننا اور اوون
کا استعمال اسی زمانے میں شروع ہوا۔ اوون بھیڑوں کی کھال سے حاصل کی جاتی
تھی۔جبکہ 500سے 800 مسیح لوہے کا زمانہ کہلاتا ہے۔اس زمانے میں لوہا بنانے
کا ہنر اس شمالی علاقے تک پہنچ چکا تھا۔ ناروے کے بہت بڑے حصے میں کوئلے کی
مدد سے لوہے کوپگھلایا جانے لگاجو کہ دلدل سے حاصل کیا جاتا تھا۔لوہے سے
انہوں نے چاقو، کلہاڑی اور دوسرے ہتھیار بنائے۔ ناروے چھوٹی چھوٹی بہت سی
ریاستوں میں تقسیم تھاجبکہ ہر ریاست کا حکمران ہوتا تھا۔ ان میں سے کچھ
حکمران کافی مذہبی ہوتے تھے۔اس کے بعد باری آتی ہے وائی کنگ کے زمانہ کی جس
میں ریاستیں اکھٹی ہوئیں اور عیسائیت کا فروغ ہوا جو تقریباً 800 سے1030 تک
زمانہ پر محیط ہے۔
پہلے وائی کنگ نے 793 میں انگلینڈ کے جزیرہ لنڈس فرین Lindisfarne ایک
مذہبی جگہ پر حملہ کیا۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور بہت سے لوگوں
کر قید کر لیا۔ اس حملے کی خبر باقی ماندہ یوروپی ممالک میں بھی پھیل گئی۔
بہت سے مذہبی لوگوں نے ان وحشیوں کے بارے میں سن رکھا تھا۔ ایک سال کے بعد
دوبارہ انہوں نے انگلینڈ کی مذہبی جگہوں مونک وئیر ماؤتھ
MonkwearmouthجیروJarrow پر حملہ کیا۔ اسی برس 795 میں وائی کنگ نے ناروے
سے آئر لینڈ میں لوٹ مار شروع کر دی۔ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے لوٹ مار
کیساتھ ساتھ قتل و غارت بھی کی۔ تقریباً اسی دور میں کچھ نارویجین وائی کنگ
سکاٹ لینڈ اور ارد گر دکے جزیروں میں آ کر رہنے لگے۔ دوسرے وائی کنگ جنگ
کرتے ہوئے بحری جہازوں کے ذریعے جرمنی، فرانس، سپین اٹلی اور شمالی افریقہ
تک گئے۔ وہاں انہوں نے بہت سا خزانہ چوری ہی نہیں کیا بلکہ کافی لوگوں کو
قتل بھی کیا اور بہت سوں کو غلام بنا کربھی لے گئے۔ سویڈن کے وائی کنگ جنوب
کی طرف سے ہوتے روس کی جانب گئے۔ وہاں انہوں نے کئی شہروں کو لوٹا۔ اسی
زمانے میں انہوں نے اپنے خدا بنائے جن کے نام تھور، اودن تھے۔ 830 عیسائیت
مذہب کے کچھ لوگ آئے انہوں نے وائی کنگ کو اس مذہب کے بارے میں بتایا لیکن
وائی کنگ کو یہ مذہب اپناتے ہوئے کچھ عرصہ لگا۔ 835 سے 841 تک انہوں نے
انگلینڈ، آئر لینڈ میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔ 930 میں وائی کنگ کی
تعدا آئس لینڈ میں تقریباً 10000 ہو گئی تھی۔ 930 میں ڈنمارک کے وائی کنگ
کی تعداد عیسائیت مذہب میں بڑھنے لگی لیکن ان کا بادشاہ دس برس کے بعد اس
مذہب میں داخل ہوا۔ 982 میں نارویجین وائی کنگ ایریک Eirik آئس لینڈ کے ایک
بندے کو قتل کر کے وہاں سے بھاگ کر ایک جزیرہ پر چلا گیا جس کا نام اس نے
گرین لینڈ رکھا۔ کافی عرصہ بعد اس کے ساتھ آ کر کئی لوگ رہنے لگے۔ 1002 میں
ایرک کا بیٹا لیف ایریکسنLeif Eriksson نے ایک اور جزیرے پر گیا جس کا نام
اس نے وائن لینڈWine Landرکھا جو بگڑ کر ون لینڈ Vinland رکھا۔ 1000 سال
میں انگریزوں نے وائی کنگ کو بہت سا خزانہ دے کر انھیں لوگوں کو آزادانہ
رہنے کیلئے کہا لیکن اس کے باوجود 1016 تک وائی کنگز وہیں رہے۔ اسی دوران
ناروے کے وائی کنگ عیسائی ہونا شروع ہوئے۔ انہوں نے چرچ بنائے۔ عیسائیت کے
پھیل جانے کے بعد انہوں نے جنگ، لوٹ مار اپنے مطالبات کو ختم کر دیا۔ 1066
کے بعد وہ آرام و سکوان سے زندگی گزارنے لگے۔ وائی کنگ اس زمانے میں بہت
بڑے تاجر تھے۔ انہوں نے تجارت کا سلسلہ انگلینڈ، آئر لینڈ اور یوروپ کے
دوسرے ممالک میں جاری رکھا جہاں جہاں وائی کنگز گئے انہوں نے وہیں کی زبان
اور ثقافت کو اپنا لیا۔ اور جلد ہی فرانسیسی، انگریز، روسی یا آئریش بن گئے۔
وائی کنگ کے آخری زمانے میں ناردن میں تین ریاستیں تھیں۔ ڈنمارک، ناروے اور
سویڈن۔ہیرالڈ Harald وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے ناروے کو ایک ریاست
بنایا۔ہیرالڈ کوگیادا Gyda نامی لڑکی سے پیار ہو گیا تھا۔ اس وقت ملک کے
کئی حصوں تھے جس کا الگ حکمران تھا۔ گیدا اس کی بیوی اس وقت تک بننے کے لیے
تیار نہیں تھی جب تک ہیرالڈپورے ناروے کا بادشاہ نہ بن جاتا۔ انہی دنوں
ہیرالڈ نے قسم کھائی کہ وہ جب تک پورے ناروے کو فتح نہیں کر لے گا اپنے بال
نہیں کٹوائے گا۔ اسی لیے اس کا نام ہیرالڈ دی فئیر ہئر Harald the
Fairhairپڑ گیا۔ کئی مقابلوں کے بعد ہیرالڈ پورے ناروے کا بادشاہ بن گیا تو
اس کی شادی گیدا سے ہوئی۔ اس نے 1319 تک بادشاہت کی۔ اس کے مر جانے کے بعد
اس کے بیٹے ناروے کے بادشاہ بنے۔
دریں اثناءوایکنگ پہلے ہی یوروپ کے بہت سے ممالک میں جا چکے تھے جبکہ
نارویجین بادشاہوں نے عیسائیت کوفروغ دیا۔ بادشاہ اولیو اول Olav 1جو کہ
ہیرالڈ کا بیٹا تھا‘ اس نے ہر علاقے میں عیسائیت کو پھیلا دیا۔ حالانکہ بہت
سے علاقوں میں عیسائیت پھیل چکی تھی لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ اس نئے
مذہب کے خلاف تھے۔ ان کیلئے اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑنا بہت مشکل تھا۔
بادشاہ اولیو دوم2 Olav بھی عیسائی تھا۔ اس نے اپنے دور میں ملک میں مکمل
عیسائیت کے نظام کا آغاز کیا۔ اس کا قول تھا۔ ’ عیسائی بنو یا مر جاؤ۔! اس
نے پرانے خداؤں کی تصویریں اور بتوں کو توڑ ڈالا۔ 1030 میں اس پر دوسرے
مذہب کے لوگوں نے حملہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے قتل بھی کر دیا۔ اور اس بادشاہ
کو ’مقدس Olav ’ کا نام دیا گیا۔ اور اسی وجہ سے 1030 سال کو عیسائیت کے
آغاز کا سال بھی مانا جاتا ہے۔
1000 سے 1300 تک ناروے کی آبادی ڈیڑھ لاکھ 150000 سے چار لاکھ 400000 تک
پہنچ گئی تھی۔ اس وقت تک بہت سے لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ اور جوں جوں
آبادی میں اضافہ ہوتا گیا‘ ان کھیتوں کی تقسیم ہوتی گئی۔ اس زمانے کا
بادشاہ بھی بہت سی زمینوں کا مالک تھا۔ 1000 میں کئی شہر آبادی کے بڑھ جانے
کی وجہ سے بڑے شہر کہلانے لگے۔ برگن اس زمانے کا بہت اہم شہر تھا۔ 1200 سے
برگن ناروے کا بڑا شہر تھا۔اسی لئے 1100 سے 1200 کے زمانے کو سنہری زمانہ
کہا گیا کیونکہ یہ زمانہ ناروے کیلئے معاشی و سیاسی ہر لحاظ سے بہت اچھا
ثابت ہوا تھا۔ بادشاہت کے نظام کو منظم کیا گیا۔ادب اور خطاطی کو فروغ دیا
گیا۔ چرچوں میں آرٹ اور ثقافت کو فروغ دیا۔ گرین لینڈ، آئس لینڈ اور کئی
دوسرے جزیرے ناروے کے پاس تھے۔جبکہ معاشی بدحالی کا زمانہ بھی اس کے پیچھے
لگا چلا آیا جب1349 میں طاعون کی وجہ سے آبادی کا تہائی حصہ ہلاک ہو گیا۔
اس کے بعد بھی کئی مرتبہ اس بیماری کا حملہ ہوا۔1400 سے پہلے لوگ اس وباءکی
وجہ سے آگے نہ بڑھ سکے۔1319 میں ناروے کا بادشاہ جس کا کوئی بیٹا نہیں
تھا‘اسکے مر جانے کے بعد سویڈن اور ناروے کا ایک ہی بادشاہ بنا دیا گیا تھا۔
1380 سے ناروے اور ڈنمارک کا بادشاہ ایک ہی تھا جو کہ 1814 تک رہا۔مارگریٹ
Margaret نے ان تین ممالک کو ایک یونین میں اکھٹا کیا۔ 1536 میں فیصلہ کیا
گیا کہ ناروے ایک الگ ملک نہیں رہے گا بلکہ اسے ڈنمارک کا ایک صوبہ بنا دیا
جائے۔
ناروے بھی یوروپ کے باقی ممالک کی طرح ایک عیسائی ملک تھا جو کیتھولک مذہب
تھا۔ آخری نارویجین پادری کا نام اولیو Olav تھا اس کے دو مقاصد تھے ۔اول
یہ کہ ناروے میں سرکاری مشورے کو بادشاہت سے برتری دی جائے۔ اور دوم کہ
نارویجین میریتھ لوتھرMarith Luther کے مذہب کی پیروی کریںجو کہ ایک جرمن
پادری تھا۔لوتھر نے کہا تھا کہ بائبل کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا جائے
تاکہ ہر زبان بولنے والا اس کو سمجھ سکے۔ بادشاہ فریڈرک اول 1 کے 1533 میں
مر جانے کے بعد 1536 میں کرسچین سوم3 Christian نے لوتھر کے مذہب کو ڈنمارک
میں پھیلایا۔ اور ناروے میں بھی اسی مذہب کو سرکاری مذہب بنانے کا فیصلہ
کیا گیا۔ 1537 میں بادشاہ کی فوج ناروے میں آئی۔
1380 میں ناروے ڈنمارک ایک ہی ملک بن گیا اور ڈنمارک کی حکومت ہونے کی وجہ
سے ہی ناروے بہت پیچھے رہ گیا۔ ناروے میں بھی وہی قانون تھے جو ڈنمارک میں
بنائے گئے۔کرسچین Christian 4 وہ بادشاہ تھا جس نے اپنے دور میں ناروے کا
25 مرتبہ یعنی سب سے زیادہ دورے کئے تھے۔ اسی دور میں ویسل پیٹر Peter
Wessel اپنی کوششوں سے جنگ کی اور جیت گیا۔ 1700 میں اس کا قبضہ کافی
علاقوں میں ہو گیا۔ اس نے سویڈن کے بحری بیڑے کو بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔
نپولین کے جنگوں کی اثرات کی وجہ سے 1814 میں ڈنمارک اور ناروے علیحدہ ہو
گئے۔ ناروے جیتنے والوں کی طرف تھا اسی وجہ سے اس نے ناروے کو حاصل کرنے کا
مطالبہ کر دیا جو کہ نارویجین لوگ نہیں چاہتے تھے۔ 17 مئی 1814 میں ناروے
کو مجبوراً سویڈن کی یونین میں رکنیت کرنی پڑی جو 7 جون 1905 تک رہی۔ اس کے
بعد شہزادہ کارل Carl جو ڈنمارک کا تھا‘وہ بادشاہ بنا جس نے اپنا نام ہیکون
ہفتم 7 Hakon رکھا۔ 9 اپریل 1940 میں ناروے کی تاریخ کا ایک نیا باب کھلا
جوقطعی غیر متوقع تھا۔ جرمن لوگوں نے ناروے پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے ملک
کے کئی حصوں میں جنگ کی۔ تقریباً دو مہینے بعد ناروے کو ہار ماننی پڑی۔
بادشاہ اور اس کی حکومت انگلینڈ چلی گئی۔ اس طرح باقی ملک میں جنگ جاری رہی۔
اور 8 مئی 1945 کو ختم ہوئی جس کے بعد ناروے نے سکھ کا سانس لیا۔
لیکن یہ سکھ کا سانس اس وقت سے ٹوٹنے لگا ہے جب سے عالمگیریت کے طوفان میں
مزدوریوں کے تفاوت کے واضح فرق سے اقتصادی بحران مسلط ہواجس کا اشارہ اس
خبر سے بھی ملتا ہے جس میں پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے20جنوری2012
جمعہ کو ایوان بالا سینیٹ کو بتایا ہے کہ ناروے کے خفیہ ایجنٹس حکومت کی
اجازت کے بناءپاکستان میں کام کر رہے تھے۔ ناروے میںسمر کیمپ میںدہشت
گردانہ فائرنگ اور سرکاری عمارتوں پر بم دھماکوں میں93افراد ہلاکت بھی اسی
اقتصادی بحران کا نتیجہ تھی جس کا ٹھیکرا آندرے بیرنگ بریوک نے ہندوستان
میں ہندو قوم پرستی کی تحریک چلانے والوں پر پھوڑا تھا۔ 1518 صفحات کے مےنی
فیسٹومیں بریوک نے 102 صفحات میں کسی نہ کسی طورپرہندوستان کا بھی ذکر کیا
۔ اس نے اس میں لکھا کہ ہندو قوم پرستوں اور جسٹس ار ناٹس کا مقصد ایک ہی
ہے۔ وہ مانتا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری حکومت نظام کو ختم کرنے میں ہندو
قوم پرستوں کی تحریک چلانے والے اہم معاون ہو سکتے ہیں۔آندرے نے اپنے مےنی
فسٹو میں بی جے پی ، آر ایس ایس ، وی ایچ پی اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی
پریشد کی ویب سائٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید معلومات کیلئے ان
سائٹوںکو پڑھیں۔ اس مسودے میں اس کا کہنا تھا کہ یوروپ میں کثیر الثقافتی
رحجان نے قومی حمیت کو کمزور کیا ہے اور اس کی وجہ بقول بریوک کے یوروپ میں
اسلامی نوآبادیات کا قیام ہے۔بریوک کے پیغام سے پتا چلتا ہے کہ وہ انگلش
ڈیفنس لیگ( ای ڈی ایل) کو پسند کرتا ہے۔ ای ڈی ایل برطانیہ میں دائیں بازو
کی انتہا پسند تنظیم ہے جو بظاہر اسلام ازم کے پھیلاو کو خطرہ قرار دیتی
ہے۔برطانیہ میں نسل پرستی کے خلاف متحرک تنظیم ’یونائٹ ایگنسٹ فاشزم‘ کے
جوائٹ سیکریٹری کا کہنا ہے ’ ثبوت بڑھتے جارہے ہیں کہ آندرے بیرک بریوک
دائیں بازو کے انتہا پسند خیالات رکھتا تھا اور فاشسٹ اور اسلامو فوبک
تنظیموں، جن میں ای ڈی ایل اور بی این پی شامل ہیں، کی حمایت کرتا تھا۔ اگر
اوسلو اور یٹویامیں دہشت گردانہ وحشت نیو نازیوں کا کام ہوا تو ایسا وہ
پہلی بار نہیں کررہے۔ اوکلوہا ماسٹی میں1995میں دھماکوں کی ابتدائی طور پر
ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی لیکن دراصل یہ انتہا پسند دائیں بازو کی
کارروائی تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نسلی تعصب کے کلچر کے فروغ کو بڑھنے
کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔
یورپ میں اسلاموفوبیا جس سے مراد اسلام یا مسلمانوں سے نفرت، تعصب یا خوف
لی جاتی ہے‘ خاصا پھیل چکا ہے۔ سوئٹرزلینڈ میں میناروں کی تعمیر، جو اب
مساجد کا لازمی جز تصور کیے جاتے ہیں‘ پر تنازع2000کی دہائی سے چل رہا تھا۔
بالآخر نومبر2009 میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے نئے میناروں کی تعمیر پر پابندی
لگادی گئی جس کی حمایت 57.5 فیصد ووٹروں نے کی۔یہی وجہ ہے کہ یوروپ کے
ہمسایہ ممالک میں اس کے خلاف مختلف اخبارات میںخوب لکھا گیا۔ فرانس کے
اخبار’لبریشن‘ نے سرخی لگائی’ شرمندہ کرنے والا ووٹ‘ بلجیئم کے Le Soir اور
برطانیہ کے لندن ٹائم میں تنقید شائع ہوئی۔ بعدازاں یوروپی میڈیا کو خیال
آیا کہ وہ قارئین سے یہ پوچھیں کہ ان کے اپنے ملک میں اگر معاملہ ایسا ہو
جائے تو؟تقریباً تمام بڑے اخبارات کی پولنگ میں سوئٹز لینڈ کی طرف سے
اپنائے گئے موقف کی اکثریت کی طرف سے تائید ہوئی تھی۔ یوروپ میں متعصب رویے،
تحریر اور تصاویر کے ذریعے منافرت کا بازار ایسا گرم ہے کہ دو معصوم بچوں
کو ان کے والدین سے جدا کرنے کا کوئی افسوس نظر نہیں آتا۔ منافرت کے اس
شیوع میںمعاشرے کو تقسیم کرنے والی قوتوں کو رد کرنے کی ضرورت ہے۔ |