حضرت ابوالبرکات سید حسن بادشاہ رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ

حضرت ابوالبرکات سید حسن بادشاہ رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ
پیر محمدامیرسلطان قادری چشتی قادری کی تالیف گلستان ِاولیاء حصہ دوم سے

اسم شریف :
آپ کا نام نامی اسم گرامی سید حسن ہے مختلف ممالک میں آپ مختلف ناموں سے مشہور ہیں ۔ برصغیر ہند و پاکستان میں آپ کو سید حسن ، علاقہ ہائے کشمیر و پونچھ میں شاہ ابوالحسن اور صوبہ سرحد میں سید حسن بادشاہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اہل پشاور آپ کو از راہ مؤخر الذکر نام حضور کی اس نسبت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو آپ کو حضرت غوث اعظم رحمة اﷲ علیہ کی ذات بابرکات سے ہے ۔
نسب :
آپ کا نسب چودہ واسطوں کے بعد قطب الدائرہ حضرت سید عبدالرزاق بن سید محبوب سبحانی غوثِ اعظم سید عبدالقادر جیلانی رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ تک پہنچتا ہے اور پھر تیرہ واسطوں سے مظہر العجائب و الغرائب حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم تک منتہی ہوتا ہے ۔
ولادت :
آپ جمادی الآخر ١٠٢٣ ھ ٹھٹھہ (سندھ) کے مقام پر عارف کامل عالم اجل حضرت سید عبداﷲ المشہور '' صحابی رسول'' کے ہاں کتم عدم سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے ۔
جناب سید عبداﷲ صحابی رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ ''حما'' سے بغرض تبلیغ و سیاحت سندھ تشریف لائے تھے ( حضرت سید عبداﷲ کا اسم گرامی''شجرہ قادریہ محمودیہ'' میں موجود ہے ۔ مزید تفصیل کیلئے راقم الحروف کی کتاب ''روح المعارف '' کا مطالعہ فرمائیں)۔ جناب سید عبداﷲ رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ نے سلسلہ رشد و ہدایت جاری فرما کر اس سرزمین کو قرآن و حدیث سے منور فرمایا ۔ حضرت سید عبداﷲ کا مزار سندھ کے مشہور و معروف شہر ٹھٹھہ کے قبرستان مکلی میں ہے ۔ شجرۂ طریقت قادریہ محمودیہ میں آپ کا اسم گرامی روزانہ پڑھا جاتا ہے ۔
تعلیم و تربیت :
آپ کا گھر علم و حکمت اور تصوف و عرفانِ الٰہی کا درالعلوم تھا ۔ آپ کا ماحول یادِ الٰہی اور اتباعِ سنت نبوی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی نورانیت سے جگمگا رہا تھا ۔ اسی وجہ سے آپ نے اپنی خاندانی عظمت و شرافت علمی فضیلت سے وافر حصہ پایا ۔ آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی ۔ چونکہ آپ کا گھر علم و فضل اور فقر و طریقت کا گہوارہ تھا لہٰذ آپ نے چھوٹی عمر میں ہی (یعنی ١٦ برس کی عمر میں) جملہ علومِ درسیہ کی تکمیل کرلی ۔ ١٧ برس کی عمر میں درس و تدریس کا کام سنبھالا ۔ اس کے ساتھ ساتھ منازل سلوک و تصوف طے کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ جناب سید غلام صاحب رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔
'' تربیت از پدرِ مشفق خود بے حد یا فتند زیر سایہ لطف ایشاں معرفت حاصل نمودند و درجہ اجتہاد رسیدند''
مؤرخ کشمیر مفتی سید محمد شاہ صاحبِ سعادت ایک مرحمت نامہ میں تحریر فرماتے ہیں '' اپنے والد ماجد سید شاہ عبداﷲ صاحب سے روحانی تعلیمات کا سرمایہ حاصل کیا ۔
بیعت :
آپ اپنے والد محترم حضرت سید عبداﷲ رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے تھے ۔ آپ کے سلسلہ عالیہ قادریہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس سلسلہ کے ہر ایک فرد نے اپنے والد سے ہی فیض اور خرقۂ حلافت حاصل کیا اور تمام فیوض باطنی کا اکتساب کیا ۔اس سلسلہ طیبہ کے سب کے سب افراد صاحبِ ولایت تھے اور استقامت فی الدین میں درجۂ کمال تک پہنچے ہوئے تھے ۔ دینوی لحاظ سے بھی ایک بلند اخلاق ، صاحبِ عزت و شرافت شہری تھے ۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے لے کر سید حسن صاحب اور ان کے بعد اب تک سب کے سب افراد بفضلہ تعالیٰ عالم ، فاضل ، مبلغ اسلام اور صاحب کرامت تھے اور آج تک ان کے مزارات ان کی پاکیزہ زندگی اور عظمت کے شاہد ہیں جہاں ہر وقت تلاوت قرآن مجید درود شریف اور یاد الٰہی ہوتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ عالیہ اسی طرح اﷲ کے فضل و کرم اور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی برکت سے اس وقت تک جاری ہے ۔
مجاہد ہ و تزکیہ:
والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ ذکر ، فکر ، مراقبہ ، ریاضاتِ نفس اور مکمل خلوت میں مصروف تھے کہ یکایک آپ کی طبیعت میں وحشت و نفرت پیداہوئی ۔ حضرت امام الطریقت سید شاہ محمد غوث رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ صاحبِ تحریر فرماتے ہیں کہ والد گرامی سید حسن صاحب فرماتے ہیں ۔
''دلم از انسِ انسان وحشتِ کلی گرفت ، و از خویش و بیگانہ نفرت محض پذیر فت''
اس کے بعد کیا ہوا ۔ آپ فرماتے ہیں ۔
''پس بعزم ریاضات و مجاہدات در جزائر شور رفتم و ہست سالہ چلہ کشیدم ، تا سترِ عورت تمام شب درمیان آب می استادم و روزانہ بر کنارِ آب می نشستم و قوتم از برگ درختاں بود کہ خود می ریختند ''
یعنی آپ ریاضت و مجاہدہ کے لئے دریائے شور تشریف لے گئے اور مسلسل سات برس کا جلہ کاٹا ۔ رات سترِ عورت تک اس پانی میں گزارتے اور تمام دن اس پانی کے کنارے بیٹھے رہتے ۔ آپ کی غذا درختوں کے پتے تھے ۔ جو خود بخود گرتے تھے شاہ محمد غوث رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ رسالہ '' در کسب سلوک و طریقت '' میں تحریر فرماتے ہیں ۔
'' دو اکثر بلاد خدمتِ بزرگان در خلوت و اربعین نشستہ فائد حاصل نمودند''
یعنی اکثر شہروں میں بزرگان کرام کی خدمت میں رہ کر چلے کاٹے اور فوائد حاصل کئے ۔
سفر:
اپنے آبائے کرام کی سنت کے مطابق جب آپ کمالات ظاہری و باطنی سے مزین ہوگئے تو تبلیغ اسلام کے لئے ہندوستان کے کونے کونے میں پھرنے کے لئے نکلے ۔ ایک ایسے وقت میں آپ نے یہ تبلیغی سفر اختیار کیا جبکہ مسافر کو آج کی سہولتیں میسر نہ تھی ۔ تقریباً تمام سفر پیدل کیا ۔ اثناء سفر ہر قسم کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور پھر یہ کہ یہ سفر کسی دنیاوی لالچ یا طمع کے لئے نہ تھا بلکہ تبلیغ اسلام ، تلاش حق ، اشاعت سنتِ نبوی اور یادِ الٰہی کے لئے تھا اس سفر میں آپ کے چھوٹے بھائی ابوالمکارم حضرت شاہ محمد فاضل خنیاری بھی آپ کے ہمراہ تھے ۔ اس سفر میں کن کن بے دین اور بد اخلاق لوگوں سے آپ کا واسطہ پڑا ۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ جس علاقہ میں بھی ہم تبلیغ کے لئے گئے وہاں ۔
'' بغیر از کفر و بت پرستی بوئے از دین و آئین در آں سرزمین نہ بود''
یعنی سوائے کفر اور بت پرستی کے اس سرزمین کا دین و آئین نہ تھا ۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ تاریکی میں روشنی کی ضرورت ہوتی ہے خشک اور بنجر زمین کو پانی کی اشد ترین حاجت ہوتی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ اور مقبول بندوں کا وجود بوجہ یادالٰہی کے نور اور رحمت ہوتا ہے جہاں بھی ایسے بابرکات حضرات پہنچتے ہیں وہاں سے تاریکیوں کے بدل چھٹ جاتے ہیں کفر اور معصیت کا دور ختم ہوجاتا ہے ان حضرات کے وجود باجود کی برکت سے اس وطن کے رہنے والوں کو رحمت الٰہی اپنی آغوش میں لے لیتی ہے وہی سرزمین جہاں کفر اور بت پرستی کا دور دورہ تھا آپ وہاں تبلیغ کے کام کرتے تھے ۔ نتیجہ کے طور پر ہزار ہا لوگ آپ کے دست حق پرست پر توبہ کرکے داخل اسلام ہوئے۔ وہ مقام جہاں اﷲ جل جلالہ کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا اس کے حبیب صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور اوصاف حمیدہ سے کوئی واقف نہ تھا ۔ عدل و انصاف کا نام تک نہ تھا ۔ وہاں پر تھوڑی مدت میں آپ کی کوششوں سے اسلام کو اتنی ترقی ہوئی کہ ہزاروں لوگ مسلمان ہوگئے ۔ مساجد تعمیر کی گئیں ۔ آپ نے جہاں پر بھی تبلیغ کی نہایت ہی منظم طریقہ پر کی ۔ مساجد بنا کر باقاعدہ قرآن مجید کی تعلیم اور تبلیغ کی ایک جماعت کا اہتمام کرتے صرف کاٹھیا وارڑ اور گجرات کے علاقہ میں دو سو پچاس مسجدیں تعمیر کیں اور پانچ خلفاء مقرر کئے جو باقاعدہ اپنی تبلیغی جماعت کے ساتھ دورہ کرکے '' امر باالمعروف اور نہی عن المنکر '' کرتے تھے ان کے مواعظ و نصیحت کا مرکزی نقطہ ''صدق مقال'' اور '' اکل حلال '' ہوتا ۔ گجرات سے ہوتے ہوئے ''شاہ جہاں آباد '' تشریف لائے وہاں بھی اسی نہج سے تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں اور مخلوق خدا کو اﷲ جل جلالہ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا راستہ بتاتے رہے ۔ غرضیکہ تبلیغ کرتے کرتے پنجاب پہنچے ۔ لاہور میں قیام فرمایا مگر وہاں آپ مستقل نہ ٹھہر سکے اور ٹھہر بھی نہیں سکتے تھے جبکہ آپ کو سرکارِ بغداد سید شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف سے پشاور میں رہ کر کشمیر ، ہزارہ ، کابل ، غزنی اور ہرات تک تبلیغ کرنے کا حکم تھا اس تمام علاقہ میں سلسلہ عالیہ قادریہ کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کروانی تھی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ورودِ پشاور : ١٠٨٢ ہجری میں آپ پشاور پہنچے ، پشاور سے ایک میل کے فاصلہ پر ایک قصبہ (سلطان پور کے نام سے موسوم تھا ، اس کو حلقہ بگرام کہتے تھے ) میں قیام کیا ۔
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ نے آپ کو امر فرمایا کہ '' اے بیٹا یہ تیرے رہنے کی جگہ ہے ۔ یہاں اقامت اختیار کرو آپ کو جناب سرکار بغداد نے اپنے عصا سے بتایا کہ اس جگہ مسجد اس جگہ مکان اور یہ تمہاری قبر ہوگی ۔ اﷲ جل جلالہ کو اپنے ہر کام میں کار روا اور مشکل کشا جان کیونکہ وہی اس قابل ہے اور جو کچھ میں نے بتایا ہے خود بخود ہو جائے گا ۔
آپ صبح کو اٹھے ، اذان دی ، نماز پڑھی ، فرماتے ہیں ۔ پٹھانوں کے بڑے بڑے سردار اور ارباب آنے لگے ۔ مخلوق خدا کا اژدھام ہوگیا ۔ آپ نے تبلیغ کا کام شروع کردیا ۔ لنگری جاری کردیا ۔ جس جس جگہ سرکارِ بغداد نے تعمیر کی جگہیں بتائی تھیں وہاں پر لوگوں نے خود بخود تعمیر شروع کردی جو بھی آتا اپنی قسمت اور قابلیت کے مطابق معرفتِ الٰہی حاصل کرتا اور نجات اخروی پاتا ۔
سفرِ کشمیر : چونکہ تمام علاقوں میں آپ نے تبلیغ کا کام کرنا تھا لہٰذا آپ نے اس تمام علاقہ کا مرکز پشاور کو بنایا اور تبلیغی سفر کیلئے نکلے آپ نے ١٠٨٩ ہجری میں جناب عنایت اﷲ صاحب گجراتی (پنجاب ) کو صاحبِ مجاز کرکے یہاں کی خانقاہ کی تعلیم و تربیت کا تمام کام سپرد کیا اور خود براستہ دھمتوڑ پکھلی ، ہزارہ ، کشمیر روانہ ہوئے ۔
جناب مؤرخ کشمیر مفتی سعادت صاحب فرماتے ہیں کہ '' آپ نے ١٠٩١ ہجری میں کشمیر پہنچ کر تشنگانِ ہدایت کو علومِ باطنی سے سیراب کیا ۔ خواجہ عبدالرحیم قادری ، میر افضل اندرابی ، شاہ عنایت اﷲ قادری وغیرہم حاضر ہو کر آپ کی توجہات اور فیوضِ رحمت سے بہرہ اندز ہوئے ۔ جناب حضرت علامۂ وقت محمد افضل صاحب نے مرید ہو کر خلافت بھی حاصل کی ۔ اس سفر میں بھی حضرت ابوالمکارم شاہ محمد فاضل رحمة اﷲ تعالیٰ ہم رکاب تھے ۔ بقول سید غلام رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ آپ چھ ماہ کشمیر رہے ۔ تبلیغ ، سخاوت ، بحشش کا طریقہ جاری رکھا لنگر جاری کیا ۔ سینکڑوں غربائ، فقرائ، عاجز ، مسافر اور بے وسیلہ لوگوں کی خدمت کی ۔ خواجہ بہاؤالدین اپنی کتاب بنام غوثیہ شریف میں فرماتے ہیں کہ آپ کے لنگر سے چھ سو آدمی روزانہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے اور جو مفلوک الحال ہوتے ان کو کپڑا بھی عنایت فرماتے ۔ آپ کا اپنا ارشاد ہے کہ '' اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر اتنی نوازشیں کی ہیں اور اس قدر دولت مرحمت فرمائی ہے کہ اگر دنیا کے لوگ جمع ہو کر مجھ سے نفقہ طلب کریں تو سب کو دوں اور کسی قسم کی کمی نہ ہو ''
آپ کے اس جود و عطا کو دیکھ کر صاحبِ تاریخ اعظمی (کشمیر ) فرماتے ہیں
'' باوجود ازیں قلیل البضاعت احتیاج استکشاف نبود ''
آپ کی بے لوث تبلیغ اسلام اشاعت سنت رسول انام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ، یادِ الٰہی ، خدمتِ فقراء اور زہد و ریاضت کی شہرت اتنی عام ہوئی کہ ہر طرف سے لوگ جوق در جوق آنے لگے چھ ماہ کے بعد آپ نے واپسی کا قصد فرمایا ۔ اپنی جگہ اپنے چھوٹے بھائی حضرت ابوالمکارم سید شاہ محمد فاضل رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ کو خلافت عطا فرما کر کشمیر میں مریدین کی تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے لئے مقرر فرما کر پشاور واپس ہوئے ۔
سفرِ کابل : کشمیر سے واپس پشاور پہنچ کر چند ماہ آرام فرمایا اور پھر کابل کے منفرد کا ارادہ فرمایا ۔ آپ نے کابل کا سفر تین بار کیا ۔ ان تینوں سفروں میں صوفیاء ، علماء ، مشائخ اور فقراء سے ملتے رہے ہزار ہا تشنگان ہدایت کو سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت کرکے عرفانِ الٰہی سے سیراب کیا ۔ گورنر کابل امیر خان سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے ۔ دوسری بار گورنر کابل امیر خان کی دعوت پر کابل تشریف لے گئے آپ نے تمام حکام کو جمع کرکے ان کو وعظ و نصیحت فرمائی ۔ شریعت اسلامیہ کی پابندی ، غریبوں مسکینوں کے حقوق کی حفاظت ، خصوصیت کے ساتھ غریب اور نادار طالب علموں کی اعانت کی ترغیب دی ، بیواؤں اور یتیموں کے وظائف ان حکام سے مقرر فرمائے ۔
آپ نے کابل میں بھی لنگر جاری رکھا ۔ آپ غزنی ، ہرات اور دور دراز مقامات پر بغرض تبلیغ تشریف لے گئے ۔ تیسرا سفر بالکل تنہائی کا تھا ۔ اس سفر میں ان حضرات سے ملے جو منتہی سالک تھے اور جن کا مقصد اعلیٰ مقامات اور مدارج علیا طے کرنا تھا ۔ یہ سفر چند دنوں کا تھا ۔ غرضیکہ ان تمام سفروں میں آپ نے انتہائی پختہ عزم و یقین کے ساتھ تبلیغ اسلام فرمائی اور قرآن مجید کی تعلیم عام کی ۔ اشاعت سنت نبوی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لئے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا اور سلسلہ عالیہ قادریہ کو اس عروج و کمال تک پہنچایا کہ آج جبکہ سینکڑوں برس آپ کو بیت چکے ہیں سرزمین سرحد ، پنجاب، افغانستان اور کشمیر کے گوشہ گوشہ میں آپ کی روحانی تعلیم کے چشمے ابل رہے ہیں اور لوگ ان سے فیضیاب ہو رہے ہیں ۔
شادی : پشاور شہر کے قریب بطرف مغرب ایک گاؤں کوٹلہ محسن خان کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کے ایک بڑے خان نے جس کو وہ '' ارباب'' کہتے ہیں ۔ اپنی صاحبزادی کی پیش کش کی ۔ آپ نے قبول فرمایا اس کے بطن سے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹا عطا فرمایا جو اپنے وقت کا محدثِ جلیل ، فقیہہ اعظم شیخ الشیوخ بنا ۔ ان کا نام سید زین العابدین تھا ۔ (آپ کا مزار حویلیاں ہزارہ کے محلہ سلطان پور میں واقع ہے آپ کی وفات ١١٦٩ ہجری میں ہوئی ۔ راقم الحروم کو کئی بار آپ کے مزار پاک پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ )
آپ کی دوسری شادی عظیم المرتبت ولی اﷲ غوث خراسان حضرت سید علی ترمذی المعروف پیر بابا رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ کے گھرانے میں ہوئی ۔ بقول صاحب خزینة الاصفیاء '' در طاعت و عبادت رابعہ عصر بود ''
اس کے بطن سے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹے عنایت فرمائے ایک حضرت علامۂ اجل ، محدث اعظم، عارف باﷲ شارح صحیح البخاری حضرت سید شاہ محمد غوث رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ پشاوری ، لاہور آپ کا مزار اقدس لاہور میں بیرون دہلی دروازہ میونسپل لائبریری کے پاس سرکلر روڈ اور نئی سڑک کے درمیان ہے ۔ پہلے یہ نہایت عظیم الشان تھا ۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد کنور نہال سنگھ نے حکم دیا کہ فصیل لاہور سے آدھ آدھ میل باہر شہر کی چاروں اطراف میں میدان صاف کر دیا جائے عمارت منہدم کر دی جائیں چنانچہ جب موسیولارڈ فرانسیسی کی نگرانی میں کام شروع ہوا تو سب سے پہلا نشانہ حضرت شاہ محمد غوث قادری رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ کا مقبرہ بنا ۔ مزار کی مسجد منہدم کر دی گئی اور اندرونی اور بیرونی چار دیواری بھی مسمار کردی گئی جس سے مسلمانوں میں سخت بے چینی پھیلی ۔ اس رات کنور نونہال سنگھ شاہی قلعہ سے باہر آرہا تھا کہ قلعہ کی دروازہ کی منڈیر اوپر گر جانے سے مارا گیا ۔ تمام شہر میں شور مچ گیا کہ حضرت شاہ محمد غوث گیلانی قادری رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ کے روضہ سے بدسلوکی کرنے پر اس کا یہ حشر ہوا ۔ فی الفور دوبارہ عمارات بننی شروع ہوئیں اور پھر وہی رونق ہوگئی ۔
وفات :حضرت قطب الاقطاب ، سلطان العارفین ، غوثِ زماں ابوالبرکات حضرت سید حسن بادشاہ گیلانی قادری رحمة اﷲ تعالیٰ علیہ نے بروز جمعة المبارک بتاریخ ٢١ ذی قعد ١١١٥ ہجری بوقت عصر وفات پائی ۔ انا للہِ و انا الیہِ راجعون۔ آپ کا مزار اقدس یکہ توت پشاور میںمرجع خلائق ہے ۔
 
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381400 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.