آقائے دو جہاںحضرت محمد
مصطفےٰ ﷺ حسب و نسب کی شرافت اور زمانہ وجائے پیدائش کی عظمت کے لحاظ سے
کائنات میں ممتاز و معزز ترین حیثیت رکھتے ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں حضرت
محمد مصطفےٰﷺ نے فرمایا:”بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو
مجھے بہتر لوگوں اور بہتر زمانے میں رکھا اور سارے قبیلوں میں سب سے بہتر
قبیلے اور سارے گھروں میں سب سے بہتر گھر میں پیدا فرمایا تو میں ذاتی طور
پر اور گھر کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہوں ۔“(شفاءشریف جلد 1 صفحہ145)
مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بے مثال رسول کے حسب و
نسب ،زمانہ اور جائے پیدائےش کو بھی بے مثال بنایا ۔
چنانچہ آپ کے والدین کریمین سے لے کر حضرت آدم و حوا علیہما السلام تک تمام
آباﺅاجداداور ا ُمہات کو اللہ تعالیٰ نے زنا و فحاشی اور کفر و شرک سے
محفوظ رکھا بلکہ سب کے سب مومن و موحد یعنی توحید پرست تھے ۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
اپنے طرف اشارہ کر کے فرمایا:” بے شک یہ قریشی نبی حضرت آدم علیہ السلام کی
پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بارگاہ خدا میں نور تھا ،یہ نور اللہ کی تسبیح
بیان کرتا تو فرشتے بھی ان کی تسبیح کیساتھ تسبیح بیان کرتے ۔جب اللہ
تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو یہ نور ان کے صلب میں
رکھا ۔پھررسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے صلب آدم میں رکھ کر
زمین پر اُتارا۔ پھر صلب نوح علیہ السلام میں حتیٰ کہ صلب ابراہیم علیہ
السلام میں ڈالا ،پھر اللہ تعالیٰ اصلاب کریمہ اور ارحام طاہرہ میں مجھے
منتقل فرماتا رہا یہاں تک کہ مجھے میرے والدین کریمین سے پیدا فرمایا اور
میرے آباﺅ اجداد کبھی زنا کے قریب بھی نہ گئے ۔“(کتاب الشفاءجلد1)
اس حدیث پاک سے جہاں اس بات پر صراحت کیساتھ روشنی پڑتی ہے کہ آپ کے آباﺅ
اجداد زنا سے پاک تھے ،وہیں اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ وہ حضرات مومن و
موحد تھے کیونکہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے خود ارشاد فرمایا! کہ
میں معزز صلبوں اور پاک رحموں سے منتقل ہوتا ہوا آیا ہوں اور ظاہر ہے کہ
کفار و مشرکین کو پلید ہونے کی وجہ سے یہ شرف حاصل نہیں کیونکہ قرآن نے بھی
ان کو نجس کہا ہے ۔اِنَّمَا المُشرِکُوَ نَجَس۔”بیشک مشرک نجس ہیں۔“
یعنی ان کا باطن خبیث ہے اور وہ نہ طہارت کرتے ہیں نہ نجاستوں سے بچتے
ہیں۔(پارہ 10رکوع 10)
تو جب مشرکین کو قرآن پاک نے ناپاک کہا ہے تو پھر ان پر معزز اور طاہر ہونے
کا اطلاق کیسے درست ہو سکتا ہے ؟
اس حدیث پاک کی تائید میں اور بھی احادیث کریمہ ہیں ۔حضرت سیدناعبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے
فرمایا:”میں زمانہ جاہلیت کی کسی برائی سے متولد نہیں ہوا ہوں، میں ہمیشہ
اسلامی نکاح سے ہی پیدا ہوا ہوں۔“(بیہقی)
چونکہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ جاہل او ربے وقوف قسم کے لوگ اپنی
بیویوں کو شرفا کے پاس بھیجتے تھے تاکہ وہ ان کے نطفے سے حاملہ ہوں اور
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی عورت کسی مرد سے مدتوں زنا کرتی رہتی پھر عرصہ
دراز کے بعد وہ اس سے نکاح کر لیتی تھی ۔(مدارج النبوة جلد2)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”اس طرح کی برائی کے ذریعہ متولد ہونے سے میں پاک
وصاف ہوں۔“
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے مجھے
ہمیشہ اصلاب طیبہ سے ارحام طاہرہ مصفا و مہذبہ میں منتقل فرمایا۔ ان میں جب
بھی دو قبیلے بنتے تو مجھے ان میں بہتر قبیلے میں رکھا جاتا۔“(مدارج النبوة
جلد2)
ایک اور حدیث میں اس طرح ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:” میں ہمیشہ پاک
مردوں کی پاک پستوں اور پاک عورتوں کے پاک رحموں سے منتقل ہوتا ہوا تشریف
لایا ہوں۔“(تفسیر کبیر جلد 2)
مذکورہ احادیث کریمہ سے اس وضاحت میں کوئی کمی نہیں رہ جاتی کہ حضور اکرم ﷺ
کے تمام اجداد زنا اور کفر و شرک سے پاک تھے ۔ لہٰذا آذر کے شرک کو لے کر
اعتراض کرنا صحیح نہیں کیونکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ نہیں
بلکہ چچا تھے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تارخ تھے ۔ “(حاشیہ جلالین
پارہ7)
آذر کو قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اب اس لئے کہا گیا کہ
عرب میں اب کا اطلاق باپ کے علاوہ چچا پربھی ہوتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَلَا تَنکِحُوا مَا نَکَحَ اٰبَآ ئُ کُم۔”اور باپ
دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو۔“(پارہ 4رکوع 14)
تو اس جگہ آباءسے مراد سارے اصول ہیں۔ایک اور ارشاد ہے :قَالُوا نَعبُدُ
اِلٰھَکَ وَ اِلٰہَ اٰبَائِکَ اِبرَاھِیمَ وَ اِسمَا عِیلَ وَاِسحٰقَ
اِلٰھًا وَّاحِدًا۔”بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا ہے آپ کا اور آپ کے
آباءابراہیم و اسماعیل و اسحاق کا ایک خدا ۔“(پارہ 1رکوع 14)
تو اس آیت کریمہ میں آبا سے چچا بھی مراد ہے کیونکہ حضرت اسماعیل علیہ
السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے چچا تھے ۔
چنانچہ قرآن حکیم میں چچا ہونے کے لحاظ سے آذر پر اب کا اطلاق کیا گیا ہے
۔اس پر چند دلیلیں یہ ہیں:
1۔اگر آذر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ کہا جائے تو حضور اکرم ﷺ کے
نسب شریف میں مشرک کی شمولیت ہو جائے گی جبکہ حضور سید المرسلین ﷺ کا فرمان
گذر چکا ہے کہ میں ہمیشہ پاک صلبوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوتا رہا
ہوں۔
2۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والدین کریمین کی مغفرت کے لئے دعا کی
جو قبول کی گئی ،کیونکہ اس دعا کی تردید مذکور نہیں ہے جو قبولیت کی دلیل
ہے ۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اس طرح بیان کی گئی ہے
:رَبَّنَا اغفِرلِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلمُومِنِینَ یَومَ یَقُومُ
الحِسَاب۔”اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو اور سب مسلمانوں کو
جس دن حساب قائم ہو گا۔“(پارہ 13رکوع 16)
اور آذر کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اس طرح مذکور ہے
:وَاغفِرلِاَ بِی اِنَّہ کَانَ مِنَ الضَّآلِین۔”اور میرے باپ کو بخش دے
بیشک وہ گمراہ ہے ۔“(پارہ 19رکوع 9)
تو اس دعا کی تردید کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَمَا کَانَ
اِستِغفَارُ اِبرَاہِیمَ لِاَ بِیہِ اِلَّا عَن مَّوعِدَةٍ وَّعَدَھَا
اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ اِنَّہ عَدُوَّ لِّلّٰہِ تَبَرَّ اَ
مِنہُ۔”اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے
کے سبب جو اس سے کر چکا تھا ،پھر جب ابراہیم کو کھل چکا کہ وہ اللہ کا دشمن
ہے تو اس سے بیزار ہو گئے ۔“(پارہ 11رکوع 3)
تو آذر کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی تردید بتا رہی ہے کہ وہ
آپ کا باپ نہیں بلکہ چچا تھا کیونکہ حضرت ابراہیم کی دعا اپنے والدین
کریمین کے لئے تو قبول ہو گئی تھی ۔
3۔فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض قاریوں نے
”لَقَد جَآئَ کُم رَسُول مِّن اَنفُسِکُم“میں فاکو فتحہ کیساتھ پڑھا ہے
۔(تفسیر روح البیان ،کتاب الشفاءجلد 1صفحہ39)
تو اگر ”اَنفُسَکُم “کے فا کو فتحہ کیساتھ پڑھا جائے تو یہ مدح و ثناءکی
انتہا ہے کیونکہ مطلب یہ ہو گا کہ رسول نفیس ترین جماعت سے پیدا ہوئے ۔
یہ قرات بتا رہی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لےکرحضرت عبد اللہ رضی اللہ
عنہ تک سارے لوگ نفیس تھے کوئی خسیس نہ تھا اور کافر خسیس ہوتا ہے ۔تو آذر
جو کافر و مشرک تھاحضور سید الطاہرین ﷺکے طیب و طاہر نسب میں کیسے آسکتا ہے
؟
4:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آذر سے سخت الفاظ میں خطاب فرمایا تھا حضرت
ابراہیم علیہ السلام کا کلام جسے رب تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نقل فرمایا ہے
۔اس کا ترجمہ یہ ہے ::” اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آذر سے کہا،کیا
تم بتوں کو خدا بناتے ہو؟بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں
پاتا ہوں ۔“(پارہ 7رکوع 15)
تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ سخت گفتگو بتا رہی ہے کہ آذر آپ کا باپ
نہیں کیونکہ ماں باپ اگر چہ کافر ہوں مگر ان سے گفتگو نرم اور تبلیغ نرمی
سے کرنی چاہئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :فَلَا تَقُل لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنھَر ھُمَا
وَقُل لَّھُمَا قَولًا کَرِیمًا۔”تو ان سے ”ہوں“ نہ کہنا اور انہیں نہ
جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔“(پارہ 15رکوع 3)
مذکورہ بیانات سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا
باپ نہیں بلکہ چچا تھا ۔لہٰذا آذر کے شرک کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ کے تمام
آباﺅ اجداد کے مومن و موحد ہونے پر ہر گز اعتراض نہ ہو گااور حضور اکرم ﷺ
کو اپنی والدہ مکرمہ کے لئے استغفار کی اجازت نہ ہونا معاذ اللہ ان کے کفر
کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس سے گناہوں سے پاک ہونے کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے
۔کیونکہ غیر نبی کے لئے استغفار کرنے سے گناہوں کا وہم پیدا ہوتا ہے اور
چونکہ حضور اکرم ﷺ کے والدین کریم ایسے زمانہ میں تھے جو نبی سے خالی تھا
اس لئے ان کی نجات کے لئے صرف رب تعالیٰ کی واحدنیت کا اعتقاد ہی کافی تھا
۔کوئی شریعت اس وقت موجود نہ تھی جس کی پابندی نہ کرنے سے گناہ ہوتا تو
حضور اکرم ﷺ کو ان کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا گیا تاکہ ان کی طرف
گناہوں کا وہم نہ چلا جائے ۔
حضور اکرم ﷺ کا اپنے والدین کریمین کو زندہ کرنے کے بعد کلمہ پڑھانا بھی اس
لئے نہ تھا کہ معاذ اللہ ان کی موت کفر پر واقع ہوئی تھی بلکہ ان کو مرتبہ
صحابیت پر فائز کرنے کے لئے آپ نے کلمہ پڑھایا تاکہ آپ پر ایمان لانے کی
فضیلت بھی انہیں حاصل ہو جائے ۔
اور فقہ اکبر کی عبارتوں ”ما تا علی الکفر “ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے والدین
کریمین کی موت کفر کے زمانہ میں واقع ہوئی ۔اصل میں ”ماتا علی عھد الکفر“
ہے اور ملا علی قاری جو حضور اکرم ﷺ کے والدین کے کفر کے قائل تھے اخیر عمر
میں انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا ۔جیسا کہ حاشیہ نبر اس میں
صفحہ526پر ہے :و نقل توبتہ عن ذالک۔یعنی ”اس قول سے ان کی توبہ نقل کی گئی
ہے ۔“(مقالات کاظمی)
معلوم ہوا کہ آپ کے تمام آباﺅ اجداد کفر و شرک اور زنا کی برائی سے بالکل
پاک و صاف تھے ۔
معزز قارئین! اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی بھی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان سب
میں سب سے زیادہ ارفع و اعلیٰ حضور اکرم ﷺ کی ولادت طیبہ ہے کیونکہ اگر آپ
کی تخلیق نہ ہوتی تو کائنات کو وجود نہ ملتا ۔
جیسا کہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ فرماتے ہیں :”اللہ تعالیٰ نے
فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! اگر آپ کی تخلیق فرمانا مقصود نہ
ہوتا تو میں زمین و آسمان کو نہ بناتا اور مجھے عزت و جلال کی قسم! اگر آپ
کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں جنت و دوزخ کو بھی نہ بناتا۔“(نزہة
المجالس حصہ دوم)
چونکہ حضور اکرم ﷺ کی ولادت طیبہ سب سے عظیم نعمت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ
اپنی اس عظیم نعمت کی وجہ سے مومنین پر احسان جتلا رہا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :لَقَد مَنَّ اللّٰہُ عَلَی المُومِنِینَ اِذ بَعَثَ
فِیھِم رَسُولًا مِّن اَنفُسِھِم۔”بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر
کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ۔“
حضور اکرم ﷺ کی تخلیق کی کیفیت حضرت عبد الرحمن صفوری رحمة اللہ علیہ نے اس
طرح تحریر کی ہے کہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو بنانا چاہا اور زمین کو پست اور آسمان کو
بلند کرنا منظور ہوا تو اپنے نور پاک سے ایک نور لیا اور یہ نور پاک عرشِ
اعظم کا طواف کرتے ہوئے اللہ کے ذکر میں مصروف رہا ، پھر جب حضرت آدم علیہ
السلام کو وجود بخشا گیا تو آپ ﷺ کا نور پاک حضرت آدم علیہ السلام کی پشت
مبارک میں ڈال دیا گیا تو فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے پیچھے صف باندھ کر
کھڑے ہو گئے او ر نورِ مصطفےٰ ﷺ کی زیارت کرنے لگے ۔حضرت آدم علیہ السلام
نے عرض کی مولیٰ ! فرشتے میرے پیچھے کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟ ارشاد ہوا نورِ
مصطفےٰ ﷺ کی زیارت کر رہے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی مولیٰ ! اس
نور پاک کو میری پیشانی میں ڈال دے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی درخواست
فوراً قبول ہوئی اوراللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کے نور پاک کو ان کی
پیشانی میں ڈال دیا تو فرشتے آپ کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر نور پاک کی
زیارت کرنے لگے اور درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے لگے ۔حضرت آدم علیہ
السلام نے پھر التجا کی مولیٰ ! مجھے اس نور پاک کی زیارت سے مشرف کر ا تو
اللہ تعالیٰ نے آپ کی شہادت کی اُنگلی میں نور پاک کو چمکا دیا ۔ چنانچہ
حضرت آدم علیہ السلام نے اس نور پاک کی زیارت کی اور پکا راُٹھے”اَشھَدُ
اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ
اللّٰہ ۔“(نزہة المجالس حصہ دوم)
پھر یہ نور پاک حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی میں جلوہ گر
ہوا تو آپ کے حسن و جمال کا حال یہ تھا کہ قریش کی تمام حسین عورتیں آپ سے
نکاح کی خواہش مند تھیں ۔ایک مرتبہ بنی اسد کی ایک عورت خانہ کعبہ کے پاس
کھڑی تھی ۔جب آپ اس کے قریب سے گزرے اور اس کی نگاہ آپ کے حسن و جمال پہ
پڑی تو آپ پر دل و جان سے فریفتہ ہو گئی اور کہنے لگی وہ سو اُونٹ جو آپ کے
فدیہ میں قربان کئے گئے ہیں وہ سب اونٹ میں آپ کو پیش کر دوں گی ۔اس میں
اشارہ تھا کہ آپ مجھ سے نکاح کر لیں ۔تو حضرت عبد اللہ کو اس پر شرم آئی
اور آپ انکار کر کے چلے گئے ۔دوسرے دن ایک اور عورت نے جو علم کہانت میں
ماہر اور بڑی مالدار تھی ،اس نے بھی اپنے مال کے ذریعہ حضرت عبد اللہ کو
ورغلانا چاہا اور اپنے قریب کرنا چاہا ۔ان عورتوں کے علاوہ اور بھی بہت سی
عورتیں آپ پر اپنا اثر چھوڑ نا چاہتی تھیں لیکن ساری کی ساری عورتیں ناکام
رہیں ۔اس لئے کہ جس نور پاک سے حضرت عبد اللہ کی پیشانی چمک رہی تھی اس کا
حضرت آمنہ کے حصہ میںآنا مقدر تھا تو کسی اور سے حضرت عبد اللہ کا نکاح
کیسے ہو سکتا تھا ؟ اس لئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح عمل میں
آ گیا اور اس کا سبب یہ بنا کہ ایک دن حضرت عبد اللہ شکار کے لئے تشریف لے
گئے تھے ملک شام کے یہودی چند علامتوں سے جان گئے کہ نبی آخرالزماںﷺ کے
والد ماجد یہی ہیں ۔ لہٰذا یہودیوں کی ایک بڑی جماعت تلوار لے کر حضرت عبد
اللہ کو قتل کرنے کے ارادہ سے ظاہر ہوئی ۔اس وقت حضور اکرم ﷺ کا نانا حضرت
وہب بھی جنگل میں موجود تھے ،انہوں نے دیکھا کہ چند سوار جن کی شکل و شباہت
دنیاوی لوگوں کے مشابہ نہ تھی ،غیب سے ظاہر ہوئے اور انہوں نے یہودیوں کو
فوراً بھگا دیا ۔
اس واقعہ کے بعد حضرت وہب حضرت عبد اللہ سے بڑی محبت کرنے لگے اور گھر آکر
گھر والوں کے سامنے حضرت آمنہ کا نکاح حضرت عبد اللہ سے کرنے کی خواہش ظاہر
کی اور پھر اپنے احباب کے ذریعہ پیغام نکاح حضرت عبد المطلب تک پہنچادیا ۔
حضرت عبد المطلب کو ایسی ہی لڑکی کی تلاش تھی جو حسب و نسب اور عفت و
پاکدامنی میں ممتاز ہو ۔حضرت آمنہ میں یہ صفات موجود تھیں اس لئے آپ نے یہ
پیغام قبول کر لیا ،پھر حضرت عبد اللہ کا نکاح حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا
کیساتھ کر دیا گیا ۔ آپ نے اسی شب مباشرت کی تو وہ نور پاک حضرت عبد اللہ
کی پشت مبارک سے منتقل ہو کر بطن آمنہ میں جلوہ فگن ہو گیا ۔
حضرت آمنہ کیساتھ مباشرت کرنے کے بعد جب حضرت عبد اللہ اسی عورت کے سامنے
سے گزرے تو اس نے آپکی پیشانی میں اس نور پاک کو نہ پایا اس لئے دریافت کیا
،کیا میرے پاس سے جانے کے بعد آپ نے کسی لڑکی سے صحبت کی ہے ؟ آپ نے فرمایا
ہاں! میں نے اپنی بیوی آمنہ بنت وہب سے زفاف کیا ہے تو اس عورت نے کہا مجھے
اب آپ سے کوئی غرض نہیں ہے ،میں تو آپکی پیشانی میں چمکنے والے نور مبارک
کی دیوانی اور خواستگار تھی ۔اب جب کہ وہ دوسرے کے حصہ میں چلا گیا ہے
تومجھے آپ سے کوئی کام نہیں ۔(مدارج النبوة جلد 2نزہة المجالس 2)
سرکار دو جہاں ﷺ کے نور پاک کو حضرت آمنہ کے بطن مبارک میں قرار پانے سے
ساری دنیا میں مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی ۔جیسا کہ حدیثوں میں مذکور ہے
کہ شب ولادت عالم ملائکہ میں اعلان کیا گیا کہ تمام دنیا کو پاکیزہ انوار
سے روشن و منور کیا جائے اور زمین و آسمان کے تمام فرشتے مسرت و شادمانی
میں جھوم جائیں اور داروغہ جنت کو حکم ہوا کہ فردوس اعلیٰ کو کھول دو اور
ساری دنیا کو خوشبوﺅں سے معطر کر دو اور زمین و آسمان کے ہر طبقہ اورمقام
میں یہ مژدہ سنا دو کہ نور محمد ﷺ آج کی رات رحم آمنہ رضی اللہ عنہا میں
قرار پا گیا ہے ۔(مدارج النبوة جلد 2)
پھرہر طرف خوشی ہی خوشی تھی لیکن شیطان لعین رنج و الم اور حزن و ملال میں
پڑ گیا اور کوہ ابو قبیس پر آ ہ و بکا کرنے میں مشغول ہو گیا ۔
اس کی اس اداسی سے متاثر ہو کر اس کے قریب شیاطین کی بھیڑ جمع ہو گئی اور
وہ اس سے پوچھنے لگے تم پر کون سی آفت و مصیبت آپڑی ہے جو اس قدر رنج و غم
میں ڈوبے ہوئے ہو؟
تو شیطان نے جواب دیا حضرت محمد ﷺ شکم مادر میں قرار پذیر ہو گئے ہیں ۔اللہ
تعالیٰ انہیں ننگی تلوار کیساتھ بھیجے گا وہ دوسرے دینوں کو ختم کر دیں گے
اور بتوں کا صفایا ہو جائے گا۔ (نزہة المجالس 2)
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :”ابھی آپ میرے شکم میں جلوہ فگن
تھے کہ ایک دفعہ مجھ سے ایسا نور نکلا جس سے سارا جہاں روشن ہو گیا اور میں
نے بصریٰ کے محلات دیکھ لئے ۔“(مدارج النبوة ، نزہة المجالس )
اور اسی طرح کا واقعہ پیدائش کے وقت بھی پیش آیا تھا ۔(مدارج النبوة)
یقینا اس روشنی سے اشارہ ملتا ہے کہ اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیل جائے
گا اور یہ عظیم رسول لوگوں کو تاریکی سے نکال کر اُجالے میں ڈال دیں گے ۔
پھر آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ 12ربیع الاول شریف دوشنبہ کے دن صبح
صادق کے وقت اس خاکدان گیتی پر جلوہ افروز ہوئے اور آپ کی ولادت طیبہ اس
مہینہ اور دن میں نہ ہوئی جو شرافت و بزرگی میں پہلے ہی شہرت رکھتا ہے
۔مثلاً محرم الحرام ،رجب المرجب ،شعبان المعظم ،رمضان المبارک اور یوم جمعہ
کیونکہ اس سے یہ وہم پیدا ہوسکتا تھاکہ اسی مہینہ اور اسی دن سے نسبت کی
بنیاد پر حضور اکرم ﷺکو شرافت و بزرگی ملی ہے ۔حالانکہ معاملہ برعکس ہے اس
لئے کہ حضور اکرم ﷺ کسی زمانے کی بنیاد پر نہیں بلکہ زمانے کو حضور اکرم ﷺ
سے نسبت کی بنیاد پر شرافت وبزرگی ملی ہے ۔
حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :جب آپ پیدا ہوئے تو میں نے
دیکھا کہ آپ ﷺ کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا ہے پھر ایک شخص نمودار ہوا جو
آپ کو کہیں لے گیا ۔اورتھوڑ ی دیر کے بعد لایا اور کہا ابھی ابھی یہ مشرق و
مغرب کی سیر کر کے آئے ہیں اور ابھی یہ اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام کے
پاس تھے تو انہوں نے آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور کہا کہ آپ
کو بشارت ہو کہ آج تک اولین و آخرین میں جتنے بچے پیدا ہوئے ہیں آپ سبھی کے
سردار ہیں اتنا کہہ کر وہ شخص غائب ہو گیا ۔
جبکہ حضرت عبد المطلب فرماتے ہیں شب ولادت میں طواف کعبہ میں مصروف تھا کہ
کیا دیکھتا ہوں کہ کعبہ مقام ابراہیم کی طرف سجدے میں جھک گیا ،تمام بت منہ
کے بل گر پڑے اور کعبہ سے تکبیر کی آواز آئی اور وہ کہنے لگا محمد ﷺ پیدا
ہو چکے ہیں اب میں بتوں سے پاک ہو جاﺅں گا اور اے جہان والو! حضرت آمنہ رضی
اللہ عنہا کے گھر محمد ﷺ جلوہ افروز ہو گئے ہیں اور ان پر ابر رحمت برس رہا
ہے ۔
حضرت عبد المطلب فرماتے ہیں یہ سنتے ہی میں حضرت آمنہ کے گھر آیا تو دیکھا
کہ حضور اکرم ﷺ کے کاشانہ اقدس پر بادل چھائے ہوئے ہیں میں حیرانگی کے عالم
میں اپنی انکھیں ملنے لگا اور اپنے آپ سے یہ کہہ رہا تھا کیا میں جاگ رہا
ہوں یا سو رہا ہوں، پھر میں نے آواز لگائی آمنہ دروازہ کھولئے انہوں نے
دروازہ کھولا تو مشک کی خوشبو آ رہی تھی میں نے پوچھا کیا معاملہ ہے فرمانے
لگیں محمد ﷺ پیدا ہوئے ہیں ۔(نزہة المجالس دوم )
جبکہ حضور اکرمﷺ کی ولادت پاک کی خوشی میں ابو لہب نے اپنی باندی کو آزاد
کر دیا تو اس کا اس کو یہ ثمر ملا کہ رب تعالیٰ نے اس کے عذاب میں تخفیف
پیدا کر دی ۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :
” ثوبیہ ابو لہب کی آزاد کر دہ باندی تھیں جب ابو لہب نے انہیں آزاد کر دیا
تو انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو دودھ پلایا ،پھر ابو لہب مر گیا تو اس کے بعض
اہل کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ بد ترین حالت میں ہے ۔انہوں نے ابو لہب
سے پوچھا تجھے کیا ملا تو انہیں ابو لہب نے جواب دیا تمہارے بعد مجھ کو
کوئی خیر نہیں ملا سوائے اس کے کہ اس کے ذریعہ سے مجھ کو پلایا جاتا ہے
ثوبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ۔“(بخاری شریف جلد 2صفحہ764)
یعنی جب حضور اکرم ﷺ کی ولادت طیبہ ہوئی تو ابو لہب کی باندی ثوبیہ خوشی
میں دوڑتی ہوئی گئی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی تو اس پر
خوش ہو کر ابو لہب نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا اور حکم سنایا کہ جاﺅ دودھ پلاﺅ
،جب ابو لہب مر گیا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے سال بھر کے بعد اس کو
خواب میں دیکھا ابو لہب نے کہا میں روزانہ عذاب میںہوں مگر ہر دو شنبہ کو
عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے اور اس اپنے انگوٹھے اور کلمے کی انگلی کے درمیان
ایک سوراخ کی طرح اشارہ کر کے کہا اس سے تھوڑا ساپانی مل جاتا ہے ۔“(حاشیہ
بخاری جلد 2)
یہ حدیث پاک میلاد مصطفےٰ ﷺ منانے والوں کے لئے بڑی قوی دلیل ہے کہ ابو لہب
جو کہ سخت قسم کا کافر تھا اور اس کی مذمت قرآن حکیم میں بیان کی گئی ہے
۔جب اس نے حضور اکرم ﷺ کی ولادت پر خوشی کا اظہار کیا تو دو شنبہ (پیر)کے
دن اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے تو اگر مسلمان صدق نیت سے حضور اکرم
ﷺ کی ولادت کی خوشی منائیں اور خوب مال و زر خرچ کریں تو پھر ان پر انعام و
اکرام کا کیا حال ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں والدین مصطفےٰ ﷺ کا احترام کرنے اور جشن عید میلاد النبی
ﷺ شرعی حدود میں رہ کر منانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین |