اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر دورد بھیجتے ہیں ۔ اے لوگو جو ایمان لائے
ہوتم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرارِ محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں
سلام اس پر وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اس پر جو امت کے لئے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر جو فرشِ خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر جس کی ذات فخر آدمیت ہے
سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہی دی
سلام اس پر کہ جس سنگ پاروں نے گواہی دی
سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اس پر کہ جو خود بدر کے میدان میں آیا
سلام اس ذات پر جس کے پریشاں حال دیوانے
سنا سکتے ہیں اب بھی خالدؓ و حیدرؓ کے افسانے
درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس ذکر سے سیری نہیں ہوتی
درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
دروداس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
درود اس پر جسے شمعِ شبستانِ ازل کہئے
درود اس پر ابد کی بزم کا جس کو کنول کہئے
درود اس پر بہار گلشنِ عالم میں جسے کہئے
درود اس ذات پر فخرِ بنی آدم جسے کہئے
رسول مجتبیٰ کہئے محمد مصطفیٰ کہئے
وہ جس کو ہادی دَع ما کَدَر خُز ماصَفا کہئے
درود اس پر کہ جو ماہر کی امیدوں کا ملجا ہے
درود اس پر کہ جس کا دونوں عالم میں سہارا ہے
آتش کدہ ایران میں آج ایک حیرت انگیز اور عجیب و غیرب واقعہ پیش آیا ہے اور
وہ یہ کہ اس آتش کدے میں ایک ہزار سال سے روشن آگ یکا یک بجھ گئی ہے اور
آتش کدے کے خادمین حیران ہیں کہ یہ کیونکر ہوا ہے۔ادھر سلطنتِ روم میں بھی
یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ قیصر روم کے محل کے کنگرے اچانک زمین بوس ہوگئے ہیں
اور لوگ حیرت زدہ ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ جبکہ مکے میں تو ان سب سے زیادہ
حیرت انگیز بات واقع ہوئی ہے کہ خانہ کعبہ میں موجود بت اچانک منہ کے بل
زمین پر آگرے ہیں۔12ربیع الاول کی تاریخ ہے اور دوشنبہ یعنی پیر کا دن ہے
سن عیسوی کے مطابق یہ 571ءہے اوراپریل کا مہینہ ہے۔اور یہ وہ مبارک دن ہے
کہ جس دن ہمارے نبی مہربان ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ |
|
اوپر بیان کئے گئے تمام واقعات کے ایک ہی دن واقع ہونے میں قدرت کی طرف سے
انسانوں کےلئے کئی پیغام پنہاں تھے۔آتش کدہ ایران کی آگ کا سرد ہونا اور
کعبے میں بتوں کا منہ کے بل گرنا اس بات کی علامت تھا کہ اب دنیا میں باطل
کا نظام اور جھوٹے خداﺅں کی خدائی کا دور لد گیا ہے، اب دنیا میں کفر کی
تاریکی کے بجائے توحید کا اجالا پھیلے گا ۔ جاءالحق و زھق الباطل ۔ حق آگیا
اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے کے لئے ہی تھا-
قیصر روم کے محل کے کنگروں کا گرنا اس امر کی نشاندہی کرتا تھا کہ سلطنتِ
روم کی حکمرانی کا دور اب ختم ہوا اور اب دنیا کی حکمرانی عرب کے صحرا نشین
اور بدوﺅں کے ہاتھوں میں سونپی جارہی ہے۔ علامہ اقبال نے اس حوالے سے کیا
خوب شعر کہا تھا کہ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہشیار ہوگا-
دوستوں نبی مہربان کا جشن ولادت تمام لوگوں کو مبارک ،آج کے دن ساری کائنات
میں خوشیاں منائی جارہی ہیں اور خوشیاں منانی بھی چاہئیں کہ آج ہی کے دن
رحمت العالمین ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ہیں۔لیکن کیا ہماری ذمہ داری صرف
اتنی ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منائیں اور بس!!ع
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
میرے بھائیوں اور بہنوں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا
یہ ہے کہ انکی تعلیمات کوعام کیا جائے، انکی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور
زندگی کے ہر شعبے میں ان کو لاگو کیا جائے ۔اسی لئے آج میں نے اپنے مضمون
کا عنوان ”میرے نبی ۔میرے قائد“ منتخب کیا ہے۔سوچیں اور غور کریں تو معلوم
ہوگا کہ آج ہماری زندگی میں بے چینی ہے،آج معاشرے میں جو بگاڑ ہے،ایک
افراتفری ،لاقانونیت اور قتل و غارت گری ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ ہم نے نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بجائے ایسے لوگوں کو اپنا قائد منتخب کیا ہے
جو قیادت کے اہل ہی نہیں ہیں۔جھوٹے،خائن،مکار،اور بزدل حکمران ہم پر مسلط
ہیں اور دراصل مسلط نہیں ہیں بلکہ ہم نے خود انہیں مسلط کیا ہے۔آئیے کوشش
کرتے ہیں کہ ہم اس مختصر سے وقت اور چھوٹے سے مضمون میں نبی اکرم ﷺ کی
زندگی کا بطور قائد مطالعہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ سیرت نبوی صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم میں ہمارے لئے کیا ہدایات ہیں اور قائد کی کیا خصوصیات بیان
کی گئیں ہیں۔
|
|
دیکھیں قائد یا لیڈر کی دعوت کی میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں۔پہلی خاصیت یہ
ہونی چاہئے کہ لیڈر نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقہ کی بھلائی کے لئے نہیں
بلکہ تمام انسانوں کی بھلائی کے لئے کام کیا ہو،دوسری بات یہ کہ اس نے ایسے
اصول پیش کئے ہوں جو دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کرتے ہوں اور ان میں
انسانی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہوں،تیسری بات یہ کی اس کی دعوت ،
اس کی تحریک اتنی مربوط اور جامع ہو کہ کسی خاص وقت یا زمانے تک محدود نہ
ہو بلکہ ہر دور ،ہر زمانے میں وہ رہنمائی کرے اور ہر دور میں اس کی دعوت یا
تحریک ایسی لگے گویا کہ یہ اسی زمانے کےلئے ہے۔چوتھی بات یہ کہ لیڈر نے صرف
دعوت اور رہنمائی کے اصول ہی پیش نہ کئے ہوں بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو
اپنی زندگی اور معاشرے میں عملی طور پر نافذ کرکے دکھایا ہو، اور اس کے
علاوہ اس نے صرف دعوت پیش نہ کی ہو بلکہ پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا ہو۔
مذکورہ بالا خصوصیات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ نبی مہربان صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی دعوت ان تمام خصوصیات پر پوری اترتی ہے،سب سے پہلے یہ دیکھیں
کہ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات اور قرآن کی دعوت کسی خاص قوم ،فرقے،یا نسل کے
لئے نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا کے لوگ اس اس دعوت کے مخاطب ہیں۔عربی ،عجمی،ہاشمی
و صدیقی، گورے کالے ،ایشین افریقن ،مشرق و مغرب الغرض ہر خطے کے لوگوں کے
لئے قرآن کی دعوت اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی صورت
میں رہنمائی موجود ہے۔یعنی نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صرف عرب
قوم یا اپنے قبیلے کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کی بھلائی کےلئے کام کیا ہے-
اب دوسری اور تیسری خاصیت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے رہنمائی کے جو اصول بیان فرمائے ہیں اس میں دنیا کے تمام
ہی مسائل کا حل موجود ہے خواہ وہ معاشی مسئلہ ہو یا معاشرتی، انفرادی مسئلہ
ہو یا اجتماعی، خادم و مخدوم،حاکم و محکوم،راعی اور رعایا،مرد و عورت، جوان
و بوڑھا،بچہ یا بچی ، الغرض ہر طبقے کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے ہیں۔
بہت سے معترضین تو اعتراض کرنے کے لئے سوالات جڑ دیتے ہیں لیکن ان کی خدمت
میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ جو دین انسان کو صبح اٹھنے سے لیکر رات سونے
تک کی رہنمائی فرمائے، انسان کی خوشی اور غم ،اس کی ازدواجی زندگی حتیٰ کہ
بیت الخلاءجانے تک کے اصول بتادے ہوں تو کیا وہ دین نامکمل یا آﺅٹ آف ڈیٹ
ہوسکتا ہے؟؟؟ اور کیا ایک لیڈر کی یہ یہی شان نہیں ہونی چاہئے کہ وہ
پیروکارو/ کارکنوں کی تمام ہی معاملات میں رہنمائی کرے۔ ( اس بات پر غور
کیجئے گا)-
اس کے بعد چوتھی خصوصیت کا جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ نبی مہربانﷺ نے محض
ایک دعوت ہی نہیں پیش کی بلکہ اس کو عملی طور پر نافذ بھی کرکے دکھایا۔
پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ اور خلفائے راشدین کا دور اس بات کی دلیل ہے
کہ اسلام کا نظام اپنی پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ وہاں رائج کیا
گیا، جو جو اصول آپ ﷺ نے بیان فرمائے ان کا عملی مظاہرہ لوگوں نے دیکھا۔ آج
ہم مہنگائی اور افراطِ زر کا رونا روتے ہیں۔ آج سرمایہ دارانہ ، سودی معاشی
نظام کے باعث امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ لیکن مدینہ
منورہ میں اسلامی اصولوں پر مبنی جو نظام قائم کیا گیا اس نظام میں لوگوں
نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ لوگ ذکوٰة کے مستحقین کو ڈھونڈتے تھے لیکن کوئی
زکوٰة لینے والا نہیں ملتا تھا اس کی دو بڑی وجوہات تھیں پہلی وجہ معاشی
یعنی اسلام نے ایسا نظام وضع کیا جس میں سرمائے کی گردش رکتی نہیں بلکہ
سرمایہ مسلسل گردش میں رہتا تھا اور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر تھے۔
اور دوسری وجہ وہ انقلاب جو نبی مہربانﷺ نے عرب کے وہ وحشی اور جاہل قبائلی
میں برپا کردیا کہ ان کی اخلاقی حالت ہی بدل گئی اور وہ لوگ کہ جو چھین
چھپٹ، لٹیرے ،وحشی اور جاہل تھے ان کا یہ حال ہوگیا کہ جس کو تین وقت کی
روٹی میسر آتی تھی وہ سمجھتا تھا کہ میں بیت المال کے وظیفے یا زکوٰة کا
مستحق نہیں ہوں۔ اسی لئے دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا کہ صاحب ثروت زکوٰة
لینے والوں کو ڈھونڈتے تھے لیکن کوئی زکوٰة لینے کو تیار نہ ہوتا تھا۔آج
ہماری بدحالی اور معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی اور نفسا نفسی کی دوسری
بڑی وجہ ہماری اخلاقیات کا تباہ ہونا ہے،پہلی وجہ تو ظاہر ہے کہ سودی اور
سرمایہ دارانہ نظام ہے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔
|
|
پھر میرے بھائیوں اور بہنوں سب سے اہم بات یہ کہ بہترین لیڈر وہ ہوتا ہے کہ
جو اپنے قول اور فعل میں یکساں ہوں، اس کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو
اور اس کے اعلیٰ کردار اور بلند اخلاقیات کے دشمن بھی معترف ہوں۔اللہ تعالیٰ
قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ ”اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو
جھوٹا اور منکر حق ہو“ (سورہ الزمر۔3)
نبی اکرم ﷺ کی سچائی کی گواہی تو کفار مکہ بھی دیتے تھے۔یاد کریں وہ واقعہ
جب نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور کوہ احد پر چڑ ھ کر اہل قریش
کو مخاطب کیا اور جب سب لوگ جمع ہوگئے تو پوچھا کہ” اگر میں تم سے کہوں کہ
اس پہاڑ کے پیچھے سے دشمن ایک لشکر چلا آرہا ہے تو کیا تم مان لوگے؟ اور
تمام قریش نے یک زبان ہوکر کہا تھا کہ بے شک آپ صادق ہیں “۔
لیڈر اچھے اخلاق والا اور نرم خو ہوتا ہے تاکہ لوگ اس سے خوف نہ کھائیں
بلکہ اس کی جانب کھنچے چلے جائیں۔ارشاد ربانی ہے کہ ”(اے پیغمبر) یہ اللہ
کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ورنہ اگر
کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ
جاتے۔(سورہ آل عمران 159)-
اب یاد کریں وہ واقعہ کہ نبی اکرمﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہیں، صحابہ
کرام ؓ بھی موجود ہیں اتنے میں ایک بدو جو آپ سے ملنے آیا تھا جاتے وقت وہ
مسجد کے صحن میں پیشاب کرنا شروع کردیتا ہے،صحابہ کرامؓ دوڑتے ہیں کہ اس کو
روکیں اور اس عمل کی سزا دیں کہ نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو
روکا کہ ( اس کو اپنی حاجت تو پوری کرلینے دو)اور جب وہ پیشاب کرچکا تو نبی
مہربانﷺ نے اس بلایا اور بڑی محبت سے اس کو سمجھایا کہ یہ مسجد ہے ، اللہ
کا گھر ہے یہاں گندگی نہیں کی جاتی۔ اور اس کے بعد صحابہ کرام ؓ سے پانی
منگوا کر اس جگہ کو دھوکر پاک کردیا۔(سبحان اللہ کیا طریقہ تربیت ہے اور
کیا ہی نرم طریقے سے ایک فرد کو بات سمجھائی جارہی ہے)-
یہ معاملہ تو ایک ایسے فرد کا تھا جو دین کو قبول کرچکا ہے اور نبی اکرمﷺ
کے ہاتھ پر بیعت کرنے آیا تھا لیکن ذرا یہ منظر بھی تو دیکھیں کہ مکے کی
ایک بڑھیا روزانہ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ جمع کرکے رکھتی تھی اور جب نبی
مہربانﷺ اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے تو وہ یہ کچرا آپ کے اوپر پھینکتی تھی،
ایک روز اس بڑھیا نے آ پ کے اوپر کچرا نہ پھینکا تو آپ نے لوگوں سے اس
بڑھیا کی بابت معلوم کیا کہ آج اس نے کچرا کیوں نہیں پھینکا ؟ معلوم ہوا کہ
آج وہ بڑھیا بیمار ہے اس لئے اس نے آپ پر کچرا نہیں پھینکا اور میرے نبیﷺ
کا معاملہ دیکھیں کہ آپ اس بڑھیا کی بیماری کا سن کر غمزدہ ہوجاتے ہیں ، اس
کے گھر جاکر اس کی خبر گیر ی کرتے ہیں،اس کی تیمار داری کرتے ہیں۔”اور بے
شک آپ اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں“ (القلم: 4)
لیڈر اما نتدار ہوتا ہے وہ بد دیانت نہیں ہوتا، وہ خائن نہیں
ہوتا۔”مسلمانوں ، اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو“
(سورہ النساء58)
یقینااللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے“ (سورہ الانفال 58)
اب یہ دیکھیں کہ نبی مہربانﷺ کی امانت کی گواہی تو مشرکین مکہ بھی دیتے تھے،
منصب نبوت پر فائز ہونے قبل ہی آپ ﷺ لوگوں میں صادق و امین کے لقب سے مشہور
تھے۔ مکے کے لوگ اپنی مانتیں آپ کے سپرد کرتے تھے اس یقین کے ساتھ کہ اس
میں کوئی خیانت نہیں کی جائے گی۔اور امانتوں کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے
یہ دیکھیں نبی اکرمﷺ ہجرت کرنے والے ہیں لیکن آپﷺ کے پاس اہلیان مکہ کی
امانتیں ہیں ، وہ اہلیان مکہ جن کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپﷺ اپنا پسندیدہ
شہر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں،وہ اہلیان مکہ جنہوں نے ظلم و ستم کا کونسا
حربہ تھا جو پیغمبر اور صحابہ کرامؓ پر نہیں آزمایا تھا لیکن قربان جایئے
میرے نبی ، میرے قائد میرے لیڈرکی عظمت پر کہ ایسے لوگوں کی امانتوں میں
بھی خیانتوں کا خیال تک دل میں نہیں لاتے بلکہ ہجرت کرتے وقت بھی جب کفار
کا منصوبہ ہے کہ نعوذ باللہ آج نبی مہربانﷺ کو قتل کردیا جائے اور آپ ﷺ
اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی ؓ کے سپرد ساری امانتیں کرتے ہیں تاکہ وہ ساری
امانتیں لوگوں تک پہنچا دیں۔(سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں
دیں۔ سلام اس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں)-
لیڈر اپنے کارکنوں، اپنے پیروکاروں کا خیال رکھتا ہے۔لیڈر ان کی جان و مال
کی حفاظت کرتا ہے اور نبی اکرمﷺ نے یہ بات اپنی عمل سے ثابت کی۔ مکہ کے ظلم
و ستم کے سخت ترین دور میں جب اہل ایمان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو
میرے نبی نے پہلے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا، پہلے تمام مسلمانوں کو
آہستہ آہستہ مکہ کے ظلم کدے سے نکالا اور خود سب سے آخر میں اس مقتل سے
نکلے۔غزوہ خندق کے موقع پر جب صحابہ کرام ؓ نے نبی مہربانﷺ سے حالات کی
سختی اور بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر بندھا ہوا پتھر دکھایا تو معلوم
ہوا کہ نبی اکرمﷺ نے تو اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے ہیں (آج کچھ نام
نہاد دانشور یہ کہتے ہیں کہ علماء نے اس واقعے کی غلط توجیح پیش کی ہے اور
پیٹ پر پتھر نہیں بلکہ ایک قسم کا سخت کپڑا جو کہ کمر سیدھی رکھنے کے لئے
باندھا جاتا ہے جس کو پٹکا یا آج کے حساب سے بیلٹ کہہ لیں وہ باندھا ہوا
تھا۔ چلیں ہم یہ بھی درست مان لیتے ہیں تو معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ؓ نے
ایک پٹکا باندھا تو آپ ﷺ نے ان سے زیادہ سخت محنت کی اور ان کو دو پٹکے
باندھنے پڑے)-
اور ذرا غزوہ احد کا وہ منظر بھی نظر میں رکھیں جب مسلمانوں پر اللہ کی
جانب سے ایک آزمائش آئی ،اہل ایمان جیتی ہوئی جنگ ہار گئے، اس سخت آزمائش
میں کئی صحابہ کرام ؓ کے قدم اکھڑ گئے لیکن ابتلاءکی اس گھڑی میں بھی میرے
نبی ، میرے قائد اپنی جگہ ثابت قدم رہتے ہیں اور یہ نہیں ہوا کہ آپ ﷺ خود
تو پیچھے ہٹ جائیں اور صحابہ کرامؓ کو آگے بڑھاتے بلکہ آپ خود اپنی جگہ
ثابت قدم رہتے ہیں اور اہل ایمان میرے نبی مہربان ﷺ کو جب اپنے درمیان
موجود پاتے ہیں تو ان کا جذبہ ایک بار پھر بیدار ہوجاتا ہے اور اکھڑے قدم
جم جاتے ہیں ۔
لیڈر، اپنے لوگوں کے لئے ایک رول ماڈل ہوتا ہے ۔وہ اپنے کارکنوں، اپنے
ماتحتوں کے لئے نرم خو اور ان کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ع
کوئی کاروان سے ٹوٹا ،کوئی بدگماں حرم سے ۔ کہ میر کارواں میں خوئے دلنوازی
نہیں
نبی اکرمﷺ نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوم کا حکم دیا اور صرف حکم نہیں دیا
بلکہ پہلے خود ان باتوں پر عمل کیا۔ نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ
بن حارثہ اماں خدیجہ ؓ کے غلام تھے۔ ان کو جب نبی اکرمﷺ کی نیک صحبت ملی تو
اپنی غلامی کا دکھ بھول گئے یہاں تک کہ دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا حضرت زید
ؓ کے والدین کو جب اپنے لخت جگر کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ ان کو لینے کے
لئے مکہ پہنچتے ہیں ، نبی اکرمﷺ ان کی بات سنتے ہیں اور فیصلہ حضرت زیدؓ پر
چھوڑتے ہیں اور پھر ۔۔حضرت زید اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار
کردیتے ہیں ۔ والد حیران ہوکر کہتے ہیں زید تم آزادی کے اوپر غلامی کو
ترجیح دیتے ہو ؟ لیکن حضرت زیدؓ کو آپ ﷺ کی غلامی میں بھی جو آزادی میسر
تھی کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ نبی اکرمﷺ کی محبت، ان کی سیرت،
ان کا اخلاق اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک تھا کہ حضرت زید ؓ نے اپنے والدین
کے ساتھ جانے کے بجائے آپ کی غلامی کو ترجیح دی۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ
میں نے دس سال تک نبی اکرمﷺ کی لیکن آپ ﷺ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہااور
نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔کیا ایسے
لیڈر کو کوئی چھوڑ سکتا ہے؟؟؟
دوستوں میں اگر سیرت پاک ﷺ کے گوشوں کا نمایاں کرتا رہوں تو شائد ساری
زندگی میں آپ کے سامنے یہ گوشے پیش کرتا رہوں لیکن آپ ﷺ کی صفات بابرکات کا
ذکر ختم نہ ہو ۔ میں نے کوشش کی کہ سیرت پاک کے چند گوشے آپ کے سامنے پیش
کروں اور یہ سب اس لئے نہیں کہ ہم ان باتوں کو پڑھیں، ان سے لطف لیں، ان
حکایتوں کو آگے بڑھائیں اور بس !
نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم نبی اکرمﷺ کو اپنا ہادی و رہنما اور لیڈر
بنائیں، ہم نبی مہربانﷺ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کریں، آپ کی تعلیمات کو عام
کریں، ان پر عمل کریں ۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کی لیڈر شپ کا موازنہ آج کے
لیڈرز کے ساتھ کریں تو پھر آپ کو فیصلہ اچھے اور برے، نیک اور بد، مخلص و
منافق کا فرق محسوس ہوگا اورپھر ہم اور آپ اپنے ملک ، اپنے معاشرے کے لئے
اچھی قیادت کا انتخاب کرسکیں گے۔
|