اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نبی
آخر الزماں ﷺ کی ولادت کا مہینہ ماہ ربیع الاول کا چاند نوید مسرت اور پیامِ
محبت بن کر چمکتا ہے ۔اس کے طلوع ہوتے ہی اہل ایمان کے قلوب و اذہان فرحت و
انبساط سے معمور اور جوشِ محبت سے بھر پور ہو جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہی وہ
ماہِ ذی شان ہے جس کی مبارک ساعتوں کو جانِ ایمان ،قرار دل و جان محبوبِ رب
دو جہاںحضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے ورودِ مسعود کےلئے منتخب کیا گیا ۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
اوقات کو واقعات سے بڑی نسبت ہوتی ہے ۔بعض لمحات گزر کر پردہ ¿ نسیان میں
چھپ جاتے ہیں ۔لیکن کچھ ساعات کو ایسے عظیم واقعات سے نسبت ہو جاتی ہے جن
کی وجہ سے وہ ساعتیں منبع برکات بن جاتی ہیں ۔انہیں بھلا یا نہیں جاتا بلکہ
یاد رکھا جاتا ہے ۔ مختلف واقعات کی نسبت ہی سے بعض راتیں شب قدر یا شب
برات بنتی ہیں ۔کچھ ساعتیں سعید اور کوئی دن روزِ عید بن جاتا ہے ۔اسی نسبت
سے سال کا ایک مہینہ ”شھر ا مبارکا“قرار پاتا ہے اور مہینوں کی بعض تاریخیں
تہواروں میں بدلتی ہیں اور ہفتے کے بعض دن ”ایام اللہ“ کا امتیاز پاتے ہیں
۔اسلام میں اس نسبت کا بڑا لحاظ رکھا گیا ہے ۔جمعہ کا دن ماضی کے حوالے سے
چند ایسے غیر معمولی واقعات سے نسبت رکھتا ہے کہ اسے مسلمانوں کی ”ہفتہ وار
عید“ بنادیا گیا ۔ماہِ رمضان کو نزول قرآن کی نسبت سے ”نیکیوں کی فصل بہار“
قرار دیا گیا اور اسی طرح ” میلاد مصطفےٰ ﷺ“ کی نسبت نے ماہِ ربیع الاول کو
اصلِ بہاراں اور پیر شریف کے روز جاں افروز کو عید عیداں بنا دیا ۔
محمد مصطفےٰ ﷺ آئے بہار اندر بہار آئی
زمیں کو چومنے جنت کی خوشبو بار بار آئی
ربیع الاول آتے ہی جہاں میں تازگی آئی
گلستان تمنا میں بہارِ سرمدی آئی
اہل محبت اور اصحابِ نسبت چونکہ نسبتوں کا پاس رکھنے والے ہیں ۔اس لئے ایام
اللہ کی نسبت کا خیال رکھتے ہیں اور نزول رحمت کے اوقات اور حصولِ نعمت کے
ایام میں اظہارِ فرحت و تحدیث نعمت کا اہتمام کرتے ہیں ۔اسی جذبہ کے پیشِ
نظر عاشقان رسولﷺ ماہِ ربیع الاول کی مبارک ساعتوں اور پر نور راتوں میں
محافلِ نعت و میلاد کا انتظام کرتے ہیں ۔
وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیں
جو سرورِ عالم ﷺ کا میلاد مناتے ہیں
اہل ایمان، فضل و رحمت کے نزول اور نعمتوں کے حصول پر اظہار فرحت و سرور پر
مامور ہیں اور حضورِ اکرم ﷺ کی ذات تمام رحمتوں کا مصدر اور آپ کی ولادت
تمام نعمتوں کی اصل ہے ۔پھر جس طرح نزول قرآن کی نسبت سے دورِ قرآن و ختم
قرآن کےلئے ماہِ رمضان مناسب تر ہے ۔اسی طرح نبی دو جہاں ﷺ کی شانِ ولادت،
جمال صورت اور کمال سیرت کے ذکر و بیاں اور ظہور ِ پر نورﷺ پر اظہار فرحت و
سرور کےلئے ماہِ ربیع الاول اور پیر شریف کا روزجان افروز ہی مناسب ہیں
۔لیکن جس طرح تلاوت کےلئے کوئی قید نہیں ۔اسی طرح محفلِ میلاد بھی کسی وقت
کے ساتھ خاص نہیں ۔ کیونکہ یہ ذکر مصطفےٰ ﷺ کا نام ہے جو زمان و مکان کی
حدود و قیود سے ماوراءہے ۔
خدا ہے ذاکر میرے نبی کا
کبھی نہ یہ ذکر ختم ہو گا
ازل سے میرے نبی کی محفل
سجی ہوئی ہے سجی رہے گی
ماہِ ربیع الاول کے ایام میں اہلِ اسلام کے خواص و عوام کا صدیوں سے معمول
ہے کہ وہ محافل میلاد کا اہتمام کرتے ہیں ۔ کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں
اور ہر جائز طریقے سے خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی
اس نعمت عظمیٰ کا پر چار کریں اور رحمت عمیم و فضلِ عظیم پر مسرت و خوشی کا
اظہار کریں جو اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کی شکل میں اہل ایمان کو دی ہے -
مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شیطان کے پیروکار ،بعض دنیا دار نیکی کے
مواقع پر بھی بدی کے پہلو نکالتے ہیں ۔عیدیں اور نکاح کے موقع پر روز افزوں
ترقی پذیر بے حیائی ،فحاشی اور عریانی اس بات کا واضح ثبوت ہے ۔بد قسمتی سے
اطوار زمانہ کے ساتھ ساتھ محافل میلاد بھی ایسی خرافات کا شکار ہوتی نظر آ
رہی ہیں اور ایسے مشاغل و معمولات کو فروغ مل رہا ہے جو جشن میلاد کے تقدس
کے منافی اور شریعت مطہرہ کی روح سے متصادم ہیں ۔مثلاً بعض علاقوں میں جلوس
میلاد میں غیر شرعی وغیر اخلاقی حرکات ڈھول ،باجے ،دھمال ،لڈی جیسے قبیح
افعال رواج پکڑ رہے ہیں جس سے ایک طرف تو ان جلوسوں کا تقدس مجروح ہو رہا
ہے تو دوسری طرف بعض شدت پسند لوگ فی نفسہ جشن میلاد و محافل میلاد کو بدعت
و حرام کہتے نظر آ رہے ہیں ۔شارح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی صاحب اس دل
خراش اور افسوس ناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:”بعض غیر معتدل
لوگ ہر نیک اور اچھے کام میں ہوا وہوس کے تقاضے سے برائی کے راستے نکال
لیتے ہیں ۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شہروں میں عید میلاد کے جلوس کے
تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا ۔جلوس تنگ راستے سے گزرتا ہے اور مکانوں کی
کھڑکیاں اور بالکونیوں سے نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شرکاءجلوس پر پھول
وغیرہ پھینکتی ہیں ۔(شاید ایصال ثواب کی نیت سے العیاذ باللہ) اوباش نوجوان
فحش حرکتیں کرتے ہیں۔ جلوس میں مختلف گاڑیوں پر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ
ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی دھن پرناچتے ہیں اور نماز کے اوقات
میں جلوس چلتا رہتا ہے ۔مساجد کے آگے سے گزرتا ہے لیکن نماز کا کوئی اہتمام
نہیں ہوتا ۔اس قسم کے جلوس میلاد النبی ﷺ کے تقدس پر بد نما داغ ہیں ۔ان کی
اگر اصلاح نہ ہو سکے تو ان کو فوراً بند کر دینا چاہےے۔ کیونکہ ایک امرِ
مستحسن کے نام پر ان حرکات کے ارتکاب کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ۔البتہ ان
غیر شرعی جلوسوں کو دیکھ کر مطلقاً عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس کوغیر شرعی
کہنا صحیح نہیںہے اور جن شہروں اور جگہوں میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس
اپنی شرعی حدود و قیود کیساتھ نکلتے ہیں ان جلوسوں پر اعتراض نہیں کرنا
چاہئے۔“ (شرح صحیح مسلم جلد ثالث صفحہ171)
اس طرح دیگر علمائِ کرام ہمیشہ سے عوام کو محافل میلاد کے آداب سے آگاہ
کرتے رہے اور قبائح و منکرات اور غیر شرعی حرکات سے تنبیہہ فرماتے رہے اور
محافل میلاد و جلوس میلاد کو درپیش آنے والی خرافات سے روکتے رہے ہیں ۔سطور
ذیل میں مرجع العلماءاعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمة
اللہ علیہ کی تصریحات کی روشنی میں محافل میلاد سے متعلقہ چند آداب اور
توجہ طلب مسائل کو بیان کیاجاتا ہے ۔محافل میلاد کے منتظمین و حاضرین کےلئے
لازم ہے کہ شریعت اسلامیہ کی حدود و قیود کی پابندی کرتے ہوئے ان محافل و
مجالس کا اہتمام و انصرام کریں ۔تاکہ ہم حضور ﷺ کے ماہِ ولادت کی برکات و
ثمرات سے کما حقہ مستفیض ہو سکیں ۔ محفلِ میلاد میں علمائِ اسلام چند حدود
و قیود کے ساتھ مندرجہ ذیل امور کو مستحسن قرار دیتے ہیں۔
تلاوت کلام پاک:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ لکھتے
ہیں :”لازم ہے محفل میلاد مبارک میں تلاوت قرآن عظیم ہمیشہ سے معمول
علماءکرام و بلادِ اسلام ہے ۔“
امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں :”میلاد
شریف کی اصل لوگوں کا جمع ہونا ،قرآن مجید کی تلاوت کیا جانا اور ان آیات و
احادیث و روایات کو بیان کرنا جو آنحضرت ﷺ کی شان میں وارد ہوئی ہیں
۔“(الحاوی للفتاویٰ جلد 1صفحہ189)
علامہ شامی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:میلاد شریف منانا کہ جس کو ہم نے
مستحسن قرار دیا ہے اس میں قرآن مجید کی تلاوت اور کھانا کھلانے کا اہتمام
کرنا ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔“
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ نے ہی فتاویٰ ہندیہ کے
حوالے سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام جب کسی مجلس میں جمع ہوتے تو اپنے
ساتھیوں میں سے کسی ایک کو فرمایا کرتے کہ وہ قرآن مجید کی کوئی سورت تلاوت
کرے۔(فتاویٰ رضویہ جلد 23صفحہ118)
تا ہم تلاوت قرآن مجید کے دراون مندرجہ ذیل آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے
:قرآن مجید کو خو ش الحانی سے پڑھنا جس میں لہجہ خوش نما ،دلکش پسندیدہ ،دل
آویز ،غافل دلوں پر اثر ڈالنے والا ہو ،حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :”جو خوش
الحانی سے قرآنِ مجید نہ پڑھے ،وہ ہم میں سے نہیں ۔“(فتاویٰ رضویہ جلد
23صفحہ300,366)
مدح خوانی:محافلِ میلاد میں حمد باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ بوڑھے یا جوان
مرد کا خوش الحانی سے نعتیہ اشعار کا پڑھنا اور حاضرین کا نیت نیک سے سننا
جائز ہے ۔بلکہ مستحب و مستحسن ہے ۔بخاری شریف کی صحیح حدیث میں ہے ۔حضور
نبی اکرم ﷺ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کےلئے منبر بچھواتے تھے اور وہ اس پر
کھڑے ہو کر نعت اقدس سناتے تھے ۔جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے ۔ان کے
علاوہ دیگر صحابہ نے بھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں کھڑے ہو کر نعت خوانی کا شرف
حاصل کیا ہے ۔ تا ہم نعت خوانی کےلئے چند آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے :
1۔نعت سادہ خوش الحانی کے ساتھ ہو ،گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے ۔(فتاویٰ
رضویہ جلد23صفحہ363)
2۔نعت خوانی آلاتِ لہو و لعب اور افعالِ لغو مثلاً مزا میر وغیرہ کے ساتھ
نہ کی جائے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد 24صفحہ79)
دف اور نعت خوانی: دف کا حکم عام آلاتِ لہو و لعب سا نہیں ۔بلکہ خوشی کے
لمحات میں اس کا استعمال جائز ہے ۔مگر اس کےلئے چند شرائط ہیں ۔امام احمد
رضا خاں رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :”اوقات مسرور میں دف جائز ہے ۔بشرطیکہ
اس میں جلا جل یعنی جھانج نہ ہو ۔نہ وہ موسیقی کے تان سر پر بجایا جائے
،ورنہ وہ بھی ممنوع ۔“(فتاویٰ رضویہ 25صفحہ37)
ذکر والی نعت خوانی سے پرہیز:علماءاسلام نے ذکر والی مروجہ نعت خوانی کو
بھی ناجائز قرار دیا ہے ۔اس لئے محافل میلاد کو اس سے پاک کرنا چاہئے۔امام
احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ علیہ کے عظیم علمی خانوادہ کے چشم و چراغ
حضرت مفتی اختر رضا خان بریلوی اس کے متعلق فرماتے ہیں :”نعت میں ذکر کی
آواز اس طرح سنائی دیتی ہے جیسے دف کے ساتھ ذکر ہو رہا ہو اور ایسی آواز جو
دف سے مشابہ ہو منہ سے نکالنا جائز نہیں کہ طریقہ فساق ہے اور ذکر و غیرہ
میں شبہ ناجائز ،نیز اللہ تعالیٰ عزوجل کے نام مبارک کو بصورت مزامیر پیش
کرنے میں نور اہانت بھی ہے ۔اس لئے اس کا عدم جواز شدید ترین ہے ۔اگر چہ
نیت خیر ہو“( فتویٰ بریلی شریف )
نیز اس سلسلہ میں بانی دعوت اسلامی امیر اہلسنت مولانا محمد الیاس عطار
قادری کا مختصر تابچہ درج بالا عنوان کے ساتھ حرفِ آخر ہے ۔
گستاخی و توہین اور مبالغہ آرائی پر مشتمل کلام سے احتراز:نعت خوانی سے
مقصود حضور نبی مکرم ،آقائے نامدار ،احمد مجتبیٰ ،محمد مصطفےٰ ﷺ کی ثنا
کرنا ہے لیکن بعض کم علم ، غیر محتاط شعراءنعت کے نام پر ایسے اشعار ترتیب
دے دیتے ہیں جن میں رسول اکرم ﷺ کی نعت کی بجائے آپ کی شان کی تنقیص اور
خدائے تعالیٰ و انبیاءو ملائکہ وغیرہ کی توہین کا پہلو نمایاں ہوتا ہے
۔مثلاً میلاد النبی ﷺ کے حوالے سے یہ شعر کہ
جو عرش پہ مستوی تھا خدا ہو کر
زمین پر آگیا وہی مصطفی ہو کر
محافلِ میں اس طرح کے شعر پڑھنا ” نیکی برباد گناہ لازم“ کے مترادف ہے
۔بلکہ نعت کی نیت سے ایسے اشعار پڑھنا حرام اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
آج کل اس قسم کے اشعار عام ملتے ہیں جو جہالت کی وجہ سے زبانِ زد عام ہو
گئے ہیں ۔
تماشاگاہوں میں حمد و نعت پڑھنا:آج کل کی اکثر محافل نعت تماشا گاہوں کا
منظر پیش کرتی ہیں ۔جہاں یہ تلاوت اور حمد و نعت کا احترام نہیں کیا جاتا
۔آداب کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔ایک طرف قرآن مجید کی تلاوت ،حمد الہٰی ،نعت
خوانی ہو رہی ہے ،دوسری طرف لوگ اپنے شغل میں مصروف ہیں ۔کوئی گپ شب کر رہا
ہے ،کوئی بلند آواز سے قہقے لگا رہا ہے ،کسی نے سگریٹ سلگا رکھی ہے جبکہ
ایک طرف خرید و فروخت کا بازار کھلا ہوا ہے جبکہ اسٹیج پر نعت خوان کو دیکھ
کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی فنکار فلمی ایکٹنگ کا مظاہرہ کر رہا ہے یا
کوئی مداری اپنے کرتب دکھانے میں مصروف ہے ۔ایسی تماشا گاہوں میں حاضرین کی
اکثر تعداد بے وضو ہوتی ہے۔
بہر حال اکثرمحافل میں بعض لوگ خلوص دل و جذبہ محبت سے نعت پڑھنے والے اور
سننے والے بھی ہوتے ہیں ۔نعت خوانی کو ناجائز و ممنوع تو نہیں کہا جا سکتا
۔ لیکن یہ صورتحال محافل میلاد کی صورت کے خلاف ہے ۔فتاویٰ رضویہ میں ہے
:”جہاں سبھی لوگ لہو و لعب میں مشغول ہوں اور تلاوت و نعت کوئی نہ سنے
،وہاں تلاوت حرام اور نعت خوانی ممنوع ہے اور اگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو
تو جہ سے سنیں گے تو ممانعت نہیں ۔( فتاویٰ رضویہ جلد23صفحہ405)
محافل میلاد کا انتظام اس اہتمام کے ساتھ ہونا چاہےے جہاں بے ادبی کا کوئی
پہلو نہ نکلتا ہو۔
وعظ (بیان و خطاب):صحیح روایات کی روشنی میں حضرت محمد مصطفےٰﷺ کی ولادت
باسعادت ،رضاعت ،بچپن ،جوانی ،بعثت وہجرت وغیرہ کے حالات ،حلیہ شریف ،
معجزانہ کمالات اور فضائل و خصائل کا بیان مستحب ومستحسن ہے ۔
میلاد خوان کا با وضو ،با ادب ،با عمل اور اہل علم میں سے ہونا ضروری ہے
۔مزید برآں میلاد شریف صحیح روایت کی روشنی میں پڑھا جائے ۔امام احمد رضا
خان بریلوی رحمة اللہ علیہ سے ایک سوال دریافت کیا گیا ۔”جو شخص شریعت
مطہرہ کا مخالف ،مثلاً تارک الصلوٰة ،شارب خمر ،داڑھی منڈانے یا کترانے
والا ، بے وضوسے موضوع روایات کے ساتھ میلاد پڑھتا ہو ۔بلکہ مسائل شریعت
اور داڑھی وغیرہ کا استہزا اُڑاتا ہو۔ ایسے شخص کا چوکی (اسٹیج ) پر بیٹھ
کر میلاد پڑھنا یا بانی محفل و مجلس و حاضرین و سامعین کا ایسے شخص کو خوش
آواز ی کی وجہ سے چوکی پر بٹھانا کیسا ہے؟ ایسے آدمی سے اللہ تعالیٰ و
رسولﷺ خوش ہوتے ہیں یا ناخوش اور خدائے تعالیٰ ایسی مجالس پر رحمت نازل
فرماتا ہے یا غضب ؟ بانیان و حاضرین محفل رحمت کے مستحق ہیں یا غضب کے ؟اس
سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمة
اللہ علیہ نے فرمایا:”مذکورہ بالا افعال سخت کبائر ہیں ۔ان کا مرتکب فاسق و
گناہگار غضب الہٰی کا سزا وار ہے ۔خوش آواز ی یا کسی نفسیاتی خواہش کی وجہ
سے اسے منبر و مسند پر تعظیما بٹھا کر مجلس مبارک پڑھوانا حرام ہے ۔ایسی
مجالس سے اللہ تعالیٰ عزوجل اور حضور اقدس ﷺ کمال ناراض ہیں ۔ (تمام حاضرین
و سامعین)وبال شدید میں جدا جدا گرفتار ہیں ۔ان حاضرین و میلاد خوان سبھی
کا گناہ بانی محفل پر ہے ۔ اس کا اپنا گناہ ان پر مزید ہے ۔“ (فتاویٰ رضویہ
جلد23صفحہ733)
اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ کی ان تصریحات کے مطابق بانیانِ محفل کا فرض ہے
کہ وہ ایسی محافل کےلئے خوش آواز ،خوش اخلاق قاری ،سچے محب رسول ﷺ نعت خوان
اور اہل علم میں سے با عمل ،با کردار ،صحیح العقیدہ میلاد خواں(مقررو خطیب)
کا چناﺅ کریں ۔ورنہ خوش آوازی سے محظوظ ہونے کا شوق پورا کرنا اُخروی خسارے
کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔وعظ کی اہمیت اور دیگر آداب میں سے چند چیزیں
مندرجہ ذیل ہیں ۔تمام حاضرین ادب و خاموشی کے ساتھ اسے سنتے رہیں ۔
دوران وعظ شور و غوغا کرنا ،مذہبی توہین اور عادت کفار ہے۔ اس لئے مسند وعظ
درحقیقت مسند رسولﷺ ہے ۔لہٰذا وعظ کہنے والے کا ادب دین اسلام اور رسول
اکرم ﷺ کا ادب اور اس کی توہین ان کی توہین ہے ۔شور و غوغا تو درکنار وعظ
میں بے جا حرکت کرنا اور بلا ضرورت شرعی آہستہ بات کرنا بھی گستاخی و بے
ادبی ہے ۔ واعظ کو تعظیماً منبر پر بٹھانا اور ہر طر ح کے ادب و احترام کو
ملحوظ رکھنا لوگوں کو وعظ و غیرہ کارِ خیر کرنے کےلئے نقارہ یادف بجانا
(اور موجودہ دور میں اعلانات کرنا وغیرہ) جائز ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد24)
محافل میلاد سے متعلقہ چند اہم مسائل ۔ فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں:
٭...........محافل میلاد اور جلوس میلاد وغیرہ میں ڈھول باجے وغیرہ لے جانا
جائز نہیں اور جن محافل میں ایسے آلات لہو و لعب کا استعمال ہو ،ان میں
جانا جائز نہیں ۔خواہ انہیں محافل میلاد (عرس ، گیارہویں وغیرہ) کا نام ہی
کیوں نہ دیا جاتا ہو۔
٭........... جس شخص کی نسبت معروف و مشہور ہو کہ معاذ اللہ وہ حرام کارہے
،اس سے میلاد شریف پڑھوانا ،اسے اسٹیج پر بٹھانا منع ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے
کہ شہرت صحیح ہو ،جھوٹی بے معنیٰ تہمت نہ ہو کیونکہ آج کل اکثر ناخداترس
محض جھوٹے وہم کی وجہ سے مسلمان پر تہمت لگا دیتے ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ جلد
23صفحہ737)
خواتین کی محافل میلاد:عورتوں کی محافل میلاد میں شرکت دوطر ح کی ہوتی ہے
۔ایک یہ کہ ایک ہی محفل میلاد میں خواتین کےلئے پردے کا علیحدہ انتظام ہوتا
ہے ۔ایسی محافل درحقیقت مردوں ہی کے لئے ہوتی ہیں ۔تاہم پردے کا اہتمام
کرکے عورتوں کو بھی شرکت کا موقع دیا جاتا ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
خاں قادری فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا توآپ
نے جواباً ارشاد فرمایا:
1۔واعظ یا میلاد خوان اگر عالم سنی صحیح العقیدہ ہو۔2۔اس کا وعظ و بیان
صحیح و مطابق شرع ہو۔3۔جانے میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو۔4۔کوئی
احتمال فتنہ نہ ہو۔5۔مجلس رجال سے ان کی نشست دور ہو تو حرج نہیں ۔ (فتاویٰ
رضویہ جلد22صفحہ239)
یعنی ایسی محافل میلاد میں شرکت کےلئے مذکورہ بالا شرائط کا پایا جانا
ضروری ہے ۔ورنہ عوتوں کو ایسی محافل میں جانے کی اجازت نہیں۔جہاں اختلاطِ
مردوزن اور بے پردگی کا اندیشہ ہو ۔خواہ وہ محافل میلاد ہو یا اس قسم کی
دیگر محافل عرس و گیارہویں شریف۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سے سوال
کیا گیا کہ چند عورتیں ایک ساتھ مل کر گھر میں میلاد شریف پڑھتی ہیں اور
آواز باہر سنائی دیتی ہے ۔یہ جائز ہے یا نہیں ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ
ناجائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے ۔عورت کی خوش الحانی کو اجنبی سے
محل فتنہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ )
ایسے ہی ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:” عورتوں کا اس طرح
(مولود شریف) پڑھنا کہ ان کی آواز نا محرم سنیں ،باعث ثواب نہیں بلکہ گناہ
ہے ۔“
کیسی محافل میلاد میں شرکت کی جائے ؟:محفل میلاد اگر چہ عظیم ترین مستحبات
میں سے ہے مگر دیگر مجالس کی طرح محافل میلاد میں شرکت تب ہی جائز ہے جب اس
میں خلاف شرع امور کا ارتکاب نہ ہوا گر وہ شرعی منہیات اور ناپسندیدہ بدعات
سے پاک نہ ہوتو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہےے ۔فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ :”کسی
خلاف شرع مجلس میں شرکت جائز نہیں ۔“ (فتاویٰ رضویہ جلد 24صفحہ133)
اور جب مجلس میلاد منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو تو اس میں شرکت کرنا عظیم
سعادت ہے ۔فتاویٰ رضویہ میں ہے :” مجلس میلاد مبارک اعظم مندوبات سے ہے
جبکہ بروجہ صحیح ہو ۔“(جلد 23صفحہ560)
اور ایسی محافل میں شرکت کرنے سے روکنا در حقیقت نہی عن المعروف یعنی اچھے
کاموں سے روکنے کے زمرے میں آتا ہے ۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے :” مجلس
میلاد جو منکرات شرعیہ سے خالی ہو ، اس سے روکنا ذکر خدا سے روکنا ہے ۔ایسا
شخص اگر کسی صحیح اور قابل قبول عذر سے روکے تو حرج نہیں ۔مثلا ً ماں یا
باپ بیمار ہیں ،بیٹے کو ان کی تیمارداری کرنا ہے ۔اگر وہ محفل میلاد میں
چلا جائے تو یہ تکلیف میں رہیں گے ۔لہٰذا یہ بچے کو روک سکتا ہے ۔یونہی آقا
اپنے ملازم کو کام کی غرض سے روک سکتا ہے ۔چنانچہ لکھا ہے ۔بضرورت شرعیہ
(کسی شرعی ضرورت کی وجہ سے) مستحب کام سے کسی اور اہم کام کےلئے روکے تو
الزام نہیں ۔ المختصر اگر محافل میلاد منکرات شرعیہ سے پاک ہوں اور ان میں
آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو تو ایسی محافل موجب برکت اور ان میں شرکت ذریعہ
سعادت ہے اور اگر ان میں امور مکروھہ کا ارتکاب ہو تو وہ موجب خسران اور ان
میں شرکت باعث ہلاکت ہو تی ہے ۔مولوی عبد الحی نے کتاب النصیحہ سے نقل کیا
ہے کہ ایک نعت خوان حقہ پیتا تھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ
فرماتے ہیں جب تم میلاد شریف پڑھتے ہو تو ہم مجلس میں رونق افروز ہوتے ہیں
مگر جب حقہ آتا ہے تو ہم فوراً مجلس سے چلے جاتے ہیں ۔(بحوالہ جشن میلاد
اور اسلام صفحہ111)
علمائے دین کا عوام الناس کو ایسی محافل میں غیر شرعی افعال کے ارتکاب سے
نہ روکنا گویا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ناراضگی پر راضی رہنا ہے ۔(نعوذ
باللہ)
متقدمین علمائِ اسلام اپنے اپنے زمانے میں یہی فریضہ سر انجام دیتے چلے آئے
ہیں ۔ہاں اگر علماءکے سمجھانے کے باوجود وہ ایسی خرافات سے باز نہ آئیں تو
لوگوں کو ایسی محافل میں شرکت کرنے سے روک دیں ۔(جشن میلاد اور اسلام
ملخصاً صفحہ79-80)
اور اس موقع (میلاد النبی ﷺ) پر ایسی محافل کے انعقاد کو فروغ دیں جن میں
آداب کو لحاظ رکھا گیا ہو اور وہ ہر قسم کی منکرات شرعیہ ،خرافات واہیہ سے
پاک ہوں ۔صرف اسی صورت میں ان محافل کو عوام الناس کےلئے مفید سے مفید
تربنایا جا سکتا ہے ۔چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ :” اگر کوئی مجلس فی
نفسہ منکرات شرعیہ پر مشتمل نہ ہو اور نہ ہی اس میں وہ افعال کیے جائیں جو
مقاصد کے مختلف ہونے یا حالات کے بدلنے سے حسن و قبیح میں مختلف ہو جائیں
۔مثلاً سماعِ مجروہ (بغیر مزامیر کے قوالی) اور نہ ہی ایسی باتیں ہوں جو
دقت اور گہرائی کی وجہ سے ناقص فہم لوگوں کےلئے فتنہ کا باعث بنیں جیسے
وحدت الوجود کے دقیق مسائل اور تصوف کے مشکل دقائق یعنی وہ مجلس خال اور
مال ہر لحاظ سے تمام تر منکرات اور فتنوں سے خالی ہو تو اس میں عموم اذن
(اجازت عام ہونا) اور شمول دعوت (دعوت میں شامل ہونا ) میں حرج نہیں بلکہ
مجلس وعظ و پند میں شرعی حدود کی پابندی جس قدر عام(اور زیادہ ہو گی) اسی
قدریہ مجلس نفع کے لحاظ سے تام (کامل اور مفید تر) ہو گی ۔“(فتاویٰ رضویہ
جلد 24صفحہ 147-148)
المختصر علماءاسلام پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو اس مجلس میں درپیش آنے والے
تمام قبائح و منکرات سے آگاہ کریں اور جہاں خلافِ شرع امور کا ارتکاب ہو
وہاں جانے سے روکیں ۔
حرف آخر:ماہِ ربیع الاول دنیا میں رونما ہونے والے سب سے بڑے انقلاب کی یاد
تازہ کرتا ہے اور ہمارے لےے پیغام چھوڑجاتا ہے کہ جب تمہارے ان ناپختہ
افکار اور ناگفتہ بہ اطوار میں انقلاب پیدا نہیں ہوتا تو تم اپنی عظمت رفتہ
کا سراغ نہیں پا سکتے ۔ہماری یہ محافل میلاد انقلاب کی داعی ہوتی ہیں اور
مردہ ہمتوں میں انقلابی روح بیدار کرتی ہیں ۔ان محافل کی برکات و ثمرات سے
مستفیض ہونا وقت کا تقاضا ہے ۔ان محافل سے تعلق رکھنے والے ہر طبقہ کو خواہ
قراءکرام ہوں ۔ نعت خوانانِ عظام ہوں ،علمائے کرام ہوں یا عوام اسلام ،ہر
ایک کو اس انقلابی عمل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ادب و احترام سے محافل میلاد النبی ﷺ سجانے اور ان سے
برکات حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین |