جشن ولادت نور اول ، شاہد اول ،رحمت
عالمین ، شفیع المذنبین ،محبوب رب العالمین ، خاتم النبیین سید العالمین ،
فخرموجودات، وجہ قرار عالمین امام الانبیاءو المرسلین صدر نشیں مسند محمود،
مرجع وومرکز خلائق ، راز دار کن فکاں، شناسائے مبدا و معاد، معلم و ھادی و
ھاد، امین علم غیابات ملک القدوس،نافع و رافع ، مہر شہادت داعیان حق،برہان
رب العالمین ، شاہکاررب العالمین، یاسین و طہ،مخدوم روح الامین، مظھر دعائے
خلیل و نوید مسیح،عارف معارف کل، دانائے سبل،ختم الرسل،محمد و حامد و محمود
صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلی آلہ و صحبہ اجمین الف الف مرة۔
دل وجان و مال و آبا و اجداد و اولاد حضور کے نثار۔
الحمد للہ کہ دنیائے امتحان گاہ میں اس ذات والا کے جشن ولات کی گھڑیوں کی
سعادت نصیب ہورہی ہے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے فراخی جذبات ایمانی و
عرفانی کے ساتھ حب طولانی کا اظہار کردیں تاکہ دل مطمئن ہوجائے اور آنے
والی مشکل گھڑیوں کے لیئے زاد راہ ہو۔
ہر فرد امت کے اپنے قلبی جذبات و احساسات ہیں اور انہیں کے مطابق وہ
تقاضائے محبت و عقیدت کو پروان چڑھاتا ہے۔ اللہ پاک شرف قبولیت سے نوازے۔
آمین۔
جلسے، جلوس،محافل میلاد شریف کا انعقاد، چراغاں، لنگروں کی تقسیم اور دیگر
طرح طرح کی تقریبات محبوب رب العالمین ﷺ کی تشریف آوری کے سلسلہ میں اظہار
تشکر ہیں کہ خالق العالمین نے رحمة للعلمین ﷺ کوہم میں بھیج کر احسان عظیم
فرمایا ۔ بلاشبہ نعمت غیر مترقبہ پر احسان و تشکر بجا لانا مزید نعمتوں کے
حصول کا سبب ہے۔
میرے پیارے غلامان رسول و عاشقان رسول آپ اچھی طرح جانتے ہیں ہمارے آقا و
مولا ﷺ آخری نبی و رسول ہیں اور سلسلہ نبوت و رسالت و نزول وحی کا اختتام
ہوا ۔ نبوت و رسالت کے مقاصد کی بنیادی ضرورت نوعِ انسانی کی ہدائت ہے۔ آپ
ﷺ کی نبوت آفاقی و کائناتی ہے۔ آپ ﷺ مکمل دستور کائینات لیکر آئے۔ اور اسکی
تکمیل کے لیئے اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ کو لامحدود اختیارات عطا فرمائے۔ اللہ
تعالٰی نے قرآنِ کریم میں فرمادیا کہ میرے محبوب ﷺ تم پر پاکیزہ چیزوں
کوحلال کرتے ہیں اور نجس چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ قانون سازی کی اتھارٹی
اللہ نے ا ٓپکو عطا فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی دی ہوئی شریعت میں اب
قیامت تک کسی کو ترمیم و تنسیخ کا اختیا رنہیں ہے۔ انسانی ہدائت کا سلسلہ
جوہزاروں سال سے جاری تھا اور بتدریج تکمیلی مراحل طے کررہا تھا۔ اسکی وجہ
انسانی سوچ و فکر اور معاشرہ انسانی کا تدریجی ارتقا تھا۔ نوع انسانی طرح
طرح کے شیطانی کاموں کی مرتکب ہوتی گئی اور انبیاءکرام علیہھم الصلوة
والسلام انکی اصلاح میں اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ یہاں تک کہ انسانی
معا شرہ شیطان کی اتباع کرتے ہوئے برائیوں میں اس قدر ترقی کرگیا کہ اب
کوئی برائی ایسی نہ تھی کہ جو انسانی معاشرہ میں نہ پائی جاتی۔ جب برائیوں
اور اللہ تعالٰی کی نافرمانیوں کا سلسلہ عروج کو پہنچا تو یہ گھڑی آن پہنچی
کہ اب سردار آئے اور عظیم کارنبوت کی تکمیل کرکے مخلوق خدا کو عذاب الہی سے
نجات دلائے۔ اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اوراک نسخہ کیمیا ساتھ لایا۔ کھرا
اور کھوٹا الگ کردکھایا۔ عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا۔ پلٹ دی بس اک
آن میں اسکی کایا۔
نبی کہتے ہیں غیب کی خبریں دینے والا۔ سردار تو سردار ہے انکے فضائل و
کمالات بھی شمارسے باہر ہیں۔ غیب تک آپکی رسائی ایسی ہے کہ دوسرے غیب کی
خبریں دینے والے پیچھے ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر
قرآن پاک میں تمام انبیا ءکرام علیہھم الصلوة والسلام سے زیادہ آیا ہے۔ آپ
کو اللہ تعالٰی نے نو نشانیاں یعنی معجزات دے کر فرعون کے پاس بھیجا ۔ آپکا
مقابلہ فرعون سے تھا مشیت الہی نے نو معجزات کو کافی قرار دیا۔ جب سرور کون
و مکاں سید الانبیاء ﷺ تشریف لائے تو مشیت الہی نے معجزات کے بارے کسی تکلف
سے کام نہ لیا۔لمحہ بہ لمحہ، قدم بقدم عجائبات کا ظہور ہوتا نظر آتا ہے۔
ابو جہل پیتل کا بت لیئے زعم باطل میں آتا ہے کہ میرا یہ خدا سرور کون
ومکاں ﷺ کے سامنے کچھ بولے گا۔ وہ جھوما اور بولاتو کیا بولا کلمہ شہادت
پڑھ ڈالا اور آپ ﷺ کی شہادت دی۔کافر آیا ہاتھ میں کنکریاں ،مٹھی بند سوالات
کرتا ہے کہ آپ کوغیب کی خبر ہوتی ہے بتائیں میری مٹھی میں کیا ہے؟ آپ ﷺ کی
نبوت کی شہادت انہوں نے دیدی، سراقہ بن مالک قتل کے ارادہ سے آتا ہے، زمین
اسے بے بس کردیتی ہے، اپنے اندر نگل لیتی ہے۔ سرکار کا غلام بن کر معافی کا
خواستگار ہوتا ہے اور بارگاہ تاجدار انبیاء ﷺ سے سونے کے کنگنوں کے پہنائے
جانےکا مژدہ لیکر چلا جاتا ہے اور سن پندرہ ہجری میں فتح ایران کے بعد
خلیفة المسلمین سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ اس پر عمل درآمد فرماتے ہیں۔
لوگ آتے ہیں حضور پانی کی قلت ہے اور کنوئیں میں پانی کڑوا ہے۔ سرکار ﷺ
تشریف لاکراپنا لعاب دہن مبارک کوئیں میں ڈالتے ہیں تو پانی میٹھا ہوجاتا
ہے۔صلح حدیبیہ کے موقع پر لگ بھگ چودہ صد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مع اپنی
سواریوں کے پانی کی عدم دستیابی کے بارے بارگاہ رسالت میں عرض گذار ہوتے
ہیں۔ دیر کس بات کی؟ ایک برتن میں جناب رحمة للعالمین ﷺ اپنے دونوں دست
مبارک کی انگشتان مبارک پھیلاتے ہیں، پانی کے چشمے رواں ہوتے ہیں، چودہ سو
نفوس پیتے اور وضو فرماتے ہیں، سواریو ں کو بھی ساقی کوثر ﷺ کے فیض سے
سیراب کیا جاتا ہے۔ آب زمز م کو اللہ نے زمین سے رستہ دیا۔ کس قدر تشخیص
ایمان والا پانی ہے مگر یہاں آکر سوچ کے دھارے بدل جاتے ہیں کہ نور مجسم
جان جہاں ﷺ کی انگشتان مبارک سے جو آبِ نور مبارک برآمد ہوا اس کی اہمیت
اور عظمت کی بلند ی آب زمزم سے بلند ہے۔ جن چودہ سو صحابہ کرام نے پیاانکا
مرتبہ امت میں نرالا ہے۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے سرکارعلیہ الصلوة و
السلام کا قارورہ مبارک پی لیاجس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم پر جہنم کی
آگ حرام۔ ایک اور صحابی نے پچھنے لگوانے پر آپ ﷺ کا برآمد شدہ خون مبارک پی
لیا تو اس پر بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم پر آگ حرام۔ غزوہ احد سے واپسی پر
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنے زخموں کی شدت تکلیف عر ض کی۔ جس مقام پر
لشکر اسلام ٹہرا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس مٹی کو اللہ پاک نے تمہارے
لیئے شفا بنادیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس جگہ لیٹے اور اپنے زخموں
پر مٹی ڈالی ۔ زخم ٹھیک ہوگئے۔ امت اسی مقام سے خاک شفا لیا کرتی تھی کہ
موجودہ سعودی حکمرانوں نے اس جگہ کا نام و نشان مٹاکر گندا نالہ او ر کچھ
حصہ پر سڑک بنا دی ہے۔ اللہ انہیں بصیرت ایمانی عطا فرمائے اور اللہ و رسول
ﷺ کے شعائر کی تعظیم کریں اور انہیں ایمان کی تازگی کے لیئے باقی رکھیں۔ایک
صحابی مسجد نبوی سے دور رہتے تھے نماز عشا امام الانبیاء ﷺ کی اقتدا میں
پڑھنے کی تڑپ اور چہرہ اقدس کی زیارت نے انہیں بے تاب کرکھا تھا موسم بھی
بارش کا تھا، مگر عشق نبی ﷺ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔ تشریف لے آئے۔
بعد نماز اور مشرف بہ زیارت ہونے کے سرکار علیہ الصلوة والسلام نے فرمایاوہ
کونے میں کھجور کی ٹہنی ہے لے آﺅ۔ اسے آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک میں لے کر
فرمایا یہ لو ، یہ روشنی دے گی ۔ اسکی روشنی میں اپنے گھر جاﺅ اور تمہارے
گھر میں شیطان گھسا ہوا ہے اسی سوٹی سے جاکراسے مارو۔ یہ ایک عام کھجور کی
ٹیڑھی سی سوکھی شاخ تھی ۔ اس میں کوئی خاصیت تو نہ تھی مگر دست مصطفے ﷺ میں
آئی نور والی سرکار ﷺ کے نورانی دست مبارک سے اس میں بھی نور کی قوت منتقل
ہوگئی۔ مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنا دست مبارک بغل میں
ڈال کر نکالتے ہیں تو روشن ہوتا ہے۔ مگر جب میں اپنے آقا و مولا ﷺ کے ان
معمولات کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی خبر بھی نہیں رہتی۔ یہاں معجزات کا ذکر
کرنے سے مقصود فقط یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالٰی نے امام الانبیا ء ﷺ کو
ہرچیز کی کثرت عطا فرمائی ہے جیسا کہ سورة الکوثر میں ہر نعمت کی کثرت کا
ذکر ہے یہی سند ہے۔ پھر ارشاد ربانی ہے کہ ورفعنا لک ذکرک جو دوام کے ساتھ
آپکی شان میں اضافہ کرتا ہے۔ یوں تو اسم محمد ﷺ مظہرشان مصطفے ہے کہ ہمیشہ
اور ہردور میں آپکی ستائش ہوتی رہے گی۔ کیا ستائش کا معیا ر یا پیمانہ ایک
ہی برقرار رہے گا ۔ اسکی بھی خالق نور مصطفے ﷺ نے وضاحت فرمادی کہ اب کوئی
ابہام باقی نہیں رہا۔ سورة ضحی میں وللآخرة خیرلک من الاولی پچھلا وقت آپکا
پہلے سے زیادہ بہتر ہے۔
دنیا میں اس شان کا اظہار ہوچکا کہ آپ ﷺ کی مکی زندگی کے مقابلے میں مدنی
دور زور نبوت کا دور ہے۔ جب دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ کی رسالتیں آپ ﷺ نے
پہنچائیں۔ جب اذانوں میں آپکا اسم گرامی پڑھا گیا تو دشت و جبل نام محمد ﷺ
سے گونج اٹھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ قرآن و سنت کے چرچے اس قدر ہوئے کہ باطل
باطل ہوگیا۔ سب سے زیادہ شائع ہونے والا اور پڑھا جانے والا اسلامی لٹریچر
ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ کتب خانے قرآن و سنت یعنی اسلامی کتب و رسائل سے
بھرے پڑے ہیں۔ یہ سبھی اس ذات والا کے ذکر پر دلالت کرتے ہیں۔ ربیع الاول
جسے اہل محبت و عشق ربیع النور کہتے ہیں تمام مہینوں کا سردارہے کیونکہ اس
میں سردار انبیاء تشریف لائے۔ آپکی تشریف ہوئی اورآپ ﷺ نے اللہ کی رحمتوں
کے در کھولدئیے۔ اس میں اہل ایمان مسرت و شادمانی کا اظہار کرکے دل و جان
اپنے پیارے آقا ﷺ کے حضورفرش راہ کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ کے چاہنے
والوں میں نام شامل ہوجائے کہ کل قبر میں اور محشر میں جب شان مصطفے بے مثل
و مثال قابل دید ہوگی اور رب ذوالجلال فرمائے گا اے سب سے زیادہ تعریف کیئے
گئے اور سب سے زیادہ حمد کرنے والے ہمیں تمہاری رضا چاہیئے۔ اس وقت غلاموں
کی کیا شان ہوگی اور آپکے منکروں کا کیاحال ہوگا؟یقین کامل ہے کہ سرکار
علیہ الصلوة والسلام کی اس عالم آب و گل میں تشریف آوری کی کسی بھی انداز
میں خوشی منانے والے اس روزجاں گداز میں محفوظ و مامون ہونگے اور اللہ اپنے
محبوب پاک ﷺ کے چاہنے والوں کو منکروں کے سامنے سرفرازی عطافرمائے گا۔ جبکہ
ذلت و خواری اور عذاب ملعونوں کا مقدر ہوگی۔ مجھے امید قوی ہے کہ محبوب پاک
ﷺ کے دیوانے صلوة و سلام پڑھتے ابواب جنت میں یوں داخل ہونگے کہ حورو ملائک
مرحبا مرحبا کی صدائیں بلند کرتے ہونگے۔ آمین۔
پیارے شمع رسالت کے پروانو! اب ذرا غور کرو کہ اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب ﷺ
کو بھیجا۔ آپ پر اپنی رسالتیں نازل فرمائیں ۔ اور ان احکامات کو لوگوں تک
پہنچانے کا حکم دیا۔کیا محبوب پاک ﷺ نے اسکی ادائیگی میں کوئی کسر چھوڑی؟۔
ہر گز نہیں ۔ حجة الوداع کے روز آپکا خطبہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم
کاشہادت دینا کہ آپ ﷺ نے اللہ کا دین ہم تک پہنچا دیا ہے۔ جانتے ہو یہ دین
نظام حیات ہے۔ یہ دین سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔ سارا دین اسلام آپکی ذات ہے۔
فرمان الہی ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة لمن کان یرجوا للہ
والیوم الاخروذکر اللہ کثیرا (سورة احزاب۔21) بے شک تمہیں رسول پاک کی
پیروی بہتر ہے، ہر اس شخص کو جسے اللہ سے ملنے اورروز قیامت کے آنے کی امید
ہواور وہ اللہ کاذکر کثرت سے کرتا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ مختلف راستوں اور
رحجانات میں سے صراط مستقیم کو پانے کا واحد طریقہ استقامت کی نمائندگی
کرنے والی ہستی کی سنت کا اتباع ہے۔ اللہ تعالٰی نے متعدد مقامات پر
تاکیدافرمایا کہ میری رضا حاصل کرنی ہے تو میرے پیارے رسول ﷺ کی اتباع و
اطاعت کرو۔ یاایھا الذین آ منوا اطیعوا اللہ واطیعواالرسول واولی الامر
منکم(النسا۔ 59) مومنو!اللہ اوراسکے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں
سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی۔
اللہ تعالٰی نے سنت رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کااظہار خود
فرمایا اور تاکید فرمائی کہ میرے رسول کی سنت ہی اسلام ہے اور یہ ناگزیر
اساس ہے۔ ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلو علیھم آیا تہ ویزکیھم
ویعلمھم الکتاب ولحکمة وان کانوٓ من قبل لفی ضلال مبین(الجمعة ۔۲) وہی تو
ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجے ،جو ان کے سامنے اسکی
آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔"
مفسرین کرام نے الحکمة سے سنت ِرسول مراد لی ہے۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی نے فرمایا" وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ
(النساء۔ 64)" ہم نے جو پیغمبر بھی بھیجا ہے اسی لیئے بھیجا ہے کہ اللہ کے
فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے" یہ بات واضح ہوگئی کہ انبیاءکرام کی
تشریف صرف اس لیئے ہوئی کہ انسانیت انکی پیروی کرے۔ کسی نبی کی پیروی انکی
ذات کے لیئے نہیں بلکہ فرد اور معاشرے کی روحانی اور مادی ہدائت کا وسیلہ
بنے کیونکہ ان پر اللہ تعالٰی کے احکامات کا نزول ہوا۔
ارشادباری تعالٰی ہوا " (یاایھاالذین آمنوا اطیعوا اللہ ورسولہ) سورة انفال
۔ 20 اے ایمان والو! اللہ اور اسکے رسول کے حکم پر چلو(اطیعوااللہ
واطیعواالرسول) النسائ۔59۔ اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرو" ان آیات
مبارکہ میں اللہ تعالٰی اور رسول پاک ﷺ کی اطاعت مختلف انداز میں بیان
فرمائی گئی۔ اللہ تعالٰی کی اطاعت سے مرادہے کہ قرآن کریم میں جو احکامات
اللہ نے دیئے ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے منع فرمایا انہیں ترک کرو۔
جبکہ رسول ﷺ کی اطاعت سے مراد آپﷺ کی پیروی، آپ ﷺ کی سنت مبارکہ پر عمل
یعنی کہ جو احکامات آ پ ﷺ نے دیئے ،جن کاموں سے منع فرمایا اور افعال و
تقریر کی پیروی لازمی قرار دی۔ آپ ﷺ کی سنت میں ترغیب و ترھیب اور نصیحتوں
کا بہت بڑا خزانہ ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا " غور سے سنو ! مجھے کتاب اور
اس جیسی کچھ اور چیزیں دی گئی ہیں۔"
محبوب پاک ﷺ کے پیارو! اللہ تعالٰی نے اپنی محبت اور قرب کا رخ ہمارے ہی
پیارے آقا و مولا ﷺ کی طرف پھیر دیا جیسا کہ ارشاد ربانی ہوا ( قل ان کنتم
تحبون اللہ فا تبعونی یحببکم اللہ آل عمران ۔ 31) ©" اے محبوب ﷺ لوگوں سے
فرمادو کہ اگرتم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردارہوجاﺅ پس اللہ
تمہیں دوست رکھے گا"
آپ ﷺ کی ذات گرامی قدر، آپکے اسوہ حسنہ پر عمل اور آپکے سامنے سرتسلیم خم
کرنے کوایمان کی اساس قرار دیا ارشاد ربانی ہے( فلا وربک لایومنون حتی
یحکموک فیما شجر بینھم۔ النساء۔ 65) " اے محبوب ! پس تمہارے پروردگار کی
قسم کہ یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں تب تک مومن
نہیں ہونگے"
ایک روائت میں ہے کہ سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جسم گودنے
والی، گدوانے والی ، پیشانی سے بال اکھیڑنے والی، خوبصورتی کے لیئے دانتوں
میں خلا پیدا کرنے والی اور اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں تبدیلی کرنے والی
عورتوں پر لعنت کرتے تھے۔ایک خاتون قرآن ِپاک کی تلاوت کرنے والی حضرت ام
یعقوب رضی اللہ عنہا آپکے پاس آئیں اور کہا کہ آپ مندرجہ بالا کام کرنے
والی عورتوں پر لعنت کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں میں ان
عورتوں پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول پاک ﷺ نے لعنت فرمائی اور یہ بات
کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو قرآن میں ایسی کوئی
بات نہیں پائی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم قرآ ن پاک دھیان سے
پڑھتیں تو آپکو یہ بات مل جاتی ارشاد ربانی ہے( وما آ تکم الرسول فخذوہ وما
نھا کم عنہ فانتھوا ۔ الحشر۔۷)" اور جو چیز تم کو رسول پاک دیں وہ لے لو
اور جس سے منع کریں باز رہو۔ کیونکہ یہ بات رسول پاک ﷺ سے مروی ہے۔
مندرجہ بالا دلائل کاذکر اس لیئے کیا کہ عاشقان رسول اپنے آقا مولا کے
مرتبے کو مزید جانیں اور پہچانیں کہ رب کا قرب، اسکی رضا اور جنت کا حصول
دو باتوں پر مستوی ہے ایک آپ ﷺ پر قلب و جگر سے ایمان لانا اور آپ ﷺ پر
نازل شدہ الکتاب اور آپ ﷺ کی سنت مبارکہ پر عمل ۔ شیخ سعدی علیہ الرحمة نے
فرمایا خلاف پیمبر کسے رہ گزید ۔ کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید۔ اور علامہ
اقبال رحمة اللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا کہ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم
تیرے ہیں ۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔
میرے پیارے بھائیو! ظہور معجزات تو میرے آقا ﷺ کے معمولات ہیںآپ ﷺ جیسا
کوئی اور کسی ماں نے نہ جنا اور نہ جنےگی کیونکہ جوکام کرنے کی طاقت آپ کو
اللہ تعالٰی نے عطا فرمائی کسی اور نبی کو بھی اتنی وسعت طاقت عطا نہ
فرمائی۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کفار مکہ نے آپ ﷺ سے کہا کہ چان کودو ٹکڑوں
میں کردکھائیں۔ اسکے جواب میں آپ ﷺ نے نہ کوئی مہلت مانگی اور نہ ہی کہیں
ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے دعا کے لیئے توقف کیا ہو۔ آپ ﷺ کوہ ابوقبیس پر چڑھ گئے
اور انگشت مبارک سے اشارہ ہی کیا آنکھ جھپکنے کی تاخیر سے قبل چاند کے
دوٹکڑے ہوئے اور پھر اسی طرح اشارہ فرماتے ہی چاند جڑگیا۔ دیگر معجزات میں
بھی یہی کچھ ہے۔ آپ ﷺ ذاتی طور پر اس طاقت کے مالک نہ ہیں ۔ یہ اللہ کی عطا
کردہ ہے لیکن پہلے انبیاءکرام علیہھم الصلوة والسلام کو بھی اللہ تعالٰی نے
ہی معجزات عطا فرمائے۔ جب عصا اژدہا بنا تو حضرت موسی علیہ السلام نے وہاں
سے خوف میں پیٹھ پھیرلی۔مگر یہا ں کاعالم ہی کچھ اور ہے کہ اژدہا سجدے
بجالاتے ہیں۔ جب آپ جنگل میں جاتے ہیں تو درندے آپکے دامن سے لپٹ جاتے ہیں۔
آ پ ﷺ کے صحابی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ شیرکو دیکھ کرصرف اتنافرماتے ہیں
کہ میں رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں تو شیر دم ہلاتا آگے آگے چل پڑتا ہے۔ آپ ﷺ
کا کام بڑاکٹھن تھا، ان فرائض کی بجا آوری کے لیئے اللہ پاک نے آپ کو
مختارخاص نہیں بلکہ مختارعام بنایا۔ ہوا سبھی کچھ اللہ کے حکم سے لیکن بلا
تعطل ہوا۔ لگا ایسے کہ گویا سبھی کچھ آپ ﷺ کی مرضی سے ہورہا ہے۔ اختیارات
اتنے وسیع کہ مخلوق کے فہم و ادراک سے بالاتر۔ اللہ تعالٰی نے سب کچھ آپ ﷺ
پر چھوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب موقع محل آیابلا تکلف آپ ﷺ نے وہ کچھ
کردکھایا جس نے آپ ﷺ کے اختیارات کی لامحدود وسعتوں کو آشکارا کردیا۔
مقام سنت رسول اللہ ﷺ :اعمال کے بارے یہ جاننا لازمی ہے، اعمال کی بجا آوری
میں ایک تقسیم کار استعمال کی گئی ۔ کچھ کو فرائض قرار دیا گیا، کچھ
کوواجبات، کچھ کو سنت کچھ کو مستحب اور مباح کے درجوں رکھا گیا۔ بعض ناسمجھ
سنت کا نام سنکر عمل میں مستعدی نہیں دکھاتے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بعض
کے نزدیک سنت کا مقام کوئی زیادہ اہمیت کا حامل نہیں۔ حاشا و کلا میں کہتا
ہوں حذر اے مسلمان۔ تجھے معلوم نہیں کہ اسلام سارے کا سارا حبیب رب
العالمین ﷺ کی سنت ہے۔ اوپر آیات الہی سے یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی کہ
اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہو، عمل ہو یا یا آپ کسی کے کام پر نہی کا حکم نہ
دیں یہی اسلام ہے، یہی نظام مصطفے ہے ، اسے ہی شریعت کہتے ہیں۔ اس بارے
میرے پاس لامحدود دلائل ہیں۔ قرآن کریم کو الکتاب من اللہ ہم نے کسے جانا ؟
نبی پاک ﷺ نے آیات پڑھ کر سنائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ قرآن ہے تو ہمیں
پتہ چلا کہ یہ قرآن ہے اوریہ اللہ کا کلا م ہے۔جب توحید کی بات ہوئی توآپ ﷺ
نے توحید الہی کے بارے بتایا اور ہم ایمان لائے کہ اللہ ایک ہے۔قرآن کریم
میں نماز کا حکم آیا، ارکان نماز کا بھی ذکر آیا مگر نماز کے اوقات کی
وضاحت، رکعتوں کی تعداد ، نما ز کے دیگر قواعد و ضوابط کا ذکر صراحتا نہیں
ملا۔یہ سبھی کچھ سنت سے معلوم ہوا۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
صلوازکما رائتمونی تم نماز ایسے پڑھو جیسے میں پڑھتاہوں۔ وضو،غسل اور تیمم
کے احکامات آئے مگر مکمل وضو سنت سے ثابت ہوا، غسل اور تیمم کی تکمیل بھی
سنت سے ہوئی۔ زکوة کا حکم ہے مگر اسکی ادائیگی کے لیئے شرح زکوة، وجوب کی
صورت، فصلوں ، مال مویشی اور مال تجارت میں سے زکوة کی ادائیگی کا سارا
نظام سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔گویا اسلام کا سارا نظام زکوة آپ ﷺ کی سنت کے
تابع ہے۔ اسی طرح حج اور عمرہ کی ادائیگی کا تمام طریقہ سوائے چند بنیادی
احکامات کے سبھی تو سنت رسول اللہ ﷺ ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ روزہ کا نظام
،نماز تراویح اور راتوں کوعبادت الہی کے روح پرور مناظر سبھی سنت رسول اللہ
ﷺ ہیں۔
یہ سب کچھ تحریر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے اپنے پیارے آقا
ﷺ کے کامل و اکمل نظام سے روگردانی کررکھی ہے۔جشن ولادت منانے کے روح افزا
مناظر و مواقع دیکھیں تو لگتا ہے کہ محبوب پاک ﷺ کے سچے غلام یہی بانیاں
محافل ہیں۔ مگر دیکھتے ہیں کہ آج دنیا میں ایک ارب سے زائد مسلمان ہیں
مگریہودونصاری اور ہنود انپر مسلط ہیں۔بقول حضرت محمد اقبال رحمة اللہ علیہ
ہزاروں لالہ وگل ہیں ریاض ہستی میں ۔ وفا کی ہو جس میں بو، وہ کلی نہیں
ملتی ۔ کسی مسلمان ملک میں سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق اسلامی نظام نافذ
نہیں۔ مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں تارک و مخالف سنت رسول اللہ ﷺ
ہیں۔سنت رسول ﷺ میں کیا خزانے پوشیدہ ہیں؟ دنیا اور آخرت کی کامیابیاں اور
اللہ تعالٰی کی ساری نعمتوں کے خزانے اسکے نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل میں
پوشیدہ ہیں۔ لشکر اسلام ایران کی سرحدوں پر تین ماہ سے پڑاﺅ ڈالے ہوا ہے۔
امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سالار لشکر کو تحریر فرماتے ہیں
کہ تین ماہ ہوگئے جنگ کاکوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔لگتا ہے تم
لوگوں نے رسول پاک ﷺ کی کسی سنت کو ترک کر رکھا ہے۔غور کرنے پر معلوم ہوا
کہ جنگی حالات کی وجہ سے مسواک کرنے پر عمل نہیں ہورہا۔ تمام عسکری مسواک
کرنے میں مشغول ہوئے اور ایرانی لشکر عمل مسواک کو دانت تیز کرنے کے مترادف
سمجھا کہ مسلمان دانت ہمارے لیئے تیز کررہے ہیں اور وہ خوفزدہ ہوکربھاگ
کھڑے ہوئے۔ اس وقت پوری دنیا کے مسلمان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنے
نبی ﷺ کی سنتوں کوترک کرچکے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں ۔قلب میں سوز نہیں، روح
میں احساس نہیں ۔ کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں۔
آزاد مملکت ، اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت نہ انفرادی طور پر
مسلمان مسلمان بنے اور نہ اجتماعی طورپر۔ مسلمانوں کی موجودہ کیفیت تو یوں
ہے ۔ بقول حضرت اقبال ۔ ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خوگر ہیں ۔ امتی
باعث رسوائی پیغمبر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر فرنگی کی
پیروی کون کررہا ہے، اپنے روز مرہ کے معمولات میں ، کھانے پینے ، اٹھنے
بیٹھنے، سونے جاگنے،لباس،وضع قطع، حصول علم، تلاش معاش، عدل وانصاف، معیشت
، نظام حکومت ، معاشرتی اقدار میں فرنگی کی خوشنودی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
علامہ نے فرمایا وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدن میں ہنود ۔ یہ مسلماں ہیں!
جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود!
جشن ولادت باسعادت کے مبارک موقع پر عہد کرلو کہ ہم اب مسلمان بنیں گے اور
صرف مسلمان ۔ ہم اپنے نبی ﷺ کے ساتھ وفادری کریں گئے۔ ہم انکی سنتوں پر عمل
کریں گے:
۱۔ پانچوں وقت نماز پابندی سے ادا کریں گے۔ہروضو سے قبل مسواک کریں گے اور
ٹوتھ برش وٹوتھ پیست خلاف سنت ہے اسے ترک کریں گے۔۲۔ حلال کمائیں گے، حلال
کھائیں گے، رشوت لینا حرام ہے ہمارے آقا ﷺ نے فرمایا الراشی والمرتشی
کلاھما فی النار۔ ہمیں جنت میں جانا ہے۔ رشوت دے کر اور لے کر ہم جہنم میں
اپنا دائمی ٹھکانہ نہیں بنائیں گے۔ ۳۔ ہم اپنی عورتوں کو پردہ کرائیں گے۔
بغیر برقعہ ، نقاب کے اب ہماری بیویاں، بیٹیاں بہنیں آرائش کرکے کے بازاروں
میں نہیں گھومیں گی۔ ۴۔ اب ہم خود اور ہمارے گھر والے مغرب کی طرف سے لائے
گئے لباس کے نئے نئے فیشنوں سے نفرت کرتے ہیں اور وہ لباس پہنیں گے جو شرم
و حیا والاہوگا۔ ۵۔ ہم اپنے نبی ﷺ کی محبت میں داڑھیا ںرکھیں گے۔سروں پر
انگریزی اور ہندو کی بودی نہیں رکھیں گے۔۶۔ ٹائی صلیب کا نشان ہے جو
عیسائیوں کے لیئے متبرک ہے ہم اسے اپنے گلے میں ڈالنے سے نفرت کریں گے اور
آئندہ ہم ٹائی نہیں باندھیں گے کیونکہ اس سے عیسائیوں کے ساتھ ہماری مشابہت
ہوتی ہے۔ ۷۔ اب ہم کھانا اپنے پیارے آقا ﷺ کی سنت کے مطابق کھائیں گے۔ بیٹھ
کر، ملکر، دائیں ہاتھ سے تسمیہ پڑھ کر کھائیں گے۔ کھانے کے بعد دعا مانگیں
گے۔ چھری کانٹے اور چمچ سے ہرگز نہ کھائیں گے کیونکہ انکا استعمال سنت کی
مخالفت ہے۔ سنت رسول کی مخالفت کرکے ہم جہنمی نہیں ہوناچاہتے ۔ آج کل
دعوتوں میں کھڑے ہوکر کھانے کارواج پڑگیا ہے ہم خود بیٹھ کر کھانے کی
دعوتوں کا اہتمام کریں گے اور کسی دعوت میں کھڑے ہوکر کھانا نہ کھائیں گے۔
کیونکہ سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں کھانے سے عبادت کا مزہ اور روح کی
تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ ۸۔ اب ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اور ہماری خواتین ایسا
لباس نہیں پہنیں گے کہ جس جسم کے خدو خال نمایاں ہوں، مثلا جینز اور خواتین
کا نیم عریان لباس۔ ۹۔ بے حیائی پھیلانے والی موسیقی حرام ہے ہم اور ہمارے
گھر والے اب حرام کی بجائے حلال اور روحانی موسیقی سنیں گے۔ 10۔ ہم برائی
کے خلاف آواز اٹھائیں گے اورلادینیت کی ہر طرح مخالفت کریں گے۔ نیکی کی
تبلیغ کرنے والوں کا ساتھ دیں گے۔۱۱۔ اب ہر روزبلاناغہ ہمارے گھروں سے قرآن
پاک کی تلاوت کی آوازیں سنی جاسکیں گی۔ 12۔قرآن اور سنت کی تعلیم خود اور
اپنے گھر والوں کو دیں گے۔ 13۔ ہمارے ملک میں مغربی جمہوری کافرانہ نظام
حکومت نافذ ہے اسے دفع کرکے قرآن و سنت کا نظام نافذ کریں گے۔ 14۔ آج ہم
عہد کرتے ہیں کہ حکومت سازی کے لیئے انتخابات میں لٹیروں، دین سے نابلد،
سنت رسول کے مخالف چلنے والوں کو ہرگز ووٹ نہ دیں گے۔ کیونکہ ہم اپنے پیارے
رسول ﷺ سے بے وفائی نہیں کرسکتے۔ اگر انکے دیئے ہوئے نظام کے مدمقابل کسی
اور نظام کو تقویت دیں گے تو ہمارے پیارے نبی ﷺ ہم سے ناراض ہوجائیں گے اگر
وہ ناراض ہوئے تو اللہ ناراض ہوجائے گا ۔ پھر تو ہم کہں کے نہ رہے۔ ہمارے
یہ سردار ، بڑے اور حکمران قیامت کے دن خود قہر الہی کا شکار ہونگے ہمارے
کیا مدد کریں گے۔ اس وقت مدد کرنے والے تمام جہانوں کے سردار و مختار
سیدالعالمین ﷺ مقام محمود پر ہونگے اور اس روز صرف انہیں کی بات رب مانے
گا۔ ہم کسی خبیث نافرمان کی پیروی کرکے اپنی عاقبت ہرگز برباد نہ کریں
گے۔۵۱۔ ہم تو اپنے پیارے آقا ﷺ کے سچے غلاموں کی فہرست میں اپنا نام
لکھوانا چاہتے ہیں۔ جبھی تو ہم جھنڈے جھنڈیاں لگا رہے ہیں ، نقش نعلین حضور
ﷺ کے پرچم لہرا رہے ہیں، اللہ کی رضا کے حصول کے لیئے ہم اس ذات والا کی
نعتیں پڑھ رہے ہیں کہ جن کی نعتیں خود خالق کائنات بیان فرما تا ہے ۔
میرے پیارے عاشقان رسول و غلامان رسول آج کے جشن ولادت صاحبِ قرآن و سنت
ہادی اعظم، مالکِ کوثر و سلسبیل، شافع یوم الحزن، صاحبِ نیابت و خلافت
الہیہ ، سیاح لامکاں رحمة للعلمین ﷺ کے ساتھ اوپر دیئے گئے اصولوں پرآج 12
ربیع النو ر کی نسبت سے پختہ عہد کے ساتھ عمل شروع کردیں ۔ اس دنیائے
ناپائدار سے کس وقت واپسی کا پروانہ لیکر حضرت عزرائیل علیہ السلام آجائیں۔
ہم بے خبری میں مارے نہ جائیں۔ جو اب تک خلاف سنت کیا اس پر سچے دل سے توبہ
کریں اللہ کریم معاف فرمائے گا اور آئندہ کے لیئے ان نکات پر عمل کریں۔
اللہ ورسول ﷺ آپکے حامی و ناصر ہوں۔آمین ثم آمین۔ |