عید میلاد النبی ﷺ کی حقیقت

اس پرفتن دور میں حق و باطل کا ایسا التباس ہے کہ باطل کو حق کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے یا تو لوگ لاعلم ہے یا حق بات جاننے کی ان کو جیسے ضرورت ہی نہیں، جس کی وجہ سے لوگ بدعت کو دین سمجھ بیٹھے ہیں اور سنتوں کو چھوڑ کر بدعتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ان بدعتوں میں ایک میلاد النبی ﷺ بھی ہے۔

دور نبوت ، دور صحابہ ، دور تابعیں اور تبع تابعین کے بعدکے دور تک کسی سے بھی میلاد ثابت نہیں ۔ سلف الصالحین نے کبھی میلاد کی محفلیں نہیں سجائی اس لئے کہ وہاں ہر روز ، روز عید اور ہر شب، شب قدر ہوتی تھی کیونکہ ان کی زندگی سیرت النبی ﷺ کے سانچیں میں ڈھلی ہوئی تھی، اور جوں ہی زمانہ آپ ﷺ کے مبارک زمانے سے دور ہوتا گیا ویسے ہی عمل کے بجائے گفتار کا سکہ چلنے لگا، لیکن آج بھی الحمد اﷲ ایسے بندے موجود ہیں جو آپ ﷺ کے زمانے کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔نبوت کے 23 سالہ دور میں حضور ﷺ نے جو حکم دیا صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین نے بلا جھجک اس حکم کو بجا لایا، صرف منہ سے الفاظ مبارک نکلنے کی دیر ہوتی باقی حکم بجا لانے کے لئے سارے صحابہ کرام ہر وقت تیار رہتے ۔اور اپنے لئے اس حکم کو بجا لانا اعزاز اور باعث فخر سمجھتے تھے ۔نبی ﷺ کے بعد صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین اور تابعین رحمہ اﷲ سے زیادہ کوئی پرہیزگار اور عبادت گزار نہ تھے، اور ان کو دین کے معاملے میں ثقہ اور امین کہا گیا ہے، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین اور تابعین رحمہ اﷲ کی زندگی ، حضور ﷺ کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے
اکرموا اصحابی فانہم خیارکم ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم ثم یظھر الکذب۔ (مشکوة ص ۴۵۵)
میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں ، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہونگیں ، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہونگیں اس کے بعد جھوٹ کا ظھور ہوگا۔

آپ ﷺ کی ولادت شریفہ اور آپ ﷺ کا وجود سراپا رحمت ہے مگر اس رحمت سے فائدہ اٹھانے والے وہ خوش قسمت ہیںجو حضور ﷺ کی سنت و سیرت کو اپنانے والے او ر جن کو آپ ﷺ کے مقدس اسوہ حسنہ پر چلنے کی توفیق ملی ہو۔اور یہی آپ ﷺ کی آوری کا مقصد وحید تھا۔اﷲ عزوجل نے بار بار تاکیدات کی ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو ، ان کے نقش قدم پے چلو۔اور خود اﷲ عزوجل نے اپنی اطاعت کو آپ ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مشروط کیا ہے۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ۔
ومن یطع الرسول فقد اطاع اﷲ ( النساء آ یت 80 )

اسی طرح ہم لاالہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ کا عہد کرکے ایمان لائے ہیں اور ہمارے اس ایمان کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کے ایک ایک فیصلے پر دل و جان سے راضی ہو جیساکہ قرآن میں ہےکہ
فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما ( النسا ء آیت 65)

اسی طرح آپ ﷺ ہر امتی کے لئے محبوب ہیں اور محبت ، شرط ایمان ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ
والذی نفسی بیدہ لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔( صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول ﷺ من الایمان)

اب جمہور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کی اطاعت ، نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہے اور آپ ﷺ کی اطاعت ، اﷲ عزوجل کی اطاعت ہے۔دور نبوت ، دور صحابہ کرام رضوان اﷲ اور دور تابعین رحمہ اﷲ کی زندگیاں ہمارے لئے راہنمائی ہے ، وہ عمل ہمارے لئے قابل حجت ہوگا ، جس کا ثبوت قرون ثلاثہ میں ہوگا اگر اس کا ثبوت قرون ثلاثہ میں نہ ہو تو وہ ہمارے لیے کسی بھی طریقے سے حجت نہیں ہوگا۔

آپ ﷺ کا یوم ولادت حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دور میں 2 مرتبہ آیا ، حضرت عمر رضی اﷲ کے دور میں 10مرتبہ آیا، حضرت عثمان رضی اﷲ کے دور میں 12 مرتبہ آیا ، حضرت علی رضی اﷲ کے دور میں 5 مرتبہ آیا،حضرت معاویہ رضی اﷲ کے دور میں 19 مرتبہ آیا،امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے دور میں 70 مرتبہ آیا ، امام مالک رحمہ اﷲ کے دور میں 83 مرتبہ آیا ، امام شافعی رحمہ اﷲ کے دور میں 54 مرتبہ آیا، امام احمد بن حنبل کے دور میں77 مرتبہ آیا , غرض یہ کہ ان تمام حضرات کے دور وں میلاد کا دن آیا مگر کسی نے بھی ایک بار ولادت نہیں منائی۔قرآن و حدیث اور پوری تاریخ اسلامی میں کہی بھی میلاد کا ذکر نہیں ملتا۔

میلاد کی ابتداء 604 ہجری میں عراق کے شہر موصل میں ہوئی۔ایک عیاش اور بے دین بادشاہ مظفر الدین کوکری ابن اربل نے میلاد النبی اور جشن محفل میلاد النبی کی بدعت ایجاد کی، اس وقت اس نے پیسے دیکر دنیا پرست علماءکو خریدنا شروع کیا اور میلاد کے ثبوت میں جھوٹے دلائل اکٹھے کرنے کا حکم دیا ۔چنانچہ اس نے اس کام کے لئے ایک جاہل صوفی عمر ابن دحیہ ابوالخطاب کو چنا اور اس کو 1000 دینار دیئے اور میلاد کہ اس رسم کو عام کرے۔ اس میں بادشاہ نے تین چیریں ملحوظ رکھی، ایک یہ کہ 12 ربیع الاول کی تاریخ کا تعین، دوسرا یہ کہ اجتماع، تیسرا یہ کہ ختم محفل پر طعام ۔ عمر ابن دحیہ ابوالخطاب کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ وہ ایک بد اخلاق آدمی تھا اور بزرگان دین کو گالیاں دیا کرتا تھا۔ ( تاریخ ابن خلقان ، لسان المیزان علامہ ابن حجر)

آپ ﷺ کی ولادت مختلف فیہ ہے اس میں مختلف اقوال ہیں ۔
مصر کے ماہر فلکیات محمود پاشا نے قوی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ پیدائش 9 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔( الرحیق المختوم ص 83 )
شاہ عبد القادر جیلانی رحمہ اﷲ 10 محرم الحرام کو حضور ﷺ کی ولادت ثابت کرتے ہیں ۔
علامہ سہیلی کے نزدیک آپ ﷺ واقعہ فیل کے پچاس روز بعد 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور محمد بن علی سے یہ منقول ہے کہ پچپن روز بعد پیدا ہوئے اور اسی کو علامہ دمیاطی نے اختیار فرمایا ہے۔(زرقانی ج ۱ ص 130 )
محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ ابو معشر نجیح المدنی کہا کرتے تھے کہ ماہ ربیع الاول کی دو شنبیں گزری تھیں کہ آپ ﷺ دو شنبہ کے دن پیدا ہوئے ۔ ( الطبقات ابن سعد ج ۱ ص۱۲۱)
ایک قول جو عوام الناس میں مشہور بھی ہے وہ یہ کہ آپ ﷺ کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی۔

جب ولادت میں اتنے اقوال ہوں تو پھر میلاد کیسا؟
اس بات پر سارے متفق ہیں کہ آپ ﷺ کی وفات 12 ربیع الاول کو ہوئی تھی اور احادیث وتاریخ کی روشنی میں 12 ربیع الاول کو وفات ثابت ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں،
علامہ عبد الرحمان بن علی رحمہ اﷲ اپنی کتاب المنتظم میں لکھتے ہیں کہ
توفی رسول اﷲ ﷺ یوم الاثنین نصف النھار وربما قیل عند استداد الضحی لاثنتی عشرة خلت من ربیع الاول سنة احدی عشرة ۔( ج ۴ ص ۰۴ طبع بیروت)
مشہور محدث وثقہ مورخ علامہ ابن کثیر رحمہ اﷲ ، واقدی کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
قالوا بدی برسول اﷲ ﷺ یو م الاربعا لیلتین بقیتا من صفر وتوفی رسول اﷲ ﷺ یوم الاثنین لثنتی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول وھذا جزم بہ محمد بن سعد۔
( البدایہ والنھایہ ج ۵ ص 276)
اخبرنا محمد بن عمر حدثنی ابراھیم بن یزی عن طاووس عن ابیہ عن ابن عباس قال حدثنی محمد بن عبداﷲ عن الزھری عن عروة عن عائشة رضی اﷲ عنھا قالت توفی رسول اﷲ ﷺ یوم الاثنین لاثنتی عشرة مضت من ربیع الاول ۔ ( الطبقات الکبریٰ ج ۲ ص 385)
اخبرنا محمد بن عمر حدثنی عبداﷲ بن محمد بن عمر بن علی ابن ابی طالب عن ابیہ عن جدہ قال اشتکیٰ رسول اﷲ ﷺ یوم الاربعا لیلة بقیت من صفر سنة احدی عشرة و توفی یوم الاثنین لاثنتی عشرة مضت من ربیع الاول ۔( الطبقات الکبری ج ۲ ص 385)
چلو مان لیتے ہیں کہ 12 کو ولادت ہوئی تو 12 کو وفات بھی تو ہے اب ہم کیا جانے یہ ولادت کی خوشی ہے یا وفات کی خوشی۔

میلاد کی ابتدا 600 ہجری کے بعد ہوئی لیکن کسی نے بھی اسے عید نہیں کہا اور آج اس نے عید کا شرف حاصل کرلیا ہے۔ مولانا یوسف شہید لدھیانوی رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ میں اس دن کو عید کہنا معمولی بات نہیں سمجھتا بلکہ اس کو صاف تحریف فی الدین سمجھتا ہوں اس لئے کہ عید اسلامی اصطلاح ہے اور اسلامی اصطلاحات کو اپنی خود رائی سے غیر منقول جگہوں پر استعمال کرنا دین میں تحریف ہے۔

جب میلاد600 ہجری تک کسی بھی صحابی یا تابعی سے ثابت نہیں اور اس کو آج کل دین کا حصہ اور شعار سمجھا جاتا ہے تو یہ بدعت ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آپ خود کریں ۔

سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ بدعت کسے کہتے ہیں؟ بدعت کے معنی ہے دین میں نئی بات پیدا کرنا، رسم و رواج نکالنا مصباح اللغات میں البدعةکا معنی ہے بغیر نمونہ کے بنائی ہوئی چیزدین میں نئی رسم نکالنا،وہ عقید ہ یا عمل جس کا کوئی اصل قرون ِ ثلاثہ میں نہ ملے (قرونِ ثلاثہ سے مراد حضور ﷺ کا زمانہ، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا زمانہ، تابعین کا زمانہ ہے)
بدعت کی تعریف لغت کے مشہور امام ابوالفتح ناصر المطرازی الحنفی رحمتہ اﷲعلیہ(المتوفی616)لکھتے ہیں کہ
البدعةاسم من ابتدعہ الامراذا ابتداہ وا حدثہ کالرفعةاسم من ارتفاع والخلفةاسم من اختلاف ثم غلب علی ماھو زیادة فی الدین اوالنقصان منہ۔ (مغرب ج ۱ صٓ 30)

بدعت ابتداع کا اسم ہے جس کا معنی کہ کوئی نئی چیز ایجاد کی جائے۔رفعت ، ارتفاع کااور خلفت، اختلاف کااسم ہے لیکن پھر یہ بدعت کا لفظ اسی چیز پرغالب آگیاجو دین میں زیاد ہ یا کم کردی جائے۔

علامہ مجددالدین فیروز آبادی رحمتہ اﷲعلیہ(المتوفی816)لکھتے ہیں کہ
بدعت (کسرہ با ءکے ساتھ )ایسی چیز کو کہا جاتاہے۔جو تکمیلِ دین کے بعد نکالی گئی ہو یاوہ چیز جو آپﷺ کے بعد خواہشات اور اعمال کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ہو۔

حافظ بدر الدین عینی الحنفی رحمتہ اﷲعلیہ(المتوفی855)لکھتے ہیں کہ
بدعت اصل میں ایسی نو ایجاد چیز کو کہتے ہیں کہ جو آپ ﷺ کے زما نے میں نہ تھی ۔

یہ بدعت کی کچھ تعریفات تھی جس سے بدعت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے اب عیلا میلاد النبی ﷺ کیا ہے، کیا دین میں نئی بات، نئی رسم، نیا رواج نہیں ۔ جب 600 سال تک دین میں نہیں تھا تو بعد میں آنا یہ بدعت کی مظبوط نشانی ہے۔

بدعت کی تردید اور انجام:۔
آپ ﷺ نے اہلِ بدعت کی بہت زیادہ تردیدفرمائی ہے کیونکہ بدعت سے دین کا اصل حلیہ و نقشہ بدل جا تا ہے اور اصل و نقل میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔

بدعت کے بارے میںمشکوةاور مسلم کی روایت ہے کہ
اما بعد فان خیر الحدیث کتا ب اﷲ وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ وشر الامور محدثاتھا و کل بدعة ضلالة ۔( مسلم ج ۱ ص 285،مشکوة ج۱ ص 27)

اما بعد بہترین بیان کتاب اﷲ ہے، بہترین نمونہ اور سیرت محمد ﷺکی سیر ہے اور وہ کام برے ہیںجو نئے نئے گھڑے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

حضرت حذیفہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا:
لا یقبل اﷲ لصاحب بدعة صوما الا صدقة ولا حجا ولا عمرة ولاجھادا ولاصرفا ولاعدلا یخرج من الاسلام کما تخرج الشعرة من العجین۔ ( ابن ماجہ)

اﷲ تبارک وتعالیٰ بدعتی کا نہ روزہ قبول کرتا ہے، نہ نماز، نہ صدقہ ، نہ حج، نہ عمرہ، نہ جہاداور نہ ہی کوئی فرضی عبادت قبول کرتا ہے، بدعتی اسلام سے ایسے خارج ہو جاتا ہے جیسے گوندے ہوئے آٹے سے بال نکالا جاتاہے ۔

عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص ، کسی دوسرے شخص کا سلام لیا تو عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایاکہ
بلغنی انہ قد احدیث فان کان احدث فلا تقر ا منی السلام۔ (ابو داﺅد ج2، مشکوةج1)

مجھے سلام بھیجنے والے کی یہ شکایت پہنچی ہے کہ اس نے کوئی بدعت ایجاد کی ہے، اگر واقعی اس نے کوئی بدعت ایجاد کی ہے تو میرا سلام اسکو نہ دینا ۔

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
ان اﷲ حجب التوبة عن کل صاحب بدعة ۔ (مجمع الزوائد ج10ص 189)
کہ اﷲ عزوجل نے ہر بدعتی پرتوبہ کا دروازہ بندکردیا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، تاوقتیکہ وہ اپنی بدعت کو ترک نہ کرے۔(ابنِ ماجہ شریف)

مفہوم حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا طریقہ نکالاجو اس دین میں نہیں تھاتو وہ مردود ہے ۔ (مسلم شریف )

آپ ﷺ کی ولادت اور وفات حدیث و تاریخ کی روشنی میں پڑھ چکے ہیں۔اب آیا یہ بدعت ہے یا نہیں، کیا غلط ہے کیا صحیح ، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
خلافِ پیمبرقدم جو اٹھائے گا
کوئی منزل نہ دیکھے گا، کوئی رستہ نہ پائے گا

موجودہ دور میں جب کہ آپ ﷺ کی سنتوں کو بھلایا جارہا ہے اور غیر کے طریقوں کو اپنایا جارہا ہے تو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ چند روزہ جشن منانے کے بجائے اصل مقصدکی طرف بھلایا جائے اور سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی جائے کیونکہ مسلمانو ں کی دینی و اخروی، ہر طرح کی اصلاح و فلاح اتباع سنت میں مضمر ہے ۔
Haseen ur Rehman
About the Author: Haseen ur Rehman Read More Articles by Haseen ur Rehman: 31 Articles with 61840 views My name is Haseen ur Rehman. I am lecturer at College. Doing Mphil in English literature... View More