نفع بخش سودا .. کون ہے تیّار؟

ڈاکٹر صلاح الدين سلطان
بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله، والصلاة والسلام على سيدنا وحبيبنا رسول الله –صلى الله عليه وسلم- وبعد..
بھائیوں اور بہنوں ۔

میرے ذہن میں کوئی اور موضوع تھا لیکن میں ابھی ان آیات پر گفتگو کروں گا جن کی تلاوت ہمارے معزز بھائی پہلی رکعت میں کی ہے۔ یہ سورہٴ توبہ کی چند آیات ہیں۔ سورہ توبہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ مومنوں سے ایک سودا کر رہا ہے۔ اس سودا میں ایک خریدنے والا ہے، ایک بیچنے والا، اور ایک سامانِ تجارت۔ لوگ اگر بڑا سودا کرتے ہیں تو عموماً انہیں اس بات کی ضمانت کی ضرورت ہوتی ہے کہ سودا کے مطابق سامان معیاری ہو۔ اسی وجہ سے اس سودا میں رب سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے تمام ضمانتیں موجود ہیں۔

خریدنے والا اللہ تعالیٰ ہے (إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى۔ اللہ تعالیٰ نے خرید لیا)،حضرت عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں:جس نے بھی ایمان قبول کیا اس نے اپنے آپ کو اللہ سے فروخت کردیا، اس میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی سودا مکمّل ہوگیا۔ پس جب تو نے ایمان قبول کیا تو اپنے آپ کو اور اپنے مال کو اللہ سے فروخت کردیا : (إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے خرید لیا ہے﴾۔ مومنین کی نو واضح صفات بیان کی گئی ہیں جس میں اس کی تفصیل آئے گی۔ جو اللہ کے راستے میں سبقت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان تمام صفات سے متصف کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جان اور ان کے مال کو خرید لیا ہے اور اس سودے میں مومنوں کے اندر نو صفات کا ہونا ضروری ہے۔ جان اور مال کی شکل میں جو سامان تم اللہ کے سامنے پیش کرتے ہو ان میں سے کوئی بھی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے، مال کی قربانی بھی نیکی ہے، اور جان کی قربانی بھی نیکی۔

آپ یہ نہ کہیں کہ میں تو اپنے مال کی قربانی پیش کروں گا لیکن اپنی جان کی قربانی نہیں پیش کروں گا، یا یہ کہ میں اپنی جان کی قربانی پیش کروں گا مال کی قربانی پیش نہیں کروں گا۔ یہاں تو ہر اس چیز کی قربانی مطلوب ہے جو انسان کی ملکیت میں ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ ہم خرید رہا ہے تو اس کی قیمت کیا ہے؟ وہ ہمیں کیا دے گا؟ جنّت (بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ۔ جنّت کے عوض)

بيعتِ عقبة
بیعتِ عقبہ کبریٰ کی رات، یعنی وہ رات جس میں اسلامی سلطنت کے قیام کی پہلی نشست ہوئی، منیٰ کے مقام پر جمرہٴ عقبہ کبریٰ کے قریب 13 ذی الحجّہ کو 76 مردوں اور دو عورتوں پر مشتمل مدینہ سے ایک وفد آیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم سے ملاقات کی، رسول صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ گفتگو شروع ہوئی۔ رسول صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم ان سے کیا چاہتے تھے؟ انہیں کیا کرنا تھا؟

ان سب نے کہا: اے اللہ کے رسول صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم ہم آپ سے بیعت کے لئے تیّار ہیں، ابن الھیثم بن تیھان نے، اور ایک روایت کے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس موقع پرجب کہ لوگ بیعت کے لئے ہاتھ بڑھا چکے تھے، کھڑے ہو کر کہا: نبی صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم سے کوئی بھی بیعت نہیں کرے گا۔ عجیب موقع تھا، لوگ بیعت کے لئے ہاتھ بڑھا چکے تھے اور ایک صحابی فرماتے ہیں کہ : بیعت نہ کرو۔

لوگوں نے پوچھا : کیا بات ہے اسعد؟ ہم نے رسول صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کو سمجھ لیا ہے وہ ہم سے چھ باتیں چاہتے ہیں: اس بات کا عہد کہ ہم تنگی اور خوش حالی، پسند اور ناپسند، اور پوری رضا مندی کے ساتھ ہر حال میں سمع و طاعت کا مظاہرہ کریں گے، ہم ذمہ داری کے معاملہ میں صاحبِ ذمہ داری سے تنازعہ نہیں کریں گے اور ہم اس دین کی مدافعت اسی طرح کریں گے جس طرح اپنے گھر والوں، بیوی بچوں اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔

ہم نے معاملہ سمجھ لیا ہے۔ سیّدنا اسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اگر تم یہ بیعت کروگے تو تمہارے اشراف مارے جائیں گے، تمہارا مال لوٹا جائے گا، پورا عرب تمہارے خلاف جمع ہو جائے گا اور وہ سب جمع ہوکر تمہارے خلاف ہو جائیں گے۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ایسی سخت گھڑی میں تم ساتھ چھوڑ جاؤگے تو بہتر ہے کہ ابھی ساتھ چھوڑ دو اور اگر یہ سمجھتے ہو کہ تم اُس وقت بھی ساتھ دو گے تو بیعت کرو، اللہ کی قسم کیا خوب بیعت ہے یہ۔

سب نے کہا: ہم نے سمجھ لیا ہے اس کے بعد ہی بیعت کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم سے ایک سوال کیا۔ انہوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ہم ان تمام قربانیوں کے لئے تیّار ہیں۔ جان اور مال سب ہم اللہ کی راہ میں لگا دیں گے۔ اشراف قتل کئے جائیں، ہمارا مال لوٹ لیا جائے، تمام لوگ ہمارے مخالف ہو جائیں سب ٹھیک ہے ہم مردوں کی طرح ان سب کا مقابلہ کریں گے لیکن ہمیں بتائیں کہ ہمیں اس کی قیمت کیا ملے گی؟ اگر ہم یہ سب کریں تو ہمیں فائدہ کیا ہوگا؟

نبی - صلى الله عليه وسلم- نے ان سے کہا جنّت، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ سب نے کہا اسعد تم اپنا ہاتھ ہٹاؤ، اے اللہ کے رسول آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں، اللہ کی قسم ہم کبھی بھی قیل و قال نہیں کریں گے، ہم اس سودا سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم اس دین کی حفاظت کریں گے۔ ہم اللہ عزّ و جلّ کے لئے ہر چیز فروخت کر دیں گے۔ انہوں نے اپنا سودا سچ کر دکھایا، اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے معاملے کو پورا کیا۔ رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم سے کئے ہوئے معاملے کو انہوں نے پورا کیا۔ انعام جنّت ہے اور رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- فرماتے ہیں : "ألا إن سلع الله غالية، إلا إن سلعة الله هي الجنة ۔ سنو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والا معاوضہ قیمتی ہے، اللہ کی طرف سے ملنے والا معاوضہ جنّت ہے".

صحیح بخاری میں ہے: " جنّت میں تمہارے ایک کوڑا کے بقدر زمین دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے".حور عین کا وصف بیان کرتے ہوئے امام بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: " اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی زمین کی طرف آجائے تو آسمان اور زمین کا درمیانی حصّہ خوشبو اور روشنی سے بھر جائے،

وفي صحيح البخاري: "لموضع سوط أحدكم في الجنة، خير من الدنيا وما فيها"، وفي وصف الحور العين روى الإمام البخاري ومسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لو اطلعت امرأة من نساء أهل الجنة إلى الأرض لملأت ما بينهما ريحاً، ولأضاءت ما بينهما، ولنصيفها على رأسها خير من الدنيا وما فيها".

شیطان کی تقریر
اگر ہم اللہ سےفروخت نہیں کرتے تو گویا ہم شیطان سے سودا کر رہے ہیں۔ قیامت کے دن شیطان ہمارے اوپر ہنسے گا وہ کہے گا : (إِنَّ اللّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلاَّ أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلاَ تَلُومُونِي وَلُومُواْ أَنفُسَكُم مَّا أَنَاْ بِمُصْرِخِكُمْ (وَمَا أَنتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَآ أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) ﴿ترجمہ اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا "حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے و ہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میر ی اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے درد ناک سزا یقینی ہے﴾۔ شیطان جہنّم کے منبر سے ان الفاظ میں ان لوگوں سے خطاب کرے گا جو دنیا میں کے گرد جمع تھے۔

رہے اہلِ ایمان تو ان کا سودا وہ سودا ہے جو ان سے اللہ تعالیٰ خود براہِ راست کر رہا ہے۔ یہ سودا ان اہلِ ایمان سے ہے جن میں نو خصوصیات ہوں اور اس کی قیمت جنّت ہے، اس کے لئے جان اور مال کو بطورِ سامان پیش کرنا ہے اور کسی تجارت کے پھلنے، پھولنے اور چلنے کے لئے ضمانت ضروری ہے ﴿ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّهِ اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پوراکرنے والا کون ہو سکتا ہے ﴾، ضمانت خود اللہ تعالیٰ ہے ﴿ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّهِ حَدِيثًا ۔ اللہ کی بات سے زیادہ سچّی بات اور کس کی ہو سکتی ہے؟﴾۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کئے وعدے کو جس طرح پورا کرتا ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔

اس سودا کو قبول کرنے والوں کی پہلی صفت ہے : "التائبون" آپ اللہ عز و جل سے توبہ کرنے والے بنیں، یہ توبہ ہر مرحلہ میں ہوتا ہے۔ آپ یہ نہ کہیں کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں، کس بات پر توبہ کروں؟ ہم میں سے ہر شخص خطا کار ہے۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو ایسی بہت سی باتیں ملیں گی۔ پس مطلوب یہ ہے کہ بندہٴ مومن اس حال میں زندگی گزارے کہ اس کا دل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے صاف ہو۔

دوسری صفت ہے : (الْعَابِدُونَ)، حسنِ نیت سے آپ اپنی پوری زندگی، کھانے ، پینے، شادی بیاہ، اور حصولِ رزق کی کوشش ....... ہر چیز کو عبادت بنا سکتے ہیں۔

تیسری صفت : (الْحَامِدُونَ)، جو اللہ کی حمد کرتا ہے ، اور اگر اس کے ساتھ کوئی شخص بھلائی کا معاملہ کرتا ہے تو وہ اس کا شکر گزار ہوتا ہے۔ "من لم يشكر الناس لم يشكر الله" ﴿جو لوگوں کا شکرگزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا﴾۔ فرد کو اس بات کا عادی ہونا چاہئے کہ وہ خوشی اور غم ہر حال میں اللہ کا شکر گزار بنے، سبھی لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے اسے حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے، جو اس کے ساتھ بشاشت سے ملے اس سے بھی، جو ایک حرف سکھادے اس سے بھی، جو کوئی بھلائی کرے اس سے بھی، جو ایک گھونٹ پانی پلا دے اس سے بھی، جو ایک بار کھانا کھلا دے اس سے بھی اور کوئی کسی بھی طرح کی خدمت کرے اس سے بھی حسن اخلاق کا مظاہرہ کرے۔

چوتھی صفت : (السَّائِحُونَ) میرے خیال میں اس کا سب سے بہتر مفہوم ہے کہ وہ افراد جو اللہ کی دعوت کو لے کر سرگرم ہوتے ہیں، جو پیغام پہلونچانے کا کام کرتے ہیں، روئے زمین پر پھیل جاتے ہیں، دعوتی سیاحت کرتے ہیں، اللہ ، قرآن اور سنّت کی دعوت دوسروں تک پہونچاتے ہیں "بلغوا عني ولو آية" ﴿میری طرف سے پہونچاؤ خواہ ایک آیت ہی﴾۔

پانچویں اور چھٹی صفت ہے: (الرَّاكِعُونَ السَّاجِدونَ)، وہ لوگ جو مومنوں کے درمیان صف بستہ ہوتے ہیں، رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتے ہیں، صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ آپ تنہا فرض ادا کر لیں۔

ساتویں اور آٹھویں صفت ہے : (الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ۔ معروف کا حکم دینے والے اور منکر سے روکنے والے)، کسی بھی نیکی کو ترک ہوتا دیکھتے ہیں تو اس کا حکم دیتے ہیں، کوئی بھی برائی ظاہر ہوتی ہے تو اس سے روکتے ہیں۔

ہمارے علماء کہتے ہیں : نیکی اگر چھوڑی جائے تو اس کا حکم دینا ہے اور اگر کوئی برائی ظاہر ہو تو اس سے روکنا ہے۔ یعنی آپ لوگوں کے ٹوہ میں نہ لگے رہیں، ان کی زندگیوں کو نہ کریدتے رہیں۔ لیکن اگر کوئی برائی ظاہر ہو تو آپ اس سے روکیں، اور اگر یہ ظاہر ہو کہ کوئی نیکی ترک کی جا رہی ہے تو اس کا حکم دیں۔ معروف کا حکم دینا انتہائی اونچا مقام ہے، یہ مقام اس بات سے بلند ہے کہ آپ کو شاہی تخت و تاج عطا ہو یا آپ دولت مند صاحبِ اقتدار بن جائیں، یا آپ کسی بڑی قوت والی ریاست کے وزیر بن جائیں۔ (وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔ اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں).

آخری صفت : (وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّهِ۔ اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے)،حرام کردہ چیزوں میں، عزت و ناموس، اخلاق اور اقدار میں، اور آخر میں (وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ مومنوں کو بشارت دے دو).

جو یہ سودا کرنا چاہتا ہو اور ربّ العزّت سے قیمت لینا چاہتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر یہ نو صفات ہوں، ان نو صفات سے آراستہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ پوری سچّائی کے ساتھ ان کے حصول کی جدو جہد کریں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ ہمارے اندر یہ چیزیں آگئی ہیں تو ہم سے جن اور مال خرید لے گا۔ اور ان شاء اللہ ہمیں جنّت عطا کرے گا۔ اللہ ربّ العزّت کے ساتھ یہ کیا خوب سودا ہے۔ پس اللہ کی طرف اپنے قدموں کو تیز اٹھاؤ، (فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ إِنِّي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ إِنِّي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ۔ تو دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں).

اللہ آپ کو جزائے خیر دے .. آپ کے اعمال کو قبول فرمائے .. والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
_________
ڈاکٹر صلاح سلطان کے صوتی ریکارڈ سے قلم بند کیا گیا۔
Ishteyaque Alam Falahi
About the Author: Ishteyaque Alam Falahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Falahi: 32 Articles with 32134 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.