میرے ایک کرم فرما بھائی
جو ایک انتہائی محب وطن پاکستانی ہیں اکثر میری ویب سائیٹ پر میرے مضامین
پر تبصرہ کرتے ہیں اور بسا اوقات قیمتی مشوروں سے بھی نوازتے ہیں ،نے اپنے
ایک تبصرے میں منجملہ دوسرے کئی موضوعات کے لاپتہ افراد کے موضوع پر بھی
بات کی ۔اُن جیسے قاری کی بات کو نظر انداز کرنا بھی مشکل تھا اور میڈیا
میں بھی آج کل لاپتہ افراد کے معاملے کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے جو کہ
حقیقتََا اہمیت کا متقاضی بھی ہے کیونکہ بہت سارے خاندان اسی کے باعث ایک
تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر میں نے اس مسئلے کا
ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی کوشش کی اور یہ بھی کہ کیا ہر گمشدہ شخص
ایک ہی زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے اور لواحقین کا شک آخر ہر بار
ایجنسیوں کی طرف کیوں جاتا ہے؟ کیا ان کے پیارے مشکوک سرگرمیوں میں ملوث
تھے جس کی بنا پر ان کے قانون لاگو کرنے والے اداروں کے ہاتھوں اٹھائے جانے
کا امکان موجود تھا ۔ اگر چہ یہ بھی درست ہے کہ اگر کوئی مجرم ہے تو اُنہیں
عدالتوں میں پیش کرکے ان پر مقدمہ چلایا جائے اور انہیں قرار واقعی سزادی
جائے۔تاہم ایسا ہو نہیں رہا ہے ملک میں سالہا سال سے جاری دہشت گرد
کاروائیوں میں پنتیس ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ ان دہشت
گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے پانچ ہزار سیکیورٹی اہلکار بشمول فوج اور پولیس
جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور کئی اُن دہشت گردحملوں کی نذر ہو چکے ہیں جو
کہ ان کو ٹارگٹ کر کے کیے گئے تھے ۔ ملک میں نہ راہ چلتا ہوا راہ گیر محفوظ
ہے نہ پارک میں کھیلتا ہوا بچہ ،میں ایک ایسے بچے کے بارے میں جانتی ہوں جس
نے بم کو کھلونا سمجھ کر اٹھا لیا تھا جو اُس کے ہاتھوں میں پھٹ گیا اور
ہمارے مستقبل کا ایک روشن ستارہ اپنی آنکھوں اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں سے
محروم ہوکر ٹمٹما گیاوہ زندہ ہے لیکن کیسے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
لیکن حیرت ہے جب ایسے دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں تو بھی سزا سے چھوٹ جاتے ہیں
کبھی چالان نامکمل ہونے کی وجہ سے اورکبھی ناکافی ثبوتوں کی بنا پر اور تب
کوئی واویلا نہیں مچتا کوئی شور نہیں اٹھتا۔ عدالتوں کے لیے بے حد احترام
کے ساتھ میرا اُن سے یہ سوال ہے کہ ڈاکٹر عثمان جیسے ثابت شدہ دہشت گردوں
کو چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے۔ اسی طرح جی ایچ کیو ، حمزہ کیمپ اور کامرہ
ایر بیس پر حملہ کرنے والے گیارہ ملزمان کو لاپتہ افراد کی فہرست میں رکھ
کر ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے جبکہ تحقیق پر پتہ چلا کہ
انہیں لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کرنا بھی سراسر زیادتی ہے ۔اِن تمام
ملزمان کو اسلحے اور دھماکہ خیز مواد سمیت گرفتار کیا گیا لیکن انسداد دہشت
گردی کی عدالت سے ناکافی ثبوتوں کی بنا پر بری ہوئے اور انٹیلی جنس
ایجنسیوں کے اہلکاروں کے روپ میں آئے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرار ہونے
میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے رشتہ داروں کی طرف سے داخل کردہ رٹ پٹیشن کے جواب
میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انہیں نو دیگر مشکوک افراد کے ساتھ پکڑ کر
اعلیٰ عدالت میں پیش کیا گیا اور سپریم کورٹ نے اُن کے فیلڈ جنرل کورٹ
مارشل اور انہیں ان کے خاندانوں سے ملوانے کے احکامات بھی جاری کئے۔ فاٹا
میں اپنے قیام کے دوران ہی یہ افراد مختلف بیماریوں میں مبتلاہوئے اور ان
میں سے چار لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں جان بحق ہوگئے اِن میں سے چار اسی
ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور تین کو پارا چنار میں رکھا گیا ہے۔ اگرچہ یہ
بہتر ہوگا کہ ان کو سول اداروں کے حوالے کیا جائے کیونکہ مجرموں کو پکڑلینے
کے بعد اِنہیں سزا دینا عدالتوں کا کام ہے لیکن اس کے لیے سول اداروں کو
ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہیں اپنے زیرحراست لے کر ان کی حفاظت کا بند
وبست کر لینا چاہیئے۔ اب اس طرح کے افراد کو لاپتہ افراد کی فہرست میں ڈال
دیا جانا کہاں تک درست ہے اور کیا اِن کے ساتھ ہمدردی کرنا جائز ہے ،ہاں اس
طرح اس فہرست کو طویل سے طویل تر کر کے معصوم اور گناہ گار کا فرق ختم کیا
جارہا ہے ۔
پاکستان ان دنوں ویسے بھی انتہائی نا مساعد حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں
اگر ہم غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں اور صرف خود کو انتہائی باخبر اور غیر
جانبدار ظاہر کرنے کے لیے ہر معاملے میں ملکی سلامتی کے اداروں کو ہدف
تنقید بنائیں جو کہ آج کل ایک فیشن بنتا جا رہا ہے، تو ہم ملک کی کوئی خدمت
نہیں کر رہے، بجائے ان معاملات کو اچھال اچھال کر ملک کی ساکھ کو نقصان
پہنچانے کے، مسائل کی جڑ پکڑنے کی کوشش کی جائے۔ دہشت گردوں کو تو ہم انسان
قرار دے کر ان کے انسانی حقوق کی بات کر تے ہیں لیکن راستوں اور گلی کوچوں
میں مرنے والے اُن پاکستانیوں کوہم اس وقت بھول جاتے ہیں جو تلاش رزق میں
نکلتے ہیں اور گھروں کو واپس نہیں آتے۔ بظاہر ہم ملک سے محبت کے دعوے بھی
کرتے ہیں لیکن اُن عناصر کو تلاش کرنے کی بجائے جو ملک کی سا لمیت کے درپے
ہیں اور انہیں اُن کے ارادوں سے باز رکھنے کے ان سے منسلکہ دوسرے مسائل کا
واویلا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم ملکی مفاد کو ذاتی مفاد سے بالا رکھنے کی بات
بھی کرتے ہیں لیکن عملََا ہم ایسا نہیں کرتے۔ بلوچستان یا فاٹا میں گڑ بڑ
پھیلانے والے عناصر کو نہیں بلکہ یہاں کے پر امن شہریوں کو ہماری ہمدردی کی
ضرورت ہے۔ پاکستان کے ہر شہری کی جان ان دہشت گردوں کی جانوں سے کئی گنا
بڑھ کر قیمتی ہے اور اس ملک کی سا لمیت بھی کسی شخص کے مفاد سے بڑھ کراہم
ہے لہٰذا ہر بات کی تہہ سے ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف قابل قبول یا نا
قابل قبول ثبوت نکالنے سے ملک کی کوئی خدمت نہیں ہوتی۔ ہماری حکومتیں سیاسی
جوڑ توڑ اور عدالتیں سیاسی مقدمات کے علاوہ ایسے مقدمات و معاملات پر اپنی
توجہ مرکوز کریں اور ایسے قوانیں بنائیں جو واقعی انصاف کے تقا ضے پورے کرے
،جو بے گناہ ہیں انہیں ایجنسیوں کی قید یا پولیس کی حراست سے چھڑا سکیں اور
جو قصور وار ہیں انہیں سزا سے بچنے کی کوئی توقع نہ ہو ، نہ کوئی ملک کو
نقصان پہنچا سکے نہ ایسا کرنے کی سوچ سکے تو یقینا ہم بلیم گیم سے فرصت
پاکر ملکی ترقی کی طرف متوجہ ہو سکیں گے۔ |