تیرے وجود خالق دو جہاں کو ناز

مجھے صحا فت کے دشت میں آئے کم و بیش چودہ سال ہونے کو ہیں،ہمیشہ خالصتاًعوامی مسائل پر لکھ کر حکمرانوں کو جنجھوڑنے کی کو شش کی ،مگر اعتراف ہے کہ وقت ان کے عیش وآرام میں مخل ہونے کہ ہم کچھ بھی نہ کر سکے اس ملک میں عام آدمی کی حالت پہلے دن سے جوں کی توں بلکہ اگر یوں کہوں تو کہنے میں حق بجانب ہوں کہ روز بروز بگڑی ہے اور آئندہ مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے،خیر یہ سب تو چلتا رہتا ہے چونکہ مہینہ ربیع الاول کا ہے تو سوچا کیوں نہ چند جملے ان کی شان میں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کروں جو وجہ وجود کائنات ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ چند جملے میرا حاصل حیات رائیگاں بن جائیں،مگر لکھوں تو کیا لکھوں کہاں سے شروع کروں ،یہاں تو نہ ابتدا ہے نہ انتہاں کہ ابھی پانی نہیں برسا تھا ،ابھی مٹی نہیں کھنکی تھی،مگر بزم عناصر میں تیرے ہونے کا چرچا تھا،مگر میں کیا لکھوں میں کیا میری اوقات کیا ،یہاں تو پیر مہر علی شاہ جیسے ولی کامل نے کہہ دیا کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ،اور بات ہے بھی تو حقیقت کہ جب یہ دیکھتا ہوں کہ،کتاب ہستی کے سر ورق پہ جو نام احمدﷺ رقم نہ ہوتا،وجود ہستی ابھر نہ سکتی ،وجود لوحو قلم نہ ہوتا،زمین نہ ہوتی فلک نہ ہوتا،عرب نہ ہوتا عجم نہ ہوتا،یہ محفل کون و مکاں نہ ہوتی اگر وہ شاہ امم ﷺ نہ ہوتے،تو کوئی کیا لکھے کس کی مجال ہے تعریف و توصیف تو بہت ہی چھوٹے لفظ ہیں ان کی مدحت کے لیے اردو گرائمر میں کوئی لفظ ہی نہیں جو اس قابل ہو بلکہ اردو کیا دنیا کی ساری زبانوں کے سارے ایسے جملے اکٹھے کر لیے جائیں تب بھی ان کی تعریف تو کیا ان کے ایک وصف اور کسی پہلو کی تعریف بھی ممکن نہیں کہ جن کیلئے کہا گیا کہ ان کے اخلاق قرآن ہیں،وہ سر تا پا رحمت ہیں اور رحمت بھی ایسی سارے جہانوں کے لیے،نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ اللہ کی تمام مخلوق کے لیے،ان کی تعریف انسان کیسے کرے جس نے پتھروں کو گویائی دی،جس نے چاند کو اشارے سے دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا،جس نے سورج کو واپس بلایا،جو وہاں تک پہنچا جہاں جبرائیل جیسے جلیل القدر فرشتے نے بھی کہا کہ بس اس سے آگے میرے پر جل جائیں گے ،وہ وہاں بلکہ اس سے بھی آگے بہت آگے پہنچے اس کالق سے رازو نیاز کیے جو مالک ارض و سمائہے اور آپ اس محسن انسانیت کا کمال دیکھیے کہ اس مقام پر بھی اپنی امت کو نہیں بھولے ،ان کی تعریف و توصیف کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں،ہاں لوگ ان کے کمالات لکھتے ہیں جو کسی حد تک لکھ سکتے ہے فقط اپنے نصیب کی بلندی کے لیے ورنہ کہاں وہ کہاں ہم ،کیا کمال بات کہی مرزا غالب نے جب ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے غزلیں،نظمیں ،قصیدے اور مرثیے لکھ لکھ کر دیوانوں کے دیوان بھر دیے مگر نعت کے اشعار بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں اس کی کیا وجہ ہے تو غا لب نے کہاانﷺ کی مدح و ثنا وہ کرے جسے ان کی معرفت حاصل ہو اور انکی معرفت اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں لہٰذا میں کہاں اور وہ کہاں،تو بات بلکل بجا ہے کہ انکی معرفت میں کما ل اگر کسی کو ہے تو وہ وہی ہے جس نے یہ بلندی انہیں عطا کی ہے،اسی نے انہیں یہ شان کریمی عطا کی اور اسی نے اس کو انے کلام میں ہی بیان بھی کیا اللہ اکبر کیا مرتبہ ہے ہمارے نبی آکرالزماںﷺ کا کہ سب سے آکری نبی اور پہلے آنیو الے تمام نبیوں کے امام،قرآن پاک مین اللہ نے کہا ورفعنا لک زکرک،ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا اور نہ صرف بلند کر دیا بلکہ اپنے نا م کے ساتھ جوڑ دیا اب قیامت تک کلمہ ہو ،نماز ہو ،اذان ہو یا اقامت تیرا اور میرا نام اکٹھا لیا جائے گا میرے نام کے بعود جو تیرا نام نہیں لے گا مسلمان نہین رہے گا،اللہ نے انہیں اپنا انہیں اپنا محبوب بنایا اور محبوب سے پیا ر دیکھیے کہ تما پیغمببروں کو ان کے نام سے پکارا یا آدم، ی نوح، یا ابراہیم،یا اسماعیل،یا زکریا،یا یحیٰ،یا موسیٰ،یا عیسیٰ اور بھی انبیاءعلیہما السلام کو ان کے ناموں سے پکارا مگر محمد عربیﷺ کو کبھی بھی پورے قرآن میں یا محمد ﷺ نہیں کہا ،مخاطب ہونے کا انداز دیکھیے محبوب سے محبوب کا،کہیں مزمل کہا تو کیں مدثر کہا،کہیں یٰس کہا تو کہیں طٰہ کہا کسی نبی کے شہر کی قسم نہیں کھائی رب العزت نے مگر آپ کے شہر کی قسم کھائی -