(11فروری ایران کے قومی دن کے
موقع پر خصوصی تحریر)
ایران کی سرزمین جنوب مغربی ایشیائی قدیم تہذیبوں کے ساتھ ساتھ قدیم مذاہب
کی بھی آماجگاہ رہی ہے،اس خطہ ارضی کو ”فارس “بھی کہتے تھے اور یہاں بولی
جانے والی زبان اب بھی فارسی کہلاتی ہے۔”فارس“ کی وجہ تسمیہ 1000سال قبل
مسیح اس علاقے میں ہجرت کر کے آنے والے قبائل ہیں جو ”پارسا“کے نام سے
تاریخ میں محفوظ ہیں ان کا یہ نام بعد میں جزوی تبدیلی کے ساتھ اس علاقے کی
پہچا ن بن گیا۔گزشتہ صدی کے آغاز تک اس علاقے کو ”فارس“ہی کہتے تھے تاآنکہ
1935ءمیں ایرانی حکومت نے پوری دنیا سے اپیل کی اب سے انہیں ایران کے نام
لکھااورپکارا جائے۔”ایران“کامطلب ”آریاوں کاوطن “ہے۔ایران کی تاریخ شخصی و
خاندانی طرزحکمرانی سے بھری پڑی ہے۔وسطی و جنوبی ایشیا اور عرب اقوام کے
درمیان واقع ہونے کے باوجود اس خطے نے ان دونوں علاقوں سے بہت کم اثر
لیااور ہمیشہ اپنی مقامی تہذیب کی پرورش ہی اس خطے کا طرہ امتیاز رہی ہے۔
ایران جنوب مغربی ایشیاکی اسلامی ریاست ہے جس کابہت بڑا حصہ سطح مرتفع پر
مشتمل ہے اور چاروں طرف بلندوبالا پہاڑی سلسلے ہیں جن کے دروں سے گزر کر اس
سرزمین میں داخل ہونا پڑتاہے ۔آبادی کی اکثریت اسی طرح کے بے آب و گیاہ
علاقے میں رہتی ہے ۔اس کا دارالحکومت ”تہران“ہے،اصفہان اور شیراز سمیت اس
مملکت کے متعدد شہر بہت بڑی تاریخی اہمیت اور عظیم ثقافتی و ادبی ورثے کے
حامل ہیں۔ان شہروں کی سرزمین اور اس پر بنی عمارتوں میں صدیوں کی تاریخی
یادداشتیں دفن ہیں اور یہ علاقے تاریخ کے کتنے ہی عروج و زوال کی داستانیں
لیے نہ صرف یہ کہ خاموش کھڑے ہیں بلکہ اس سے زیادہ تاریخی اسرارورموزکو
محفوظ کرنے کے منتظر ہیں ۔
ایران کی قدیم تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیاجاتا ہے ،قبل از تاریخ
کادور کم و بیش ایک لاکھ سال قبل مسیح کاہے جب یہاں پر انسانی قدموں کی چاپ
پہلی دفعہ سنائی دینے لگی،اخامنشی دورکاسورج طلوع ہونے پر دوسرے دور
کااختتام ہوتاہے اور خود اخامنشی دور ایرانی قدیمی تاریخ کاآخری دور ہے جو
چھٹی صدی قبل مسیح سے شروع ہو کر چوتھی صدی قبل مسیح تک جاری رہتاہے۔ایرانی
قدیم تاریخ کایہ آخری دور علم و آگہی کادور کہلاتا ہے جب ایران میں تعلیم و
تعلم کا آغاز ہوا اور ایران کی تاریخ لکھی جانے لگی۔اس دور میں ایرانی
حکرانوں کی قلمرو میں بھی اضافہ ہوا اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک ایران کی
حدود پہنچنے لگیں ۔ایرانی قدیم ادوار کی تاریخ کاماخذزیادہ تر قدیم تاریخی
عمارات ہی ہیں لیکن اخامنشی دور کی تاریخ کے مکمل تحریری شہادتیں میسر ہیں۔
کم و بیش 600قبل مسیح میں ”زرتشت“نامی معلم اخلاق نے شمال مشرقی ایران میں
اپنی تعلیمات کے پرچار کا آغاز کیا،یہ اخامنشی دور اقتدارتھا۔اس نے سچ بونے
اور جھوٹ سے بچنے کی تعلیم دی۔”اہورمزدا“نامی خدا کی پوجا اسکی تعلیمات میں
شامل ہے لیکن بنیادی طور پر اسکا مذہب اخلاقیات کاہی مرقع ہے۔اس سے پہلے
بھی ایرانیوں کے ہاں ایک مذہب کے خدوخال پائے جاتے تھے ”زرتشت“نے پرانے
مذہبی عقائد ومعاشرتی رسومات کی اصلاح کاکام بھی کیا۔اس نے جانوروں کی
قربانی سے منع کیااوراپنے ماننے والوں کے دلوں میں ”آگ“کی اہمیت اجاگر
کی۔”زرتشت“نے ”آگ “کی پوجاتونہیں کی لیکن اسکے ہاں ”آگ“ سب سے بڑا اور اعلی
درجے کاسچائی کا مظہر ہے ۔اخامنشی حکمرانوں نے زرتشت کے مذہب کو جزوی طور
پر قبول کیا اور اسکے کیلنڈر کو مملکت میں رائج کیا۔”زرتشت“کے ماننے والے
آج تک دنیامیں باقی ہیں اور آگ کی پوجایعنی آتش پرستی کے حوالے سے دنیاکے
مذاہب میں پہچانے جاتے ہیں۔
330قبل مسیح میں اسکندراعظم نے اکامنشیوں کو شکست دے کر توایران کی فتح
مکمل کی اور اس طرح مغربی ایشیامیں یونانی تہذیب نے اپنے پنجے گاڑنے کا
آغاز کیا۔سکندراعظم کی فوج کے بہت سے یونانی سپاہی ایران میں مستقل طور پر
آباد ہوئے اور ان یونانی باشندوں نے یہاں شادیاں کر کے اپنی نسل پروان
چڑھائی اوراپنے ساتھ لائی ہوئی تہذیب کی پرورش کی۔اسکندر نے یہاں اپنا
سیاسی نظام رائج کیا اور اخامنشی دور کی باقیات میں سے بھی کچھ کو باقی
رکھا۔تسخیرایران کے بعدبہت جلد سکندر اعظم اس دارفانی سے کوچ کرگیااور
ایران میں چوتھی صدی قبل مسیح کے ختم ہوتے ہوتے یونانیوں کا سورج بھی غروب
ہو چکاتھااور ساسانیوں نے یونانی مقبوضات پر اپنا تسلط جمالیاتھا۔
ایران میں مسلمانوں کی آمد تک ساسانی اقتدار میں رہے۔انہوں نے ایران میں
ایک شاندار تہذیب کی بنیاد رکھی اور اسکی اقدارکوپروان چڑھایا۔”زرتشت“مذہب
کی جدےدشکل بھی انہی کے دور میں تیارکی گئی اورتاریخی اہمیت کے آتش دان
تعمیرکیے گئے تاکہ آگ کی پوجا وسیع پیمانے پر کی اور کرائی جا سکے۔سلطنت
روما کے ساتھ ساسانیوں کی جنگیں تاریخ کے طالب علم کے لیے بہت دلچسپی
کاسامان رکھتی ہیں۔انہیں کے دور میں مذہب عیسائیت بھی ایران میں پہنچااگرچہ
کچھ لوگ اس مذہب سے متاثرہوئے لیکن عیسائیت آج تک ایران میں کوئی اہم مقام
حاصل نہ کر سکی اس کے برعکس ایران کے پڑوسی ممالک میں اس مذہب کے ماننے
والوں کی ایک کثیر تعداد ہمیشہ موجود رہی ہے۔
اس دور کا ایک اور قابل ذکرامر” مانی“نامی (216-274ئ)فلسفی کی آمد ہے،یہ
پارتھےوں کی اولاد میں سے تھااوربیبیلونیاکا رہنے والا تھا۔اسکی تعلیمات
زیادہ تر روحانی نظریات اور بہت گہرے فلسفوں پر مبنی تھیں۔مانی نے اپنے لیے
دعویٰ کیا کہ وہ حضرت موسی اورحضرت عیسی علیھما السلام کی تعلیمات کی تکمیل
کے لیے آیا ہے۔اس نے ”زرتشت“اور بائبل کی تعلیمات کو یکجا کر کے تو ایک
نیامذہب بنانے کی کوشش بھی کی۔ہندوستان سے واپسی پر اس نے پہلے ایک معلم
اخلاق کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا لیکن بہت جلداسے اپنے ماننے والوں
کی ایک کثیر تعداد میسر آگئی یہاں تک کہ بادشاہ ”شاپور“نے بھی اسے مان لیا
اور اسے ایک نبی کامقام میسر آگیا۔اس نے بادشاہ کو اپنی تعلیمات پر مبنی
ایک کتاب ”شہبرگان“بھی پیش کی،لیکن اسکی تعلیمات کو قبول عام حاصل نہ
ہوسکااور اسکا فلسفہ کتابوں میں دفن ہوکررہ گیا۔
طلوع اسلام کے وقت ساسانی حکمران ایران کے تخت پر جلوہ گرتھے۔صلح حدیبیہ کے
بعد جب محسن انسانیتﷺ نے دیگربادشاہوں کی طرح ایران کے بادشاہ کسری
پرویزکوبھی دعوتی خط لکھاتووہ خط کے اوپر اپنے نام کی بجائے اﷲ تعالٰی
کانام دیکھ کرسیخ پاہوااور خط کو چاک کردیا۔اس نے اپنے یمنی گورنر”باذان“کو
حکم بھیجاکہ اس نبیﷺکو گرفتار کر کے اسکے دربار میں پیش
کیاجائے۔”باذان“مدینہ پہنچااور مسلمان ہوگیا،اسے محسن انسانیتﷺ نے خبر دی
کہ آج رات تمہارابادشاہ قتل ہوگیاہے،اس نے بعد میں اس سچی خبر کی تصدیق بھی
کرلی۔محسن انسانیتﷺنے پیشین گوئی کی کہ جس طرح پرویزنے میراخط چاک کیا ہے
اسی طرح اسکی سلطنت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔اس سے پہلے بھی غزوہ خندق کے
موقع پر آپ ﷺ نے فرمایاتھا کہ مجھے قیصروکسری کی کنجیاں دی گئی ہیں۔
امیرالمومنین حضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ کے دور میں ایران اسلامی ریاست
کاحصہ بنااورسچے نبیﷺ کی یہ سچی پیشین گوئی کی صداقت تاریخ نے ثابت کردی۔
حضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ چاہتے تھے کسی طرح ایران سے ٹکر نہ ہواوراکثر
فرمایاکرتے تھے کہ کاش ہمارے اور ایران کے درمیان آگ کا پہاڑ ہوتا ۔لیکن
عراق کے علاقے ایرانی سلطنت سے مسلمانوں نے چھین لیے تھے یزدگر،ایرانی
بادشاہ،انکے حصول کے لیے مسلسل تگ و دو کرتارہااورمسلمان افواج اس سے ہمیشہ
برسرپیکار رہیں۔اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے اکابرصحابہ و اہل بیت مطہرین
نے حضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ کوایران پر لشکرکشی کامشورہ دیا،حضرت عمررضی
اﷲ تعالٰی عنہ خوداس بڑی کاروائی کی قیادت کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت علی
کرم اﷲ وجہ نے انہیں مرکزچھوڑنے سے منع کردیا۔تمام محاذوں سے افواج اسلامی
کو ایران کی سرحدوں پر جمع ہونے کاحکم ہوااور21ھ کو ایک طویل معرکے کے بعد
ایرانی فوج نے منہ کی کھائی اور اسکے بعد بچے کھچے علاقے بھی فتح کر لیے
گئے۔
مدینہ جب فتح کی خبر پہنچی توحضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ نے مسجد نبوی میں
مسلمانوں کو جمع کر کے خطاب کیااور کہا کہ ”آج مجوسیوں کی سلطنت تباہ ہوگئی
ہے۔ان کے عظیم الشان ملک کی ایک چپہ زمین بھی آج ان کے قبضے میں نہیں۔اﷲ
تعالٰی نے انکی زمین اور انکی دولت کا تمہیں وارث بنایا ہے تاکہ تمہیں
آزمائے۔تم اپنی حالت نہ بدلو ورنہ خدا تمہاری جگہ دوسری قوم کو دے دے
گا“۔ایران کی فتح کے بعد اتنی دولت مدینہ پہنچی کی حضرت عمررضی اﷲ تعالٰی
عنہ دیکھ کر رونے لگے اور انہیں دور نبوت کے فاقہ زدہ اوقات یاد آگئے۔ایران
کے آخری فیصلہ کن معرکے میں کامیابی کے بعدمیدان جنگ میں فاتح مسلمانوں نے
شکرانے کے آٹھ نوافل ایک ہی سلام کے ساتھ باجماعت ادا کیے تھے۔
تب سے اب تک ایران امت مسلمہ کاایک اہم حصہ رہاہے اور ہر دور میں ایران اور
ایرانی مسلمانوں نے اسلامی شعائرکی ترویج اور اسلامی لٹریچرکی اشاعت میں
اپناقابل قدر حصہ ڈالا۔1979کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کانام آئینی
طور”اسلامی جمہوریہ ایران“رکھ دیاگیااور اسکے جھنڈے میں بھی اﷲ تعالٰی کام
شامل کیاگیا،انقلاب کے بعد سے خلاف اسلام قوانین بناناممنوع ہے ،انقلابی
قیادت نے تعلیم اور معیشیت سمیت تمام شعبوں میں اسلامی اصلاحات کی ہیں
۔اکیسویں صدی کی دہلیز پر پوری امت مسلمہ کی نگاہیں ایران کے ایٹمی پروگرام
پر مرکوز ہیں۔آفرین ہے ایرانی قیادت کوجوپورے عالمی دباؤ اور دھونس
دھاندلیوں اور دھمکیوں کے باوجود اپنے موقف پرسختی سے قائم ہے اور سلام ہے
ایرانی قوم کو جو اپنے تن من دھن کے ساتھ اپنی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے
۔ |