مختلف اوقات میں مختلف علاقوں
اور مختلف قوموں میں اللہ رب العزت نے مختلف انبیاءعلیہم السلام کو مخلوق
کی راہنمائی و ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ جتنے بھی پیغمبر علیہم السلام
تشریف لائے، بنیادی طور پر ان سب کی دعوت و پکار توحید و رسالت اور روز
قیامت پر ایمان ہی تھی۔ یہی تین بنیادی عقائد ہیں جو کہ قرآن میں بیان کیے
گئے ہیں۔ باقی تمام عقائد ان بنیادی عقائد کی تعبیر و تشریح سے معلوم ہوتے
ہیں۔ انہی تین عقائد کو امہات العقائد کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ مراد لینا کہ
کتب مقدسہ، ملائکہ، ختم نبوت، ایمان صحابہؓ پر ایمان بنیادی عقیدہ نہیں،
قطعاً درست نہیں۔ قرآن پر ذرا سا غور و تدبر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ
قران نے مبرہن و مبین الفاظ میں کتب مقدسہ کی وقت نزول حقانیت، عقیدہ ختم
نبوت کا ایمان ہونا، صحابہؓ کا معیار و مدار ایمان و ایقان ہونا بیان کیا
ہے۔ یعنی قرآن بنیاد ہے ان تمام عقائد و نظریات کی، جن کو اللہ تعالیٰ نے
نجات و فلاح کا مرکز و محور بتایا ہے۔ یعنی قرآن ان تمام احکامات ربانیہ کا
مجموعہ ہے جن پر عمل پیرا ہونا اہل ایمان کے لیے ضروری ہے۔ یا یوں سمجھیے
کہ تمام بنیادی و لازمی عقائد و نظریات قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں۔
اور عقائد و نظریات کا یہ مجموعہ تاج دار ختم نبوت، سید الاولین و والاخرین،
خاتم المعصومین، داماد ابو بکرؓ و عمرؓ، سسر عثمانؓ و علیؓ حضرت محمد مصطفی
احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔
رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فریضہ رسالت و نبوت کی ادائیگی
کمال محنت و جاں فشانی سے کی اور اس میں مکمل کامیابی حاصل کی یہی وجہ تھی
کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پیغام ربانی یعنی احکامات الٰہیہ
باحسن و خوبی امت تک پہنچا چکے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
تعلیم دی کہ چوں کہ آپ اپنا فریضہ پورا کر چکے ہیں اور لوگ فوج در فوج آپ
کی آواز حق پر لبیک کہہ رہے ہیں اس لیے آپ اب اپنے رب کی حمد و ثناءکرتے
ہوئے استغفار کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مقصد میں کامیاب
ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو نبوت و رسالت کا جو فریضہ
سونپا تھا یا جس مقصد کے لیے آپﷺ کو مبعوث کیا گیا، آپﷺ نے وہ مقصد کما حقہ‘
ادا فرمایا۔ وہ مقصد یہی تھا کہ توحید، رسالت اور روز قیامت پر ایمان لانے
کے لیے لوگوں کو تیار کیا جائے۔ یعنی لوگوں کے قلب و ذہن پر محنت کی جائے
کہ وہ اللہ کا حکم و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اپنانے والے اور قرآن
کریم کی جیتی جاگتی عملی تصویر بن جائیں۔
قرآن کریم وہ واحد الہامی و مقدس کتاب ہے جو کلام اللہ ہے۔ اس کے بر عکس
سابقہ تین کتب اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے پیدا فرمائی تھیں۔ اور ان تینوں
کتب کی حفاظت کا کوئی وعدہ یا ذمہ اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا تھا۔ جب کہ قرآن
کریم کے متعلق اللہ رب العزت نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ انا نحن نزلنا
الذکر و انا لہ لحٰفظون (سورہ حجر:۹) کہ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور
ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں اہل ایمان کا
تذکرہ ہے سب سے پہلے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو نزول قرآن کے وقت صاحب ایمان
تھے۔ اور یہ بات دو اور دو چار کی طرح محتاج دلیل نہیں کہ نزول قرآن کے وقت
صاحبان ایمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین ہی تھے۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا جو پیغام
دنیا میں پہنچایا اس پیغام کو امت میں سب سے پہلے ماننے والا طبقہ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کا ہے۔ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی
نوائے حق پر لبیک کہا اور اپنا مال و دولت، جان و عزت، عزیز و اقارب سب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں قربان کر دیے۔ یہی وہ طبقہ ہے
جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قران نازل ہوتے دیکھااور نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کو ہر ہر حکم کی تعلیم دیتے اور ادائیگی کرتے دیکھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مقصد میں کامیاب سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ
وصال نبوت کے بعد بھی نبیﷺ کی تعلیمات پر ایمان لانے والے افراد کے ایمان
میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ اور انہوں نے اپنے خون کے آخری قطرہ اور
سانس کے آخری زیر و بم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے دین
پر بخوبی عمل کیا۔ دنیا کی کوئی طاقت ان لوگوں کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی تعلیمات سے ذرہ برابر بھی نہ ہٹا سکی۔ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی کامیابی ہے کہ آپ کا لایا ہوا دین آج تک زندہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کا ہر ہر مبارک طریقہ آج بھی امت کے اندر کسی نہ کسی طرح زندہ ہے۔ اس
کے بر عکس اگر یہ نظریہ ترویج دیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات
کے بعد تین/چار کے علاوہ باقی تمام حضرات تعلیمات محمدیہ سے منحرف ہو گئے
تھے تو اس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ جناب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم
اپنے مقصد نبوت میں ناکام ہو گئے تھے کہ ان کے وفات پاتے ہی ان کے ماننے
والے ان کی تعلیمات سے دست بردار ہو گئے تھے، نعوذباللہ من ذلک الکفر۔
یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کا انکار اصل میں نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا انکار ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کے ایمان کا اقرار در حقیقت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی
کامیابی کا اقرار ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ علم کی ضرورت نہیں
کہ اگر کسی کے ذمہ کوئی کام لگایا جائے اور وہ اس کو سر انجام دینے میں
ناکام ہو جائے تو وہی کام پھر کسی اور کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے۔ ختم نبوت کا
جہاں یہ تقاضا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم عن
الخطاءاور نبی نہ سمجھا جائے اسی طرح یہ بھی ختم نبوت کا تقاضا ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیاب سمجھا جائے۔ کیوں کہ اگر معاذاللہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا پیغام پہنچانے میں ناکام ہوئے ہوں تو ماننا پڑے
گا کہ اس پیغام کو پہنچانے کے لیے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد بھی کوئی
نبی آ سکتا ہے۔یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا انکار رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت، کامیابی، ختم نبوت، قرآن حتیٰ کہ پورے دین کا
انکار ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن نے ایمان کا معیار و مدار اور
مرکز و محور قرار دیا ہے فان امنو بمثل ما امنتم بہ فقد اہتدو (بقرة:137)
یعنی ایمان لانا ہے تو ایسے ایمان لاﺅ جیسے صحابہؓ ایمان لائے تو ہدایت پاﺅ
گے۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی تیرہویں آیت میں بھی ذکر ہے کہ کفار مکہ کو یہی
کہا جاتا تھا کہ ایسے ایمان لاﺅ جیسا کہ یہ لوگ یعنی صحابہؓ ایمان لائے
ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو پیغام دیا وہ پیغام نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے حوالہ کیا اور انہوں نے ہی یہ
پیغام پوری دنیا میں پھیلایا یعنی اگر صحابہؓ مومن تھے تو آج ہم جو ان کے
پہنچائے ہوئے دین پر عمل پیرا ہیں، بھی مومن ہیں ۔ اور اگر صحابہؓ مومن
نہیں تھے تو آج ان کے پھیلائے ہوئے طریقہ کو ہم نے اپنایا، اس لیے ہم بھی
مومن نہیں۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دین اسلام کی اساس و
بنیاد اور اصل ہیں۔ صحابہ کرامؓ کا انکار اللہ، انبیائ، قرآن، جنت، جہنم،
گناہ، ثواب، عذاب، جزا و سزا، نماز، روزہ، جہاد، زکوٰة، حج، ختم نبوت،
فرائض و واجبات، سنن و مستحبات، اسلامی حلت و حرمت حتیٰ کہ پورے کے پورے
اسلام کا انکار ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان و
ایقان، عظمت و عزت، انداز و کردار و گفتار، جہاد و تقویٰ، صحبت نبوت کا
دفاع در اصل اللہ، رسول، قرآن، ختم نبوت، نماز، روزہ، جہاد، حج حتیٰ کہ
پورے کے پورے اسلام کا دفاع ہے۔ اللہ ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے پیارے صحابہ رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلنے اور ان کی عزت و
ناموس کا دفاع کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
نوٹ: قرآنی آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے |