گدھوں کی گول میز کانفرنس

گدھے کے بارے میں تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ یہ بیچارہ واقعی ایک بہت مظلوم جانور ہے اور یہ کہ یہ بار برداری یعنی سامان ڈھونے کے کام آتا ہے ۔ تو جب ہم دنیا جہاں کے موضوعات پر لکھتے ہیں تو وائی ناٹ آن گدھا۔اصل میں ہمیں گدھے پر لکھنے کے لیے اکسانے والی وہ گدھا منڈی ہے جو کچھ عرصہ پہلے ہمارے پیارے صوبہ سندھ میں منعقد ہوئی۔ ٹی وی پر ان گدھوں کی کیٹ واک، سج دھج اور اٹھکیلیاں دل میں عجیب سی گد گدی کر رہی تھیں کہ کیا گدھے بھی اتنے خوبصورت ہو سکتے ہیں؟؟ ہم تو اب تلک یہ سمجھتے تھے کہ یہ گد ھے فری میں بکتے ہو نگے پر پانچ پانچ لاکھ تک کے گد ھے دیکھ کر بے ویلیو انسان پر غصہ آنے لگا کہ جسے جب چاہے، جو چاہے ،ِجہاں چا ہے پھڑکا دے ۔ اس گدھا واک یعنی منڈی کو دیکھ کر پتہ چلا کہ انکے چاہنے والے بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔ اسکے علاوہ مختصر کپڑے پہنے ان ماڈلز پربھی ترس آیا کہ جنہیں بعض دفعہ ٹانگیں مٹکانے اور لہرا لہرا کر ریمپ پر چلنے کا شاید گدھوں سے بھی کم معاوضہ ملتا ہوگا؟؟

گدھوں میں کچھ گدھے بیچارے لاوارث ہوتے ہیں، جنہیں آوارہ پھرتا دیکھ کر کوئی بھی ہانک کر لیجاتا ہے، یا پھر اگر کہیں میونسپل کمیٹی کا قید خانہ یا بھانہ ہو تو وہاں بند کر دیا جاتا ہے۔ کچھ گدھے بیچارے ایسے لاچار ہوتے ہیں کہ بوجھ تو کیا اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہوتے اور مالک انہیں بوڑھا ہونے پر گھر سے نکال باہر کر دیتا ہے۔ یوں وہ بیچارہ سارا دن ادھر ادھر پھر کر کھجل خوار ہوتا رہتا ہے۔کچھ گدھے اتنے شریف اور سدھائے ہوئے ہوتے ہیں کہ سامان لاد کر صرف اشارہ کرد و سیدھے مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ گدھے بڑے غصیلے قسم کے ہوتے ہیں اور غصہ میں آکر کبھی کبھار اپنے مالک کا ہاتھ پاﺅں بھی کاٹ کھاتے ہیں، لہذا بچ بچا کے موڑ توں۔

ویسے اگر آپ لوگ ناراض نہ ہوں تو ایک بتاﺅں کہ گدھے اور شوہر میں بھی بہت سی چیزیں کامن ہوتی ہیں۔ مثلا: گدھا اور شوہر دونوں ہی سر ڈھا کر کام میں لگے رہتے ہیں۔ گدھا دن بھر مشقت کرتا ہے ، شام کو مالک پیٹ بھر کے کھانا بھی نہیں دیتا۔ اسی طرح شوہر بیچارا بھی دن بھر مشقت کر تا ہے، شام کو بیوی اور بچوں کے کوسنے سنتا ہے اور بچا کھچا کھاتا ہے ۔ گدھے کا مالک خود اچھا کھاتا پہنتا ہے گدھے کو گندمند کھلاتا ہے۔ اسی طرح شوہر بیچارہ گھر بھر کے لیے کما کر چوری کھلاتا ، خود اس بیچارے کو بعض دفعہ سوکھی روٹی بھی نہیں ملتی۔گدھے کا مالک اسکی پٹائی چھوٹی لکڑی سے کرے یا بڑی سے، گدھا چپ کر کے برداشت کرتا ہے۔ شوہر کی پٹائی بیوی چاہے زبان سے کرے ، ہاتھ سے کرے یا برتنوں سے کرے شوہر بیچارہ بچوں کی خاطر برداشت ہی کرتا رہتا ہے۔ گدھے پر جتنا بھی وزن لاد و اسے اٹھانا پڑتا ہے۔ شوہر پر بھی بیوی جتنے اخراجات کا بوجھ ڈال دے اس بیچارے کو برداشت کر نا ہی پڑتا ہے۔ گدھا بیچارہ اگر کبھی تنگ آکر کہیں بھاگ بھی جائے تو کوئی دوسرا پکڑ کر اس سے پھر وہی کام زیادہ لینا شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح اگر میاں بھی کسی اور بیوی کے چکر میں پڑ جائے تو وہ پہلے والی سے بھی دو ہاتھ آگے ہی پائی جاتی ہے۔

اگر ہم بیوی سے گدھے کا موازنہ کریں تو یہاں بھی بہت سی مشترکہ چیزیں پائی جاتی ہیں۔ مثلا: کہتے ہیں نہ کہ گدھے کی کھال اور دماغ بہت موٹا ہوتا ہے اسلیے اس پر کوئی مار یا بات جلد اثر نہیں کرتی، بیوی کا بھی کچھ یہی حال ہوتا ہے ۔ہمیں ایک ایسے انگریز کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا جو کہ چین میں بھی کام کر چکاتھا۔ ہم نے پوچھا کہ اتنا عرصہ چین میں رہنے کے باوجود آپ نے چین میں شادی کر کے بیوی کیوں نہ بنا ئی ؟ اس انگریز کے جواب نے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ: آپ کسی گدھی سے شادی کر کے بیوی بنالیں پر چائنیز لیڈی کو بیوی نہ بنائیں۔پر اسسنے وجہ نہیں بتائی؟؟گدھے کو کچھ کھانے پینے کا سا مان نظر آجائے تو اسکی سپیڈ فورا تیز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بیوی کو بھی میاں کی طرف سے کچھ زیور یا پیسے آتے نظر آئیں تو اسکی بھی کام اور چاپلوسی کی رفتار فورا تیز ہو جاتی ہے۔گدھے کو آپ لاکھ میک اپ میں تھوپ دیں، گدھا تو گدھا ہی رہتا ہے، اسی طرح پانچ بچوں والی بیوی پر لاکھ میک اپ کا خرچہ کر لیں، جتنی چاہے میک اپ کی اسٹکیں یا کٹیں لگادیں ، جتنا چاہے فیشل کر وادیں ا سکے بوتھے پر بھی گھٹ ودھ ہی تبدیلی آتی ہے۔

اور اب اپنے ملک کے عزیز و غریب سیاستدانوں سے انتہائی معذرت کے ساتھ کہ سیاسی لوٹے تو آپ نے بہت سنے ہونگے جن میں ہم کافی حد تک خود کفیل ہیں۔ تا ہم سیاسی گدھے،سوری، میرا مطلب کہ سیاستدانوں اور گدھوں میں بھی بہت سی باتیں کامن ہوتی ہیں۔ مثلا:حالیہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق اسمبلی میں جو کچھ بھی ہوتا رہا ممبران کی زیادہ تعداد خاموش ہی رہی۔ گدھے کے ساتھ بھی کچھ بھی کر لیں زیادہ تر خاموش ہی رہتا ہے۔ ہمارے اکثر ممبرانِ اسمبلی اتنے بھولے ہیں کہ انگریزی تو کیااردو زبان سے بھی نابلد ہیں ۔ اسی طرح گدھا بھی ہر طرح کی زبان سے نابلد ہوتا ہے ۔ ہمارے معصوم سیاستدانوں کو ہمیشہ صرف آمر کے ڈنڈے کی زبان سمجھ میں آتی ہے، اسی طرح گدھا بیچارہ بھی صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتا ہے۔ سیاست دان دولت کی مار مارتے ہیں، گدھا دولَت یعنی دو لَات مارتا ہے۔سیاستدان کبھی کسی ایک کا نہیں ہوتا۔ گدھا بھی کسی ایک کا نہیں، جو پکڑ لے اسی کا ہوجاتا ہے۔گدھا ایک عام آدمی سے زیادہ ہی کھاتا ہے۔ سیاستدان کو بھی جتنا کھلا دو کم ہے۔ گد ھے کو زیادہ دیر کچھ نہ ملے تو ڈھینچوں ڈھینچوں دھاڑنا شروع کر دیتا ہے، سیاستدان کو بھی اگر وزارت نہ ملے تو میڈیا پر چیخ چیخ، حکومت میں کیڑے نکال نکال کر سارا ملک سر پر اٹھا لیتا ہے۔گدھے کے آگے جتنے بھی بین بجالو اسے کچھ اثر نہیں ہوتا، ہمارے سیاستدانوں کے کالے کرتوتوں پر بھی جتنا چاہے چیخ لو ان پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایک مشہور واقعہ تو شاید سبھوں کو یاد ہوگا کہ: ایک مشہور و معروف سیاستدان سے میڈیا والوں نے پوچھا کہ جناب آپ کے کالے کرتوتوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں تو کیا آپکی ریپوٹیشن ؟؟پر کچھ فرق نہیں پڑیگا؟ تو موصوف بولے کہ میرے حلقے کے لوگ اخبارات ہی نہیں پڑھ سکتے!

ایک بار جنگل میں گدھوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی ، آئیے اپنے نمائندے سے اسکا لا ئیو حال جانتے ہیں۔ گدھا نمبر ۱: بھئی میرا خیال ہے کہ ہمیں اب یہ بوجھ اٹھانے کا کام چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ انسان اب ہم سے زیادہ وزن اٹھانے کے قابل ہوگیا ہے ۔ مثلا: سرکار آئے روز بجلی، گیس، تیل کی قیمیتں بڑھاتی ہے، مہنگائی بڑھ جاتی ہے مگر یہ انسان بلا چوں چراں تمام بوجھ با آسانی اٹھا رہا ہے۔ گدھا نمبر 2: میرا خیال ہے کہ ہمیں آئندہ دنوں میں ہمیں اپنی خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔۔۔۔ تمام گدھے چونکے اور متوجہ ہوئے ۔۔۔۔۔گدھا بولا کہ مجھے ڈر ہے کہ انسان مہنگائی کی وجہ سے اپنی خوراک نہ خرید سکے گا اور ہماری گھاس کھانا شروع کردے۔ گدھا نمبر3: میں انکی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں اور مزید اضافہ کرنا چاہونگا کہ شوگر کی بیماری چونکہ روز بروز بڑھ رہی ہے اور شوگر کے مریض چنے بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں، جو کہ ہماری غذا کا لازمی جزوہے ، اسکی بھی قلت ہو سکتی ہے، لہذا اس سلسلے میں بھی محتاط رہا جائے۔ اسکے علاوہ یہ کہ کیونکہ انسان کی اپنی روٹی شوٹی بھی پوری نہیں ہو پا رہی تو ہمارے بھوسی ٹکڑے، چھان بور وغیرہ کی بھی کمی ہو سکتی ہے۔مزید یہ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آئندہ انسان خود ان اشیاءکا طالب ہو۔ اگر ایسا ہو تو ہمارے لیے بھوسی ٹکڑے اور چھان بور امپورٹ کرنے کا جلد بندوبست کیا جائے۔ گدھا نمبر4: چنگ چی رکشے آنے سے لوگوں نے گدھا گاڑی کے بجائے چنگ چی گاڑی کا استعمال زیادہ شروع کر دیا ہے، لہذا ہمیں اپنی حیثیت کھونے کے ڈر کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔گدھا نمبر5: انسان آجکل ہمارے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، ہم اگر تھکے ترٹے بھی ہوں تو ڈنڈے مار مار کر ہمیں زبردستی کام پر مجبور کیا جارہاہے جو کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں امریکہ سے مدد لینی چاہیے۔گدھا نمبر 6: آجکل ایک اور ٹرینڈ چلا ہوا ہے کہ ریس میں ہمیں تیز دوڑا کر شرطیں جیتنے کے لیے ہماری بیک پر ٹین کے ڈبے سے زخم لگائے جاتے ہیں، جس سے ہم لہو لہان ہو جاتے ہیں، میرا یہ مطالبہ ہے کہ اس طرح کے زخم حکومت کو بھی لگائے جائیں تاکہ وہ بھی تیز تیز کام کرے۔ اسکے علاوہ میں اپنی گدھا برادری سے اپیل کرونگا کہ وہ اپنا پرانا جدی پشتی کام یعنی دولتی مارنا اب چھوڑ دے کیونکہ انسانوں کو انکے اپنے جیسے انسان آئے روز دولتیاں مار مار کر اسکا حشر نشر کے ہوئے ہیں۔ گدھا نمبر 7: ہمارا حکومتِ وقت سے ایک دیرینہ مطالبہ یہ ہے کہ چونکہ ہم میں سے زیادہ تر گدھے کنوارے ہی مر جاتے ہیں ، لہذا ہمارے لیے کثیر تعداد میں گدھیوں کا بندوبست کیا جائے ، بے شک باہر لے ممالک سے ہی کیوں نہ منگوائی جائیں۔ اس قرارداد کی تمام گدھوں نے ہاتھ اٹھا کر پر زور اندار میں تائید کی۔گدھا نمبر8: شہر کے پوش علاقوں میں جانے سے پابندی ہٹائی جائے تاکہ ہم وہاں جاکر اپنی پسند کی خوراک نوش فرماسکیں۔اگر یہ پابندی ہمارے فضلے کی وجہ سے لگائی گئی ہے تو اسکا الٹرنیٹ انتظام کر کے اس سے بائیو گیس پیدا کرکے ملک میں خوشحالی لائی جائے۔ہم سے سوتیلی ماں والا سلوک بند کر کے ہمارے تمام حقوق د یے جائیں ۔ ورنہ جس طرح کراچی کے بنگالی بھائی پارلیمنٹ کا گھیراﺅ کی دھمکی دے رہے ہیں تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔مزید یہ کہ اگر ہماری حق تلفی یونہی جاری رہی تو ہم اقوامِ متحدہ میں علیحدہ ملک کے لیے قرار داد پیش کر وائیں گے ۔گدھا نمبر9: جناب عالی! کراچی کے علاقے لیاری اور کھڈہ مارکیٹ والوں کے لیے شکریہ کی قرار داد پاس کی جائے کیونکہ صرف انہی علاقوں کے لوگ ہماری سیوا ٹھیک طرح کرتے ہیں، باقی سب جگہ ہماری انسلٹ کی جاتی ہے۔

اسکے علاوہ صو بہ سندھ کے شہر بدین میں ہماری منڈی لگانے والوں کے لیے ایوارڈز اور انعامات کا اعلان کیا جائے گدھا نمبر10: کبھی کبھار سرِ راہ اتفاق سے اگر کسی گدھی سے ٹاکرا ہوجائے تو ہمارے مالک ہمیں اس سے حال چال نہیں ونڈنے دیتا، ہماری پر زور فرمائش ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں تخلیے میں دس منٹ گپ شپ کے لیے لازمی دیے جائیں۔گدھا نمبر11: ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ انسانوں کی طرح ہمارے بھی مٹی سے بھرے کھیل کے گراﺅنڈ بنائے جائیں جہاں ہم اپنی مرضی سے اس میں لوٹ پوٹ ہو کر مٹی کاغسل کر سکیں۔تا ہم یہ گراﺅنڈ امریکی امداد کی بجائے حکومت اپنی جیب سے بنائے۔گدھا نمبر12: چونکہ ہماری اور انسانوں کی حرکتوں میں زیادہ فرق نہیں رہا ، لہذا حکومت ہمارے لیے اسمبلی میں سیٹیں مخصوص کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری نوکریوں کا کوٹہ بھی مختص کرے۔اسکے علاوہ چونکہ ہمارے گدھوں میں تعلیم کا فقدان ہوتا ہے لہذا ہمارے لیے ہمارے ہی جیسے اوصاف کا مالک (جنکی کہ کثیر تعداد ایوانوں میں موجود ہے) موجودہ اسمبلی سے وزیر مقرر کیا جائے ، جو کہ ہماری زبان با آسانی سمجھ سکے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو انہیں ہماری زبان کا کورس کرایا جائے۔

اب جناب باری تھی کچھ گدھیوں کی: گدھی نمبر1: میری گزارش ہے کہ ہمارے عادات سے ملتی جلتی کچھ گدھیاں بھی ایوانوں میں موجود ہیں، انکے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ گدھی نمبر2 : جس طرح انسانوں کی عورتوں کے لیے الگ پارک، الگ بسیں، الگ بنک وغیرہ بن رہے ہیں، اسی طرح کا انتظام ہمارے لیے بھی کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہمارا سامانِ آرائش و زیبائش کی کمی کی وجہ سے اسے امپورٹ کرنے اور ڈیوٹی ٹیکسس میں چھوٹ دی جائے۔ گدھی نمبر3 : ہماری بہتر افزائشِ نسل اور ہماری آبادی میں اضافے لیے اسمبلی میں ہمیں ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اس بات پر اتنا زیادہ شور شرابا ہوا کہ کئی گدھے اکٹھے کھڑے ہو کر بولنے لگے اور پھر مزید گدھیوں بیچاریوں کو بولنے کی اجازت نہ مل پائی۔

اور پھر آخری گدھا صاحب کچھ یو ں گویا ہوئے کہ: آجکل انسان لوگ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا کہ رٹ لگائے ہوئے ہیں، حالآنکہ یہ بات تو ہم پر صادق آتی ہے کہ ہمیں جتنا بھی مار کوٹ لیں ہم بھی کسی کی نہیں مانتے ، لہذا۔۔۔۔۔ ہمیں انسانوں کے برابر درجہ دیکر انکے جیسے تمام حقوق دیے جائیں۔ اسکے علاوہ یہ کہ ہمارے اس ایکے یعنی اکٹھے رہنے کی کارگزاری اور کانفرنس کے تمام فیصلوں پر فوری عمل درآمد کی ایک کاپی انسانوں کو بھی بھیجی جائے تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ ہمارے ہاں کوئی ڈرتا ورتا کسی سے نہیں اور تمام فیصلوں پر من و عن عمل ہوتا ہے نہ کہ انکی طرح جو کہ عدلیہ کے فیصلوں کو بھی کہتے ہیں کہ میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا۔اسکے علاوہ اگر انسانوں کو کہیں خط لکھنے میں دقت ہو، لکھنے کا طریقہ نہ آتا ہو تو ہم سے رابطہ بھی کر سکتے ہیں؟؟

اور پھر آخر میں دعا کچھ یوںہوئی: اے اوپر والے ہمارے حال پر رحم فرما۔ ہمیں انسانوں کے شر سے محفوظ فرما۔ اے اوپر والے جس ہاتھ سے یہ انسان ہمیں مارتے اور زخم لگاتے ہیں ، اے نیلی چھت والے انکے وہ ہاتھ توڑ دے۔ اے سب کی سننے والے ہماری گھاس اور چنے کی فصل کی پیداوار میں اضافہ فرما۔ ہمیں اتنی عقل دے کہ لوگ ہمیں بے عقل ہونے کا طعنہ دینا چھوڑ دیں۔ اے اوپر والے یہ انسان لوگ اپنے سے انسانوں کو ہمارے نام سے موسوم گالیاں دیتے ہیں مثلا: گدھے کا بچہ، گدھا کہیں کا، گدھے کی سی حرکتیں کرنے والا۔وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو اصل میں آجکل خود ہمارے ہی جیسی حرکتیں کر رہے اور ہمارے ہی جیسی زندگی جی رہے، اے مالک تو ہمیں ان جیسا نہ بنائیو۔ اے سننے والے جسطرح بڑے لوگوں کے کتے امپورٹیڈ خوراک کھاتے ہیں ہمیں بھی وہ خوراک نصیب فرمادے۔ اے مالک تما عالمِ گدھا پر اپنا خاص رحم کر دے ۔ جس طرح انسان آجکل ہم سے بھی بد تر زندگی گزار رہا ہے اس سے ہمیں بچائیو اور ہمیں اپنے خواص میں شامل فرمالے۔ ہمیں نیک اور صالح زوجائیں عطا فرما۔ اس پر اتنی زور سے واہ واہ ہوئی کہ جنگل کے تمام شیر نیند سے جا گ اٹھے اور پھر تما م گدھے آگے آگے ا ور شیر انکے پیچھے پیچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: اگر میرے کسی پڑھنے والے کو یہ آرٹیکل برا لگے تو میں پیشگی معذرت چاہونگا۔ شکریہ
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247664 views self motivated, self made persons.. View More