آپ ایک بار پوچھ کر تو دیکھیں

اگر آپ نفسیات کے ماہر نہیں اور رویّوں کو سمجھنے میں اکثر غلطی کر جاتے ہیں تو حیرت کی کوئی بات نہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ آپ نے سب کو سمجھنے کا ٹھیکا تو لے نہیں رکھا۔ پاکستانی معاشرے میں اب رویّوں کا کام ہی دھوکا دینا ہے۔ دل میں کچھ اور چہرے پرکچھ، یہی زندگی کا چلن ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بچّے تو غیر سیاسی ہوتے ہیں مگر باقی سب لوگ خالص سیاسی ہوگئے ہیں! سبھی ہونٹوں پر مجلسی تبسم سجائے پھرتے ہیں اور اِس مصنوعی تبسم کو اپنا ترجمان بھی سمجھتے ہیں!

مرزا تفصیل بیگ نے از خود نوٹس کے تحت ماہر نفسیات کا منصب اپنے لیے مختص کرلیا ہے۔ لوگوں کو سمجھنے کا اُن کا اپنا طریقہ ہے۔ اور یہ طریقہ ایسا ”تیر بہ ہدف“ ہے کہ اُن کا اندازہ کبھی کبھار ہی غلط نکلتا ہے۔ مثلاً مرزا کا کہنا ہے کہ جو لوگ بہت چیختے چلاتے ہیں اور گھر سے باہر ہر ایک سے لڑتے جھگڑتے ہیں اُن میں سے بیشتر کی اپنے گھر میں کچھ خاص توقیر نہیں ہوتی! جب گھر میں کوئی نہیں سُنتا تو اِنسان ساری دُنیا کو سُناتا ہے اور گھر والوں کو دِکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھو، تم نہیں سُنوگے تو ساری دُنیا کو سُناکر حشر برپا کروں گا!

ہم مرزا کی اِس بات سے پوری طرح متفق ہیں کہ جس کی کوئی نہیں سُنتا وہ سب کو سُنانا چاہتا ہے اور جب تک سب سُن نہ لیں، چین سے نہیں بیٹھتا! یعنی سماعتوں کا بَھٹّہ بٹھاکر، سب کا سُکون غارت کرنے کے بعد ہی سُکون کا سانس لیتا ہے!

ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں لوگ اپنے کام کے سوا سارے کام کر رہے ہیں اور اِس عمل کو کارنامہ شمار کرتے ہیں۔ کوئی اپنا کام نہ کر پانے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتا اور بضد رہتا ہے کہ اُس کی سُنی اور مانی جائے!

مختلف بیماریوں کے بارے میں طرح طرح کی پیش گوئی آمیز باتیں کرنے والے ماہرین اب تک ملک کی سب سے عام بیماری کے بارے میں خاموش ہیں۔ یہ بیماری ہے بن بلائے مشورے دینا۔ جسے دیکھیے وہ ہر معاملے میں اپنی ماہرانہ رائے سے نوازنے پر تُلا رہتا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، جسے رائے دینا ہے وہ دیکر رہتا ہے۔

اگر پارلیمنٹ کا سیشن چل رہا ہو اور قومی امور پر بحث طول پکڑ رہی ہو تو ڈرائنگ رومز میں بھی پارلیمنٹس سج جاتی ہیں۔ ڈرائنگ روم کی پارلیمنٹس میں تمام ہی اقسام کے مشورے پوری روانی کے ساتھ پیش کئے جارہے ہوتے ہیں۔ قانونی امور کے ماہرین خواہ کچھ کہیں، ڈرائنگ روم، ہوٹل کی بنچ اور چبوتروں پر بیٹھے ہوئے ”ماہرین“ وزیر اعظم کو توہین رسالت کے کیس میں پیشی کے حوالے سے طرح طرح کے مشوروں سے نواز رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ اگر وزیر اعظم نے ان عوامی مشورہ بازوں کی چند باتیں مان لی ہوتیں تو منفرد دلائل کے ذریعے ججز کو تھوڑی دیر کے لیے پریشانی سے دوچار کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتے! قانون کی کتابیں جن پیچیدہ نکات سے اب تک محروم ہیں وہ ان عوامی مشورہ بازوں کی باتوں میں تھوک کے حساب سے پائے جاتے ہیں!

سیاسی جماعتیں دنیا بھر کی عقل رکھتی ہیں مگر اب تک ان میں وہ عقل پیدا نہیں ہوئی جو عوام کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ مکمل فراغت کے ساتھ ہوٹل کی بنچ پر دنیا بھر کے موضوعات کو شرفِ تفکر بخشنے والے جب سیاستدانوں کو مشوروں سے نوازنے پر آتے ہیں تو کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اگر سیاسی رہنما اِن مشوروں پر کان اور دھیان دھریں تو ایسی حکمتِ عملی تیار ہو کہ تمام دالوں اور گوشت گھوٹنے سے تیار ہونے والا کھچڑا بھی دیکھے تو شرما جائے! مشورہ دینے والوں کی دریا دلی کا یہ عالم ہے کہ بلا تکان بولتے ہیں اور کوئی بھی نکتہ فراموش نہیں کرتے۔ کوئی بھی امکان اِن کی نظر کے راڈار سے محفوظ نہیں رہ پاتا اور بہت دور جاکر کوڑیاں لاتے ہیں تاکہ مُنہ سے بات کے نکلتے ہی سُننے والے حیران رہ جائیں!

جب سے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہیں اور سیکورٹی فورسز پر دباؤ بڑھا ہے، سوچنے والوں نے از خود نوٹس کے تحت اسٹریٹجک امور کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقے سوچنا ان کا کام ہے جو دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں۔ وہی بہتر جانتے ہیں کہ کس سے کس طور نپٹنا ہے اور صورت حال کو کس طرح معمول پر لانا ہے۔ مگر جنہیں سوچنے اور مشورے دینے کا ”ہَوکا“ وہ اِس معاملے میں بھی قیاس کے گھوڑے اِتنی تیزی سے دوڑاتے ہیں کہ دیکھنے والے بے چارے صرف دھول دیکھتے رہ جاتے ہیں! اگر کہیں فوجی یا نیم فوجی دستے تعینات کئے جانے ہوں اور اس حوالے سے میٹنگز ہو رہی ہوں تو ڈرائنگ رومز میں بیٹھے ہوئے برزجمہر متنوع نکات پیش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسٹریٹجک امور کے ماہرین اُن کی رائے سے مستفید ہوں! کبھی کبھی تو یار لوگ ذہن کے گھوڑوں کو اِس قدر دوڑاتے ہیں کہ بے چارے کہیں کے کہیں جا نکلتے ہیں اور پھر اُنہیں عقل کے اصطبل میں لانا انتہائی دشوار اور جاں گُسل ہوتا ہے!

سوچنے اور مشورے دینے کو اپنا پیدائشی فریضہ اور حق گرداننے والوں کے لیے شعبے اور میدان کی کوئی قید نہیں۔ گلی میں کسی کے ہاں کوئی تقریب ہو اور شامیانہ لگایا جارہا ہو تو یہ خدائی فوجدار موقع پر موجود رہتے ہیں تاکہ انتہائی قیمتی مشوروں کا دریا بہاتے رہیں۔ کبھی کبھی مشورے اِس قدر بہہ نکلتے ہیں کہ لوگ کیچڑ کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیں! میزبان بے چارا ایک طرف رہ جاتا ہے اور شامیانے کے لیے ایک ایک ”کِلّا“ اِن خود ساختہ رضاکاروں کے مشوروں کی روشنی میں گاڑا جاتا ہے۔ اپنے منہ آپ رضاکار بن بیٹھنے والوں کے مشوروں سے شامیانے کا لگایا جانا بھی محلے بھر کے بچوں کے لیے ایک دلچسپ ایونٹ سے کم نہیں! شادی کی تقاریب تو جب ہوں گی تب ہوں گی، اُس سے بہت پہلے ہی لوگ بہت کچھ انجوائے کرچکے ہوتے ہیں!

اگر کوئی مشورے دینے پر آمادہ (یا بضد) ہو تو پھر کیا خوشی اور کیا غم؟ مشوروں کی روانی یقینی بنانے کے لیے خوشی کے موقع کی قید نہیں، کسی کے مرنے پر بھی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ آپ نے کسی نہ کسی کی تدفین میں تو شرکت کی ہی ہوگی۔ تدفین کے موقع پر بھی مشورہ باز شخصیات اپنی موجودگی کا احساس دلانے سے باز نہیں رہتیں۔ انتقال سے تدفین تک یہ مستقل سوچتے اور سوچی ہوئی ہر بات کو طشت از بام کرتے رہتے ہیں۔ بعض صاحبان تو اس موقع پر ایسا پروٹوکول اور طریق کار بیان کرتے ہیں کہ مُردوں کا بھی جی تو چاہتا ہوگا کہ کفن پھاڑ کر کھڑے ہوں اور اِن کے آگے ہاتھ جوڑیں کہ بھائی! عزت سے دفن ہو لینے دو! مُردے کو قبر میں اُتارنے سے قبر پر مِٹّی ڈالنے تک ہر مرحلے پر اِن کی طرف سے ہدایات، بلکہ احکامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ تو کہیے کہ اِن کا بس نہیں چلتا ورنہ بر وقت عالم نزع کی اطلاع ملنے پر مَرنے والے کے سِرہانے کھڑے ہوکر اُس کی رہنمائی کریں کہ کِس طرح مَرنا ہے اور کِس طرح نہیں مَرنا!

علاقے میں اگر کبھی بھولے بھٹکے کوئی ترقیاتی کام شروع کیا جائے تو سمجھ لیجیے کہ قوم کے غم میں گھلنے اور بے مانگے مشورے دینے والوں کی چاندی ہوگئی۔ جب تک ترقیاتی منصوبہ مکمل نہیں کرلیا جاتا، یہ بلا ناغہ حاضری دیتے ہیں اور قدم قدم پر متعلقہ عملے کا جلد از جلد اور بے داغ تکمیل کا راستہ دکھاتے ہیں! اگر کوئی عمارت کھڑی کی جارہی ہو تو یہ خدائی فوجدار اُس کے ڈیزائن میں رہ جانے والی خامیوں کی نشاندہی کرکے ایسی جامع ترامیم تجویز کرتے ہیں کہ متعلقہ انجینئرز بے چارے (اپنے) سَر پیٹ کر رہ جاتے ہیں!

سوچنے اور مشورے دینے کے قومی فریضے پر مامور افراد کی شان دیکھنا ہے تو کرکٹ میچ کے دوران دیکھیے۔ کریز پر موجود بیٹسمین کو آخر آتا ہی کیا ہے؟ ایک ایک گیند پر یہ اُسے مشوروں سے نوازتے ہیں اور جب وہ اِن کے مشوروں کا سہارا لیکر نہیں کھیلتا تو اِن کے ”مشورہ بار“ منہ سے مغلظات کا طوفان سا امڈنے لگتا ہے! میچ میں کِس مرحلے پر کِس طرح کھیلنا چاہیے، یہ بات ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے گھریلو ساختہ ماہرین سے زیادہ کون جانتا ہے! اپنی باتوں سے یہ آن کی آن میں میچ کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں اور ”چشم تصور کی آنکھ“ سے قومی ٹیم کو فتح سے ہمکنار ہوتی ہوئی بھی دیکھ لیتے ہیں! مگر ہائے ری قسمت! ہر اوور کے خاتمے پر، قومی ٹیم کے ارکان کے ”عدم تعاون“ کے باعث، اِن کی سوچی ہوئی اسکیم ناکامی سے دوچار ہوتی ہے اور میچ وہیں کا وہیں رہتا ہے!

کسی زمانے میں ہماری گلی سے ایک نوجوان ٹھیلے پر کھوپرے کے ٹکڑے سجائے گزرتے ہوئے صدا لگاتا تھا ”ارے بھئی لیں نہ لیں، ایک بار دیکھ تو لیں!“ مشوروں سے نوازنے والے بھی زبان حال سے صدا لگا رہے ہوتے ہیں ”ہماری بات مانیں نہ مانیں، ایک بار پوچھ تو لیں!“
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 531525 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More