بہن کے عاشق کو بھائی نے لگایا ٹھکانے

ان دنوں مغربی معاشرے میں جاری بے راہ روی نے مشرقی ممالک میں اچھی خاصی خوشگوار زندگی میںتلخی گھول دی ہے جس کے اثرات ہندوستان میں بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔کیا کوئی شخص اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ فصیل بند شہر پرانی دہلی میں قصاب کے پیشہ سے وابستہ ایک شخص کسی انسان کوجانور کی طرح بے رحمی سے ذبح کرسکتا ہے؟ اس سلسلے میں تازہ واقعے نے ظاہر کردیا ہے کہ اپنی عزت بچانے کیلئے کوئی شخص کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔بہن کے پیچھے پڑے شخص کا قتل کرنے کے الزام میں بھائی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس نے ایک نوجوان کو قتل کرکے اس کا سر ایک کنوئیں میں اور باقی جسم دوسرے کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔تفصیلات کے مطابق مشرقی دہلی کے شاستری پارک میں بلند مسجد علاقے میں رہنے والے محمد عارف کی بہن کے پیچھے ابرار احمد پڑا ہوا تھا۔ عارف نے اسے کئی بار روکنے کی کوشش کی لیکن ابرار نہیں مانا۔ عارف نے ابرار سے پیچھا چھڑانے کے مقصد سے اپنی بہن کی شادی کر دی لیکن ابرار نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ آخر کار عارف نے اس کا کام تمام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ایڈیشنل پولیس کمشنر ڈی سی شریواستو کے مطابق6 فروری 2006 کو عارف اپنے چچا زاد بھائی شبیر کے ساتھ ابرار کے گھر گیا۔ اس نے اپنے بیمار دادا کو دیکھنے کیلئے ابرار کودہلی کے قریب واقع میوات میں ساتھ چلنے کیلئے تیار کر لیا۔ میوات کے نوح علاقے میں عارف اور شبیر نے قصاب والے چاقو سے ابرار کی گردن الگ کر دی۔ گردن ایک کنویں میں ڈالی جبکہ دھڑ اور چاقو دوسرے کنوئیں میں پھینک دیا۔اگلے دن دھڑ اور چاقو برآمد کرکے نوح پولیس نے قتل کا کیس درج کیالیکن نہ تو مرنے والے کی شناخت ہو سکی اور نہ ہی ملزم گرفتار کئے جا سکے تھے۔ ابرار کے گھر والوں نے عارف سے پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تلاش کرنے میں مدد بہم پہچانے کی یقین دہانی کروائی۔ حوض قاضی تھانے کے اے ایس آئی نصو احمد کو خبر ملی کہ ابرار کا قتل عارف نے کیا تھا۔ ایس ایچ او (حوض قاضی) وجے چندیل کی ٹیم نے عارف کوفراش خانے سے گرفتار کر لیا۔ وہ قصاب کی دکان پر کام کرتا ہے۔ نوح پولیس کو عارف کی گرفتاری کی خبر دی گئی ہے۔

اس سلسلے میں ایک بحث چل پڑی ہے۔ زید کا نظریہ ہے کہ عارف کو قانون کی مدد حاصل کرنا چاہئے تھی لیکن ملک میں قانون کی مدد حاصل کرنا عام آدمی کیلئے مشکل ہو گیا ہے، کم آمدنی والوں کیلئے تو اور بھی مشکل ہے،جس کی وجہ جرائم زیادہ ہورہے ہیں! ہندوستان میں قانون کی مدد لینا اور انصاف حاصل کرنا سستا اور آسان ہونا چاہئے، تبھی عدلیہ اور حکومت کی وقار بھی محفوظ رہے گا! عدلیہ اور حکومت میں وکلاءکی زیادہ تعداداور ان کے مفادپر مبنی لالچ کی وجہ سے اصلاح مشکل ہو گئی ہے!یہی وجہ ہے کہ خوشحال لوگ اپنے پیسے کو ہتھیار کی طرح استعمال کرکے غریبوں پر ظلم کر رہے ہیں!

بکر کے مطابق کوئی بھی شہری اگر ملکی قانون پر عمل نہیں کرنا چاہتا تو بہترہے کہ وہ ملک چھوڑ دے۔ عارف کرتا بھی کیا؟ پولیس کے پاس جاتا تو اس کی بہن میں ہی نقص نکلتے، بھدی گالیاں دیتے اور پیسے کا مطالبہ کرتے؟ایسے میں عام آدمی کیا کرے؟کیا ملک چھوڑ دے؟لیکن چھوڑبھی دے تو جائے کہاں؟جبکہ راجو کا ماننا ہے کہ عارف نے صحیح کیا...اس نے ایک بھائی کافرض ادا کیا۔اس بر عکس اپنا نام پوشیدہ رکھتے ہوئے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اب عارف تا عمر جیل میں سڑ کے کس کافرض نبھائے گا؟ اس کے جواب میں راجو کا کہنا ہے کہ جب آوارہ اور اوباش قسم کے لڑکے کھلے عام لڑکیوں کا جینادوبھر کریں گے تو اس قم کے واقعات پیش آئیں گے ہی ؟جبکہ اشیش کا ماننا ہے کہ میں بھی عارف سے متفق ہوں۔ اس نے ٹھیک کیا، کم سے کم آس پاس رہنے والے بدمعاشوں کی حوصلہ شکنی تو ہوگی اور وہ لڑکیوں اور خواتین کو پریشان کرنا بند کر دیں گے ۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126053 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More