’’باخبر ذرائع‘‘

امریکہ اس وقت پوری دنیا کی باگ ڈور کو اپنا حق سمجھ کر اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے اور اس کے لیے وہ ہر قسم کا حربہ آزمانے پر تلا بیٹھا ہے ۔ کبھی وہ حکومتوں کو خریدتا ہے کبھی جنگی حملہ کرتا ہے اور کبھی معاشی پابندیاں لگاتا ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس نے یہی حربے ایران ،عراق ،افغانستان اور پاکستان میں آزمائے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد جب عوام کے شدید احتجاج پر امریکہ کے خلاف کچھ اقدامات کئے گئے اور کسی حد تک امریکہ کے اثرکو قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا تو اس نے متبادل راستے اختیار کرنا شروع کیے انہی میں سے ایک میڈیا کے ذریعے مسائل پیداکرنے کی کوشش ہے ا ور یہی وجہ ہے کہ لاہور میں نئی امریکی قونصل جنرل نین ماریہ نے تشریف لاتے ہی اپنی سر گرمیاں شروع کر دیں اور ایک معروف پاکستانی اینکر سے ملاقات فرمائی۔اعتراض اس بات پر ہر گز نہیں کہ یہ ملاقات کیوں کی گئی لیکن قابل اعتراض بات یہ ہے کہ ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا گیا جن پر ویسے ہی پاکستان سے زیادہ امریکی مفاد کی وکالت کا شبہ رہتا ہے اوریہ اکثر اوقات قومی سلامتی کے اداروں پر شدید تنقید کرتے نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کوئی دشمن ملک کی فوج پر حملہ آور رہو۔ چلیے بات یہا ں تک بھی قابل قبول ہے، مخالفت بھی ہر ایک کا حق ہے، اگرچہ یہاں بات تنقید اور مخالفت سے آگے بڑھ کر ہے لیکن یہی اینکر صاحب اکثر اوقات پیش آمدہ واقعات کی پیش گوئیاں کرتے ر ہتے ہیں اور اسے اپنی چھٹی حس، مضبوط تجز یاتی قابلیت اور اپنے انتہائی باخبرذرائع سے منسوب کرتے رہتے ہیں اگر وہ اپنے ان ذرائع کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرتے رہیں تو تصویر کا وہ رخ جو وہ عوام سے پوشیدہ رکھتے ہیں ان کے سامنے آسکے گا ۔صرف اپنی باخبری کا اعلان بلکہ اس کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے ملک کی سلامتی اور استحکام کو نظر انداز کرنا کہاں کا انصاف ہے۔آزادی اظہار کی آڑلے کر اپنی ذاتی تشہیر کو مقصد بنا لینا بھی قرین انصاف نہیں ۔

یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ ملک ہے تو ہماری پہچان ہے ۔درخت جتنا بھی تن آوراور برگ وبارسے بھرپور ہواس کے لیے زمین کا ہونا ضروری ہے لیکن دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہر شعبۂ زندگی میں ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو اپنی ذات کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ اہم اور قیمتی سمجھتے ہیں ۔ایسا بھی ضروری نہیں کہ اس ملاقات میں پاکستان کے خلاف کوئی منصوبہ بنا ہو لیکن دوسروں کو ہدف تنقیدبنانے والے اپنے گریبان میں جھانک لیا کریں تو بہتر ہوگا اگر یہ صاحب کم ازکم اپنے ہی پرو گرام میں اس ملاقات کی تفصیلات سے لوگوں کو آگاہ کرتے تو عوام کے دلوں میں شکوک وشبہات جنم نہ لیتے ۔چونکہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس وقت ایک انتہائی مضبوط ذریعہ معلومات ہے اس لیے اگر یہاں اپنی ذات پر ملکی مفاد کو ترجیح دینے کا رواج عام ہو جائے تو شاید ملک میں بہت سارے فساد نہ پھیلیںاور اداروں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔ یہاں عوام کے سامنے وہ حقائق رکھے جائیں جو واقعی حقیقی ہوں اور میڈیا وہ کردار ادا کرے جو اسے کرنا چاہیے۔میڈیا در حقیقت وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے ملک کی وہ خدمت کی جا سکتی ہے جو کسی بھی دوسرے طریقہ سے ممکن نہیں۔ یہاں سے حکمرانوں اور اداروں پر نظر اس لیے رکھی جائے کہ وہ بے راہ نہ ہوں صرف مخالفت برائے مخالفت کے لیے نہیں۔بلکہ یہ سب کچھ ملک کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552316 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.