حال ہی میں کشمیر اور دلی میں دو بچوں نے ٹی وی ڈرامے میں دیکھے ہوئے
پھانسی کے مناظر کی نقل کرتے ہوئے خود کو پھانسی لگا لی اور ہلاک ہوگئے۔
دلی کے موجپور علاقے میں ایک بارہ سالہ بچے نے ٹی وی ڈرامے میں پھانسی کے
منظر کی نقل کرتے ہوئے کھیل کھیل میں پھانسی لگالی۔
سہیل کی والدہ ایشا کا کہنا ہے ’میرا بیٹا کرائم سیریل دیکھتا تھا اور مجھ
سے پوچھتا تھا کہ سیریل میں ایک لڑکی نے پھانسی لگائی تھی اور پھانسی کیسے
لگائی جاتی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ سب ناٹک ہے اور انہیں اس کام کے
لیے پیسے ملتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں کرنا چاہیے۔‘
ایشا کا کہنا ہے کہ منگل کی شام وہ سہیل کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر اپنے
خاوند کے ساتھ کچھ دیر کے لیے باہر گئی تھیں لیکن جب واپس آئیں تو وہ اپنے
بیٹے کو کھو چکی تھیں۔
|
|
وہ بتاتی ہیں ’جب میں واپس آئی تو دیکھا کہ میرے بیٹے نے چار کرسیوں کو ایک
دوسرے پر رکھنے کے بعد اس پر چڑھ کر دوپٹے سے خود کو پھانسی لگالی ہے۔ میں
نے جلدی سے اس کے پیروں کو تھاما۔ اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی۔ جب تک
ڈاکٹر کے پاس لے گئے تب تک وہ ختم ہوچکا تھا۔‘
اس واقعے سے پہلے سرینگر کے علاقے نواکدل میں احمد اور رقیہ کا آٹھ سالہ
بیٹا بھارتی ٹی وی چینل ’سونی‘ پر سلسلہ وار ڈرامہ ’سی آئی ڈی‘ کی نقل کرتے
ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اب یہ کنبہ حکومتِ ہند سے رجوع کرنا چاہتا ہے تاکہ اس ڈرامہ پر پابندی عائد
کی جائے۔ جرم اور جرم کی تفتیش سے متعلق یہ مقبول سیریل پچھلے تیرہ سال سے
سونی ٹی وی پر نشر ہو رہا ہے۔
ٹی وی سیریل دیکھ کر پھانسی لگانے یا سیریل اور فلموں میں ہیرو کو اونچی
عمارتوں سے کودنے کی نقل کرتے ہوئے بچوں کا ہلاک ہونا کوئی نئی بات نہیں۔
اب سے کچھ برس پہلے ٹی وی پر بے حد مقبول سیریل ’شکتی مان‘ دیکھنے کے بعد
کئی بچوں نے اونچی عمارتوں سے چھلانگ لگانے کی نقل کرتے ہوں اپنی جانوں سے
ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
|
|
اس طرح کے واقعات کے بارے میں بتاتے ہوئے دلی کے فورٹس ہسپتال میں نفسیات
کے ماہر سمیر ملہوترا کہتے ہیں کہ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی
چيز سے بہت جلدی متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے جو بھی دیکھتے
ہیں اسکا اثر ان کے ذہن پر ہوتا ہے اور وہ اپنے اوپر تجربے کرنے لگتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا ’انٹرنیٹ پر ایسے کئی گیمز ہوتے ہیں جن میں تشدد
دکھایا جاتا ہے اور ان گیمز میں بچوں کو کسی کو مار کر بہت خوشی ملتی ہے
اور ایسے گیمز سے تشدد کے لیے حساسیت کم ہوجاتی ہے۔‘
چائلڈ لائن انڈیا فاؤنڈیشن کے ممبر نشیت کمار کا کہنا ہے کہ فلموں کے لیے
تو سینسر بورڈ ہوتا ہے جو فلموں کی کہانی کے اعتبار سے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ
بچے اس فلم کو دیکھ سکتے ہیں یا نہیں لیکن ٹی وی سیریل پر اس طرح کی کوئی
بندش نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ ٹی وی تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے
کہ چاہے وہ کارٹون ہوں، یا ٹی وی سیریلز بچوں کے لیے کچھ گائڈ لائنز ضرور
ہونی چاہئیں۔
|
|
ان کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں کارٹون شوز کے بارے میں گائڈلائنز ہیں کہ
کس شو میں تشدد دکھایا گیا ہے کس میں نہیں! لیکن بھارت میں ابھی ایسا نہیں
ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ٹی وی سیریلز میں بعض اس طرح کی چيزیں دکھائی جاتی ہیں جو
بچوں کے لیے ٹھیک نہیں ہیں لیکن سیریل بنانے والے اس بات کی پرواہ نہیں
کرتے کہ وہ واضح کریں کہ کون سا سیریل بچے دیکھ سکتے ہیں اور کون سا نہیں!
بھارت میں اس موضوع پر ہمیشہ بحث ہوتی رہی ہے کہ کیا بچے ٹی وی دیکھ کر
پرتشدد ہوتے ہیں یا نہیں! اس میں مختلف ماہرین نفسیات کی مختلف رائے ہے۔
بعض کا کہنا ہے کہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے مواد کا بچوں پر بہت اثر ہوتا
ہے بعض کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق صرف ٹی وی سے نہیں بلکہ گھر اور معاشرے کے
ماحول سے بھی ہے۔
حالانکہ بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں میں نقل کرنے کا جذبہ بہت
زیادہ ہوتا ہے۔
|