آج تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ سوچنا
بنی نوع انسان کے لیے نعمت ہے یا کِسی کی بد دُعا کا نتیجہ۔ جنہیں سوچنے کی
صِفَت عطاءہوتی ہے وہ اپنا اور دوسروں کا ناک میں دَم کرتے رہنے کو زندگی
کا سب سے بڑا فرض تصور کرلیتے ہیں! سائنس دان ایک زمانے سے یہ سوچ سوچ کر
حیران اور پریشان ہیں کہ انسان سوچتا کیسے ہے؟ اور ہم یہ سوچ سوچ کر حیران
ہیں کہ سائنس دان آخر سوچنے ہی کے بارے میں اِتنا کیوں سوچتے ہیں! سوچنے کے
لیے موضوعات کی کوئی کمی نہیں مگر سائنس دان گھوم پھر کر صرف سوچنے ہی کو
موضوع بناکر گھیر لیتے ہیں!
مُنہ سے نکلی ہوئی بات کو سمجھنا شاید کافی نہ تھا اِس لیے اب ایک قدم آگے
جاکر خیالات کو پڑھنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکی ماہرین نے دماغ سے
خارج ہونے والے پیچیدہ برقی سگنلز کو صوتی لہروں میں تبدیل کرکے الفاظ اور
جملوں کی شکل میں ڈی کوڈ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اُن کا دعوٰی ہے کہ
چند آلات اور کمپیوٹر کی مدد سے کسی بھی شخص کے خیالات کو بھانپنا اور سمجھ
لینا اب ممکن ہوگیا ہے۔
مغربی دنیا کے ماہرین کے بارے میں ہماری رائے کبھی اچھی نہیں رہی۔ ہمیں تو
لگتا ہے کہ اُن کے دماغ غروب ہوچکے ہیں! اور اِس رائے کی ذمہ داری ہم پر
عائد نہیں ہوتی، خود مغربی ماہرین ہی اِس کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے ذہن میں تو
یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ ماہرین وہ ہیں جو مَکّھی پر مَکّھی مارتے رہیں!
جو چیز پہلے سے موجود ہو اُسے ایجاد کرنا کون سا کمال ہے؟ مگر اِتنی سادہ
سی بات کوئی بھی آج تک ماہرین کو سمجھا نہیں سکا! اب اِسی بات کو لیجیے کہ
دماغ میں اُبھرنے والے خیالات کو پڑھنے کی مشین بنانے کی کوشش پر عشروں تک
محنت کی جاتی رہی جبکہ ایسی چلتی پھرتی مشینیں تو پاکستان جیسے پس ماندہ
معاشرے میں بھی عام ہیں! اِن میں سے بیشتر مشینوں کو عُرفِ عام میں بیوی
کہا جاتا ہے! کِسی عورت کے بیوی ہونے کی سب سے بڑی نِشانی یہ ہے کہ وہ شوہر
کا مُنہ کھلنے سے پہلے اُس کے ذہن میں اُبھرنے والے خیالات کو سمجھ لیتی ہے!
اگر یقین نہیں آتا تو ذرا سوچیے کہ اتوار کی صبح جب حلوہ پوری لانے میں
شوہر کو ذرا سی تاخیر ہو جائے تو گھر میں اُس کے داخل ہوتے ہی بیوی کیا
کہتی ہے؟ یہی کہ ”میں جانتی تھی تم وہاں بیٹھ گئے ہوگے کسی کے ساتھ گپ شپ
لگانے۔ اور تین چار پوریاں بھی ٹھونسی ہوں گی!“ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو یہ
یا اِس سے ملتا جلتا جملہ سُن کر آپ کو بھی اپنی بیگم پر رشک تو آتا ہوگا
کہ جو بات آپ بتانے والے تھے وہ اُنہوں نے کتنی آسانی سے guess کرلی!
رات کو شوہر دیر سے گھر آئے تو بیوی دروازہ کھولتے ہی اُس کے دماغ میں
اُبھرنے والی باتیں فَرفَر بتانے لگتی ہے ”دوستوں میں بیٹھ گئے ہوگے۔ گپ شپ
ذرا لمبی ہوگئی ہوگی۔ میں جانتی تھی تم دوستوں میں بیٹھوگے تو بھول جاؤ گے
کہ گھر بھی جانا ہے۔“ اور اللہ کی قدرت دیکھیے کہ ایسے معاملات میں بیویوں
کے تمام اندازے دُرست نکلتے ہیں۔ اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ جو کچھ ابھی
شوہروں کے دماغ میں پیدا بھی نہیں ہوا ہوتا وہ بھی بیویاں بہت عمدگی سے
بیان کر جاتی ہیں! یہی سبب ہے کہ بیشتر مردوں کو شادی کے بعد سوچنے پر
زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے! وہ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں کہ شادی سے
پہلے ہی سوچ لیا ہوتا تو اچھا تھا!
شادی کی تقریب میں آپ بھی بڑی آسانی سے، مشین کی طرح، لوگوں کے دماغ پڑھ
سکتے ہیں۔ دماغوں میں بس یہی خیال تو گردش کر رہا ہوتا ہے کہ کب کھانا
کُھلے اور دُشمن سمجھ کر اُس پر ٹوٹ پڑیں! کھانے کو دُشمن کی طرح زیر کرنے
کا خیال چہروں پر کسی نہ کسی شکل میں نمودار ہو ہی جاتا ہے! اِس کے لیے کسی
گرافک مانیٹر کی ضرورت نہیں۔ اگر ڈِشیں زیادہ ہوں اور میٹھے میں بھی ورائٹی
ہو تو دماغ میں پیدا ہونے والے پیچیدہ برقی سگنلز آنکھوں میں عجیب سی، بھوک
بھڑکانے والی چمک پیدا کردیتے ہیں! یہی وہ مرحلہ ہے جب آپ اپنے ساتھ بیٹھے
ہوئے کسی بھی شخص کا ذہن خاصی تیزی اور آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ مگر ایسا
اُسی وقت ممکن ہے جب آپ کا اپنا ذہن کھانے سے متعلق سوچنے میں مصروف نہ ہو!
جو لوگ تاخیر سے دفتر پہنچنے کے عادی ہیں اُن پر ایک نظر ڈال کر خیالات
پڑھنا کوئی کمال کی بات نہیں۔ انچار ج صاحبان وقت اور حالات کی مناسبت سے
اچھی طرح اندازہ لگا لیتے ہیں کہ وہ تاخیر سے آنے کا ملبہ کِس پر اور کِس
طرح ڈالیں گے! اگر موٹر سائیکل پر آتے ہیں تو وہ پنکچر ہوگئی ہوگی، اگر بس
میں آتے ہیں تو ٹریفک جام ہوگیا ہوگا۔ اگر محرم یا ربیع الاول کا مہینہ ہو
تو جلوس نے پاؤں پکڑ، بلکہ جکڑ لیے ہوں گے! آپ یہ نہ سوچیں کہ بہانے چند
ایک ہی ہیں اِس لیے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔ جو کام پر دیر سے پہنچنے
کے عادی ہوتے ہیں وہ ڈائجسٹوں کے رائٹرز کی طرح کسی بھی موضوع پر کچھ بھی
سوچ سکتے ہیں! اُن کے ذہن میں جو کچھ پنپتا ہے اُس کا اندازہ لگانا ہر ایک
کے بس کی بات نہیں۔ بعض تو لیٹ ہونے کے معاملے میں ایسے ”راسخ العمل“ ہوتے
ہیں کہ جیب میں ٹوپی رکھتے ہیں۔ اگر زیادہ دیر ہو جائے تو ٹوپی اوڑھ کر
دفتر میں داخل ہوتے ہیں تاکہ انچارج اُنہیں دیکھتے ہی سمجھ جائے کہ ضرور
کوئی جان سے گیا ہے! ایسے مواقع پر بھی انچارج دماغ کو پڑھنے میں دیر لگاتا
ہے نہ غلطی کرتا ہے! بعض مہربان دفتر آنے میں اِتنی دیر لگاتے ہیں کہ
انچارج اپنے آپ کو اُن کا ماتحت سمجھنے لگتا ہے اور اُن کی آمد سے قبل ہی
اُن کے ذہن میں اُبھرنے والے تمام بہانہ آمیز خیالات کو بھانپ لیتا ہے!
مرزا تنقید بیگ کا استدلال ہے کہ جو شخص باقاعدگی سے ٹی وی پر سیاسی ٹاک شو
دیکھتا ہے وہ دماغ پڑھنے میں ایسا ماہر ہو جاتا ہے کہ مشین بھی دیکھے تو
شرما جائے! اِن پروگراموں کے شُرکاءایک دوسرے کو جس بے ذہنی اور بے جگری سے
لتاڑتے ہیں اُس سے ناظرین بھی رفتہ رفتہ جان لیتے ہیں کہ کون کب کیا کہے
گا! ٹاک شوز کے شُرکاءکی بلند فکری تو دیکھیے کہ مخالفین کی نیت اور ارادہ
بھانپ کر اُنہی کے خیالات کو pre-emptive strike کے طور پر استعمال کرتے
ہیں! ناظرین کا حال یہ ہے کہ گرما گرم بحث کے دوران کسی شریک کے پُھولے
ہوئے نَتھنے دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اب اُس کے مُنہ سے کِس قسم کے
گولے برسنے والے ہیں! قسمت کی یاوری اور اہلیت کی برتری دیکھیے کہ ناظرین
عموماً درست ہی اندازہ لگاتے ہیں!
ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں اُس میں اب لوگ اپنے رویے کی مدد سے زیادہ بولتے
ہیں! تاثرات اور حرکات و سکنات کی مدد سے درست اندازہ لگانا اِس قدر آسان
ہوگیا ہے کہ کسی مشین کو زحمت دینے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اپنے ماحول پر
نظر دوڑائیے۔ تنخواہ ملتے ہی طبیعت کِھل اُٹھتی ہے اور پھر دس بارہ دن ایسے
گزرتے ہیں کہ کوئی بھی آپ کے دماغ کو آسانی پڑھ سکتا ہے! مہینے کے آخری
دنوں میں حالت عجیب تر اور اُس سے کہیں بڑھ کر غریب تر ہوتی جاتی ہے! ایسے
میں بعض افراد اپنی عادت اور دماغ پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ اُنہیں دیکھتے ہی
لوگ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ دماغ میں میں پیدا ہونے والے برقی سگنلز
چہرے پر نمودار ہوکر اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی لمحے اُدھار مانگ
بیٹھیں گے! |