نام سید محمد ابراہیم شاہ بخاری

 نام سید محمد ابراہیم شاہ بخاری
نام سید محمد ابراہیم شاہ بخاری
تاریخ پیداش 1897
وجھ شھرت
تبلیغ دین
قدرت نے آپ کو وہ پرتاثیر شخصیت عطا فرمائی تھی کہ جوآپ کے چہرہ مبارک کی زیارت کرتا اور گفتگو سنتا، آپ کی ولایت روحانیت اور علم کا قائل ہوجاتا۔حضرت مخدوم سید جلال الدین سرخ بخاری کے ورود مسعود کے سبب خطہ پاک اوچ شریف معروف اور معتبر ہوا، یہیں سے سادات کرام کے پر نور قافلے برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں میں پہنچے اور اسی فیضان کے سبب برصغیر کو شریعت وطریقت اور معرفت و حقیقت کی روشنی اور ایمان وایقان کی دولت میسر آئی ، اسی تسلسل میں سادات کے معروف گائو ں ''چوہنی کلاں ، ضلع انبالہ اور علاقہ کالر ضلع شیخوپورہ کے تذکرے بھی معروف ہیں۔ جہاں حضرت مخدوم پیر سید محمد بخاری (آستانہ پیر بخاری نارنگ شریف ) ان کے آبائو اجداد اور بخاری سادات کی جلیل القدر ہستیوں نے قیام کیا اور اس علاقے کو بقعہ نور بنا دیا۔ہمارے ممدوح اور مخدوم شیخ المشائخ حضرت پیر سید محمد بخاری (آستانہ پیر بخاری نارنگ شریف )کا سال ولادت 1897 اور سال وصال 1967 ہے، آپ چوہنی کلاں تحصیل کھرڑ ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے۔ تحصیل علم اور روحانی اکتساب کیلئے مختلف مقامات پر مقیم رہے۔ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی اپنی معروف کتاب ''پاکستان میں صوفیانہ تحریکیں '' میں حضرت قبلہ پیر صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ نے علوم ظاہری اور باطنی سے فراغت کے بعد کھوکھر شریف (کالا خطائی ضلع شیخوپورہ ) میں قیام فرمایا۔ یہ آستانہ دو سال سے ''سادات بخاری '' کے روحانی اور علمی فیض کا مرکز تھا۔ کھوکھر شریف کے بعد سہول شریف اور کوٹلی شریف میں قیام کے بعد وصال سے چند ماہ قبل آپ نے نارنگ شریف میں موجود ہ محلہ'' پیر بخاری '' کا انتخاب فرمایا اور یہی سر زمین آپ کے مزار کے فیضان سے متصف ہوئی۔اوچ شریف میں خانوادہ بخاریہ کے سرخیل حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری کی تشریف آوری کاسال 1244 اور سال وصال 1299 ہے ۔ سید جلال الدین سرخ بخاری کا آستانہ بخاری سلسلے کے تمام گھرانوں اور خانوادوںکیلئے مرکز و محور کی حیثیت رکھتا ہے۔سید محمد ابراہیم بخاری اوچ شریف اور سید محمد ابراہیم بخاری نارنگ شریف کے درمیان زمانی اعتبار سے تقریبا سات صدیوں کا بعد ہے۔ جبکہ آپ کا سلسہ نسبت 21 واسطوں سے حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری تک پہنچتا ہے۔ نسبتی اعتبار سے اکیس پشتوں میں مذکورہ تمام شخصیات ہی صاحبان فضل وکمال میں سے ہیں جبکہ اس عظیم خاندان کے نامور مشاہیر کے کارہائے نمایاں اسلامی تاریخ کے عظیم ورثہ کی حیثیت کی حامل ہے۔ حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاںگشت اور آپ کی اولاد و احفاد '' کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف انڈ و مڈل ایسٹ کلچرل سٹڈ یز حیدرآباد کی شائع شدہ مولوی سخاوت مرزا صاحب کی معرک الآرا تصنیف انتہائی مستند اور معتبر ہے۔ جس میں حصرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی اولاد واحفاد کی جملہ شاخوں کے شجرات کو انتہائی محنت اور جانفشان سے یکجا کیا گیاہے۔ کتاب میں'' شجرہ شاخ اول ثمر چہارم '' کے عنوان سے مرقوم ''شجرہ '' ہمارے مخدوم سید محمد ابراہیم بخاری آستانہ پیر بخاری نارنگ شریف اور آپ کی علمی ، روحانی نسبتی اور خاندانی عظمتوں کے وارث اور روایتوں کے امین حضرت مخدوم سید محمد فاضل شاہ بخاری مدظلہ کے سلسلہ نسب سے متعلق ہے۔حضر ت مخدوم سید محمد ابراہیم بخاری نے نسبی اور خاندانی رفعتوں اور برکتوں کے باوصف علم کے حصول کیلئے اس زمانہ برصغیر کی اعلی ترین درس گاہ '' جامعہ نعمانیہ لاہور'' کا انتخاب کیا۔ جہاں اپنے وقت کی عظیم دینی شخصیات قیام پذیرتھیں حصول علم کے بعد مجدد وقت حضرت میاں شیر ربانی رحم اللہ تعالی سے در پردہ حاضر ہوئے ۔ جنھوں نے باطنی فیوض برکات سے مالامال کر دیا۔ خرقہ خلافت اور نسبت نقشبندیہ سے سرفراز کیا۔ مرشد کامل کی نگاہ پاک اور نسبت نے اتنا نوازا کہ شہنشاھیوں سے بے نیاز کر کے'' فقر'' کے اس درجہ پہ فائز فرمایا کہ کسی دنیاوی چیز کی طلب ہی نہ رہی فیض کی اس قدر فروانی ہوئی کہ ہمیشہ خلقت کی نظر سے مستور اور پوشیدہ رہنے کی کوشش میں ہوتے۔'' انعام الرحیم فی ذکر ابراہیم''میں بیان ہوا کہ اگر کوئی عقیدت مند آپ کے سامنے آپ کی کسی کرامت کا ذکر کرتا تو آپ پسند نہ فرماتے اور یو ںکہ کر ٹال دیتے کہ ''یہ سارا فیض حضرت میاں شیر محمد شرقیوں کا ہے'' آپ سنت مطاہرہ کے پابند اور نقشبندی اسلوب کے امین تھے۔سید امین الدین احمد اپنی تصنیف ''صوفیائے نقشبندی ''میں حضرت صاحب کے تذکرے کے حوالے سے لکھتے ہیں''حضرت قبلہ پیر سید محمد ابراہیم شاہ بخاری سادہ مزاج کے حامل درویش اور نامور بزرگ تھے۔ ہمارے مخدوم حضرت قبلہ پیر صاحب متبحر اور جید روحانی شخصیت تھے۔ نسبی اعتبار سے حسنی، نقوی اور بخاری ، مسلک طریقت کے اعتبار سے حضرت مجدد الف ثانی کے طریق پر گامزن جبکہ فقہی اعتبار سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحم اللہ تعالی عنہ کے پیرو کار تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ بے پناہ عشق ، عقیدت اور اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ انتہائی وارفتگی اور محبت تھی ۔ جب حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی سنتے یا زبان سے ادا کرتے تو آپ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی۔آپ سادات کے نامور قدیم خانقاہی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ طبیت میں کبھی کبھار جلال مگر طریقہ کار ایسا تھا کہ مفاسد کا خودبخود قلع قمع ہوجاتا ۔ کسی کی کوتاہی یا اسے دوسروں کے سامنے رسوا یا پریشان نہ ہونے دیتے ۔ سادات عظام کا اصلاح احوال اور پند و نصائح کا اپنا ہی اسلوب اور انداز ہے ۔ جس میں کسی کی اصلاح اور اپنائیت کا فروغ نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کا مزاج مبارک اگرچہ لطیف تھا تاہم بالکل سادہ انداز گفتگو اور عام فہم اسلوب کو پیش نظر رکھتے۔حضرت قبلہ پیر صاحب متوازن خوبصورت اور جاذب نظر حلیے اور شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کارنگ سفید اور روشن اعضا موزوں اور تناسب قد مبارک درمیانہ لیکن درازی کی طرف مائل ، چہرہ مبارک نورعلی نور ۔۔۔۔۔ قدرت نے آپ کو وہ پرتاثیر شخصیت عطا فرمائی تھی کہ جوآپ کے چہرہ مبارک کی زیارت کرتا اور گفتگو سنتا، آپ کی ولایت روحانیت اور علم کا قائل ہوجاتا۔حدیث شریف میں بھی ولی اللہ کی سب سے بڑی پہچان جو بتائی گئی وہ یہی ہے کہ ترجمہ'' یعنی جب ان کو دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے'' یہی رنگ آپ کے دونوں صاحبزادوں اور سجاد نشینان آستانہ پیر سید امیرمحمد شاہ بخاری اور پیر سید محمد فاضل شاہ بخاری میں نمایاں ہوا اور اپنے والد گرامی اور پیر و مرشد کے فیضان کرم و محبت کے امین رہے۔حضرت صاحب کا وصال 30 ستمبر1967 بمطابق 25 جمادی الثانی1387ھ میں ہوا۔ محلہ پیر بخاری نارنگ شریف میں آپ کا آستانہ مرجع خلائق ہے۔ آپ کا 39 سالانہ عرس پاک آستانہ پیر بخاری نارنگ شریف میں روایتی عقیدت واحترام سے انعقاد پذیرہوتا ہے۔ جس میںملک بھر سے عقیدت منداور نامور مشائخ و علما اور دینی شخصیات شرکت کرتے ہیں۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382079 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.