انٹرنیٹ سیکورٹی:ہندوستان کیلئے ایک نیا چیلنج

تازہ اطلاعات کے بموجب ہندوستان انٹرنیٹ استعمال کرنے والا نہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے بلکہ آئندہ دو برس میں یہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد امریکی صارفین سے بڑھ جائے گی لیکن انٹر نیٹ کی حفاظت ماہرین کیلئے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق انٹرنیٹ اینڈ میڈیا ایسوسی ایشن آف انڈیا کی جائزہ رپورٹ میں کی گئی ہے۔ایسوسی ایشن کا کہناہے کہ ستمبر میں ہندوستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 11 کروڑ 20 لاکھ تھی جس سے وہ چین اور امریکہ کے بعد سب سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین رکھنے والا دنیا کا تیسرابڑا ملک بن گیا ہے۔انٹرنیٹ اینڈ موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا کا کہناہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں کم آمدنی والی آبادی اور دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کے صارفین کی تعداد نمایاں طورپر بڑھ رہی ہے۔سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کے شہری علاقوں میں انٹرنیٹ زیادہ ترای میل، سوشل نیٹ ورکنگ اور تعلیم سے متعلق مواد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ ای میل، معلومات کے حصول، موسیقی ، ویڈیوز اور تصویروں کیلئے استعمال کیا جارہاہے۔حتی کہ میڈیا ‘ بینک‘ ریلوے ‘ ہوائی سفر اورصحت کے ایسے اہم شعبے ہیں جن میں انٹر نیٹ کے بغیر چند لمحے بھی گزارا ممکن نہیں۔ایک اندازے کے مطابق بارہ کروڑ سے زیادہ ہندوستانی شہری انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک کثیر تعداد ہے تاہم اب بھی یہ ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔عام پیشنگوئیوں کے مطابق آئندہ سال میں ہندوستانی شہریوں کے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے طریقے میں مزید تبدیلی آئے گی۔ہندوستانی بلاگ ’اونلیگزمو ڈاٹ کام‘ کے مدیر انکر اگروال کے خیال میں جلد ہی ہندوستان میں لوگوں سے زیادہ موبائل فون ہوں گے۔اگرچہ ان کی پیشنگوئی حقیقت سے دور لگتی ہے تاہم اس کا مستقبل قریب میں پورا ہونا بھی ممکن لگتا ہے۔’ویئر سوشل ڈاٹ نیٹ‘ کے ایک تحقیق کے مطابق ہندوستان میں تقریباً نوے کروڑ موبائل فون صارفین ہیں جن میں سے تقریباً تیس کروڑ کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اور ٹیلی کام ریگیولیٹری اتھارٹی آف انڈیا کے اندازے کے مطابق آئندہ سال میں بیس کروڑ نئے صارفین موبائل فون کا استعمال شروع کر دیں گے۔اسی تحقیق کے مطابق چونتیس اعشاریہ چھ ارب صارفین ڈاٹا پیکجز بھی استعمال کرتے ہیں اور ملک کی نصف تعداد انٹرنیٹ استعمال کرنے والے انٹرنیٹ موبائل فون کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ حکومت ہند کے ’آکاش‘ ٹیبلٹ کمپیوٹر ملک بھر کے اسکولوں میں متعارف ہوچکے ہیں جس سے تعلیم کے شعبہ میں بھی اس کا استعمال ناگزیر ہوگیا ہے۔ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پی نیرنجانا کا کہنا ہے کہ اس وقت تقریباً اٹھارہ فیصد ہندوستانی دیہی انٹرنیٹ صارفین کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کیلئے کم از کم دس کلومیٹر پیدل چل کرجانا پڑتا ہے۔پروفیشنل نیٹ ورکنگ کے ویب سائٹ ’لنکڈ ان‘ کا بھی ہندوستان میں رجحان بڑھ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کے صارفین کے تعداد لنکڈ ان کا دوسرا بڑا گروہ ہے۔

لیکن اس جدید اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے سرپرہیکنگ کے علاوہ ایک ایسی آن لائن دنیا کی تلوار بھی لٹک رہی ہے جسے ’ڈارک ویب‘ کہا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا گمنام عالمی انٹرنیٹ نظام ہے جسے تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے اور اس کی یہی خصوصیت اسے سیاسی کارکنوں سے لے کر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد تک سب میں مقبول بناتی ہے۔ڈارک ویب دراصل دنیا بھر میں موجود ایسے کمپیوٹر صارفین کا نیٹ ورک ہے جن کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کو کسی قانون کا پابند نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر رکھنی چاہئے۔امریکی طالبعلم ڈیوڈ(فرضی نام ) بھی ایک ایسے ہی فرد ہیں جو اس ’ڈراک ویب‘ کے صارف ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے غیر قانونی منشیات کی خریداری کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب انہیں ’سڑک کنارے موجود کسی منشیات فروش کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جہاں تشدد کا خطرہ موجود رہتا ہے‘۔اور انٹرنیٹ کی اس ’بلیک مارکیٹ‘ میں صرف منشیات ہی نہیں بلکہ جعلی پاسپورٹس، ہتھیار اور فحش مواد سب کچھ میسر ہے۔یہ نیٹ ورک ڈیوڈ اور اسے منشیات بیچنے والے افراد دونوں کو گمنام رہنے میں مدد دیتا ہے۔ اکثر گاہگوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ وہ جس سے لین دین کر رہے ہیں اس کی اصلیت کیا ہے اور حکام کیلئے ان کا پتہ لگانا بھی اگر ناممکن نہیں تو بےحد مشکل ضرور ہے۔اس نیٹ ورک کے ایک صارف کا کہنا ہے کہ ’میں عام لین دین کے مقابلے میں آن لائن لین دین کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہوں۔ میں پہلے کھلے عام منشیات فروشی کرتا تھا لیکن اب کسی بھی ایسے کام کیلئے ڈراک ویب استعمال کرتا ہوں‘۔ایک اور صارف کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ نوجوان ہیں اورگانجے سے زیادہ اثردار کسی بھی نشہ آور شے کی تلاش میں ہیں تو گرفتار ہوئے یا حکام کی نظروں میں آئے بغیر ایسا ہونا عملاً ناممکن ہے‘۔کسی صارف کی ڈارک ویب تک رسائی کا دارومدار اس کے پاس موجود پیئر ٹو پیئر فائل شیئرنگ ٹیکنالوجی کے سافٹ ویئرز پر ہوتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر صارفین اور ڈارک ویب کی ویب سائٹس کی لوکیشن کو بدلنے کے کام آتے ہیں۔ڈارک ویب صرف مجرمانہ سرگرمیوں کا ہی مرکز نہیں بلکہ اسے ان ممالک کے رہائشی سیاسی کارکن بھی استعمال کرتے ہیں جہاں آزادی رائے موجود نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عرب ممالک میں گزشتہ برس اٹھنے والی انقلاب کی لہر کے منتظمین نے بھی اس نیٹ ورک سے مدد لی تھی۔اس ’ڈارک ویب‘ کو خفیہ بنانے میں ایک اہم چیز ’بٹ کوائنز‘ کا استعمال ہے۔ یہ ایک ایسی برقی کرنسی ہے جسے آن لائن گیمز کھیلنے والے افراد قانونی طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن مجرمان اسے اپنے مالیاتی لین دین کو خفیہ رکھنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ بحر اوقیانوس کے دونوں جانب کی پولیس ڈارک ویب کی مدد سے جاری مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کیلئے کیا رہی ہے؟

انٹرنیٹ سکیورٹی کیلئے برطانوی اور امریکی حکومت کے مشیر جان کار کا کہنا ہے کہ’ پولیس ایک ہی بات کہتی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے پاس کافی تعداد میں نہ تو عدالتیں ہیں، نہ جج اور نہ ہی اتنے پولیس افسر کہ وہ انٹرنیٹ پر جاری غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پا سکیں‘۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس کا تکنیکی حل تلاش کرنا ہوگا اور مدد کیلئے انٹرنیٹ کی صنعت سے وابستہ افراد کی جانب ہی دیکھنا ہوگا۔انٹرنیٹ کی اس ’بلیک مارکیٹ‘ میں صرف منشیات ہی نہیں بلکہ جعلی پاسپورٹ، ہتھیار اور فحش مواد بلکہ سب کچھ میسر ہے۔برطانوی پولیس کی ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر جینٹ ولیمز کے مطابق ’پولیس تیزی سے پھیلتے ہوئے سائبر جرائم سے واقف ہے اور ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر نجی شعبے سے مل کر ویب پر مجرمانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کیلئے کوشاں ہیں۔‘لیکن ان سب کوششوں کے باوجود ڈراک ویب کی غیر قانونی سرگرمیاں پولیس کی پہنچ سے دور ہیں اور اس نیٹ ورک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس کی گمنامی ہی اس کی اصل خوبی ہے۔ اسی گمنامی نے ان حکومت مخالف بلاگروں کو پناہ دے رکھی ہے جنہوں نے عرب ممالک میں حکومت مخالف تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا اور یہی نیٹ ورک چین جیسے ممالک میں ان منحرفین کی آواز دنیا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے جو سامنے آنے کی صورت میں حکومت کے عتاب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ڈارک ویب کے امریکی صارف ڈیوڈ کیلئے یہ چناؤ کی آزادی کی بات ہے، ’مجھ سمیت بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ منشیات کا استعمال قانونی قرار دیا جانا چاہئے اور ڈارک ویب اس یقین کی عملی شکل ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ جب ترقی یافتہ ملکوں میںیہ جدید اطلاعاتی ٹیکنالوجی ماہرین کیلئے چیلنج ثابت ہو رہی تو ہندوستان جیسے ملک میں کیا ہوگا؟
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126059 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More