اُن کی ہراِک ادا روشنی روشنی
پیغمبر انقلاب حضرت محمد مصطفی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت،تعریف و
توصیف،شمائل و خصائص کے نظمی اندازِبیاں کو نعت یا نعت گوئی کہا جاتا ہے،یہ
سہ حرفی لفظ نعت ( ن ع ت ) عربی زبان کا مصدر ہے،جس کے لغوی معنی حمد و ثنا
اور تعریف و توصیف بیان کرنا ہے،اردو شاعری میں نظم کی اصناف سخن میں نعت
وہ صنف سخن ہے جس کے اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و
توصیف بیان کی جاتی ہے،اردو میں شاید ہی ایسی کو ئی صنف سخن ہو جس میں
نعتیں نہ کہی گئی ہوں،اِس لیے اِس کے اسالیب طے شدہ نہیں،یہی وجہ ہے کہ اِس
کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے،کہتے ہیں نعت گوئی پل صراط پر چلنے جیسا عمل
ہے،ذرا سی لغزش سے ایمان کی سرحدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور عقیدے کا زاویہ تبدیل
ہو جاتا ہے،اِس پل صراط کو عبور کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، یہ وہ
بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں اورمقام الوہیت و
رسالت کے درمیان توازن قائم رکھنا مشکل ہو جاتاہے،صرف وہی لوگ محفوظ رہتے
ہیں جو قرآن و حدیث کو مشعل راہ بناتے ہیں،چونکہ یہ بڑا نازک اور کٹھن کام
ہے، اِس لیے نعت لکھتے ہوئے بہت ہی احتیاط اور اعتدال کی ضرورت ہوتی ہے۔
شاہ معین الدین ندوی کہتے ہیں نعت گوئی کیلئے شاعر کا صاحب ِبصارت اور صاحب
بصیرت ہونا اوّلین شرط ہے، کیوں کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی
ذات مقدس،نبوت اور عبدیت کے کمال پر خالق بھی نازاں ہے،خود ربّ تعالیٰ نے
مدح رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ و
ارفع قرار دیا،قرآن کہتا ہے،ورفعنا لک ذکرک (اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند
کیا)،اِس لحاظ سے نعت گوئی کا محرک اور نعت کا پہلا مجموعہ کلام قرآن مجید
قرار پاتا ہے،جب خالق خود اپنی تخلیق پر نازاں ہو اور مدح سرائی فرمائے تو
اُس ذات مبارکہ جس کو وجہ وجود کائنات ہونے کا شرف حاصل ہے،کی ثنا خوانی
انسان سے کہاں ممکن،ضعیف البیان انسان کی کیا بساط،جو لب کشائی کرے،اِس لیے
الفاظ پر کتنی ہی دسترس اور قدرت کیوں نہ حاصل ہو، شاعر اپنے آپ کو بیان
وصف سے عاجز ہی پاتا ہے،لیکن اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی مداحی کرنے
سے خود کو روک بھی نہیں سکتا،چنانچہ نعت کا ورودِ مسعود ہوتا ہے اور آسمان
سے زمینیں تراشنے کے باوجود شعراء یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ” بعد از
خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ نعت گوئی کا تعلق قادر الکلامی سے زیادہ توفیق
الٰہی پر منحصرہے،یہ وصف وہبی ہے،نعت وہی کہتا ہے جس کو نعت کہنے کی توفیق
عطا ہوتی ہے،جبکہ نعت کا حق بھی وہی ادا کر سکتا ہے،جس کا دل جذبہ عشق رسول
صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہو، عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر نعت
کی تخلیق ممکن نہیں،یعنی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب شعرونظم کے پیکر
میں ڈھلتی ہے،تب ہی نعت وارد ہوتی ہے،بظاہر نعت کہنا اور زبان ِ شاعری میں
ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان
ہے،لیکن اِس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت مشکل کام ہے،جس
کیلئے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمالات نبوت و رسالت،اسلام کی
اصل روح،عہد رسالت کے واقعات اور قرآن و احادیث سے روشنی لازمی ہے،اِس کے
بغیر نعت گوئی ممکن نہیں،یہ وصف بہت کم شعراءمیں پایا جاتاہے،عاشق رسول اور
امام نعت نگاری اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں
قرآں سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ
حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثناءخوانی کرنے والے ہر دور میں آتے
رہے،شاعر صحابہ کرام میں سے کوئی ایسا نہیں ملتا،جس نے مدح رسول صلی اللہ
علیہ وسلم میں اشعار نہ کہے ہوں،حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ پہلے نعت
گو شاعر اور نعت خواں تھے،جنہیں شاعرِ دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم بھی
کہا جاتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ عرب شعرا نے اِس فن کو بام عروج تک پہنچا
یا،مگر ہندوستان کے شعرا بھی پیچھے نہیں رہے،ہماری اردو شاعری میں کچھ نام
ایسے بھی ہیں جنہوں نے اِس فن اور ہنر کے طفیل ابدی شہرت حاصل کی،اِن میں
امام احمد رضا خان،حسن رضا خان،علامہ اقبال،امیر مینائی،صائم چشتی،ادیب
رائے پوری،خواجہ بیدم وارثی،محمد علی ظہوری قصوری،بہزاد لکھنوی،عبدالستار
نیازی،قمر الدین انجم،پروفیسر اقبال عظیم ، صباءاکبر آبادی،خالد محمود
نقشبندی اور علیم الدین علیم وغیرہ قابل ذکر ہیں،مگر دور حاضر میں نابغہ
روزگار الحاج پروفیسر حفیظ تائب کا نامِ نامی نعت گوئی کا اہم ترین حوالہ
ہے،انہوں نے اردو اور پنجابی میں نعت گوئی کو اِس باکمال اور شائستہ طریقے
سے ادا کیا کہ انھیں ان کی زندگی میں ہی نعت کے حوالے سے اعلیٰ وکلاسیک
درجہ حاصل ہوگیا،انھوں نے خود کو مدحت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے
وقف رکھا،نہ صرف خود نعتیں کہیں،بلکہ معاصر شعراءکرام کو بھی نعت گوئی کی
طرف راغب کیا، محترم منظور عباس ازہر بھی اُن میں سے ایک ہیں،جنھوں نے کم و
بیش اٹھارہ سال غزل کے میدان میں کمالات فن کے جوہر دکھائے،پھر جناب حفیظ
تائب کے تحرک پرنعتیہ میدان میں قدم رکھتے ہوئے کہا
محو ثنائے احمد مختار ہوگیا
دل ا ٓج میرا آپ ہی شہکار ہوگیا
ازہر وہ خوش نصیب ہے جس کا جہان میں
نعت ِ رسول شیوہ ِ گفتار ہوگیا
”ذکر خیرالوریٰ روشنی روشنی“منظور عباس ازہر کی شاخ عقیدت پر نمو پانے والا
پہلا مجموعہ نعت ہے،ڈاکٹر شبیر احمد قادری کہتے ہیں”منظور عباس ازہر نے عمر
بھر خود کو سر رشتہ لفظ و معنی سے منسلک کئے رکھا،خاص طور پر غزل کے میدان
میں انہوں نے جو کمالات فن دکھائے،ایک عہد اُس کا معترف ہے،افکار گہر نثار
کو جامہ حرف پہناتے ہیں تو گویا ارض ِقرطاس خود پر نازاں ہوتی ہے،لیکن
انہوں نے غزلوں کے مجموعے پر نعتیہ کلام کی اشاعت کو فوقیت دی،اُن کا نعتیہ
مجموعہ کلام حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمان ہے اور اِس میں شامل
نعتیں فکر ونظر کے اعتبار سے شاعر کو رتبہ اعتبار سے سرفراز کرنے کا موجب
ہیں، یہ نعتیں ہُم وغم کے موسموں میں فرحت اور سکون عطا کرنے کا وسیلہ
ہیں۔“”ذکر خیرالوریٰ روشنی روشنی“ کی خوبی یہ ہے کہ اِس میں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے نام نامی ”محمد“ کی حرفی تعداد کی مناسبت سے 92نعتیں شامل
ہیں،جس میں بے ساختگی،والہانہ پن اور جذب و مستی کا تصور انتہائی بلندیوں
کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
وہ میری زیست مری جان کا حوالہ ہیں
متاع دین ہیں ایمان کا حوالہ ہیں
اندھیری رات میں روشن چراغ کی صورت
شکوکِ کفر میں ایقان کا حوالہ ہیں
جناب منظور عباس ازہر اعلیٰ تعلیم یافتہ بزرگ اور صاحب فکر ونظر شاعر
ہیں،آپ 1982تک شعبہ تدریس سے وابستہ رہے ہیں،اِس وقت جمعیت علمائے پاکستان
جڑانوالہ کے صدر اور 1978سے مجلس ادب جڑانوالہ کے معتمد عمومی ہیں،موصوف
نعتیہ شاعری میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں،علامہ اقبال اورحفیظ تائب سے
بہت متاثر ہیں،یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں اِن اکابرین کی جھلک نظر آتی
ہے،انہوں نے نعت کو نیا رنگ و آہنگ ہی نہیں دیا بلکہ نئی لفظیات سے آراستہ
بھی کیا ہے ۔
ذکر خیرالوریٰ روشنی روشنی
اُن کی ہراِک ادا روشنی روشنی
جناب منظور عباس ازہر کے یہ گلہائے رنگ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے
اپنی محبت کا اظہار اور نعتیہ ادب کا قابل قدر سرمایہ ہے،” ذکر خیرالوریٰ
روشنی روشنی“کا اِک اِک لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وستائش کا
مظہر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کریمہ کابیان موصوف کی شادابی
ایمان کی علامت ہے۔ |