دماغ کا کیا اچار ڈالنا ہے؟

اگر آپ کو یاد نہ رہا ہو ہم یاد دِلا دیتے ہیں کہ آپ اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ اِس صدی کا کمال یہ ہے کہ اِس میں جو چیز جتنی ضروری ہے اُتنی ہی غیر ضروری بھی ہے! آپ اب تک سولہویں یا سترہویں صدی میں جی رہے ہیں اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ بہتر ڈھنگ سے زندہ رہنے کے لیے دماغ کا حامل ہونا اور اُسے درست انداز سے استعمال کرنا ناگزیر ہے!

ہوسکتا ہے آپ کے ذہن میں یہ خیال اُبھرے کہ اب دماغ کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی مگر ڈیڑھ دو سو سال پہلے صورت حال مختلف رہی ہوگی۔ آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ ڈیڑھ صدی قبل مرزا غالب نے کہا تھا
دِل تو دِل، وہ دماغ بھی نہ رہا!

یعنی دماغ کے بغیر بھی وہ کئی سال زندہ رہے اور شعر بھی کہتے رہے۔ اب یہ نہ کہیے گا کہ دماغ کے بغیر میرزا نوشہ نے جو شاعری کی اُس میں دم نہیں! نواب اسلم رئیسانی کے فارمولے کے مطابق شعر تو شعر ہوتا ہے، چاہے دماغ کے ساتھ کہا جائے یا دماغ کے بغیر! ڈیڑھ صدی قبل دماغ سے برات کا اعلان یا اظہار نابغوں کی زبانی ہوا کرتا تھا۔ اب اِس اعلان کے لیے نابغہ (جینیس) ہونا بھی لازم نہیں رہا!
اور ایک مرزا غالب پر کیا موقوف ہے، اُن سے بہت پہلے میر تقی میر نے کہا تھا
یہ تو نہیں کہ ہم پر ہر دم ہے بے دماغی

غور کیجیے، بد دماغی کا نہیں بلکہ بے دماغی کا ذکر ہو رہا ہے۔ یعنی میر کے زمانے میں بھی دماغ کے بغیر کام کرنے یا زندہ رہنے کی حالت ہوا کرتی تھی!

امریکی ریاست فلوریڈا کے دارالحکومت میامی کے کارلوس راڈرگز جب سڑک کے ایک حادثے میں سر کے بل فٹ پاتھ پر گرا تو اُس کا بچنا محال ہوگیا۔ ڈاکٹرز کو جان بچانے کے لیے اُس کا نصف دماغ اڑانا پڑا! جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دماغ کو پہنچنے والی چوٹ سے اِنسان مر جاتا ہے اُن کے لیے کارلوس راڈرگز عرف ”ہافی“ ایک چلتا پھرتا عجوبہ ہے۔ آدھے دماغ کے ساتھ بھی وہ نارمل زندگی بسر کر رہا ہے اور بیشتر معاملات میں اُس کی طرز عمل پورے دماغ کی غمّازی کر رہی ہوتی ہے۔

اب ذرا یہ دیکھیے کہ جب دماغ پورا تھا تب یہ جناب کارلوس راڈرگز کیا کرتے تھے۔ 14 سال کی عمر میں کزن کی مدد سے کار چُرائی اور برق رفتاری سے اُسے دوڑا رہے تھے کہ اچانک راستے میں کہیں سے کھمبا آگیا! موصوف ونڈ اسکرین کے راستے اُڑتے ہوئے باہر گئے اور سَر کے بل سڑک پر لینڈنگ کی! تب یہ نشہ کیا کرتے تھے۔ یعنی پورا دماغ استعمال کرنے کی حالت میں نشے کی لَت، کار کی چوری اور ہائی اسپیڈ ڈرائیونگ۔۔ تینوں نے مل کر اِن پر قیامت ڈھائی! اور اِس قیامت سے نپٹنے کے بعد کیا ہوا؟ موصوف نوجوانوں کو منشیات اور بالخصوص شراب سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں مگر خود اب بھی کوکین استعمال کر رہے ہیں! دماغ مکمل تھا تب بھی نشے کی عادت تھی اور اب جبکہ دماغ نصف رہ گیا ہے تب بھی نشہ زندگی کے ساتھ ساتھ ہے۔ یعنی نصف دماغ کے ضائع ہونے سے زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑا! کارلوس راڈرگز کے دماغ کا پرنالہ جہاں بہہ رہا تھا وہیں بہہ رہا ہے!

بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کارلوس راڈرگز کو پولیس نے دو سال قبل لڑکیوں کے چکر میں گرفتار کیا! غور فرمائیے کہ آدھا دماغ لُٹاکر بھی موصوف لڑکیوں پر پورا دِل لُٹانے سے باز نہیں آئے! اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ واقعی اِنسان ہیں اور نصف دماغ سے محرومی کے بعد بھی اِنسان ہی رہنا چاہتے ہیں!

مرزا تنقید بیگ کا وجود ہمارے لیے ایک چلتے پھرتے تحقیقی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُنہیں دیکھ کر ہمیں بہت سی ایسی باتوں پر یقین آ جاتا ہے جن کے بارے میں مشرق و مغرب کے ماہرین ابھی تحقیق کے مرحلے میں ہیں! مرزا کی ”سادگی“ دیکھیے کہ کبھی اِس نکتے پر غور اور غرور نہیں کیا ورنہ انہیں دیکھ کر کوئی بھی شخص آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ دماغ نہ صرف یہ کہ ہمارے لیے کوئی ضروری چیز نہیں بلکہ اِس کے بغیر آسانی سے بہتر زندگی بسر کی جاسکتی ہے!

ویسے تو قدرت نے سبھی کو دماغ ایک سخت کھوپڑی میں دیا ہے مگر مرزا کے لیے قدرت کی اِس عنایت میں بڑی مہربانی پوشیدہ ہے۔ ہماری اور دوسرے بہت سے لوگوں کی باتیں مرزا کی کھوپڑی سے ٹکراکر دم توڑ دیتی ہیں یعنی دماغ تک پہنچ نہیں پاتیں! اور اِس کا خوشگوار نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وہ ہر وقت فرحاں و شاداں رہتے ہیں اور کسی بھی معاملے پر غور فرمانے سے شدید گریز کی روش پر گامزن رہنے کے طفیل خاصی ”متوازن“ اور پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مرزا کو ویسے تو کئی عارضے لاحق ہیں مگر ہمارا خیال ہے کہ بُھولنے کی بیماری بہت نمایاں ہے۔ مرزا نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، دماغ استعمال کرنا بھول گئے ہیں!

ہم آئے دن مرزا سے نُورا کشتی کھیلتے ہیں یعنی مُلک کے بنیادی مسائل پر اُن کے ساتھ ویسی ہی گرما گرم بحث کرتے ہیں جیسی ایڈیٹ باکس یعنی ٹی وی پر روزانہ دکھائی دیتی ہے۔ مرزا کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ کبھی اپنا موقف تبدیل نہیں کرتے یعنی جھوٹ بولیں تو اُس پر قائم رہ کر خود کو ”صاحب کردار“ ثابت کرتے ہیں!

ہم نے مرزا کو جب بھی کسی معاملے میں دماغ استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے، اپنی عقل کا ماتم کرنا پڑا ہے۔ سبب اِس کا یہ ہے کہ دماغ استعمال کرنے کی صورت میں مرزا خاصے بھیانک نتائج پیدا کرتے ہیں اور بندہ اپنی ہی نظروں سے گر جاتا ہے کہ ایسا احمقانہ مشورہ دیا ہی کیوں تھا!

ہمارے ہاں ایسی کئی برادریاں پائی جاتی ہیں جن میں اوصافِ حمیدہ تہمت کا درجہ رکھتے ہیں! اِن برادریوں میں مُغَلّظات کا استعمال اُتنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے جتنا زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کو ناگزیر گردانا جاتا ہے! ڈاکوؤں کی برادری میں رشتہ طے کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکے نے، خیر سے، کتنے ڈاکے ڈالے ہیں! چوروں میں اِس بات کی اہمیت ہے کہ کس نے کتنی بار نقب لگائی ہے۔ بالکل اِسی طرح بعض برادریوں میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ بندہ کہیں سیدھی اور سادہ زندگی تو بسر نہیں کر رہا! یعنی لڑنے بھڑنے کی صلاحیت تو ہے نا! جو جتنا جھگڑالو ہو وہ اُتنا ہی باکمال سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ہوا برادریوں کا معاملہ۔ جو بات پورے معاشرے پر محیط ہو اُس کی اہمیت کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ اب پورے معاشرے میں سب سے زیادہ توجہ اِس امر پر دی جانے لگی ہے کہ کہیں کوئی دماغ تو استعمال نہیں کر رہا!

معاشرے کی عمومی روش کچھ ایسی ہے کہ لوگ دماغ یا عقل استعمال کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ سبھی یہ چاہتے ہیں کہ اہم فیصلے بھی بے عقلی اور بے ذہنی کی حالت میں کئے جائیں تاکہ کوئی عقل سے کام لینے کا الزام عائد کرنے کے بدنام کرنے کی کوشش نہ کرے! منشیات استعمال کرنے کا الزام لگ جائے تو کوئی اپنے نصیب کو نہیں روتا لیکن اگر کوئی عقل سے کام لینے یا دماغ استعمال کرنے پر مبارک باد دے تو بندہ بھڑک اُٹھتا ہے! دماغ لڑانے یا عقل استعمال کرنے الزام سے لوگ دامن بچاتے ہیں کیونکہ عقل سے کام لینے کا تاثر قائم ہو جائے تو بندہ بہت سے کاموں کے لیے یکسر نا اہل قرار پاتا ہے!

بعض شعبے ایسے ہیں جن میں عقل استعمال کرنے کا صاف مطلب اپنے آپ کو نا اہل قرار دینے کی کوشش کرنا یعنی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے۔ دفاتر کام کرنے والوں پر لازم ہے کہ ایک خاص مینٹل فریم ورک میں رہتے ہوئے کام کریں۔ جہاں اپنا دماغ استعمال کیا اور گئے کام سے! دفتری کارروائی میں ہر چیز اِس قدر نپی تُلی ہے کہ عقل استعمال کرنے سے کئی مُہرے اپنی جگہ سے ہٹ جاتے ہیں اور آفس ورک کی پوری بازی نئے سِرے سے ترتیب دینا پڑتی ہے!

کلاس رومز میں اساتذہ ایک طے شدہ ڈھانچے کے مطابق پڑھاتے ہیں۔ بیشتر اساتذہ کا ذہن کمپیوٹر کی طرح ہوتا ہے۔ یعنی جو اُس میں فیڈ کردیا گیا بس وہی ہے، اور کچھ نہیں۔ اب اگر کلاس روم میں کوئی طالب علم نادانستگی میں شرارت کا ارتکاب کر بیٹھے یعنی ذرا سے ہٹ کر کوئی سوال کردے تو سمجھ لیجیے اُستادِ محترم کی بھینس گئی پانی میں! یونان والے بہت عقل مند تھے۔ اُنہوں نے ڈھائی ہزار سال قبل سُقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کردیا تھا کیونکہ وہ نوجوانوں کو سوچنے اور سوال کرنے پر اُکسایا کرتا تھا!

اچھا ہے کہ ہم اکیسویں صدی کے ماحول میں ڈھل جائیں اور دماغ استعمال کرنے کی زحمت سے خود کو دور رکھیں۔ جب سبھی کچھ ایک کلک کی دوری پر ہے تو پھر دماغ کو بار بار کلک کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ جو دماغ مصیبت میں ڈالے اُسے خواہ مخواہ پروان چڑھانے سے فائدہ؟ ایسے دماغ کا کیا اچار ڈالنا ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486480 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More