کیا امریکی صدر کی اہلیہ کا تعلق
پاکستان کے حکمراں ٹولے سے ہے؟ اگر نہیں (اور یقیناً نہیں) تو پھر کیا سبب
ہے کہ وہ امریکی صدر کی حاشیہ برداری پر مجبور ہیں؟ آپ سوچیں گے کہ مِشل
اوبامہ، حاشیہ برداری اور پاکستانی حکمراں ٹولے کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
کوئی غلط اندازہ مت لگائیے، ہم خود بتائے دیتے ہیں۔ ہمارا حکمراں ٹولہ
امریکی صدر کی حاشیہ برداری کو اپنے لیے ایمان کا درجہ دیتا ہے اور اُس کی
ہر ادا کو سراہتا ہے۔ اگر امریکی صدر کسی معاملے میں بالکل گونگا بنا رہے
تب بھی اُس کے ”موقّف“ کو سراہنے والوں کا جوش ٹھنڈا نہیں پڑتا! مِشل
اوبامہ نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں امریکی خاتون اول نے
کہا ہے کہ اُن کے شوہر بہت سُریلے ہیں۔ وہ جب بھی سراہتے ہیں تو کچھ نہ کچھ
گنگناتے ہیں!
شاید مِشل اوبامہ بھی یہ راز جان گئی ہیں کہ کچھ کرنا اور پانا ہے تو
امریکی صدر کو سراہتے رہیے اور اُس میں، کِسی نہ کِسی طرح، خوبیاں تلاش
کرکے خراج تحسین پیش کرتے رہیے!
اوبامہ بہت چالاک ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی اور سُنے نہ سُنے، بیگم صاحبہ
تو اُن کا جیسا تیسا گانا سُن ہی لیں گی۔ بس یہی سوچ کر وہ طبع آزمائی کرتے
ہیں اور مِشل بروقت توصیف کے ڈونگرے برساکر اُنہیں خوشی سے پُھولا نہ سمانے
کا موقع فراہم کرتی ہیں! تین سال سے بیشتر امریکی اپنے صدر کے اقوال و
افعال میں سُریلا پن تلاش کر رہے ہیں اور ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا
ہے۔ مِشل کو داد دینا پڑے گی کہ اُنہوں نے شریکِ حیات ہونے کا حق ادا کردیا
اور بُھوسے کے ڈھیر میں سُوئی تلاش کرلی یعنی شوہر میں سُریلا پن ڈھونڈ
نکالا! ممکن ہے مِشل کے ذہن میں یہ خیال آیا ہو کہ شوہر کی حوصلہ افزائی کی
جائے تاکہ وہ اپنی پالیسیوں میں بھی کچھ سُریلا پن پیدا کرنے کی تحریک
پائیں!
جن مَردوں کو زمانے سے یہ شِکوہ رہتا ہے کہ اُن کا گایا ہوا کوئی نہیں
سُنتا وہ براک اوبامہ کے نُسخے پر عمل کرتے ہوئے اپنی اپنی بیوی کے سامنے
گایا کریں۔ کوئی اور سُنے نہ سُنے، بیوی تو سُنے گی کہ اُسے گھر میں رہنا
ہے! ہمارے بہت سے ”اُستاد نُما“ گلوکار بھی یہی نُسخہ استعمال کرسکتے ہیں
کیونکہ، ہماری اطلاعات کے مطابق، اُنہیں بھی سُُننے والے میسر نہیں! ہمارا
کام مشورہ دینا ہے۔ اِس پر عمل کی صورت میں نتائج کے ذمہ دار ہم نہیں۔
ضروری نہیں کہ جو کچھ امریکی ایوان صدر میں ہوا وہ ہر جگہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ
آپ اپنی ”سُریلی“ آواز سے اہلیہ کو محظوظ کرنا چاہیں اور وہ آپ کی آواز سے
”محفوظ“ رہنے کو ترجیح دیں! اور ایسی صورت میں آپ کس حد تک محفوظ رہیں گے،
اِس کی ضمانت ہم نہیں دے سکتے! امریکی اخبارات نے یہ تو بتادیا ہے کہ
امریکی صدر اپنی اہلیہ کو گانا سُناتے ہیں مگر یہ بات اب تک طشت از بام
نہیں ہوئی کہ شوہر کا گانا سُن کر امریکی خاتون اول کا حقیقی ردّ عمل کیا
ہوتا ہے! امریکی انٹیلی جنس بہت چھان پھٹک کر وائٹ ہاؤس میں کسی بھی شخص کے
تقرر کی منظوری دیتی ہے، اندر کی کوئی ”بے سُری“ بات باہر نہیں آتی!
خسارے میں اگر کوئی ہے تو امریکی عوام ہیں۔ ایک بے ڈھنگے صدر کو جھیلنے کے
صِلے میں اُنہیں کچھ بھی نہیں ملا اور ملنے کی توقع بھی نہیں۔ مِشل اگر
شوہر کا بے سُرا پن جھیل رہی ہیں تو صِلے میں امریکی خاتون اول کا اعزاز
بھی تو برقرار ہے۔ اُن کے لیے یقیناً یہ کوئی گھاٹے کا سَودا نہیں!
اوبامہ کے تین سال سُر اور تال کی اونچ نیچ کے ساتھ گزرے ہیں۔ اُن کی
پالیسیوں نے عجیب راگ الاپے ہیں۔ امریکیوں نے اُن کے راگ پاٹھ بہت جھیلے
ہیں۔ اور ملک سے باہر بھی جدھر دیکھیے ”ہائے، مار ڈالا ظالم“ کا شور ہے!
اِس میں کیا شک ہے کہ امریکی اپنی راگنیاں وہیں چھیڑتے ہیں جہاں لوگ سُننے
پر مجبور ہوں۔ عراق میں امریکیوں نے اپنی بساط اِتنی تیزی سے لپیٹی کہ
دُنیا حیران رہ گئی۔ امریکی عوام کو بھی اندازہ ہے کہ اُن کی حکومت نے عراق
سے جان چُھڑائی ہے۔
افغانستان کا معاملہ بہت مختلف ہے جہاں اوبامہ انتظامیہ کو خاصے تیور،
تیکھے سُر سُننا پڑے ہیں۔ طالبان میں اب مروت برائے نام بھی نہیں رہی۔
اُنہیں اِس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کہ اُن کا سامنا سُپر پاور سے ہے،
اُس کا کچھ تو احترام کریں! جب دیکھو تب دیپک الاپتے رہتے ہیں، کبھی کبھار
ملہار بھی گا دیا کریں! صدر اوبامہ نے 2014 میں افغانستان سے مکمل انخلاءکی
ڈیڈ لائن دی تو طالبان اِسے اپنے لیے لائف لائن سمجھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور
پورے جوش کے ساتھ متحرک ہوگئے۔ تابڑ توڑ حملوں سے اُنہوں نے ایسے راگ الاپے
کہ امریکیوں سمیت تمام اتحادیوں کی گِھگھی بندھ گئی۔ اوبامہ اور اُن کے
رفقاءنے مذاکرات کی صورت میں مَدّھم سُر چھیڑنے کی کوشش کی مگر کچھ حاصل نہ
ہوا۔ طالبان امریکیوں کو بھی مار ہی رہے تھے مگر تیزی سے مطلوبہ نتائج حاصل
نہیں ہو پارہے تھے۔ جب انہوں نے حکمت عملی بدلی اور یورپی دستوں کو نشانہ
بنانا شروع کیا تو بات تیزی سے بنی۔ فرانس کے پانچ فوجی ایک حملے میں کیا
مرے، فیشن کے عالمی دارالحکومت پیرس میں بھونچال آگیا اور فرانسیسی حکومت
نے طالبان کو اُونچے سُروں میں گاتے ہوئے دیکھا تو مزید لڑائی سے توبہ کرتے
ہوئے کھرج کے سُروں میں اتحادیوں کے سامنے الوداعی ٹُھمری گانا شروع کیا!
امریکیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اب کون سا راگ گاکر فرانسیسیوں کو
منائیں! سُنا ہے شہنشاہِ غزل مہدی حسن کے چچا اسمٰعیل خاں صاحب کوئی راگ
گاکر بچوں کے پیٹ کا درد ختم کردیا کرتے تھے۔ اگر آج وہ ہوتے تو فرانسیسیوں
کے پیٹ کا درد ختم کرنے میں امریکیوں کی ضرور مدد کرتے!
براک اوبامہ گھر میں جس قدر ”سُریلا“ گاتے ہیں کچھ کچھ ویسا ہی سُریلا پن
ذرا اپنی پالیسیوں میں بھی پیدا کریں تو بات بنے۔ کرزئی حکومت اور افغان
فوج کو اب تک اندازہ نہیں کہ امریکہ اور دیگر اتحادی جب اپنی افواج نکال
لیں گے تب افغانستان کے طول و عرض میں کون کون سے راگ الاپے جائیں گے اور
طالبان کو کون سی راگنی گاکر قابو میں کیا جاسکے گا! امریکی حکومت بجٹ
خسارے کے ہاتھوں پریشان ہوکر اب کٹوتیوں کی راہ پر گامزن ہے۔ دفاعی بجٹ اور
فوج کے حجم میں معتدبہ کمی کی جارہی ہے۔ کٹوتیوں کا فیشن عام ہوتا دیکھ کر
امریکی محکمہ دفاع نے افغانستان سے انخلاءکی ڈیڈ لائن میں بھی ایک سال کی
کٹوتی کردی ہے۔ لیون پنیٹا یہ تو بتائیں کہ اتحادی افواج کون سی سرگم لگاکر
2013 کے آخر تک افغانستان سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو پائیں گی! طالبان کی
خوں ریز تانیں اور پَلٹے اُنہیں ایسا کرنے دیں گی؟ بہتر ہوگا کہ اوبامہ راگ
پاٹھ چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کا یعنی حقیقت پسندی کا سُر لگائیں۔ |