تحریر :پیر قمر احمد نیلمی
نقشبندی حفظہ اللہ
انسان اور انسانی سماج اس وقت افتراق وتضادات کا شکار ہوجاتے ہیں جب افراد
معاشرہ اپنے فرائض کی ادائیگی سے غفلت،سستی، بے اعتنائی یا چشم پوشی اختیار
کرلیتے ہیں۔ تاریخ عالم اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جب حضرت انسان نے
اجتماعی مفاد سے گریز کرتے ہوئے ذاتی مفادات کو اختیار کیا اور عدل وانصاف
کے تقاضوں سے سرموانحراف کیا تو معاشرہ عذاب الہٰی کا مستحق ٹھہرا۔ بغداد
والوں نے عدل کشی کی تو ہلاکو خان کی ہلاکت خیز تباہی ان کا مقد ر بنی۔
سامری، آریائی معاشرے حب جاہ وحب مال کی خاطرسچائی کو رسوائی کا جامہ
پہناتے رہے تو قدرت الٰہی نے انہیں تاریخ میں نشانِ عبرت بنادیا۔ نینوا
والوں نے جب سچائی کے راستے کو اختیارکیا تو بابل کے ہم پلہ ٹھہرے، لیکن جب
دروغ کو فروغ دیا تو بابل اور نینوا کی تہذیبیں زمین بوس ہونے سے نہ بچ
سکیں۔ عرب وحجازکی تہذیب کا عروج دراصل سچائی اور عدل وانصاف پرمبنی سماج
کا عروج تھا لیکن جب عرب قوم پرستی کے ساتھ ساتھ راست گوئی سے پھرگئے تو
تاریخ نے انہیں انگریز سامراج کی باندی اور لونڈی کا کردار ادا کرنے پر
مجبور کردیا۔
عمرانیات کی دنیا کے ان حوالوں کی کوکھ سے بے ہودگی اور بربیت کے ایسے
ہزاروں المناک و شرمناک واقعات کے سانحات کے جنم دینے کا ذریعہ بنتے رہے
ہیں، جس کی زندہ مثال کٹن جاگراں ضلع نیلم میں بے رحم بہو اور احسان فراموش
وناخلف بیٹے کے ہاتھوں قتل ہونے والی بے بس ولاچار بی بی عائشہ ہیں، جس کی
روح تلاش عدل انصاف کے لیے کبھی تھانہ سٹی اٹھمقام میں آہ وزاری کرتی ہے تو
کبھی تقویٰ کے دعوے دار اہل محلہ کو ان کی دینداری کے واسطے دیتی ہے۔ تڑپتی
لاش کبھی اہل قبیلہ سے سچائی کے اظہار کا سوال کرتی ہے اور کبھی اہل علاقہ
کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ لیکن بادی النظرمیں گردو پیش کے باسیوں
کے ضمیرپرحیف و ماتم کے سوا کوئی نتیجہ برآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سب
غازی ، قاضی، حاجی، قاری ،علماء، طلباء، عورتیں اور مرد حقیقت ِ حال سے
مکمل آگاہی رکھنے کے باوجود سچائی کے اظہار سے گریزاں ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک پیچیدہ اور گنجلک عمرانی مسئلہ ہے جس کے ڈانڈے ہمارے
اجتماعی شعور اور سماجی شیرازی بندی سے ملتے ہیں۔ ہماری مقنہ، عدلیہ
اورانتظامیہ سامراجی دورغلامی کے فکرو فلسفہ کی بنیاد پرمعاشرتی سمتوں
کاتعین کرتی ہے۔ یوں کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھلا بیٹھا کے مصداق
ایسے معاشرتی جرائم کے نتائج سوسائٹی میں انتہائی خوفناک انداز سے نمایاں
ہوتے ہیں۔ جھگڑوں اور نفرتوں کے طول ماراور مغز مار جیسی فہرستیں ہمارے
تھانوں عدالتوں اور بالآخر اسپتالوں کی رونق بنتی ہیں۔ پھر اصحاب اقتدار کے
رویے اور طو رطریقے معاشرے سے مثبت اور تعمیری سوچ کو ختم کرنے کا سبب بنتے
ہیں۔
یہی مشاہدو تجربہ معمربی بی عائشہ کے قتل کا خلاصہ بنا ہے، قاتل اور معاشرے
کے تمام طبقات ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ اندازو استدلال اگرچہ مختلف ہے مگر
سب بنی اسرائیل کے رسم و راہ پر گامزن ہیں۔ سورہ بقرہ میں گائے کے جس واقعہ
کی نشاندہی کی گئی ہے اس حالیہ واقعہ سے اس قدیم واقعہ کی کافی مناسبت اور
مماثلت پائی جاتی ہے۔ احباب کے پرزور اصرار پر جب ہم نے راسخین فی العلم سے
اس معاملے پر رائے لی تو ان کا درج ذیل موقف سامنے آیا۔
الف:۔ قتل کے اس گھناؤنے واقعے سے متعلق جو شخص بھی جس حد تک جانتا ہے اس
کا فرض بنتا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے متعلقہ اداروں کو درست
معلومات فراہم کرے۔ ذاتی تعلقات تحفظات، خدشات اور مفادات کوسچائی کے اظہار
میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
ب:۔ قانونی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ انسانی جان ومال و آبروکے تحفظ اور اس
کی حرمت و تقدس کو یقینی بنائے۔ اس میں جو ذمہ دار افسر مفادات اور لالچ کی
راہ اختیار کرتے ہوئے جانب دار ی برتے گا وہ عذا ب الہٰی کی گرفت سے نہیں
بچ سکتا۔ (یہ عذاب بیماریوں، گھریلوں ناچاقیوں، مالی تنگ دستیوں اور ترقی
میں رکاوٹوں کی شکل میں نمودار ہوسکتا ہے)۔
یہ وہ اسباب تھے جن کی بدولت بنیادی اور اساسی امورکوصفحہ قرطاس پرلانا وقت
کا تقاضا تھا۔ نفسا نفسی اور مادیت کے اس دور میں کوئی زاہد وعابد جرات
رندانہ کا مظاہرہ نہ کرسکا البتہ ، نوجوانوں کی ایک گروہ اس اجتماعی بے حسی
پربغاوت کا علم بلند کرنے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو انجام سے بے خبرصرف اپنی
اجتماعی ذمہ داری کی ادائیگی کو پیش نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے لیے
روشن مثال ایک نڈر اور جرات مند انقلابی نوجوان نے پہل کرکے قائم کی ہے۔
اہل علم اورسماجی شعور رکھنے والوں نے ان سرپھرے نوجوانوں کے اس اقدام کی
تحسین کی ہے۔ ان نوجوانوں کا یہ اقدام ظلم وبربریت کو چیلنج ہی نہیں کرتا
بلکہ معاشری ذمہ داریوں سے آگاہی، انسانی جان ومال کے تحفظ اور مظلوم الحال
افراد کے لیے باعث امید ہے۔ اب گر ارباب اختیار قاتل کومعصوم بھی قراردے
دیں توبھی ضمیر اجتماعی کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔
تھانہ، عدالت اور انسان دوستی کے دعوے داروں کو ایسے مثبت وتعمیری سوچ کے
حامل نوجوانوں کی صلاحیتوں سے معاشرتی اقدار کے فروغ میں تعاون لینا چاہیے۔
اس معاملے کو اٹھانے میں پہل کرنے والے مذکورہ انقلابی نوجوان کا اقدام
ماضی کی سنہری تاریخ کے کرداروں کو زندہ وجاوداں کرنے میں معاون ہوگا اور
وہ طبقات معاشرہ جو عدل وانصاف ، سماجی ہم آہنگی اور معاشی و معاشرتی
مساوات کو فروغ دینا چاہتے ہیں ان کے لیے حوصلہ افزا ہے۔
اخباری تراشوں اور بعض دیگرحوالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چیف جسٹس و
وزیراعظم آزاد کشمیر ، ضلعی انتظامیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اس اہم
کیس کا فوری نوٹس لینے اور درست سمت میں انکوائری کی اپیل کی گئی ہے۔مظلوم
خاندان اور درمند اہل علاقہ کو اس کے سخت نوٹس لیے جانے کا انتظار ہے۔ہمیں
امید ہے کہ ارباب اختیار عوام الناس میں پائی جانے والی بے چینی اور خوف
وہراس کو ختم کرنے کے لیے مسئلے کا عدل و انصاف پرمبنی فوری حل نکالیں گے۔
قبل ازیں اس معاملے میں صرف صحافی برادری نے اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کیا
ہے جو کہ قابل تحسین اور دیگرکے لیے ایک روشن مثال ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری پوری قوم،قانو ن نافذ کرنے والے اداروں، اعلیٰ عدلیہ کے
ذمہ داروں کو معاشرے میں جنم لینے والی ان خوفناک برائیوں کے خاتمے میں بڑھ
چڑھ کرحصہ لینے اپنا فرض منصبی ادا کرنے کی ہمت اوراپنے فیصلوں سے پسے ہوئے
طبقات ، مظلوم و بے کسوں کی داد رسی کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
|