اے آئی کھلونے

اے آئی کھلونے
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

حالیہ برسوں کے دوران ، چین میں مصنوعی ذہانت کے شعبے نے تکنیکی جدت طرازی ، مصنوعات کی تخلیق ، صنعتی اطلاق اور دیگر شعبوں میں نمایاں پیش رفت دکھائی ہے۔ اے آئی گورننس انڈیکس کو دیکھا جائے تو مصنوعی ذہانت کی ترقی میں مجموعی مقدار کے لحاظ سے امریکہ اور چین سب سے آگے ہیں اور چین مصنوعی ذہانت کی گورننس کے معاملے میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ملک میں مصنوعی ذہانت نے لارج ماڈلز جیسی نئی ٹیکنالوجیز کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ نئی خصوصیات پیش کی ہیں۔ اس وقت ملک میں کمپیوٹنگ پاور کو صنعتی انٹرنیٹ ، اسمارٹ میڈیکل کیئر ، فن ٹیک ، فاصلاتی تعلیم اور ایرو اسپیس جیسے شعبوں میں وسیع پیمانے پر لاگو کیا گیا ہے اور اسے مزید وسعت دی جا رہی ہے۔

معاشی سماجی ترقی میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے اطلاق کا تذکرہ کیا جائے تو آج ،مصنوعی ذہانت سے لیس کھلونے چین میں نہ صرف چھوٹے بچوں اور بزرگوں میں بلکہ دفتروں میں کام کرنے والے نوجوانوں میں بھی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی جدت کی لہر پر سوار ہو کر بہت سے ابتدائی تعلیمی کھلونے بچوں کو سلانے، کہانیاں سنانے، یا نظمیں گانے جیسی سادہ خصوصیات سے آگے نکل گئے ہیں۔ آج کے کھلونے صارفین کو ذاتی نوعیت کے ذہین ایجنٹس بنانے، انٹرایکٹو بات چیت کے لیے آوازیں نقل کرنے، اینی میشنز یا پکچر بک بنانے کے لیے تصاویر کیپچر کرنے، اور یہاں تک کہ والدین کو بچوں کی پڑھائی کی پیشرفت کی تفصیلی فیڈ بیک بھیجنے کی اجازت دیتے ہیں۔

چین کے معروف تکنیکی و اختراعی مرکز شینزین شہر میں ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے مطابق مصنوعی ذہانت سے لیس کھلونے اب 70 سے زائد مختلف جذبات کو پہچان سکتے ہیں۔ بچوں کے پڑھنے کے ارادوں اور دلچسپیوں کا تجزیہ کرکے، اور انہیں جذبات اور آواز کی پہچان کے ساتھ ملا کر، یہ کھلونے بچے کی ہر نفسیاتی تبدیلی کا درستی سے ادراک کر سکتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت سے لیس کھلونے اپنی علم کی صلاحیتوں کو بھی وسعت دے رہے ہیں۔چینی کمپنیوں کے اپنے تیار کردہ لارج ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے، یہ مصنوعات دنیا بھر میں انواع کی اکثریت کو پہچان اور سمجھ سکتی ہیں، جو فی الحال تیس لاکھ سے زیادہ انواع کو سپورٹ کرتی ہیں۔ شناخت کے بعد، یہ کھلونے متعلقہ علم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، جسے یہ چینی اور انگریزی دونوں زبانوں میں سائنسی وضاحتوں اور کہانیوں سمیت مصنوعی ذہانت سے چلنے والے تعلیمی مواد کو تیار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ، مصنوعی ذہانت سے لیس کھلونے نوجوانوں اور دفتر میں کام کرنے والے ملازمین میں بھی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جو تناؤ کو دور کرنے کے ایک مزیدار اور مؤثر طریقے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ڈیزائن کے ابتدائی مرحلے میں، مصنوعی ذہانت سے لیس کھلونوں کی توجہ بچوں اور بزرگوں پر تھی، لیکن مصنوعات لانچ اور ٹیسٹ کرنے کے بعد، یہ دیکھا گیا کہ زیادہ تر خریدار وائٹ کالر ملازمین تھے۔ اسی باعث یہ اعتماد ظاہر کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے لیس کھلونوں کی مارکیٹ کا مستقبل انتہائی روشن اور وسیع گنجائش ہے۔

مارکیٹ ریسرچ فیوچر کے اعداد و شمار کے مطابق، عالمی مصنوعی ذہانت سے لیس کھلونوں کی مارکیٹ 2024 میں 11 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی اور 2030 تک 58 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، جس کی اوسط سالانہ نمو کی شرح 20 فیصد سے زیادہ ہے۔

ایک جانب ، جہاں چین مصنوعی ذہانت سے لیس کھلونوں جیسی اختراعات سامنے لا رہا ہے وہاں دوسری جانب اُس نے ہمیشہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے مؤثر اے آئی گورننس کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔چین نے ہمیشہ اس نکتہ کو بھی اجاگر کیا ہے کہ ڈیجیٹل تبدیلی نہ صرف ٹیکنالوجی کو مقبول بنانے کے بارے میں ہے بلکہ انسانی معاشرے اور اخلاقی اقدار پر زیادہ محتاط نظر ڈالنے کی ضرورت بھی ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1622 Articles with 903287 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More