اللہ تعالیٰ نے اِنسان کواشرف المخلوقات
کادرجہ عطاکیا اورکائنات کی تمام چیزیں انسان کےلئے وقف کردیں۔ انسان کوبے
شمارانمول نعمتوں سے سرفرازکیا جن کےلئے اللہ تعالیٰ کاشُکراداکرناہرانسان
پرفرض عائدہے۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطاکردہ ذہن جیسی نایاب نعمت سے ہی جس
طرح شاعرِ مشرق علامہ اقبال اورنامورترقی پسندشاعرفیض احمدفیض نے اُردوادب
کواظہارخیال کاذریعہ بناکردُنیامیں امن، محبت ، بھائی چارہ اوررواداری
کاپیغام عام کیااور سماجی بُرائیوں کاقلع قمع کرنے کےلئے آوازبلندکی ،اُسی
طرح اُردوادب کے دوبڑے شاعروں کے شہرسیالکوٹ سے ہی تعلق رکھنے والاایک
نوجوان فیض واقبال کے مشن کوآگے بڑھارہاہے۔ علامہ اقبال اورفیض احمدفیض
اُردوادب کے وہ ستارے ہیں جن کے کلام سے اُردوادب کاخزانہ مزیدوسیع ہواجس
کے باعث آج دُنیامیں اُردوکوایک زبان ہونے کے ساتھ ایک تہذیب کے
طورپردیکھاجاتاہے۔ زبان چاہے اُردوہو، ہندی ہو، پنجابی ہویاسندھی کااستعمال
ادب کے علاوہ موسیقی کےلئے بھی کیاجاتارہاہے ، کیاجاتاہے اورکیاجاتارہے
گا۔شہرِسیالکوٹ کے اِن دوناموراُردوشعراءکے دِلوں میں قوم کی خدمت کاجوجذبہ
پایاجاتاتھا وہ اُن کے کلام سے نمایاں طورپرسب پرعیاں ہے۔فیض اوراقبال کی
تحریروں سے برصغیرکے عوام کونئی راہ ملی اور آپسی بھائی چارہ ، اورمحبت
اورامن کاپیغام دوردورتک پہنچا۔شہرسیالکوٹ کے اِن دوادبی ستاروں (فیض
واقبال) نے دنیامیں امن ومحبت کاپیغام عام کرنے کاکارنامہ انجام دیا، اس ہی
مشن کوتقویب بخشنے کےلئے سیالکوٹ سے ہی تعلق رکھنے والاجواں سال
گلوکارابرارالحق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوازی گئی خدادادصلاحیتوں کوبروئے
کارلاتے ہوئے فیض واقبال کی ڈگرپرگامزن ہے۔ فرق صرف اِتناہے کہ ابرار الحق
ادب کے بجائے گلوکاری کے ذریعے امن ، پیارمحبت، حب الوطنی کے جذبہ
اوررواداری کاپیغا م عام کرکے عوام میں احساس پیداکررہاہے جس سے عوام
متاثربھی ہوئی ہے۔
پاکستان کایہ معروف گُلوکارنہ صرف موسیقی کے ذریعے امن اورحُب الوطنی
کاجذبہ عوا م کے دِلوں میں پیداکررہاہے بلکہ ملک میں سماجی خدمات انجام
دینی والی شخصیات میں بھی اہم ومنفردپہچان رکھتاہے اس کے علاوہ پاکستان میں
جمہوری نظام کی بحالی کےلئے بھی دل وجان سے کوشاں ہے۔ابرارالحق نے فنِ
گلوکاری کواپنانے کے بعدپہلے ہی گانے کے ذریعے راتوں رات دُنیابھرمیں شہرت
کی بلندیو ں کوچھولیا جس کے بعداس گلوکارنے پیچھے مُڑکرنہیں دیکھا،اوراپنے
مشن اورفن کونکھارنے میں سرگرم رہے جس کے نتیجے میں اس پاکستانی گلوکارکے
مداحوں کی اچھی خاصی تعدادپاکستان کے علاوہ ایشیائی ممالک میں پائی جاتی ہے
۔ جدیدزمانے سے ہم آہنگ ابرارکی گائیگی اورموسیقی نے وہ زورپکڑاکہ شہرت کی
ساری منزلیں چندہی برسوں میں طے کر لیں ۔
موسیقی کے اِس درخشندہ ستارے کاجنم 21 جولائی 1968ءکونارووال (سیالکوٹ)
مغربی پنجاب پاکستان میں ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گجرات اورراولپنڈی سے
حاصل کرنے کے بعدسرسیدکالج راولپنڈی سے گریجوکیشن کی اورقائداعظم یونیورسٹی
اسلام آبادسے سوشل سائنسزمیں ماسٹرڈگری حاصل کی۔ابرارنے اپنے
کیرئیرکاآغازاتھیسن کالج سے بطورمدرس کیامگرابرار گلوکاربنناچاہتے تھے لیکن
اس کے گھروالے ابرارکوگلوکاری کی طرف جانے کےلئے اجازت نہیں دے رہے تھے
لیکن آخرکارابرارنے شش وپنج سے نکلنے کافیصلہ کرتے ہوئے گلوکاری کاپیشہ
اپنانے کاحتمی فیصلہ کیا۔
ابرارالحق بنیادی طورپراپنی مادری زبان پنجابی میں گاتے ہیں تاہم کچھ گانے
اُردومیں اورکچھ پنجابی اورانگریزی کی آمیزش بھی ہیں۔ ابرار الحق کی
آوازوموسیقی میں جومٹھاس پائی جاتی ہے وہ سُننے والوں کے دِلوں میں اُترتی
ہی چلی جاتی ہے۔اب تک خدادادصلاحیتوں کامظاہرہ کرتے ہوئے ابرارالحق نے
بھنگڑا،پاپ اورفوک یعنی موسیقی کے تینوں میدانوں میں اپنی صلاحیت کے
جوہردکھائے ہیں۔
ابرارالحق نے 1995ءمیں اپنی پہلی میوزک البم ”Billo De Ghar“بلودے گھر“نام
سے لانچ کی ۔اس البم کاٹائٹل سانگ ”بلودے گھر“ سوپرڈوپرہٹ گاناثابت
ہوا۔پھرکیاتھاراتوں رات ابرارالحق کی شہرت دُوردُورتک پھیل گئی جس کااندازہ
ابرارکوہرگزنہ تھایعنی پہلے ہی البم کے ریلیزہوتے ہی ابرابرکی قسمت کے
ستارے بلندیوں پرپہنچ گئے۔ابرارکی اس پہلی میوزک البم ”BDG“ کی ایک
کروڑساٹھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں جوکہ اُس وقت ایک ریکارڈقائم ہواکیونکہ
پاکستانی فلمی موسیقی نوے کی دہائی میں ماندپڑگئی تھی اورلوگوں کواچھے فن
کارکی آوازسُننے کونہیں مل رہی تھی ۔ پہلی ہی البم کے باعث وسیع پیمانے
پرابرارکوجو شہرت اورعزت کوملی اُس نے ابرارکے حوصلوں کوساتویں آسمان
پرپہنچادیا۔ ابرارنے اپنی دوسری البم دوسال بعدیعنی 1997ءمیں ”Majajni“
مجاجنی ریلیزکی جس نے پھرسے ابرارکی دھوم گلی گلی مچائی ۔ عوام سے مِل رہی
دادوتحسین کے پیش نظرابرارنے اپنے پراجیکٹوں ومستقبل کے منصوبوں پرکام
شدومدسے جاری رکھا۔سال 1997ءمیں ابرارکاایک اورالبم ”Baj Ja Cycle Te“
ریلیزہواجس نے ایک مرتبہ پھرابرارکوموسیقی کی دُنیامیںدوام بخشا۔اس البم کی
8 کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں ۔2000 ءمیں ان کی ایک البم ”Mein Gaddi Aap
Chalawan Ga“، ”میں گڈی آپ چلاواں گا“ منظرعا م پرآئی جس کولوگوں نے کافی
سراہا۔ابرارکی چوتھی البم ”اساں جاناں مالومال“جس نے پھرسے میوزک انڈسٹری
میں تہلکامچایااورابرارکے نام کوچارچاندلگائے اوراس البم کی 12 کروڑکاپیاں
فروخت ہوئیں۔اس کے علاوہ ابرارکی Nacha mein Uday Naal Naal ، البم نے بھی
کافی مقبولیت حاصل کی۔
ابرار نے چندحمداورنعتو ں کوبھی اپنی آوازبخشی ہے ۔ معروف زمانہ صوفیانہ
کلام ”تیرے رنگ رنگ، تیرے رنگ رنگ“ توہرشام وصبح FM ریڈیوچینلزاورپاکستانی
ٹیلی ویژن چینلوں پربرسوں سے بجتا چلاآرہاہے ۔ کل ملاکردیکھاجائے توابرارنے
ابھی تک جوالبمزریلیزکی ہیں اورمنظرعام پرلائی ہیںاُن میں 1۔بلودے
گھر(1995)، مجاجنی (1997) ، بے جاسائیکل تے (1999)، اساں جاناں مالومال
(فروری 5، 2002) ، نچاں میں اودے نال ‘جون 1، 2004 )، نعرہ ساڈاعِشق اے(مار
چ 2007)، دوکمپلیشن اورسٹوڈیوالبمزجن میں ’میں گڈی آپ چلاواں گا(2000)
اور”سراُٹھاکے ‘2010 وغیرہ قابل ذکرہیں۔
ابرارکی درج بالاالبمزکے علاوہ جودیگرگانے شہرت رکھتے ہیں اُن میں ”جگا“ ،
گرداس مان اورسکھوندرشنداکے ساتھ مشترکہ کلیبوریشن ، پردیسی ہویووے،
”ماں،‘۔ اورکچھ ماہ قبل پاکستان کے حالات کی اتھل پتھل کے پیش نظربنائی گئی
البم ”کی کراندے او“ جوادشاہ زمان کے تعاون سے بنائی گئی ہے ، نعرہ ساڈاعشق
اے، کُڑیاں لاہوردیاں، ایویں ظلم نہ کر( دہشت گردی کے خلاف )، پریتومیرے
نال ویاکرلے، پرمین، پتلوجئی،جٹ، اساں تیری گل کرنی وغیرہ قابل ذکرہیں۔
ابرارالحق نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ خدادادصلاحیتیوں کامظاہرہ کرتے
ہوئے مختلف تنظیموں کی طرف سے متعدد اعزازت بھی حاصل کئے ہیں ۔ابرارالحق
کوجن اعزازات سے حوصلہ افزائی ملی اُن میں سال 2002 میں بہترین لوک
گلوکارایوارڈ، 2001 میں بہترین پاپ سنگرایوارڈ، فرٹوسن میوزک ویوورزایوارڈ،
سٹی زن ایکس لینسی ایوارڈاورمسلسل دوسال تک پاکستان کاسب سے
مشہورگلوکارایوارڈکااعزاز، 2005 میں تمغہ امتیاز، اسلامی کانفرنس
کاپہلاہیومنٹیرین ایمبسڈرایوارڈوغیرہ قابل ذکرہیں۔
ابرارالحق ہندپاک تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں ۔انہیں ہندوستان کے لوگوں
سے اورخاص طورسے جموں کشمیرکے لوگوں سے کافی پیارہے۔ ابرارنے اپنی پہلی
میوزک البم ”Billo De Ghar“ بھی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کاانعقادکرکے
لانچ کی تھی ۔ BDG کی لانچنگ کے موقعہ پرانہوں نے میڈیانمائندوں سے بات
کرتے ہوئے کہاتھاکہ ہندوستان موسیقی کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اُن کاکہناتھاکہ
”ہندوستان اورپاکستان کے لوگوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ دونوں ملکوں کی
تہذیب مشترکہ ہے ، تاریخ مشترکہ ہے“۔ اوراُمیدکااظہارکیاتھاکہ Billo De
Ghar کوہندوستانی لوگ پسند کریں گے ۔ ابرارکی اس البم کوہندوستانیوں نے بے
پناہ محبت دی اورقبول کیا۔ابرارنے اپنی موسیقی کوعام کرنے کےلئے ہندوستان
کے مختلف شہروں مثلاً دہلی، اجمیرشریف، چندی گڑھ اورممبئی کابھی دورہ
کیا۔ہندوستانی فلم سازوں نے بھی ابرارکواپنی فلموں کوعوام میں مقبول بنانے
کےلئے آوازکاجادوچلانے کےلئے دعوت دی ، ابرارنے سنی دیول کی فلم ’زدی ‘
کےلئے ”دل لے گئی اوئے کموکی کدھر“گاناریکارڈکرایاجسے دونوں ممالک کے لوگوں
نے کافی پسندکیا ۔اس کے علاوہ فلم نگری ممبئی کے کنگ خان ”شاہ رُخ خان “کی
متعدد فلموں کےلئے بھی ابرارگلوکاری کرچکے ہیں۔ابرار ہندوستان کے علاوہ
دیگرکئی ممالک میں میوزک کنسرٹ بھی کرچکے ہیں۔
ابرارالحق نے ایک انٹرویوکے دوران جذبہ حُب الوطنی کااظہاراس طرح کیاہے کہ”
میں اپنے ملک کے خلاف نہیں سُن سکتا“۔انہوں نے کہاکہ ”مجھے صرف اگریہ
خوشخبری دی جائے کہ پاکستان کامستقبل محفوظ ہے تومجھے اطمینان ہوجاتاہے
“پاکستان بھرمیں ابرارالحق کونہ صرف ایک گلوکار، موسیقاراورگیت کارکے
طورپرجاناجاتاہے بلکہ ایک فلاحی اورسیاسی شخصیت بھی تسلیم کیاجاتاہے۔
ابرارالحق کے اندرجوپاکستانی عوام کی مشکلات کودورکرنے اورقوم کودُنیاکی
بہترین قوم بنانے کاجو جذبہ ہے وہ بہت کم لوگوں میں پایاجاتاہے ۔ملک کے
بگڑے ہو ئے حالات اورعوام کی حالت زارکومدنظررکھتے ہوئے ابرار نے پاکستان
میں عوامی فلاح کے جذبے کوفروغ دینے اورعوام کی خدمت کرنے کےلئے ایک فلاحی
ادارہ ”سہارافارلائف ٹرسٹ“ قائم کیاہے ۔ فلاحی مشن کے تحت ہی نامورگلوکارنے
نارووال میں صغٰری شفیع میڈیکل کمپلیکس بھی قائم کیاہے جہاں پرلوگوں کومفت
علاج ومعالجہ کی سہولیت دی جارہی ہے۔ ابرارکے فلاحی جذبہ سے متاثرہوکرعوام
بھی ”سہارافارلائف ٹرسٹ “ کوبڑھ چڑھ کرعطیات دیتے ہے ۔ ”سہارافارلائف ٹرسٹ
“ کے تحت ابرار نے پاکستانی عوام کی وہ خدمت کی ہے جوبڑے بڑے سیاستدان نہیں
کرپائے ہیں۔
پاکستانی غریب عوام کاعکس ابرارکی اس نظم میں صاف طوردکھائی دیتاہے
اورابرارمظلوم وغریب بچوں کے ساتھ اظہارہمدردی اس طرح سے کرتے ہیں
اوردوسروں کوبھی فلاح وبہبودکی طرف راغب کرنے کےلئے نظم میں اِن الفاظ
کااستعمال کرتے ہیں جوبعدمیں انہوں نے ایک گانے کے طورپربھی دُنیاکے سامنے
پیش کیا۔
سراُٹھاکرشہرمیں چلنے کاموسم آگیا
آﺅکے موسم بدل دینے کاموسم آگیا
آﺅذرا!
دوستوآﺅذرا!
دھورہاتھاکل میں جسے اپنے پھٹے کُرتے کے ساتھ
دھورہاتھاکل میں جسے اپنے پھٹے کُرتے کے ساتھ
آج وہ بچہ اُسی گاڑی کے نیچے آگیا
سوچوذرا!
دوستوآﺅذرا!
آﺅجھاڑوچھین لیں اِن ننھے ہاتھوں سے کہ اب
ہاتھ میں اِن کے قلم دینے کاموسم آگیا
کب تلک کاغذچنیں گے کوچوں کے گندے ڈھیرسے
ہاتھ میں اِن کے قلم دینے کاموسم آگیا
کب تلک کاغذچنیں گے کوچوں کے گندے ڈھیرسے
کونپلوں کے پھول میں پھلنے کاموسم آگیا
آﺅذرا!
سوچوذرا!
غیرمسلم ہوکہ مسلم سب کااپناگھرہے یہ
سب نے جینابھی ہے مرنابھی ہے اس آغوش میں
وہ جونفرت ڈالتے ہیں اِن دِلوں میں جان لیں
وہ جونفرت ڈالتے ہیں اِن دِلوں میں جان لیں
اُن سروں کی فصل جھکنے کاموسم آگیا
آﺅذرا!
دوستوآﺅذرا!
ماں ہے، بیٹی ہے ، بہوہے ، بہن ہے، بیوی ہے یہ
آ ج یہ خوش رنگ رشتے کیوں پریشان ہوگئے
جس سے اِن رشتوں میں قائم ہومحبت کی فضا
جس سے اِن رشتوں میں قائم ہومحبت کی فضا
آج سے وہ پیاربرسانے کاموسم آگیا
آﺅذرا!
دوستوآﺅذرا!
کیاہمارافرض ہے خالی تماشادیکھنا
کیاہمیں ہروقت کرناہے گلہ سرکارسے
آﺅمِل کربانٹ لیں جرم ِ ظریفی کی سزا
اورلیں بدلے میں ہم لاکھوں کروڑوں کی دُعا
آﺅذرا!
دوستوسوچوذرا!
سراُٹھاکرشہرمیں چلنے کاموسم آگیا
آﺅکے موسم بدل دینے کاموسم آگیا
آﺅذرا!
دوستوسوچوذرا!
ابرارایک کاغذاُٹھانے والے بچے کوقلم تھماکرترقی کی راہوں پرگامزن کرنے کے
خواہاں ہیں،وہ اُن عناصرکے خلاف ہیں جو سماج میں نفرت پھیلاتے ہیں
۔ابرارچاہتے ہیں کہ ملک کے لوگوں میں پیارپرورش پائے اورقائم رہے ، چاہتے
ہیں کہ ہرشہری کوتحفظ ملے اوروہ بھی سراُٹھاکرجی سکے۔
پاکستان میں گلوکاری اورسماجی فلاح وبہبودکے علاوہ ابرار ایک سیاسی لیڈرکی
حیثیت سے بھی عوامی خدمت کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے گذشتہ برس
25دسمبر2011ءکوپاکستان کے نامورکرکٹروقدآور سیاسی شخصیت عمران خان کی قیادت
میں تحریک انصاف پارٹی کادامن تھام کربطورسیاست دان پاکستانی عوام کی خدمت
کابیڑہ اُٹھایا۔تحریک انصاف میں شمولیت سے قبل”یوتھ پارلیمنٹ “نامی
غیرسرکاری تنظیم کے تحت وہ نوجوانوں کی قیادت کررہے تھے ۔تحریک انصاف میں
شمولیت کے بعدابرارالحق کراچی میں ”پی ٹی آئی “ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس
طرح سے پاکستانی عوام اورنوجوانوں کوملک کے حالات بدلنے کی نویدسُناتے ہیں
اوردِلاسہ دیتے ہیں، ابرارکایقین کامل ہے کہ پاکستان کااقتدارایک دِن
مظلوموں وعام آدمی کے ہاتھ میں آئے گا، انقلاب ضرورآئے۔پاکستان تحریک انصاف
کے جلسہ کی تقریرکے چندپہلو،
اسلام علیکم!
”میں سب سے پہلے مبارکبادپیش کرناچاہتاہوں کہ وہ انقلاب جوہماری آنکھوں میں
بچپن سے ٹمٹمارہاتھاشکرہے الحمدللہ ، لگتاہے اُس کے آنے کاوقت آن پہنچاہے،
مجھے لگتاہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں دوتہائی 2/3rd اکثریت
ملنے والی ہے۔انشاءاللہ اس کے نتیجے میں قائم ہونےوالی حکومت ، انصاف کی
حکومت ہوگی، اصل پاکستانیوں کی حکومت ہوگی، وہ وی آئی پیزکی حکومت نہیں
ہوگی، وہ عوام کی حکومت ہوگی ۔وہ نوجوان کی حکومت ہوگی، آج سے چندمہینے
پہلے میں نے ایک ریلی نکالی تھی ،میں سمجھتاہوں کہ 30 اکتوبرکے بعدحالات
بدل گئے ہیں۔ اُس ریلی کانام تھا”پاکستان بچاﺅ“ریلی۔میرے پاس ریلی میں
دونوجوان آئے ، وہ کہنے لگے ابراربھائی !ہم خودکشی کرناچاہتے ہیں ، میں نے
کہاکیوں؟وہ کہنے لگے کہ اس لیے کہ حکومت کی نظرہم پرپڑے گی ، وہ نوجوانوں
کاخیال رکھے گی،روزگارکوئی نہیں ہے ہمارے پاس۔ اسی بہانے شایدہماری دوبہنوں
کی شادی بھی ہوجائے ۔حکومت میرے والدین کوپیسے دے دے گی ، میں نے کہاکہ تم
پاگل ہو۔ خودکشی کریں تمہارے دُشمن۔ کبھی سوتیلی ماﺅں سے دودھ کی امیدنہ
رکھنا،سوتیلی مائیں کبھی نازونخرے نہیں اُٹھایاکرتیں، تمہیں کچھ نہیں ملنے
والا۔ اپناحق لیناپڑے گااوردِلاسہ دیاکہ آپ کی مشکل کومیں حل کروں گا۔اس کے
بعداللہ کاشکر! تحریک انصاف اس طرح سے سامنے آئی کہ ہمیں ایک اُمیدکی کرن
نظرآئی۔آج انشاءاللہ العزیز۔تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے بہت ہی جلد میں
سمجھتاہوں کہ ایک انقلاب آئے گا۔وہ پاکستان جس کانام آپ کے اور میرے خون کے
ہرقطرے میں لکھاہے۔آج دیکھیں جاکربلوچستان میں دیواروں پراُس نام کے ساتھ
کیاجملے لکھے ہیںکہ1971 کی طرح یہ حصہ بھی کٹ جائے گاگویااب میرے دوسرے
بازوپہ وہ شمشیرہے جواس سے پہلے بھی میری شہہ رگ کالہوچاٹ چُکی ۔اس سے پہلے
بھی میرانصب بدن کاٹ چکی۔ اے میرے دیس کے پیارے، سارے لوگو، ہم نے خود
کوبیچنانہیں ہے۔اب ایک ہی موقعہ ہے ہمارے پاس۔ پتہ نہیں پھر آئے گایانہیں۔
اب ہم نے تحریک انصاف کوسامنے لیکرآناہے۔ایک نظم سُناکرجاﺅں گا، چاہوں گاکہ
آپ میراساتھ دیں ۔
سرجلائیں گے روشنی ہوگی
اُس اُجالے میں فیصلے ہوں گے
روشنائی بھی خون کی ہوگی
اوروہ فاقہ کش قلم
جس میں جتنی چیخوں کی داستانیں
انہیں لکھنے کی آرزوہوگی
نہ ہی لمحہ قرارکاہوگا
نہ ہی رستہ فرارکاہوگا
وہ عدالت غریب کی ہوگی
جان اٹکی یزیدکی ہوگی
جس نے بیچی ہے قلم کی طاقت
جس نے اپناضمیربیچاہے
جو اب دُکانیں سجھائے بیٹھے ہیں
سچ سے دامن چھڑائے بیٹھے ہیں
جس نے بیچاعذاب بیچاہے
مفسلوں کوسراب بیچاہے
دین کوبے حساب بیچاہے
اورکچھ نے روٹی کاخواب بیچاہے
اورکیاکہیں ہم کہ قوم کواس نے
کس طرح بارباربیچاہے
فیض واقبال کاپڑوسی ہوں
اک تڑپ میرے خون میں بھی ہے
آنکھ میں سلسلہ ہے خوابوں کا
اِک مہک میرے چارسوبھی ہے
جھونپڑی کے نصیب بدلیں گے
پھرکہیں انقلاب آئے گا، انقلاب آئے گا۔
انقلاب ، انقلاب،انقلاب، انقلاب
لُٹے ہوئے، پسے ہوﺅں کاوقت ِ انتقام ہے
اب وہ قاتلوں کاوقتِ اختتام ہے
عام آدمی کے ہاتھوں اقتدارآئے گا
بے قصورشہریوں کاخون رنگ لائے گا
دیس کی رگوں میں رقص ِزہربے شمارہے
اُٹھوبھی دوستوکے تم کوکس کاانتظارہے
انقلاب، انقلاب، انقلاب، انقلاب
آخرمیں اِتناضرورکہوں گاکہ سیالکوٹ کی مٹی میں محبت کی خوشبوہے، شاعرِمشرق
علامہ اقبال اورفیض احمدفیض کے شہرکاایک نوجوان گلوکارابرارالحق اپنے
بزرگوں کے نقش وقدم پرچل کربیک وقت نہ صرف گلوکاری کے ذریعے محبت اورامن
کاپیغام عام کررہاہے بلکہ فلاحی ، سماجی اورسیاسی لیڈرکے طورپرعوامی خدمت
کافریضہ انجام دے کرسیالکوٹی ہونے کافرض اداکررہاہے۔(راقم ابرارالحق کے
کروڑوں مداحوں میں سے ایک ہے اورجموں سے تعلق رکھتاہے) - |