روزمرہ، محاورے، تشبیہیں، استعارے اور
تمثیلیں اُردو زبان کا زیور جانی جاتی ہیں۔اگرچہ ساخت کے لحاظ سے روزمرہ
اور محاورہ ایک سے ہیں یعنی دونوں ہی دو یا دو سے زیادہ لفظوں سے بنتے ہیں
لیکن معنوی اعتبار سے دونوں میں کافی فرق ہے۔
روزمرہ اپنے اصلی معنوں میں استِعمال ہوتا ہے یعنی اِس کے حقیقی اور اس سے
اخذ شدہ معنی میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ مثلاً دوا کھانا، کھانا کھانا، روز
بہ روز، ہر روز، پانی پینا وغیرہ ۔ جبکہ محاورہ، حقیقی معنوں کی بجائے اپنے
مجازی معنوں میں استِعمال ہوتا ہے۔عام طور پر محاورہ کی بنیاد استعارہ پر
ہوتی ہے۔ مثلاً ہاتھ مَلنا، جس کی لغوی معنی ہیں دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں
رگڑنا یا مسلنا لیکن یہاں پر اس سے مراد افسوس کرنا یا پچھتانا ہے۔ اسی طرح
ہاتھ اُٹھانا، ( ہاتھ اُونچا کرنا) لیکن مراد ہے دعا مانگنا
منہ کھلوانا، بولنے پر مجبور کرنا یا بات کرنے کی جرات دِلانا
منہ لٹکانہ، ناراض ہونا وغیرہ ۔
تاہم کچھ ایسے محاورے بھی ہیں جیسے
منہ بولی بہن، منہ مانگی مراد، یا منہ پر آئی بات وغیرہ۔ اگرچہ یہ محاورے
ہیں، لیکن یہ اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہیں اس لئیے انہیں محاورہ کی
بجائے روزمرہ کہا جائے گا۔ یوں معلوم ہوا کہ روزمرہ یا محاورہ کے درست تعین
کے لئیے جہاں مستند کتب و لغات کی ضرورت پڑتی ہے وہاں اہلِ زبان کی بول چال
کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ زبان کے اُصول و قوائد کی
پابندی کرتے ہوں۔ زبان چاہے اُردو ہو یا کوئی اور، ہر پندرہ بیس کلو میٹر
کے فاصلے پر اُس کی بولی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آتی ہے۔ مثلاً ایک
کراچی ہی کو لے لیں، جہاں آپ کو اُردو کی اگر سینکڑوں نہیں تو کم سے کم،
درجنوں مختلف بولیاں سُننے کو ضرور ملیں گی۔ اس لئیے ہر اُردو لکھنے پڑھنے
یا بولنے والے کو آپ اہلِ زبان نہیں کہہ سکتے۔ میں نے بارہا ٹی وی پر ٹاک
شوز میں، نہایت معتبر شخصیات کو کہتے سُنا ہے:
کراچی کے حالات دن بہ دن بگڑتے جا رہے ہیں
ہم نے اُس سے فلاں بات کری تھی
اِس پر تو دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں یا پھر
ہمارے ہاں بیمار دوائی صحیح نہیں لیتے وغیرہ جبکہ
دن بہ دن کی جگہ روز بہ روز
بات کری کی جگہ بات کی
دو آرا کی جگہ دو رائے اور
دوا لینے کی جگہ دوا کھانا درست اور روزمرہ کے مطابق ہے۔
روزمرہ کی اہمیت اس لحاظ بھی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر چاہے بول چال ہو، نثر
یا منظوم کلام، کسی کا وجود بھی ممکن نہیں۔ جبکہ تشبیہوں، استعاروں اور
محاوروں کے بغیر پھر بھی گزارہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس حقیقت سے بھی انکار
نہیں کیا جاسکتا کہ محاورے کا درست اور بر محل استعمال، ادنا سے ادنا شعر
کو بھی فصاحت و بلاغت کی بلندی تک پہنچا دیتا ہے۔
یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ، الفاظ جو روزمرہ اور محاورہ کو جنم دیتے ہیں
اپنی ہیَت میں وہ انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کا بھی مزاج ہوتا ہے۔ کسی کا
اچھا تو کسی کا برا ۔ کوئی تند وترش تو کوئی مدھر ۔ جس طرح انسان سفر کرتے
ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں اور بسا اوقات وہیں کا رسم ورواج، لب
ولحجہ، رہن سہن غرض کہ، سب کچھ وہیں کا اپنا لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود،
ان کی شکل وصورت اور حلیے میں کوئی فرق نہیں آتا۔ بلکل اسی طرح الفاظ بھی
ایک زبان سے دوسری زبان میں ضم ہو کر اپنا آبائی تلفظ اور لب ولحجہ کھو
دیتے ہیں تاہم ان کی ساخت ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ،
رمضان سے کچھ روز قبل ہم گھر میں، رمضان کے حوالے سے کفتگو کر رہے تھے کہ
میری پانچ سالہ بیٹی جو ساتھ بیٹھ کر ہماری باتیں بڑی توجہ سے سُن رہی تھی،
بولنے لگی، پاپا پا پا رمزان نہیں رمدا۔۔۔ن۔ کچھ دیر کے لئیے تو یہ سُن کر
میں سوچ میں پڑ گیا کہ بچی کیا کہہ رہی ہے لیکن پھر فوراً یاد آیا کہ
موصوفہ دینی تعلیم حاصل کرنے مسجد جاتی ہیں اور اُستادِ محترم مصری ہیں۔
بھلا اتنی سی بچی کو میں کیا سمجھاتا کہ جو وہ کہہ رہی ہے، وہ عربی اور جو
میں کہہ رہا ہوں، وہ اُردو کا تلفظ ہے۔ اس لئیے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ
بیٹا غلطی ہوگئی آئندہ سے خیال رکھیں گے۔ خیر یہ معاملہ تو ایک بچی کا تھا
لیکن یہی کچھ میں نے اکثر بڑوں میں بھی دیکھا ہے۔ بعض اوقات تو بات بحثہ
ومباحثہ تک پہنچ جاتی ہے لیکن کوئی اپنی ہار تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
جبکہ دونوں ہی، اکثر ٹھیک کہہ رہے ہوتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اول تو
ایسے مسئلوں میں پڑنا ہی نہیں چاہیے لیکن پھر بھی، اگر کوئی علمی بحث کرنا
چاہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بشرطیکہ باہمی تعظیم کو ملحوظِ خاطر رکھا
جائے اور جو بات کی جائے اُسے اپنے آپ سے نہیں بلکہ دلائل سے ثابت کیا
جائے۔ بعض اوقات جن الفاظ کو ہم مترادف سمجھتے ہیں، اُن کے معنوں میں قدرے
فرق ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً، خون اور لہو کی معنی ایک ہی ہیں لیکن آپ،
کسی کا خون ہو گیا، کو کسی کا لہو ہوگیا، نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح دِیا اور
چراغ ایک شے ہیں لیکن گھی کے چراغ جلتے ہیں، دیے نہیں۔ اس طرح، رکھنا اور
دھرنا دونوں کی معنی بظاہر ایک سی ہیں۔ لیکن رکھنے سے مراد احتیاط سے رکھنا
ہے جبکہ دھرنے کا مطلب ہے بغیر احتیاط کے رکھنا۔
محاورے کس نے کب اور کیسے ایجاد کیئے شاید اس کا صحیح تعین کرنا تو نا ممکن
ہو تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ابتدا میں اُردو بھی، دوسری زبانوں کی
طرح سادہ تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اس میں باقی چیزوں کی طرح، محاورے
بھی شامل ہوتے گئے۔ محاورہ کی بہت سی خوبیاں ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر تو
میں اُوپر کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ، محاورہ ہمیں اپنی پُرانی اشیا کے ساتھ
ساتھ پُرانے رسم ورواج بھی یاد دلاتا ہے۔ مثلاً ٹکہ، کوڑی، پیسہ وغیرہ آجکل
تو نہیں لیکن دو ٹکے کا آدمی، کوڑیوں کے دام، آج بھی بولا جاتا ہے۔ اسی طرح
پُرانے جنگی ہتھیاروں، تیر کمان، تیغ اور تلوار کی جگہہ اب تو میزائل ڈرون
اور نا جانے کیا کیا ہتھیار آگئے ہیں لیکن ہماری شاعری نے آج بھی اُسی طرح
اپنے ماضی کو دل میں زندہ و تابندہ رکھا ہے۔ ایک محاورہ ہے، گھوڑے بیچ کر
سونا یعنی بےفکر یا بے خوف ہو کر سونا۔ پرانے وقتوں میں گھوڑوں کی خرید
وفروخت آج کی گاڑیوں کے خرید وفروخت سے کم نہ تھی۔ بڑے بڑے بازار لگا کرتے
تھے جہاں سودا گر دور دراز سے آکر گھوڑے بچتے تھے۔ جس روز سارے گھوڑے بک
جاتے تو بیچارے سودا گر اُس رات بے فکر ہو کر سوتے تھے اور یوں، گھوڑے بیچ
کر سونا، محاورہ بن گیا۔
کہا جاتا ہے کہ پُرانے وقتوں میں، بعض حکمران بڑے ظالم ہوا کرتے تھے(آج بھی
وہی حال ہے) جو نافرمانی کی صورت میں، کسی کو بیوی بچوں سمیت کولھو میں
پلوا دیتے تو کسی کی کھال کھینچوا دیا کرتے،جس سے
کولھو میں پلوانا، کھال کھینچوانا وغیرہ کے سے محاوروں نے جنم لیا۔
ساتھیو! یوں تو اس وسیع اور اہم موضوع پر، لکھنے والے بہت کچھ اور شاید
بہتر بھی لکھ سکتے ہیں۔ تاہم میں نے اپنی بساط کے مطابق یہ مختصر سا مضمون
آپ کو پیش کیا ہے۔ میں نے اپنی طرف سے بھر پور کوشش کی ہے کہ جو معلومات
میں آپ تک پہنچاؤں وہ درست اور مستند ہوں۔ لیکن اگر پھر بھی، ناچیز سے کوئی
کمی بیشی ہوگئی ہو تو میں اُس کے لئیے تہہِ دل سے معذرت خواہ ہوں۔ خدا آپ
سب کو خوش وخرم اور اپنے امان میں رکھے۔ آمین
فقط آپکا اپنا،سلیم |