چند روز قبل (فروری 2012) ایک
انگریزی اخبار میں تارڑ صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے، اسے ہمارے کرم فرما
جناب عارف وقار نے لیا ہے۔ مذکورہ انٹرویو کا عنوان ہے:
At home with the wanderer
ہماری انگریزی ان اساتذہ کی اردو جیسی ہے جو گزشتہ 35 برس سے ماسکو
یونیورسٹی میں تارڑ صاحب کی تحریریں بطور نصاب طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں،
لہذا ہم نے انٹرویو کے عنوان کا ترجمہ "ایک خانہ بدوش کے گھر میں" کے عنوان
سے کیا ہے۔ انٹرویو پڑھ کر کئی دلچسپ باتوں کا علم ہوا مثلا:
A few days later, the young Tarrar was shocked to see a press statement
issued by the prime minister of Pakistan saying that Soviet Union was
Pakistan’s mortal enemy; and that the boys who had been to Moscow were
traitors and would be arrested at the Karachi airport on their return
and immediately dispatched to Mianwali jail
یہ ذکر تارڑ صاحب کے 1957 میں ماسکو کے پہلے سفر سے واپسی کا ہے، ان دنوں
تارڑ صاحب کی عمر 18 برس تھی۔ وہ تو میانوالی جیل جانے سے بچ گئے لیکن شنید
ہے کہ میانوالی جیل میں ایسے کئی قیدی موجود ہیں جنہوں نے تارڑ صاحب کے
ناولز پڑھ رکھے ہیں۔ چند ایک تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے تارڑ صاحب کا
سفرنامہ ’نکلے تیری تلاش میں‘ پڑھ کر دساور کا رخ کیا ، وہاں دھر لیے گئے
اور شکریے کے ساتھ واپس کیے گئے۔
انٹرویو میں تارڑ صاحب مزید بیان کرتے ہیں
After about half a century, in 2007, I got an invitation from The Moscow
State University to deliver a series of lectures about the influence of
Russian Classics on Pakistani literature. On that occasion, I was
bestowed the Gold Medal for Outstanding Literary Contributions.”
خفیہ ذرائع سے ہمیں یہ علم ہوا کہ تارڑ صاحب نے ماسکو یونیورسٹی میں "روسی
فن پاروں کے پاکستانی ادب پر اثرات" کے ضمن میں اپنی ہی تحریریں پیش کیں،
سند کے طور پر انہوں نے روس کے پس منظر میں لکھی اپنی تخلیقات کو پیش کیا
جن میں ان کا ناول جپسی، ماسکو کی سفید راتیں وغیرہ شامل ہیں۔ روسی فن
پاروں کے پاکستانی ادب پر جتنے اثرات تارڑ صاحب کی تحریروں میں نظر آتے
ہیں، شاید ہی کوئی دوسری مثال مل سکے۔ تارڑ صاحب کا جلد شائع ہونے والا
ناول بھی ماسکو ہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔
ماسکو یونیورسٹی کیProfessor Galina Dushenko کے لیے پاکستان یا تو فیض کی
شاعری ہے یا پھر مستنصر کا ناول۔ان کے الفاظ میں:
For us, Pakistan is Faiz’s poetry and Tarrar’s novels”
فیض کی شاعری تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، البتہ خاتون پروفیسر کے بیان کے
دوسرے حصے کو پڑھ کر ماسکو اور اسلام آباد کے خراب تعلقات کا سبب اب ذرا
واضح طور پر سمجھ میں آیا ہے۔ گزشتہ 35 برس میں تو ایک وقت ایسا بھی آیا
تھا جب یہ حالات خطرناک حد تک خراب ہوگئے تھے، خبریں گرم تھیں کہ روس کی
جانب سے حملہ اب ہوا کہ تب ہوا۔یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ خاتون پروفیسر
کے لیے پاکستان، تارڑ صاحب کا ناول ہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، یہاں ایک
مطلب تو سیدھا سیدھا یہ نکلتا ہے کہ شاید خاتون کا اشارہ یہاں تارڑ صاحب کے
ناول راکھ کے عنوان کی جانب ہے کہ وطن عزیز میں گزشتہ چند برسوں سے جو کچھ
ہورہا ہے اس کے پیش نظر خیال "راکھ" اور ’خس و خاشاک‘ ہی کی جانب جاتا ہے۔
ماسکو یونیورسٹی میں 35 برس سے تارڑ صاحب کی چند تحریریں نصاب میں شامل
ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر تحقیقی کام عموما سارا سال ہی ہوتے رہتے ہیں اور
ان کے عوض پی ایچ ڈی کی سند بھی جاری کی جاتی ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ تارڑ
صاحب کی تحریروں پر بھی پی ایچ ڈی کی جائے گی یا ہوسکتا ہے کہ اب تک کی
جاچکی ہو۔
خامہ بگوش نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ:
"مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں جن کاموں پر سزا ہوسکتی ہے، انہی کاموں پر
بعض پسماندہ ایشیائی ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ تارڑ صاحب کے
معاملے میں مندرجہ بالا بیان کو الٹ کر (مہذب ممالک سے ایشیائی ممالک کے
الٹ پھیر کے ساتھ) پڑھا جائے تو مفہوم واضح ہوتا نظر آتا ہے۔
یہ مقام شکر ہے کہ تارڑ صاحب کی تحریریں ماسکو یونیورسٹی کے نصاب میں شامل
کی گئیں، ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ ان کی محنت
ضائع نہیں ہوئی ورنہ اس قسم کی کوششوں میں ہم نے خود ادیب کو ضائع ہوتے
دیکھا ہے۔(خامہ بگوش سے معذرت کے ساتھ)
انٹرویو میں ایک ٹکڑا یہ بھی نظر سے گزرا :
Dr Christina Oesterheld, from the Institute of Modern South Asian
Languages and Literatures, Heidelberg University, Germany, is an expert
in modern Urdu Literature. She specialises in the fiction of Quratulain
Hyder, but she has declared my novel Raakh to be the most representative
piece of fiction of the whole subcontinent.”
ڈاکٹر اوسٹرہیلڈ سے جناب ابن صفی کے تعلق سے ہمارا رابطہ بھی رہا ہے، کیا
خوب خاتون ہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک غیر ملک سے تعلق رکھنے والی نے
ہمارے ادیب کے مقام کا تعین کیا ہے، یہ کام تو ہمارے نقادوں کو کرنا چاہیے۔
ایک نقاد سے ہماری اس سلسلے میں بات ہوئی تھی، کہنے لگے کہ راکھ کو پڑھنے
کے بعد ان کے ہاتھ میں سوائے راکھ کے، اور کچھ نہ آیا لہذا انہوں نے اس پر
تبصرہ لکھنے کا خیال ترک کردیا۔ہم اس شر پسندانہ رائے سے ہرگز ہرگز اتفاق
نہیں کرتے! لیکن حال ہی میں ہمیں ناقدین کے تارڑ صاحب کے بارے میں اس
معاندانہ رویے کی ایک اہم وجہ معلوم ہوئی ہے۔ دونوں طرف ہے "آگ" برابر لگی
ہوئے کے مصداق تارڑ صاحب بھی نقادوں سے سخت بیزار ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی
یہ ہے کہ تارڑ صاحب کا ایک حالیہ بیان لاہور کے الحمراءکے جنوری 2012 کے
سالنامے میں شائع ہوا ہے۔ مدیر الحراءکی ہمت کو داد ہے کہ ان کا خط شائع
کردیا۔ اپنے خط میں فرماتے ہیں:
" درانی نامہ اور محمد کاظم کی آپ بیتی ‘دن جو علی گڑھ میں گزرے‘ ایسی
تخلیقات ہیں جو الحمراءمیں مسلسل شائع ہونے والی زہر ناک اور گھٹیا تحریروں
کی کڑواہٹ بھلا دیتی ہیں جن میں کسی ایک ادبی شخصیت پرنہایت پلیدوار کیے
جاتے ہیں۔ آپ کی خواہش اور فرمائش سر آنکھوں پر۔ میں اپنے تازہ ناول کے کچھ
حصے آپ کی نذر کرتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ محفل احباب میں ہمہ وقت
موجود پر تعصب اور مدرسی نقاد اس ناول پر اپنی عالمانہ رائے دینے سے اجتناب
کریں، خاموشی اختیار کریں۔" (مستنصر حسین تارڑ)
ہم نے الحراء کے چند گزشتہ شماروں کا بندوبست کرنے کی کوشش کی ہے، ہم یہ
دیکھنا چاہتے ہیں کہ محفل احباب میں ایسے کون سے "پر تعصب اور مدرسی نقاد‘
ہیں جنہیں سوائے الحمراءکی محفل احباب میں موجود رہنے کے، اور کوئی کام ہی
نہیں۔
استاد لاغر مراد آبادی نے مذکورہ خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ "اس عزیز نے اب
تک جتنے ناولز لکھے ہیں ان پر ان کے اپنے الفاظ میں ‘خاموشی اختیار کرلینا‘
ہی بہتر ہے۔
لیکن تمام لوگ ایک جیسا نہیں سوچتے۔ ڈاکٹرظہور احمد اعوان مرحوم نے دو برس
قبل تارڑ صاحب کے بارے میں اپنی ایک عقیدت بھری تحریر میں لکھا تھا کہ
"تارڑ نے یہی کارنامہ کر دکھایا ہے کہ معمولی کو غیر معمولی بنا دیا ہے اور
عام باحیا خواتین کے کرداروں کو پہاڑوں‘ صحراؤں اور جنگلوں کی بستیوں میں
افسانوی کردار بخش کر زندہ و امر کر دیا ہے۔"
اعوان صاحب کے اس بیان کے پہلے حصے سے ہمیں مکمل اتفاق ہے کہ تارڑ صاحب کی
تحریروں کے ہم بھی مداح ہیں لیکن تارڑ صاحب کے سفرناموں و ناولوں بالخصوص
نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی اور جپسی میں "عام باحیا خواتین" تو
ڈھونڈ ے سے نہیں ملتیں۔ بلکہ ایک آبی ذخیرے کے کنارے غسل کرتی جن خواتین کا
تفصیلی بیان’ اندلس میں اجنبی ‘میں ملتا ہے، ان میں تو حیا بھی ڈھونڈے سے
نہیں ملتی۔ اگر حسن اتفاق سے تارڑ صاحب کو ڈاکٹر ناژلا سعد، پاسکل،
مارگریتا اور مرسیڈس جیسی باحیا خواتین دوران سفر مل بھی جاتی تھیں تووہ
بھی ملاقات کے بعد اپنی حیا اور تارڑ صاحب، دونوں کو ڈ ھونڈتی پھرتی
تھیں۔تارڑ صاحب کے سفراندلس کے دوران ان کی ملاقات ڈاکٹر ناژلا سعد سے ہوئی
تھی، مختصر وقت ہی میں ان کے اس نیک بی بی سے تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے کہ
وقت رخصت، دونوں قرطبہ کی ایک بند گلی میں پہنچ گئے تھے اور جہاں بقول تارڑ
صاحب، ’ اسے چھونے کے لیے مجھے خلیل جبران کی ضرورت نہ تھی‘۔ تارڑ صاحب تو
ڈاکٹر ناژلا کو چھوڑ کر کب کے پاکستان واپس آگئے لیکن مذکورہ سفرنامے کا
قاری اب تک اس بند گلی ہی میں بھٹک رہا ہے۔
ایک زمانے میں تارڑ صاحب کے سفرناموں کی مقبولیت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ
راوی کے بیان کے مطابق لاہور کے یعقوب ناسک لندن علاج کی غرض سے گئے، وہ
ٹیوب میں سفر کررہے تھے، ان کے برابر میں ایک انگریزی خاتون محوخواب تھیں
،سوتے سوتے ان کا سر یعقوب صاحب کے کندھے سے آلگا۔ انہوں نے خاتون کو جگاتے
ہوئے کہا ” بی بی اٹھو! میں یقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں“۔
ظہور اعوان صاحب عقیدت میں اس قدر بڑھ گئے اور یہ لکھنے سے بھی نہیں چوکے
کہ "میں کسی زمانے میں مستنصر حسین تارڑ سے کہا کرتا تھا کہ تارڑ صاحب آپ
کمرے سے غسل خانے تک جائیں تو اتنے عرصے کا بھی سفرنامہ لکھ دیں گے۔"
اس جملے سے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ تعریف ہے یا کچھ اور۔ اعوان صاحب
نے یہ غور نہیں کیا ان کی رائے پر عمل کے نتیجے میں تارڑ صاحب کے قاری کو
ایک محتاط اندازے کے مطابق سال میں ان کے1095 سفرنامے پڑھنے کو ملیں گے۔
تارڑ صاحب کے ناشر کو چھوڑ کر ان کے قارئین کو اس کا کتنا مالی نقصان ہوگا،
اعوان صاحب نے اس بارے میں نہیں سوچاتھا۔
تارڑ صاحب کے سفرناموں نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی اور ناول فاختہ
پر معروف ادیب محمد خالد اختر کے تند و تیز مضامین بھی خاصے کی چیز ہیں۔ ان
مضامین میں ستائش بھی ہے اور تنقید بھی ، محمد خالد اختر کے منفرد اسلوب نے
ان مضامین کو کتابوں پر کیے گئے تبصروں میں ایک الگ مقام دیا ہے۔
انٹرویو کے آخر میں تارڑ صاحب سے ایک دلچسپ سوال کیا گیا:
Wearing so many feathers in his cap — a travel writer, a novelist, a
playwright, a columnist, a television presenter and an actor — how would
he like to be remembered, say, 50 years from now, I ask. He looks
directly into my eyes for the first time during the conversation and
puts me a counter question, rather wryly, “Fifty years from now, or
fifty years from the day I’m buried under tons of soil in my family
graveyard?”
تارڑ صاحب نے جواب دیا:
“All these feathers in my cap will
be blown away by the dust-storm of time. The travel writer, the
novelist, the media person will vanish in the fog of future. If,
however, the impossible happens and some crackpot discovers me in the
future, I would like to be remembered as a person who devoted his whole
life sweating at his study table, as a travel writer and a novelist.
Presumptions are pretensions but two of my novels, Bahaao and
Khaso Khashaak Zamanay may survive
مقتدرہ قومی زبان کی پانچ کلو وزنی لغت میں crackpotکے معنی خبطی، سنکی،
نیم باؤلا، پاگل درج ہیں۔ یہاں یہ بات تعجب خیز ہے کہ تارڑ صاحب اپنے کام
کو کسی ‘کریک پوٹ‘ ہی سے کیوں دریافت کروانا چاہتے ہیں۔ وطن عزیز میں آج
بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو مذکورہ لفظ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں لیکن
روز بروز بڑھتے معاشی و معاشرتی مسائل کے پیش نظر اس بات کا قومی امکان ہے
کہ پچاس برس کے بعد ایسے افراد کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہوگا لہذا
اگلے پچاس برس بعد بھی یہ کام کئی ایسے لوگ بخوشی کرنے پر تیار ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پچاس برس بعد ہمارے ممدوح کو دریافت کرنے والے نے ان کے
ناولز پڑھ رکھے ہوں، اس صورت میں یہ تلاش بیحد سہل ہوجائے گی۔
چند برس قبل وائس آف رشیا کی ا ناؤنسر ایرینا ماکسی مینکو نے تارڑ صاحب کا
انٹرویو کیا تھا جو مذکورہ ریڈیو سے 27 جون 2007 کو نشر ہوا تھا، انٹرویو
میں تارڑ صاحب نے انکشاف کیا کہ ماسکو یونیورسٹی کیProfessor Galina
Dushenko"نکلے تری تلاش میں" کو بائبل کی طرح پڑھتی ہیں۔واضح رہے کہ تارڑ
صاحب نے زیر تبصرہ انٹرویو میں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے۔
روسی بحیثیت قوم خدا پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی کوئی مذہبی کتاب
ہے، لہذا پروفیسر صاحبہ نے "نکلے تری تلاش میں" کو ہی ایک مذہبی کتاب کا
درجہ دے دیا۔ خاتون چونکہ تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں اور اب تک ہزاروں
لاکھوں طالب علموں میں علم بانٹ چکی ہیں، لہذا اس بات سے یہ خدشہ بھی لاحق
ہوتا نظر آتا ہے کہ اگر آنے والے وقت میں خاتون پروفیسر کے پیروکار بھی
انہی کے نقش قدم پر چل پڑے تو اس بات کا قومی امکان ہے کہ پچاس برس کے بعد
"نکلے تری تلاش میں" روس کی مذہبی کتاب قرار پا سکتی ہے۔ یہ ہر گھر میں طاق
پر رکھی ملے گی، لوگ اس کے ابواب کے تعویذ بنایا کر گلے میں پہنا کریں گے،
فال نکالنے والے اس سے فال نکالا کریں گے۔ اور کم و بیش یہ وہی وقت ہوگا جب
وطن عزیز میں کوئی "کریک پاٹ" تارڑ صاحب کو دریافت کررہا ہوگا۔
تارڑ صاحب کے انٹرویو میں ایک جگہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کو لکھتے ہوئے
45 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔
ادھر ہمارے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اب تک ہم نے تارڑ صاحب کی تحریروں کے
بارے میں اپنی ذاتی رائے کیوں محفوظ کر رکھی ہے سو اس بارے عرض ہے کہ ہم
اوائل عمری ہی سے ان کے بڑے مداح رہے ہیں، نکلے تری تلاش میںخانہ بدوش،،
اندلس میں اجنبی،جپسی ، پیار کا پہلا شہر ، ہنزہ داستان، کے ٹو کہانی تو ہم
نے گھول کر پیے ہوئے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے بعد کے سفرناموں اور
ناولوں نے گھلنے سے انکار کردیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہاں ہمیں اپنے محبوب
مصنف جناب ابن صفی کا تحریر کردہ ایک واقعہ یاد آرہا ہے جسے درج کرنے میں
ہمیں کوئی قباحت نظر نہیں آتی:
ایک بار کا ذکر ہے کہ انگریزی کے مشہور مصنف ایڈگر ویلس نے اپنے مداحوں کے
ایک مجمع میں بڑے خلوص سے کہا۔ " پچاس ناول لکھنے کے بعد ہی مجھے ناول
لکھنے کا سلیقہ ہوا ہے۔
چھوٹتے ہی ایک صاحبزادی نے فرمایا " کاش ایسا نہ ہوا ہوتا! اب تو آپ بور
کرنے لگے ہیں۔ شروع شروع کی کتابوں کا کیا کہنا۔ کاش آپ ماضی میں چھلانگ
لگا سکیں۔" |