سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

عجب دور دیدم تیری بادشاہی۔فارسی کا یہ فقرہ میرے قابل احترام دوست عثمان حسن زئی نے کراچی کے علاقے صدر موبائل مارکیٹ میں بنے جدید ترین سہولیات سے آراستہ اسٹار سٹی مال کے گراؤنڈ فلور میں موبائل کی خریداری کرتے ہوئے کہا۔ میں بھی چونک سا گیا کہ کیا عجیب چیز دیکھ لی ہے حسن زئی صاحب نے ۔ میں نے کندھے اچکاتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کیا تو اس نے نوجوان دوکاندار کی جانب میری توجہ مبذول کروائی۔ میں نوجوان کا بغور جائزہ لینے لگا۔ چست پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوان مغرب سے کچھ زیادہ ہی متاثر نظر آرہاتھا کیونکہ اﷲ معاف فرمائے اس نے داڑھی کا جو حشر کیا ہوا تھا وہ تو نہ فرنچ تھی نہ ہی خشخشی اور نہ ہی خط وغیرہ بنا کر داڑھی کو سیٹ کیا گیا تھابلکہ کلموں سے بالوں کی دوباریک لکیریں ٹھوڑی کے نیچے تک آئی ہوئی تھی اور ٹھوڑی پر بھی باریک لکیر ناک کی سیدھ میں کھینچی ہوئی تھی۔اس دکان دار کے چہرے سے میں نے اپنی نظروں کو تھوڑا سا اوپر کی جانب سرکایا تو میرا گمان یقین میں بدل گیا کہ واقعی بندہ مغرب سے حد درجہ متاثر ہے ۔ اس نوجوان کے سر کے بالوں کا اسٹائل بھی تو دیدنی تھا! اول تو میں سمجھا کہ شاید بالوں میں کنگی نہیں کی اس وجہ سے بال بکھرے ہوئے ہیں لیکن بغور جائزہ لینے سے یہ خیال سراب ثابت ہوا ۔بلکہ تینوں سمت سے بالوں کو اوپر کی جانب زبردستی کھڑا کیا گیا تھا۔ شکر ہے پیچھے کی جانب سے بال حسب توقع نیچے کی جانب تھے۔میں نوجوان کو دیکھنے میں ایسا مگن تھا جیساکہ کوئی انوکھی چیز کو دیکھ کراسی میں محوہو جاتا ہے کہ اسی اثنا میں نوجوان دکاندار نے میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلا کر پوچھا خیریت تو ہے نا!کن خیالوں میں کھوئے ہوئے ہو ؟میں لمحہ بھر کے لیے سنبھلااور اس سے مخاطب ہوا ۔ بس کچھ نہیں ویسے ہی آپ کی داڑھی اور سر کے بالوں کو دیکھ کر چونک ساگیا۔ بے فکرا نوجوان سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہو ا جناب ! یہ تو آج کل کا نیو ہیئر اسٹائل ہے ۔ عثمان بھائی نے دوستانہ لہجے میں کہا یہ کیسا اسٹائل ہے ؟ ایسا لگتاہے جیسے نہا دھوکر ، صاف ستھرے کپڑے پہن کر آئے ہو لیکن سر میں کنگی کرنا بھول گئے ہو! نوجوان کہنے لگا سر یہ تو آج کل کا برگر اسٹائل ہے برگر!

موبائل خریدنے کے بعد نوجوان سے ہاتھ ملاتے ہوئے رخصت ہونے لگے تو نوجوان کے ہاتھ میں مختلف قسم اور رنگا رنگ باریک اور موٹے پٹے بھی پہنے ہوئے تھے ۔ میں پٹا ہاتھ میں تھامے اس کے متعلق دریافت کرنے لگا۔ تو وہ کہنے لگا اس کے پہننے کا آج کل فیشن ہے ۔ شائستگی سے میں نے اس سے نام دریافت کیا۔ تو کہنے لگا ”حسّان “! لمحہ بھر کے لیے میں سکتے میں آ گیا کہ نام تو اس صحابی ؓ کا رکھا ہے جو مداح رسول تھا ۔جو حضور اقدس ﷺ کی شان اقدس میں قصیدے پڑھا کرتے تھے ، اور مشرکین کے جواب میں فلبدی اشعار کہا کرتے تھے ، جس سے حضور اور صحابہ کے دل کو تسکین ملا کرتی تھی ، حسان بن ثابت ؓ وہ صحابی تھے جن کو سرورکائنات ممبر رسول پر بٹھا کر خود نیچے تشریف فرماہوتے اور حسان سے فرماتے تم ان مشرکین کا جواب دو۔میرے دل سے بے ساختہ ”ہائے “ نکلا اور میں ایک سرد آہ بھرکر رہ گیا۔کہ اے کاش! کم از کم اس عظیم صحابی کے نام ہی کی لاج رکھ لی ہوتی ۔ ایسا عظیم نام رکھ کر ایسی نازیبا حرکتیں کرنا یہ تو اس نام کی تذلیل ہے ۔

دین اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے جس نے صرف عقائد وعبادات ، معاملات ومعاشرت ہی کی تعلیم سے اپنے ماننے والوں کو آراستہ نہیں کیا بلکہ اپنے پیروں کاروں کو ایک منفرد ظاہری اور باطنی شناخت بھی عطا کی ہے اور غیراقوام کی شکل وشباہت اپنا نے سے انہیں نہایت سختی سے روکا بھی ہے ۔ مگر صد افسوس کے پیغمبر دوجہاں ﷺ کے امتی دعویٰ تو آپ کی محبت کا کرتے ہیں مگر شکل وصورت میں نقالی دشمنان اسلام کی پسند کرتے ہیں۔ خدا نخواستہ ہمارا دین کوئی نامکمل دین تو نہیں جو ہم اس کو مکمل کرنے کے لیے غیروں کی نقالی ، کفار کے طور طریقے ، اغیار کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔

داڑھی توایک ایسی متفقہ سنت انبیاءہے ۔جو صرف ہمارے نبی ہی کی نہیں بلکہ تمام انبیاءعلیھم السلام کی سنت ہے ۔ اسے روز صبح نالی میں بہاتے ہیں اور ایسی وضع قطع اختیار کرتے ہیں کہ جو مشرکین کی بھی ہوتی توپاک پیغمبر ان کی طرف سے رخ پھیر لیتے ، نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کرتے۔ قیامت کے دن اگر شافع محشر اعراض فرمادیں کہ تم میرے کیسے امتی ہوکہ جسے میری شکل وصورت بھی پسند نہیں ۔اور میرے دشمنوں کی شکل وصورت تم اپنائے ہوئے ہو میں تمہاری شفاعت نہیں کرتا تو کیا حال ہوگا ؟

روز بروز معاشرہ بھی عجیب سے عجیب تر ہوتا جارہا ہے۔ جس کی مرضی میں جو داڑھی کی کٹنگ سمجھ میں آئی وہی کر ڈالی ، کسی نئی فلم یا ڈارامے میں کسی پسندیدہ اداکار کی داڑھی کا اسٹائل دیکھا تو اگلے روز چھوٹتے ہی سب سے پہلا کام داڑھی کو اسی اسٹائل میں بنا نا ہوگا۔ آپ شہر بھر میں گھومیں اور داڑھی کی مختلف کٹنگ پر غور کریں تو نت نئے طریقے جو کسی چیز پر نہیں آزمائے جاتے وہ نبی کی اس مبارک سنت پر آزمائے جاتے ہیں ۔ کیا داڑھی ہی ایک ایسی بے وقعت اور بے قدر چیز ہے کہ جس کے جی میں جو آئے اس کے ساتھ کرگزرے؟ داڑھی شعائراسلام میں سے ہے اور داڑھی کی توہین دراصل شعائر اسلام کی توہین ہے ، اس کی توہین آقا مدنی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی توہین ہے ، اس کی توہین تمام انبیاءعلیھم السلام کی سنت کی توہین ہے ۔ کیونکہ جس نے داڑھی رکھنے سے اعراض کیا گویا اس نے تمام انبیاءکی سنت سے اعراض کیا ۔ خدارا ہوش کے ناخن لو اور غیروں کی نقالی میں اس قدر آگے مت بڑھو کہ اپنے انبیاءکی توہین کے مرتکب ٹھہرو!

مسلمان کا آئیڈیل صرف اور صرف حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات ہوسکتی ہے کوئی اور شخصیت نہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حضور ﷺ کے شمائل پڑھیں اور ان کی شکل وصورت اپنانے کی کوشش کریں نہ کے غیروں کی ، ہو سکتا ہے ہمارا یہ حضور کی شکل وصورت اپنا نے کا عمل ہی اﷲ کی بارگاہ میں مقبول ٹھہرے اور ہمارا بیڑہ پار لگ جائے ۔ تاریخ کے سیاہ باب میں رقم بدترین آمر پرویز مشرف نامی وقت کے فرعون نے حکمرانی کے خمار میں مست ہوکر تو اپنا آئیڈیل کمال اتاترک کو قرار دیا تھا عین ممکن ہے کہ میدان حشر میں بھی غرور انانیت کے پیکر کو اپنے تمام آئیڈیلوں کے ساتھ صف میں جگہ مل جائے ۔

حدیث شریف میں آتا ہے ” کہ جس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے“ تو ہمیں بھی اپنی شکل و شباہت پر نظر رکھنی چاہیے اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار کہ کہیں ہماری شکل وشباہت غیروں سے تو میل نہیں کھارہی ، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس گناہ عظیم کو ہم گناہ ہی نہیں سمجھتے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ رفتہ رفتہ ہمارے دلوں سے شعائر اﷲ اور شعائر اسلام کی تعظیم ہی مفقود ہوتی جارہی ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ غیر محسوس طریقے سے غیروں کے کلچر کو اپنانے کے بعد اب ہم ان کے مذہب کو بھی اپنا رہے ہیں؟ کہیں خدا نخواستہ ایسا تو نہیں کہ غیروں کی شکل وصورت اپنانے کی وجہ سے ہمیں غیروں میں شمار کیا جا چکا ہے ؟ اب بھی وقت ہے مدہوشی سے ہوش میں آنے کا ، اب بھی وقت ہے غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کا، اب بھی وقت ہے مغربی طرز زندگی کو چھوڑکر مدنی زندگی اپنا نے کا ، اب بھی وقت ہے توبہ کا ۔ موت سے قبل توبہ کا دروازہ کھلا ہے لیکن یاد رہے کہ موت کا علم کسی کو نہیں کہ موت کب ، کیسے ، اور کس پر آنے والی ہے ۔ شیطان کے اس دھوکہ میں بھی مت رہیئے گا کہ ابھی وقت ہے جوانی کو اپنی مرضی سے گزار لیتے ہیں پھر بڑھاپا رب کی مرضی پر گزار لینگے۔ شاعر نے کیا خوب کہا۔۔۔ آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں!
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.