ڈاکٹر عافیہ .... ہمار ا کیا تعلق ہے؟

گزشتہ کئی ماہ سے کچھ لکھا نہیں جا رہا، یہی وجہ ہے کہ نقوش قلم اخبارکے صفحات سے غائب ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم نے پڑھنا اور لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کام کاروبار میں لکھنے پڑھنے کی فرصت کہاں رہتی ہے۔ کچھ دوست ہماری روائتی سستی خیال کرتے ہیں۔ ہمارے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ کالم نویس محض فرسٹیشن کو فروغ دے رہے ہیں، ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، بعض لوگ کالم نویسی کو مایوسیاں پھیلانے کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ ہم سارے تبصروں کو مسکرا کر ٹال دیتے ہیں۔

لکھنا تو آج بھی مشکل ہے لیکن دل کو آخر کسی دن ہلکا بھی تو کرنا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ محمود احمد صاحب جانی پہچانی شخصیت ہیں، تعلیمی میدان میں ان کا بڑا کام ہے۔ ریڈ فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔ وہ اخبار بینی اور ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، کچھ دن ہم نے بھی غیر مقلد ہونے کے باوجود تقلید کی۔ اخبار کی خبروں پر سرسری نظر ڈالی اور کالم اور ادارے کو دیکھنے سے گریز کیا۔ رات ڈھلنے کے بعد گھر جانے کی پرانی عادت کی وجہ سے ٹی وی سے بھی دور رہنے کا تجربہ کیا لیکن بات وہیں کی وہیں رہی۔ احتیاط کے باوجود جس اخبار پر نظر پڑتی ہے، جس ویب سائٹ کو دیکھا، ڈاکٹر عافیہ کی دکھ بھری تصویر کہیں نہ کہیں نظر آجاتی ۔ یہ وہ تصویر ہے ، جس سے میں ڈرتا ہوں۔ جب کچھ پڑھتا ہوں یا جب کبھی کچھ لکھنے کے لیے کمپیوٹر کے سامنے ہوتا ہوں تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی تصویرمیرے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے۔ میں خوف کے مارے کسی دوسرے کام میں مصروف ہو جاتا ہوں اور ان خیالوں سے جان چھڑانے کی خاطر خود کو دوسری طرف متوجہ کرتا ہوں۔ کئی ماہ گزر گئے ہیں لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

آج میں اپنے خوف کو قارئین سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ڈاکٹر عافیہ سے کوئی تعلق نہیں، اس سے میرا کوئی رشتہ نہیں، مجھے نہیں پتہ کہ وہ کس ملک کی شہری ہے، مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کس جرم کی سزا پا رہی ہے اور مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ امریکی عدالت نے اسے سزا سنانے سے پہلے انصاف کے تقاضے پورے کیے کہ نہیں۔ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور نہ میں اس کے بارے میں کچھ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ نہ مجھے اپنے کشمیری بھائیوں سے کچھ کہنا ہے اور نہ اس بارے میں کچھ اپنے مسلمان بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے اہل پاکستان سے بھی کچھ نہیں کہنا اور نہ پاکستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں سے کوئی بات کہنی ہے۔ مجھے عالم اسلام سے بھی کوئی بات نہیں کرنی اور نہ ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں کوئی گلہ گزاری کرنی ہے۔ میں یہ اظہار کر چکا ہوں کہ میرا اس خاتون سے کوئی رشتہ نہیں، مجھے اس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے، اسے بھلا دینا چاہتا ہوں اور اس بارے میں نہ کچھ مزید معلوم کرنا چاہتاہوں اور نہ کوئی معلومات کسی کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔

اس کے باوجود کہ اس کا تعلق پاکستان سے اور وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کے باوجود یہ وہ پرامن شہری تھی، دنیا میں اس کے پائے کا کوئی نیورو سرجن موجود نہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ صرف اسلام کی اشاعت کے لیے محض لٹریچر تقسیم کرتی تھی۔مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنا کوئی الزام ثابت نہیں کر سکی اور وہ بندوق بھی عدالت میں پیش نہیں کرسکی، جس سے مبینہ طور پر ڈاکٹر عافیہ نے امریکیوں پر فائر کیا تھا۔

اسے مشرف نے امریکیوں کے حوالے کیا تو مجھے کیا ہے،اسے سنگین ترین سزائیں دی گئیں اور اس کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا، امریکہ جیسی عالمی طاقت نے ایک کمزور عورت کو نشانہ بنایا ، اس پر ظلم کیا، انصاف کے نام پر بے انصافی کی۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میں خاموش رہنا چاہتا ہوں۔ میں اسے بھلا دینا چاہتا ہوں۔ میں نہ اس کا نام سننا چاہتا ہوں اور نہ اس کی تصویر دیکھنا چاہتا ہوں۔ وجہ ایک ہی ہے کہ مجھے اس سے خوف آتا ہے۔ اس کا خاموش چہرہ مجھے سے ہزاروں سوال کرتا ہے۔ اس کا نام میرے لیے کرب کی علامت بن چکا ہے۔ میں سارے لکھنے اور پڑھنے والے لوگوں سے، ڈاکٹروں ، علماء کرام، صوفیوں، ولیوں،قطبوں اور ابدالوں سے، گدی نشینوں اور مجاوروں سے صحافیوں اور اخبار بینوں سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اس نام اور اس تصویر سے مجھے ڈر کیوں لگتا ہے۔ عافیہ نام سے مجھے خوف کیوں آتا ہے اور اس کے خاموش اور زخم آلودہ چہرے سے میں کیوں ڈرتا ہوں اور امریکی اور مشرف نے اسے نرم چارے کے طور پر کیوں اپنے ستم کا نشانہ بنایا۔ کیا میں ڈرپوک ہوں اور وہ بہادر ہیں۔ کیا میں کمزور ہوں اور وہ طاقتور ہیں۔ کیا میں بے نام ہوں اور وہ بڑے ہیں۔ مجھے کوئی بتلائے نا، میں کیا کروں۔ جس کی تصویر سے مجھے ڈر لگتا ہے ، وہ خود کتنی خوف ناک ہوگی، آخر امریکی کیوں نہیں ڈرتے، جس مشرف نے اپنی بیٹی کو ڈالروں کے عوض بیچ دیا، جن سرکاری اہل کاروں نے مشرف کے حکم پر اسے گرفتار کیا، جن لوگوں نے اسے درندوں کے سپر د کیا وہ کیوں نہیں ڈرے؟ کیا یہ خوف صرف میرے جیسے لوگوں کے لیے ہے۔ کیا یقینا میں اور میرے جیسے دیگر لوگ جو اپنا احساس جرم چھپائے بیٹھے ہیں وہی ڈرپوک ہیں۔

مجھے پتہ ہے کہ دنیا کو امن و آشتی دینے کا نسخہ صرف ہم مسلمانوں کے پاس ہے۔ فرد سے کائنات تک ہر ایک کو انصاف صرف اسلام دے سکتا ہے۔ یہ نسخہ ابھی تک صرف غلافوں میں بند ہے، اس لیے دنیا میں ناانصافی، ظلم اور دہشت گردی ناچ رہی ہے۔ جب قرآن اس کائنات کا دستور بنے گا تو نہ کوئی عافیہ انصاف کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گی اور نہ کوئی مجھ جیسا ڈرپوک عافیہ کے نام سے خوف زدہ ہوگا۔ لیکن مجھے کوئی بتلائے کہ میں اس خوف سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں ۔ جب تک یہ خوف میرے دل و دماغ پر مسلط ہے میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوں۔ میںنے اپنی بزدلی کا اظہار بھی کر دیا ہے اور بیماری کا بھی، مجھے بتلائیے کہ اس کا حل کیا ہے؟
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117178 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More