ایسے لوگ مومن نہیں جو اپنے فیصلے طاغوت سے کروائیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان کی نفی کی ہے جو اپنے فیصلے طاغوت کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں ۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوٓا۟ إِلَى ٱلطَّٰغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوٓا۟ أَن يَكْفُرُوا۟ بِهِۦ وَيُرِيدُ ٱلشَّيْطَٰنُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًۭا ﴿60﴾

ترجمہ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے (سورۃ النساء،آیت 60)

سید ابولاعلیٰ مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

یہاں صریح طور پر طاغوت سے مراد وہ حکام ہیں جو قانون الہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ۔اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ کتاب اللہ کو آخری سند مانتا ہو۔لہذا یہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے جانا ایمان کے منافی ہےاور اللہ اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت ماننے سے انکار کر دے۔قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر دونوں لازم و ملزوم ہیں اور اللہ اور طاغوت دونوں کے آگے جھکنا عین منافقت (بلکہ کفر ) ہے۔(تفہیم القرآن: صفحہ 367) (1)

آپ غور فرمائیے جو حکمران اُن قوانین کو ملک کے عوام پر نافذ کرتے ہیں جو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں ،چاہے وہ مارشل لاء ہو،یا اسمبلی کا پاس کردہ قانون،یا کسی ایک شخص کا بنایا ہوا ،وہ سب طواغیت ہیں۔اور جو شخص طاغوت سے فیصلہ کروانا چاہتا ہے (يَزْعُمُونَ) کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان قوانین پر چلنے والوں کے دعویٰ ایمانی کو جھٹلا دیا کہ یہ ایمان دار بنتے ہیں لیکن یہ طرز عمل اور ایمان ایک بندے کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے کہ اللہ اور آسمانی شریعت پر ایمان رکھنے کا دعوی بھی کریں اور اپنے معاملے کے تصفیے کے لیے طاغوت سے رجوع کریں ۔شیطان نے ان کو گمراہ کر دیا ہے۔(وَقَدْ أُمِرُوٓا۟ أَن يَكْفُرُوا۟ بِهِۦ) "تحقیق اُن کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے" فرما کر ہر مسلم پر لازم کر دیا ہے کہ وہ طاغوت سے دشمنی کرے ۔یہ طاغوت چاہے دیہاتوں میں قبیلوں کے سرداروں کی پنچائیت،ثالثی کمیٹی یا جرگہ کی صورت میں ہوں جو کتاب و سنت کی بجائے رسم و رواج کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں یا وہ عدالتیں ہوں جو اسلامی ممالک میں ہی موجود ہوں۔یہ عدالتیں اسمبلی کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق کتاب و سنت سے آزاد ہو کر لوگوں میں فیصلہ کرتی ہیں جن پر پولیس اور فوج زبردستی عمل درآمد کرواتی ہے ۔اس سے بڑھ کر اور کفر کیا ہو سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اعلان کیا ہے:
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَٰفِرُونَ ﴿٤٤﴾
ترجمہ: اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں(سورۃ المائدہ،آیت44)

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ﴿45﴾
ترجمہ: اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بےانصاف ہیں(سورۃ المائدہ،آیت45)

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ﴿47﴾
ترجمہ: اور جو اللہ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرماں ہیں(سورۃ المائدہ،آیت47)

اللہ ایسے لوگوں کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہوں! ہرگز نہیں ،یہ لوگ پکے کافر ہیں۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں طاؤس رحمہ اللہ وغیرہ سے جو روایت آئی ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کے علاوہ کسی اور چیز سے فیصلہ کروانے والا کافر ہے۔(رسالہ تحکیم القوانین)

جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے زکوۃ نہ دینے والوں کے کلمہ کا اعتبار نہ کیا اور ان کو قتل کیا تو بشری قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والے بھی مذکورہ آیت کی رو سے یقینا کافر ہیں،چاہے وہ کلمہ پڑھتے ہوں۔

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں :
پس جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت اس طرح کرتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور جگہ سے فیصلہ کراتا ہے یا اپنی خواہشات کی تکمیل میں مگن ہے تو گویا اس نے عملا ایمان اور اسلام کی رسی کو گردن سے اتار پھینکا۔اس کے بعد خواہ وہ کتنا ہی ایمان کا دعوی کرے بے کار ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ "طاغوت کا انکار کرنا" توحید کا سب سے بڑا رکن ہے ۔جب تک کسی شخص میں یہ رکن نہیں ہو گا اور موحد نہیں کہلاسکتا۔(ھدایۃ المستفید:1223)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ ایمان کے لیے زبان سے اقرار لازم ہے ،صرف دلی طور پر تصدیق کافی نہیں ہے۔اقرار دل کی تصدیق کے تحت ہے اور دل کا عمل اطاعت اور جھکاؤ ہے،رسول اللہ ﷺ کی طرف اور رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرنا ہے اور جو بھی آپ ﷺ نے حکم دئے ہیں ان کو ماننا جس طرح کہ اللہ کے اقرار کا معنی ہے: اس کی ذات کا اعتراف اور اس کی عبادت کرنا۔کفر کا مطلب ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو نہ ماننا چاہے وہ جھٹلا رہا ہو یا تکبر کی وجہ سے یا انکار اور اعراض کی وجہ سےہو،یہ کفر ہے۔جس کے دل میں تصدیق اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف جھکاؤ و اطاعت نہ ہو وہ کافر ہے۔(مجموع الفتاوی7/638-639)

(کتاب عقیدۃ الموحدین از ابوعبداللہ الرحمن السلفی)
Khalid Mahmood
About the Author: Khalid Mahmood Read More Articles by Khalid Mahmood: 24 Articles with 49988 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.