کیا آپ بھی محسوس کررہے ہیں؟

انسانیت کی تذ لیل اور لاش کی بے حرمتی مبادا کہ پہلی مرتبہ کسی جانور نے کی ہو۔شاید اسی بنیاد پر شیر جیسے جانور کو درندہ کہاگیاکیونکہ وہ انسان کا دشمن گرداناجاتارہا‘اور شاید اب بھی ہو۔قدیم دور میں جب انسان جنگلوں میں رہاکرتے تھے تووہ گھات میں رہتاجب کبھی موقع ملا تو اس نے اپنی بھوک مٹانے کیلئے انسان کو دبوچ کر زخمی کیا اور پھر پے درپے وار کرکے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔گوشت نوچ نوچ کر کھاگیااور ہڈیاں رہ گئیں۔اور یہی ہڈیاں بعد میں اس شخص کی موت کا ثبوت ہوتیں جب لوگ اپنے پیارے کو اُس جنگل میں تلاش کرتے۔وہ ہڈیوں کو اپنے اپنے مذہبی و ثقافتی رنگ میں آخری رسوم ادا کرنے کیلئے یقینا لے جاتے ہونگے۔پھر انسان نے ترقی کی اوربستیاں بنیں ‘زراعت کاشعبہ عمل میں آیا۔

دیکھتے دیکھتے بستیاں قصبے اور پھر شہر آباد ہونے لگے۔اس کی حتمی تاریخ بتانا تو مشکل ہے بہرطور ہزاروں سال قبل مسیح انسانی آبادیوں نے گلیوں ‘محلوں کی شکل اختیارکی۔پہلے راتوں کو آگ جلا کر بشردشمن درندوں سے بچنے کا سامان کیا جاتاتھا۔لیکن اب اندھیروں میں انسانی آبادی کو انسان ہی سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ڈاکے ‘چوری کا رواج ہواتو رکھوالوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور پھر یوں حاکمیت اور پھر سیکورٹی فورسز کے نظریئے نے جنم لیا۔اور آگے چل کر انہی قوتوں کے مابین جنگیں ہوئیں ۔کبھی فرسودہ مذہبی روایات کے نام پر انسان نے انسان کو کاٹاتو کبھی انتقام کی آگ نے قصبوں اور بستیوں کا نشان ہمیشہ کیلئے مٹادیا۔اللہ کے پیغمبر آتے رہے ‘تعلیمات دیتے رہے لیکن بیشتر انسانوں نے اسے ٹھکرادیا۔کیونکہ ایساکرنے سے انکی رعونت ‘املاک‘اور گردنوں پر حکومت کی چولیں ہلنے لگتی تھیں۔

لہذا اللہ کے نبیوں ‘رسولوں کو کسی نے تہہ تیغ کیاتو کسی نے ان کی تعلیمات کو روندا۔تحریف کی اور مذہب کے اندر بالکل ایسے ہی مذہب پیداکرلیاجیسے آج استعمار ریاست کے اندر ریاست کوجنم دینے پرتلاہے۔پھر خاتم النبی ﷺ تشریف لائے اور عالمگیرمذہب کا تصوردیا۔خلافت نے اپنے روشنی چار سو پھیلائی اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ انسانیت کے عروج کا زمانہ تھا۔

اور اب اس بات کو یہیں بند کرکے ذرا اس واقعہ کی جانب آتے ہیں جس نے ہماری ریاست کو چھ عشروں سے جکڑرکھاہے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ
ہم نے خود شاہی کو پہنایاہے جمہوری لباس
جب کبھی آدم ہواہے خودشناس وخودنگر

یعنی ایک حاکم کی جگہ اب چار سواچار سو متکبرلوگ آپ پر حاکم ہوں گے ۔غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگاکہ آج بھی وہی جبرہے وہی اناکابت ہے جس نے حضرت موسیؑ کی پیدائش پر ہزاروں بے گناہوں کو موت کی نیند سلادیاتھامگر میرے رب کی قدرت سے ناواقف تھاکیونکہ کلیم اللہ ؑ جس نے اس کی سلطنت کو پارا پاراکرناتھااُس کے گھرمیں ہی پل رہے تھے۔یہ لوگ بھی ہزار جتن کررہے ہیں کہ بوسیدہ نظام بچ جائے ‘فرسودہ اور انسانیت سوز رسم ورواج پر زوال نہ آئے ۔لیکن اب وہ وقت قریب ہے جب تباہ حال قوم سدھرے گی۔تازہ ترین بیان میں چیف جسٹس نے وحیدہ شاہ سے کہا:آپ نے تھپڑ خاتون نہیں ریاست کے منہ پرماراہے“۔وحیدہ شاہ نے چند دن قبل سکول ٹیچر کے چہرے پرپولنگ سٹیشن میں طمانچے رسیدکیئے تھے۔آپ اسے رعونت کہیں‘تکبر کہیں یا کوئی اور نام دیں ۔وحیدہ شاہ سے جب چیف جسٹس نے کہا آپ کا وکیل کون ہے تو انہوں نے کہا وکیل بھی آپ ہیں جج بھی آپ۔میں آپ سے معافی مانگتی ہوں ۔جو ہوا غیر ارادی طورپر ہوا۔جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جب آپ نے خاتون پولنگ افسر کو تھپڑ مارے تو اسوقت آپ خود ہی وکیل اور خود ہی جج تھیں۔آپ کی معافی اب قبول نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ اب ریاست کا معاملہ ہے“۔

ریاست کے اندر بلاناغہ ایسے واقعات ہورہے ہیں جو غریب کی عزت ‘عصمت ‘پیٹ الغرض سب کچھ ملیامیٹ کررہے ہیں ۔یہ تو بھلاہوکیمرے کا جس نے اس ایکشن کا ری پلے دکھادیا۔اور خداخیرکرے ایسے منصفوں کی جو حق پر ڈٹ جاتے ہیں۔اور کسی رعب ولالچ کے بغیر قانون اللہ کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔اب اس جانب آتے ہیں کہ خلافت کا زمانہ اور نبی اعظم ﷺ کا زمانہ اور ان کی تعلیمات انسان کی عظمت بڑھاتی ہیں۔میرے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے”جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اُس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی‘اُس نے اللہ کو ایذا دی“۔پھر پوری انسانیت کے متعلق رہبراعظم ﷺ فرماتے ہیں”جس کسی نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس کسی نے کسی ایک فرد کی جان بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کی جان بچائی“۔انہی تعلیمات نے عرب کے دیہاتی لوگوں کو دنیابھر پر حاکم بنادیا۔اور انہوں نے انسانوں سے لے کرجانوروں تک کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری گردانا۔حضرت عمرؓ کا فرمان ہے ”اگر فرات کے کنارے کتے کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو قیامت کے دن عمر ؓ جواب دہ ہوگا“۔آپ ؓ نے عمل کرکے بھی دکھایا۔

لیکن موجودہ نظام ہی بوسیدہ ہے۔تو شاخ نارک پر بنے آشیاں کی متعلق پائیداری کی اُمید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

مصطفے زیدی کے مرثیے کا اک مصرعہ ہے
جس ہاتھ سے تھپڑے پڑے وہ ہاتھ ایک کردار تھا

یہ کسی ایک خاتون کا ہاتھ نہیں تھا ناں ہی وہ طمانچہ کسی ایک خاتون کے چہرے پر رسید کیا گیا۔بلکہ وہ اک مخصوص طبقے (امراءاور امیر)کا حقارت آمیز رویہ تھا اُس طبقے کے افراد کے متعلق جن کے چہرے پر یہ تھپڑ رسید کیا گیا۔حاکموں نے طمانچہ مارا ہے محکوموں کو ‘مظلموں کو ‘نادار طبقے کو۔

میں تو اپنے چہرے پر تھپڑ کے اثرات محسوس کررہاہوں کیا آپ بھی محسوس کررہے ہیں؟؟
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174947 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.