دینی مدارس کے مدرسین کے فرائض

اللہ تعالیٰ نے اہل علم کو بڑا بلند مقام دیا اور سرکار مدینہ ﷺ پر پہلی وحی بھی علم کے حوالے سے نازل ہوئی ۔جبکہ دنیا کی ہر قوم تعلیم کی اہمیت کا اعتراف کرتی ہے ، سالانہ بجٹ میں اس کے لئے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے ۔خالق کائنات جل مجدہ نے ابتدائے آفرینش سے انسانیت کی فلاح و بہبود اور ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاءکرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اور آخر میں کائنات کے سب سے عظیم معلم ،خاتم الانبیاءﷺ کو مبعوث فرمایا ۔آپ کے بعد صحابہ کرام آئمہ دین مجتہدین اور اولیاءکرام اپنے اپنے دور میں اس فریضے کو انجام دیتے رہے ،سب کا مقصد عالم انسانیت کی بھلائی اور فکر و کردار کو صرا ط مستقیم پر گامزن کرنا تھا ۔بالفاظ دیگر انسانوں کو مقام انسانیت سے روشناس کرانا اور اس پر فائز کرنا تھا ۔

ا س اعتبار سے دیکھا جائے تو ماننا پڑے کہ دینی معلم اور مدرس ،وارث انبیاءہیں ،نائب اولیاءہیں اور مسند نشین آئمہ دین ہیں اور دین کی تعلیم و تدریس مقدس فریضہ ہے جس کے ذریعے انسانیت کی عظیم ترین خدمت انجام دی جاتی ہے ۔معلمین کےلئے ”العلماءورثہ الانبیاء۔سے بڑھ کر تاب عظمت و تمغہ فضیلت کیا ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ عزت اور احترام تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب ایک استاد ان آداب کو اپنائے گا جو معلم کائنات ،رہبر اعظم ﷺ کی تابندہ سیرت کا حصہ ہیں ۔ اس کے بغیر نہ تو ایک معلم صحیح معنوں میں معلم کہلانے کا حقدار ہو سکتا ہے اور نہ تعلیم کے مطلوبہ نتائج میسر آ سکتے ہیں ۔

نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا اس پر عمل کر کے دکھایا ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :ان نبی اللہ ﷺ کان خلقہ القرآن ۔(الحدیث)یعنی اللہ کے نبی ﷺ کا اخلاق قرآن ہے۔

اس کا مطلب سوائے اس کے کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قرآں پاک کے ایک ایک حکم پر عمل کر کے دکھایا ۔

لہٰذا معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ جن عقائد اعمال کی تعلیم دے ۔پہلے وہ خود ان کو اپنائے ۔اگر وہ خود عقائد کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے تو شاگردوں کو وہ قوت یقین کیسے فراہم کرے گا؟ اسی طرح جن اعمال کی وہ تعلیم دے رہا ہے ،اگر خود ان پر عمل پیرا نہیں ہے تو وہ اعمال طلبہ کی نگاہ میں کس طرح اہمیت حاصل کر سکیں گے ؟

اللہ تعالیٰ کی یہ عادت کریمہ ہے اور اقوام عالم بھی اس فارمولے کو تسلیم کرتی ہیں کہ تعلیم کے لئے کتابیں کافی نہیں ہیں ۔بلکہ اس کے پڑھانے اور سکھانے کے لئے معلم ہونا چاہیے جو نہ صرف کتاب کی تعلیمات کو طلبہ کے ذہن نشین کرائے بلکہ وہ خود عمل اور کردار کا ایسا حسین پیکر ہو کہ طلبہ اسے آئیڈیل تسلیم کریں اور غیر شعوری طور پر اس کے رنگ میں رنگے جائیں ۔

ارشاد ربانی ہے :فرمادیجئے ! کہ دین کی تعلیم اور تدریس پر تم سے کچھ معاوضہ طلب نہیں کرتا ۔“

اس لئے معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی لالچ یا معاوضے کے پیش نظر تعلیم نہ دے ۔اگر ایسا ہے تو اسے دو کانداری اور کاروبار کہہ سکتے ہیں تعلیم و تدریس کہنا مناسب نہ ہو گا ۔نبی کریم ﷺ نے جز وقتی نہیں ہمہ وقتی تعلیم دی ۔لیکن اس پر فیس اور تنخواہ کا مطالبہ نہیں کیا ،معاوضہ کی طلب نہیں کی ۔صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہے اور خلق خدا کی بہتری مقصود ہے ،اگر کچھ طلب کیا تو یہ ۔المودة فی القربیٰ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اے قبائل قریش ! تمہاری ساتھ ہمارے قرابت ہے اور قرابت کا پاس کر و،اس سے محبت کرو اور ہم سے دور بھاگ کر جہنم کا ایندھن نہ بنو ،بلکہ اسلام لا کر جنت کے مستحق بن جاﺅ ! یعنی پھر بھی اپنی ذات کے لئے منفعت کا مطالبہ نہیں ہے ،بلکہ اپیل ہے تو یہ کہ ہمارے پیغام کو اپنا لو اور ہمارے مشن پر گامزن ہو جاﺅ ۔تاکہ تمہیں فائدہ ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

مدارس وہ کار خانے ہیں جہاں دین کے ہر شعبے میں کام کرنے والے افراد تیار کئے جاتے ہیں۔ مدرس ، مصنف ، مناظر ،مبلغ ، خطیب ، امام اور مفتی ان ہی اداروں میں تیار کئے جاتے ہیں اور اگر صحیح طور پر ایسے افراد تیار ہو جائیں تو معاشرے میں اسلامی انقلاب بر پا کر سکتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ معلمی کو بطور پیشہ یا ذریعہ معاش اختیار کرنے والے مدرسین فعال اور با صلاحیت علماءتیار نہیں کر سکتے ۔یہ کارنامہ وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جو اس کام کو بطور مشن اور عبادت انجام دیں گے ۔جو ہر روز باقاعدہ مطالعہ کر کے اپنے موضوع پر پورا عبور حاصل کریں گے اور طلبہ کے سامنے مکمل اعتما د اور ذمہ داری سے گفتگو کر سکیں گے ۔

مدرس کی حیثیت ایک باپ کی ہے ،بلکہ بعض اعتبارات سے تو وہ باپ سے بھی بڑھ کر ہے ،اس لئے اس کا رویہ طلبہ کے ساتھ بڑا مشفقانہ اور مربیانہ ہونا چاہیے۔ طالب علم اگر اپنی کسی غلطی پر معذرت پیش کرے تو فراخدلی سے اسے قبول کر لے اور اگر کوئی سوال پوچھے تو اسے تمام تر تسلی کے ساتھ مطمئن کرنے کی کوشش کرے ۔استاد کا کام ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو معقول دلائل سے قائل کرے ،رعب اور ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے انہیں خاموش کرنے کی کوشش نہ کرے ۔طلبہ کی اصلاح کے لئے بھی حکیمانہ انداز اختیار کرے تاکہ طالب علم کی عزت نفس مجروح نہ ہو، ورنہ بہت ممکن ہے کہ باغی اور سر کش خیالات اسے تحصیل علم ہی سے روک دیں اورکسی دوسرے راستے پر چلا دیں ۔

درس نظامی میں منطق و معقول کی کتابیں اس لئے شامل کی گئی ہیں کہ فکر و نظر کو جلا ملے ،حق کی تائید میں استدلال اور غور و فکر کا طریقہ معلوم ہو اور باطل افکار و نظریات کے شکوک و شبہات کا بخوبی ازالہ کرنے کا سلیقہ حاصل ہو جائے ۔ان علوم عالیہ کی افادیت تسلیم ہولیکن بہتر ہو گا کہ زیادہ زور اصول فقہ پر دیا جائے ۔جس میں عقولیت بھی ہے اور براہ راست دینی مسائل پر گفتگو بھی ضروری ہے کہ ایک مدرس کچھ عرصہ علوم عالیہ پڑھانے کے بعد قرآن و حدیث اور فقہ اور اصول فقہ اور علم کلام کے لئے مختص ہو جائے اور اپنی تمام توانائی ان علوم کے لئے صرف کر دے ۔

اس جگہ ایک انتہائی اہم بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہمارے علماء خصوصاً واعظوں کی تمام تر سعی اور کاوش چند فروع اور درجہ استحباب کے مسائل پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے ۔حالانکہ اصل اہمیت اس پیغام کی ہے جو رسول اللہ ﷺ ا للہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے ۔جس پر عمل پیرا ہونے سے تاریخ عالم میں حیرت انگیز انقلاب آگیا ۔قیصر و کسریٰ کے تاج شہنشاہی مجاہد صحابہ کی ٹھوکروں پر آگئے ۔ہمارے مدرسین کا فرض ہے کہ اپنے شاگردوں کو دین کی اصل روح سے آشنا کریں ۔انہیں بتائیں کہ توحید کا ایقان کیا ہے ؟ رسالت کا مقام کیا ہے ؟ انہیں بتائیں کہ عبودیت کا مطلب کیا ہے ؟ لمبے چوڑے نصاب پڑھنے ،کئی کئی گھنٹوں پر پھیلی ہوئی تقریریں سننے کا کیا فائدہ ؟ اگرخدا وند قدوس کے کارساز رزاق مطلق ہونے کا ہمیں یقین نہیں ہے ،اگر ہمار ے دل خشیت الہٰی سے معمور نہیں ہیں ۔اگر ہمیں ایک ایک عمل پر جوابدہ ہونے کا احساس نہیں ،اگر ہمارے اندر قول عمل بیدار نہیں ہوتی اور اگر موذن کی آواز ہمیں عملاً لبیک کہنے پر مجبور نہیں کرتی ۔

ایک وقت تھا جب مشائخ تصوف کی کتابیں سبقا پڑھایا کرتے تھے ۔آج ہمارے نصاب سے تصوف کو خارج کر دیا گیا ہے ۔ایسے میں ذوق عبادت اور جذبہ ریاضت کہاں سے پیدا ہو گا ؟ ہمیں احیاءالعلوم ،کشف المحجوب ،الفتح الربانی ،رسالہ قیشریہ اور مکتوبات امام ربانی جیسی کتابوں کو شامل درس کرنا پڑے گا ۔ورنہ ہم خشک ملاں تیار کر رہے ہیں ۔ایسے افراد ہر گز تیار نہ کر سکیں گے جن کی گفتگو میں اپیل کرنے والی حلاوت ہو ،جو تقویٰ و طہارت کے پیکر ہوں اور جن کی نجی محفلیں اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب اکرم ﷺ کے ذکر اور تعلیمات کے بیان سے آراستہ ہوں ۔ہمارے اساتذہ یونان کے فلاسفہ کے افکار پر مشتمل کتابیں تو پڑھاتے ہیں ،لیکن ایسی کوئی کتاب نہیں پڑھاتے جس میں ان کی ضلالتوں اور کافرانہ نظریات کی واضح نشان دہی کی گئی ہو ،اس مقصد کے لئے اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مولانا الشاہ امام احمد رضا بریلوی قد س سرہ العزیز کا رسالہ مبارکہ ”الکلمة الملہمہ “ ضرور پڑھانا چاہیے ۔

نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرتوں کا تفصیلی مطالعہ بھی ضرور کرانا چاہیے کہ اس کے بغیر تعمیر سیرت کا تصور باطل ہے ،اولیاءکرام ،آئمہ مجتہدین اور علماءاہلسنت کے تذکروں سے بھی روشناس کرانا ضروری ہے ۔

کسی بھی مدرس کے لئے وسیع مطالعہ اور تحقیق از بس ضروری ہے اور تحقیق کے لئے تصنیف کے میدان میں قدم رکھنا ضروری ہے ،تصنیف کے بغیر نہ تو کسی مسئلے پر پوری توجہ مرکوز ہوتی ہے اور نہ ہی کسی موضوع کے ضروری پہلوﺅں کا احاطہ کیا جا سکتا ہے ۔مروجہ طریقے کے مطابق تفسیر کی کتابیں پڑھانے سے وہ فہم قرآن حاصل نہیں ہو سکتا جو قرآں پاک کی تفسیر لکھنے سے حاصل ہو سکتا ہے ،لازماً اس کے لئے مختلف تفاسیر کا مطالعہ پورے انہماک سے کرنا ہو گا اور قدیم و جدید تفاسیر کی ورق گردانی کرنا ہو گی ،تب کہیں جا کر ایک عالم تفسیر لکھنے کی صلاحیت حاصل کر سکے گا ۔مگر تفسیر بلرائے نہیں کرنی چاہئے۔

ایک مدرس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ طلبہ کی اخلاقی اصلاح پر بھی بھر پور توجہ دے ،تزکیہ نفس ،اتبا ع دین ،صبر و شکر ،توکل علی ،اللہ غناءنفس اور عظمت کردار سے روشناس کرائے ،تاکہ مدارس سے فارغ ہو کر طلباءاس کا نمونہ پیش کر سکیں ۔یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ انگریز نے اپنے دور حکومت میں عوام الناس کی نظروں میں علماءکا وقار گرانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ آج اکثر علماءکرام بھی اخلاق ،کردا ر اور عمل کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کر سکے جو عوام پر اچھا تاثر چھوڑ دے ۔

مدرس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اجتماعی طور پر درس و تدریس کا فریضہ انجام دے اورنہ طلبہ کے ساتھ اختلاط اور وہ بھی خاص طور پر تنہائی میں اختیار نہ کرے۔ طالب علمی کے دور میں دوسرے طلبہ سے بے تکلف میل جول ہوتا ہے ،لیکن اب اس سے اجتناب کرنا چاہیے ،ورنہ مختلف قسم کی اخلاقی خرابیاں پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے اور کچھ نہیں تو کسی بھی مخالف کو الزام تراشی کا بہترین موقع مل جائیگا ۔حضرت ملک المدرسین علامہ عطا محمد بندیالوی مد ظلہ نے اپنے شاگر د مولانا شاہ محمد صاحب کو ایک جگہ تدریس کے لئے بھیجتے ہوئی نصیحت فرمائی کہ درس و تدریس کے علاوہ طلباءسے الگ تھلگ رہنا ،یہاں تک کہ ہو سکے تو اپنے کپڑے بھی خود دھولینا ۔

کتب درسیات میں موقع کی مناسبت سے طلبہ کو تقابلی مطالعہ کی طرف بھی توجہ کرانا چاہیے ۔اسلام کا تقابل ادیان عالم سے مسلک اہلسنت کا تقابل فرقہائے باطلہ سے ،مذہب حنفی کی اہمیت اور برتری دوسرے مذاہب پر اور قرآن پاک کے مختلف تراجم کا تقابلی مطالعہ کرانا چاہیے ،تاکہ فارغ ہونے والے علماءہر قسم کی معلومات سے بہر ہ ور ہوں ۔

نیز طلبہ کو انداز تبلیغ بھی سکھانا چاہیے ۔انہیں بتایا جائے کہ وہ اپنے خطاب میں قصے کہانیوں کا سہارالینے کی بجائے قرآن و حدیث اور آئمہ دین کے ارشادات پیش کریں ۔غیر ضروری اشعار پڑھنے سے حتیٰ الامکان اجتناب کریں کہ تعلیم یافتہ طبقہ ان چیزوں کو پسند نہیں کرتا ۔سامعین کو واقعات سے نہیں دلائل سے قائل کریں ،تقریر کا ایک موضوع متعین کریں اور اس پر معقول گفتگو کریں ،نیز تمام وقت فضائل بیان کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ حاضرین کو مسائل سے بھی آگاہ کریں ۔مثلاً حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب اس طرح بیان کئے جائیں کہ سننے والوں کو یہ معلوم ہو کہ ان کی سیرت میں ہمارے لئے کیا سبق ہے ؟ معراج کو ایک کہانی کے طور پر نہیں بلکہ اس طرح بیان کیا جائے کہ سامعین کو پتہ چلے کہ اس میں ہمارے لئے کون کون سے اسباق مضمر ہیں ۔اس طرح حضور سید العالمین ﷺ کی عظمت و جلالت اور آپ ﷺ کی محبت کی عظمت اس طرح بیان کریں کہ حاضرین یہ محسوس کئے بغیر نہ رہ سکیں کہ ہمیں اس ہادی اعظم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا لازم ہے ،ورنہ عشق و محبت کا زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھے گا۔

مدرس کا یہ کام کہ طلبہ میں تبلیغ کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دے ۔خیال فرمائیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظلم و ستم اور مخالفتِ عام کے باوجود بھی تبلیغ حق کو ترک نہ فرمایا بلکہ کبھی حکمت و رازداری سے اور کبھی علی الاعلان اعلائے کلمة الحق کا فریضہ سر انجام دیا۔

اس پاکیزہ طریقے سے معلم کائنات ﷺ نے اپنے شاگردوں کو ایسا تیار کیا کہ جو دنیا کی امامت کرنے لگے ۔

معزز قارئین!اگر اساتذہ و مدرسین اپنے فرضِ منصبی کو کما حقہ سر انجام دیں تو یقینا مدارس دینیہ سے ایسی کھیپ تیار ہو گی جو دنیا میں انقلابِ مصطفوی ﷺ برپا کر دے گی ۔

مدارس اسلام کے قلع بن جائیں گے ۔دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا اور امن و محبت کے نہ بجھنے والے چراغ روشن ہوں گے ۔غزالی و بو علی سینا پیدا ہوں گے اور ملتِ اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو بحال کر سکے گی۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 615845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.