کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی
میں تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ علم کا ہی کمال ہے کہ وہ انسان کو
جہالت و گمراہی کے اتھاہ اندھیروں سے نکال کر علم و آگہی کی روشنی میں لاتا
ہے اور انسان کو شعور بخشتا ہے۔ اور انسان میں شعور پروان چڑھتا ہے اور اسی
علم کی بدولت وہ اچھے بُرے یا صحیح اور غلط میں تمیز کر پاتا ہے۔ لیکن
افسوس کہ ہمارے ملک پاکستان میں تعلیم کا شعبہ وہ واحد شعبہ ہے جس کو سب سے
زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے اور اس کی بہتری کےلئے حکومت کی جانب سے کسی
قسم کی کوشش نہیں کی جارہی۔ جس وجہ سےہم اس وقت دنیا کی دوسری قوموں سے بہت
پیچھے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں تعلیم پہ بہت کم
خرچ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی تقریبا آدھی آباد ان پڑھ ہے۔
اور جو لوگ پڑھے لکھے ہیں یا سکولوں اور کالجوں میں جارہے ہیں ان کو
امتیازی نظام تعلیم کا سامنا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ایک سے زیادہ نظام تعلیم رائج ہیں یا یوں کہہ لیں کہ جس
طبقے کو جو نظام بھاتا ہے وہ وہی اختیار کرلیتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق
اس وقت ملک میں تین قسم کے نظام تعلیم رائج ہیں اول ٹاٹ سسٹم یہ سسٹم غریب
غرباء کے بچوں کےلئے ہے۔ اس نظام کے تحت جو بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ تو
اول تعلیم پوری کر ہی نہیں پاتے کیونکہ ان کے والدین ان کی پڑھائی کے
اخراجات برداشت نہیں کرپاتے جس کے نتیجہ میں ان کو والدین کے ساتھ گھر
چلانے میں مدد کرنا پڑتی ہے اور یوں وہ تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ اور
ان میں سے جو تعلیم پوری کرلیتے ہیں ان کا اتنا لیول نہیں ہوتا کہ وہ کوئی
ڈھنگ کی جاب حاصل کرسکیں۔
دوم انگلش میڈیم، یہ وہ والا انگلش میڈیم ہے جو ہمارے عام سکولوں میں رائج
ہے جہاں پہ سفید پوشوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کی حالت ایسی ہوتی
ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا یعنی کے ایسے ادارے بظاہر
تو انگلش میڈیم ہوتے ہیں لیکن نہ تو یہ پورے انگلش میڈیم بن پاتے ہیں اور
نہ ہی پورے اردومیڈیم اورایسے اداروں سے جو بچے اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں
وہ درمیانی قسم کے طالبعلم ہوتے ہیں ان کی ذہنی استعداد اور تعلیمی ریکارڈ
اس قسم کا ہوتا ہے کہ جس کے بل بوتے پہ ان کو کسی دفتر میں کلرک کی جاب مل
جاتی ہے یا پھر کوئی اور چھوٹی موٹی نوکری مل جاتی ہے اور ان کی ساری عمر
اسی میں بسر ہوجاتی ہے۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ قسمت جن کا ساتھ دے وہ
اچھی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن ایسوں کی تعداد آٹے میں
نمک کے برابر ہوتی ہے۔
سوم آکسفورڈ نظامِ تعلیم یہ وہ والا نظام ہے جس میں ہمارے امراء کے بچے
تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کو شروع دن سے یہی باور کرایا جاتا ہے کہ وہ سب
سے سپیرئیر ہیں اور باقی دونوں نظاموں والے ان کے غلام ہیں یہی وجہ ہے کہ
اس نظام کے تحت رہنے والے طالبعلم پڑھائی میں بھی تیز ہوتے ہیں اور ملک میں
جو مقابلے کے امتحانات صوبائی پبلک سروس کمیشن کے تحت یا پھر وفاقی سروس
کمیشن کے تحت ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر اسی نطام سے تعلیم حاصل کرنے والے
طالبعلم ہی کامیاب ہوتے ہیں۔
اللہ تعالٰی ہر بچے کو یکساں ذہنیت اور خوبیوں کے ساتھ پیدا کرتا ہے لیکن
آگے انسان کی مرضی ہوتی ہے کہ اُس کو جس رنگ میں مرضی رنگ لے یعنی کہ جس
طرح کا ماحول اُسے میسر ہوگا وہ اسی طرح کا ہوگا۔ تو ایسے میں ہماری حکومت
کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم متعارف کروائے
اور ہمارے ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی نوجوانوں پہ مشتمل ہے اور ہمارے
حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان نوجوانوں کی تعلیم کا مناسب
بندوبست کریں۔ اور ملک بھی اسی صورت میں ترقی کرے گا جب ملک میں ایک سا
نظامِ تعلیم ہوگا۔ |