آٹھ مارچ کو پوری دنیا میں
خواتین کا دن بڑے روز و شور سے منایا جاتاہے پاکستان میں بھی ان دن کے
حوالے سے مختلف تقریبات ،سیمینار،کانفرنسز کا انعقاد کیاجاتاہے ،جو معاشرے
میں خواتین کے حقو ق کی آگاہی کے حوالے سے ایک مناسب کوشش ہے جس میں ملکی
ترقی میں خواتین کے کردارکی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنا اورتسلیم کرنا ہے
۔
سماجی ترقیاتی عمل میں مجھے لسبیلہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں
خواتین کی ترقی کے حوالے سے مختلف پروجیکٹ میں کام کرنے کا موقع ملا اس
دوران مجھے خواتین کی ترقی کے حوالے موجود مواقعوں اور درپیش مسائل و
چیلنجز کو سمجھنے کا موقع ملا ہے ،موجودہ ترقی یافتہ اور جدید دور میں
خواتین کی آبادی کا نصف سے زائد ہیں ان کے مسائل اور مشکلات میں اصافہ
دیکھنے میں آیا ہے خاص طور پر عورت پر گھریلو اور نفسیاتی تشدد اور صنفی
بنیاد پر امتیاز روارکھا جاتاہے جو ہر حال میں قابل مذمت اور انسانی حقوق
کے کھلم کھلاخلاف ورزی کے زمرے میں آتاہے ہمارے ہاں عورت آج بھی ان مظالم
کے خلاف اپنا دفاع کرنے اور معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرنے میں ناکام نظر
آتی ہیں ،ہمارے ہاں تعلیم کی کمی کی وجہ سے عورتوں کو اپنے حقوق کے بارے
میں مکمل آگاہی حاصل نہیں ،ضلع لسبیلہ کی خواتین میں تعلیمی ترقی کے حوالے
سے کافی مشکلات ہیں جن میں اسکولوں و کالجز کی کمی اور ساتھ موجود تعلیمی
اداروں تک رسائی ایک بہت بڑا چیلنج بنتاجارہاہے ،ہمارے ہاں سکینڈری تعلیم
حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں سیکنڈٹائم بوائز کالجز میں پڑھتی ہیں جن کی تعداد
حوصلہ مند ہے مگر سکینڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہت ساری طالبات تعلیم کو
خیر آباد کہہ کر گھر وں میں بیٹھ جاتی ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے ،اس کے
علاوہ ہائز ایجوکیشن کی شعبہ میں لسبیلہ سے خواتین کی شمولیت میں آٹے مین
نمک کے برابر ہے ،تعلیم کے اس شعبے کو حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر بری
طرح نظر انداز کیاجارہاہے جو کہ لسبیلہ میں انسانی وسائل کو فروغ نہ ہونے
کا بنیادی عنصر ہے،بیلہ میں خواتین کی لیے الگ قائم کیا جانے والا گرلز
کالج کی بلڈنگ بغیر چار دیواری کے بھوت بنگلے کا روپ دھار رہی ہے ،گرلز
اسکولوں کے لیے فراہم کی گی بسیس کھڑی کھڑی سٹر رہی ہے مگر احکام بالا
طالبات کے ان تعلیمی مسائل کو انکھیں ہوتے ہوئے بھی دیکھنے سے قاضر ہیں ۔
پاکستان میں جہاں بنیادی صحت و علاج و معالجے کا حصول عوام کے لیے بہت مشکل
ہے تووہاں صحت کے شعبے میں کام کرنے والے خواتین کارکن کے حالات توجہ طلب
ہیں،ہمارے ہاں لسبیلہ میں تین سو کے قریب لیڈی ہیلتھ ورکرز شد ید معاشی اور
سماجی مسائل سے دوچار ہیں کیونکہ سولہ سال عوام کی خدمت کے باوجود نہ تو
انہیں مستقل ملازمت کا حق دیاجاتاہے اور نہ ہی بروقت معاوضہ ادا کیاجاہے تو
اس صورتحال میں وہ ماں اور بچے کی صحت کے لیے کہاں سے خدمات انجام دے پائے
گی ۔دوسری طرف لسبیلہ میں خواتین کی صحت کے بے پناہ مسائل ہیں جن کو حل
کرنے کی نہ تو حکومت زحمت کررہی ہے اور نہ ہی غیر حکومتی سطح پر کوئی
اقدامات کیے جاتے ہیں ،ہسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹروں و اسٹاف کی کمی ،ہسپتالوں
میں ادوایات کی عدم فراہمی خواتین کے استحصال کا موجب بن رہاہے ،ضلع بھر
میں عطائی ڈاکٹروں کی بھر مار ہے اور صحت کے نام پر ہر طرف لوٹ مار ہے ۔
لسبیلہ میں خواتین کا سب سے زیادہ استحصال ہماری ٹرانسپورٹ کرتی ہے جہاں آپ
کو بیلہ سے کراجی تک ہر جگہ خواتین سٹرک کنارے ویگنوں و بسوں کا انتظار
کرتی ہوئی کھڑی نظر آئی گی مگر مجال ہے کہ سیٹ ہونے کے باجود بھی کوئی ویگن
رکیں اور پورا کرایہ دینے کے باوجود اپنے منرل تک پہنچائیں ا ور نہ ہی
حکومت ہی کوئی زحمت کرنے کا سوچتی ہے کہ خواتین کے لیے گاڑیوں میں علیحدہ
سیٹ مختص کی جائیں تاکہ یہ انسان بھی مرودں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ
آسانی کے ساتھ سفر کرسکیں۔
لسبیلہ ایک زرعی علاقہ ہے اور شعبہ زراعت دیہی معاشرے سے جڑا ہوا ہے اس
شعبے میں عورتوں کی افرادی قوت مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن اس شعبے
میں بھی خواتین کا استحصال اپنے عروج پر ہے کئی علاقوں میں خواتین اپنی
گھریلو ذمہ داریوں نباہنے کے ساتھ کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں اور اس کے
بدلے میں کوئی اجرت نہیں دی جاتی ۔دوسری طرف وہ کاشت کاری کے دوران فضلوں
پر زہریلی دوائیں چھڑکنے کی وجہ سے شدید بیمار ہوجاتی ہیں،اس کے علاوہ
دوران حمل اور زچگی کے دوران شدید تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے موت کے منہ
میں چلی جاتی ہیں ایسے متعد د دردناک حقائق دیہی علاقوں میں بسنے والی عورت
کی مشکلات کی نشان دہی کرتے ہیں۔
میں نے اوتھل کوسٹ گارڈ کے قریب گوٹھ میں 100فٹ گہرے کنواں سے پانی بھرتے
ہوئی خواتین کو اقتدار کے ایوان میں نمائندگی کرتے ہوئے عوامی لیڈروں اور
اس کے حق میں قصدہ گوئی کرنے والے سے کارکنوں سے سوال کرتے پایا ہے اور
اپنے قصور پوچھا ہے کہ ہمیں پینے کا پانی آسانی سے کیوں میسر نہیں میں نے
لاکھڑا اور اوڑکی میں خواتین کو ایک ہی تالاب سے پانی پیتے اور جانوروں کو
پلاتے ہوئے دیکھا ہے مگر میری حکومت اور میر ے عوامی نمائیدوں کو ترقی کے
منصوبے بناتے ہوئے وہ خواتین کیوں نظر نہیں آتی ہیں-
ہمارے ہاں خواتین کی اکثریت کاتعلق دیہات سے ہے ان علاقوں میں زیادہ تر
خواتین ان پڑھ اور بے ہنر ہوتی ہیں اس کے لیے ان کے بچے تعلیم و تربیت جیسے
بنیادی حقوق سے حاصل نہیں کرپاتے ہیں ۔دیہی معاشرے میں خواتین کئی گھریلو
اور سماجی پابندی میں مقید ہوتی ہیں اور س قید ووام کے لیے استحصال کو رسم
و رواج سے جوڑا جاتاہے ان روایات کے تخت لڑکیاں بابل کے آنگن میں کھلتی
ضرور ہیں مگر روز اول سے ان کے دماغ میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ انھیں
پرائے گھر جانا ہے پھر ایک عورت کی صلاحیتوں کو بس گھریلو کام کاج اور بچوں
کی پرورش تک محدود سمجھا جاتاہے اسی بنیاد پر انھیں تعلیم سے محروم رکھا
جاتاہے ان گھروانوں کی لڑکیوں کے لیے واجبی تعلیم بھی نعمت کے زمرے میں آتی
ہے ،رسم و روایات کے اسیر معاشرے میں عورت کو زیر دست رکھنے اور اسے کم تر
درجے کی محلوق ظاہر کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کے جاتے ہیں ، یہی وجہ
سے ہمارے ہاں آج بھی یہ غیر انسانی تصور موجود ہے کہ عورت مرد کے پاؤں کی
جوتی ہے جسے بار بار تبدیل کیاجاسکتاہے یہ سوچ قدیم زمانے سے چلتی آرہی ہے
اور آج بھی نہ صرف تسلیم کیاجاتاہے بلکہ بہت سارے علاقوں میں اس پر عمل بھی
کیاجاتاہے جس سے معاشرے میں مردانہ سوچ کی بالادستی نظر آتی ہے البتہ ہمارے
ہاں لسبیلہ میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح پیش رفت ہورہی
ہے ،لوگوں کا رہن سہن بدل رہاہے پرانی روایات دم توڑ رہی ہیں،سماجی تبدیلی
کی کوشش کی جارہی ہیں ایسے حالات خواتین کو نظر اندازیا ان کے حقوق غصب
کرنے کے بجائے ان کو ترقی کے عمل میں شامل کیاجائے ،لسبیلہ میں حکومتی اور
غیر حکومتی اداروں کو شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے موثر اقدامات کرئے صحت
و ٹرانسپورٹ کے متعلق ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے ،اس کے علاوہ
ہمارے ہاں بہت سارے علاقوں میں تعلیم اور ذرائع ابلاغ سے سوچ میں تبدیلی کے
آثار دیکھائی دیتے ہیں اورر وہاں پر صنفی امتیاز کے خاتمے میں مدد ملی ہے
لیکن ضرروت اس بات کی بھی ہے کہ ہم خواتین کو اعتماد دیں ان پر بھروسہ کریں
صرف دو وقت کی روٹی ہی عورت کا حق نہیں آپ عورت ذات کے جس رشتے سے وابسطہ
ہیں ایسے ہر زاویے سے عزت دیں تحفظ دیں اپنے رویوں پر نظر ڈالیے تو ہمیں
خواتین کی ترقی اور سماجی ترقی سے کوئی روک نہیں سکتا- |