اِس کوکنگ نے ہمیں پکا ڈالا

پاکستانی معاشرہ کئی اعتبار سے انتہائی منفرد ہے۔ اِس کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اِس میں بے مثال انفرادیت پائی جاتی ہے۔ افراد سے معاشرہ بنتا ہے۔ انفرادی خصوصیات یکجا ہوں تو عمومی مزاج بنتا ہے۔ یہ اُصول سالن کی پتیلی پر ضرور اطلاق پذیر ہوتا ہوگا جس میں تمام اجزاءمل کر ایک ہو جاتے ہیں یعنی سالن کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر بریانی کی دیگ ہے جس میں چاول، بوٹیاں، آلو سب الگ الگ دکھائی دیتے ہیں، یعنی پکنے کے بعد بھی اِن میں سے ہر ایک کی انفرادیت دم نہیں توڑتی! یہاں یہ وضاحت بھی ناگزیر سی دکھائی دیتی ہے کہ اب کھانا پینا بھی ہمارے معاشرے کی ایک انفرادیت ہے اس لیے بات خواہ کسی موضوع پر کی جارہی ہو، تشریح و توضیح کا سلسلہ دستر خوان پر ختم ہوتا ہے!

ہماری ایک معاشرتی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ہم صورت حال کا اندازہ محض علامات سے لگاتے ہیں اور علامات کے تجزیے سے آگے بڑھنے کو گناہِ کبیرہ گردانتے ہیں۔ مثلاً طلباءسر پر ٹوپی سجائے خشوع و خضوع کے ساتھ گھومتے نظر آئیں تو سمجھ لیجیے امتحانات سر پر ہیں! اگر کوئی فرحاں و شاداں اور کھانے پینے اشیاءسے لدا پھندا دکھائی دے تو سمجھ لیجیے کہ مہینے کے شروع کے دن ہیں اور تنخواہ ملی ہے۔ مرزا تفصیل بیگ کو قوم پر فخر ہے جو اب اپنے اعمال کے ذریعے افکار کی خوب خوب نشاندہی کرتی ہے۔ جس کی شادی ہونے والی ہو اُس کا تمتماتا چہرہ پورے محلے، بلکہ علاقے کو شادی کی دعوت دیتا دکھائی دیتا ہے! اگر کسی نے نیا موبائل خریدا ہو تو کسی کو کچھ پوچھنے اور اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں، موبائل سیٹ خود ہی پُھدک پُھدک کر اپنے نئے پن کی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے! بیکری کے کاؤنٹر کے پاس کھڑے ہو جائیے تو ڈبل روٹیوں اور پاپوں کی کھپت سے اندازہ ہو جائے گا کہ کِس کِس گھر میں شادی ہے!

مرزا ہی کی زبانی ہمیں معلوم ہوا کہ اگر کِسی گھر سے اچانک بلند آوازیں بلند ہوں اور لوگ ہائے ہائے کرتے ہوئے نکل بھاگیں تو دریافت کیجیے کہ اُس گھر میں کچھ دن پہلے شادی تو نہیں ہوئی تھی۔ اور اگر شادی ہوئی تھی تو سمجھ لیجیے کہ نئی نویلی دلہن نے آج پہلی بار کھانا پکایا ہے! بہت سے گھرانے اِس مشکل صورت حال سے بچنے کے لیے یہ اُڑا دیتے ہیں کہ اُن کے خاندان میں روایت ہے کہ نئی دلہن کو تین چار ماہ گزرنے پر باورچی خانے کی طرف بھیجا جائے! اگر یہ معیار اور حکمت عملی اپنائی جائے تو آج کی بہت سی دلہنوں کو سال بھر کے لیے باورچی خانے سے اِستثنٰی دیا جاسکتا ہے!

جب سے ٹی وی چینلز نے کھانا پکانے کی تربیت دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے، بے چاری بچیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پہلے تو اُنہیں صرف یہ سوچنا پڑتا تھا کہ کیا پکائیں اور کیسے پکائیں۔ اب موبائل پیکیج بھگتانے کے بعد جو تھوڑا بہت وقت بچ رہتا ہے اُس میں انہیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا کیا پکائیں اور کِس کِس طرح پکائیں! چینلز پر سِکھائی جانے والی ڈِشیں تعداد میں اِتنی ہیں کہ لڑکیوں کا ذہن (!) کام کرنے سے انکار کردیتا ہے، بلکہ مُکر جاتا ہے! یعنی
جلووں کے اژدہام نے حیران کردیا!

جب سے کوکنگ چینلز اور کوکنگ شوز کی بھرمار ہوئی ہے، بہت سے لوگ اچھے، روایتی کھانوں کو ترس گئے ہیں۔ اچھے خاصے آلو گوشت اور دال چاول میں بھی اب دور دراز کے براعظم سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں! جن ڈِشوں سے ہمارا دور پرے کا بھی تعلق نہیں وہ خواتین خانہ کے ذہنوں میں بس کر دستر خوان پر آباد ہوچکی ہیں۔ اب کسی کو دِل اور دماغ سے نکالنا تو ممکن ہے، اجنبی ڈِشوں کو گھریلو مینو سے نکالنا تقریباً ناممکن ہے! اہل خانہ تجربات بھگتنے بلکہ بھگتتے رہنے پر مجبور ہیں۔ بقول غالب
تو مشق ناز کر، خون دو عالم میری گردن پر!

زبیدہ آپا کانام کھانا پکانے کی تراکیب اور گھریلو ٹوٹکوں کے حوالے سے ”انتہائی“ معروف ہے۔ خواتین تو ان کی دیوانی ہیں۔ ٹی وی پر جیسے ہی اُن کا شو شروع ہوتا ہے، خواتین کام کاج چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھ جاتی ہیں۔ کئی سال تک یہ کیفیت ہمارے گھر میں بھی رہی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہمیں تو زبیدہ آپا سے جلن سی ہونے لگی تھی اور وہ بہت حد تک ہماری رقیب ہو چلی تھیں۔ جیسے ہی وہ منی اسکرین پر ابیل کے ساتھ نظر آتی تھیں، ہماری اہلیہ بھی اُن کی قبیل کی ہو جاتی تھیں۔ کبھی کبھی تو جی میں آیا کہ آپا کو فون کریں اور اُن سے پوچھیں کہ خواتین خانہ کو اُن کے پروگرام دیکھنے سے باز رکھنے کا بھی کوئی ٹوٹکا اُن کے پاس ہے کہ نہیں!

ایک بار تو حد ہوگئی۔ ایک چینل پر آپا بیٹھی تھیں کہ اچانک میز پر غالیچہ بچھایا گیا اور آپا نے فوراً صوفے کی آڑ سے جھاڑو نکالی۔ ہم نے سوچا اینکر نے کہیں کوئی گستاخی تو نہیں کردی! مگر پھر خیال آیا کہ جو آپا بچیوں کو بہت سی کام کی باتیں سکھاتی ہیں وہ گھر کی صفائی میں مرکزی کردار ادا کرنے والی جھاڑو کا فساد انگیز استعمال ہرگز نہیں سکھائیں گی۔ پھر ہم نے یہ دیکھ کر سکون کا سانس لیا کہ باجی نے تنکے والی جھاڑو کی مدد سے بچیوں کو یہ سکھانا شروع کیا کہ غالیچے سے مٹی کس طور نکالی اور جھاڑی جاتی ہے!

گزشتہ دنوں برادرم محمد احمد انصاری نے آپا سے ملاقات کی اور انٹرویو کے ذریعے ”اُن کی کہانی، اُنہی کی زبانی“ مرتب کی۔ آپا کہتی ہیں ”پہلی ڈش کڑھی بنائی جو کِسی کو چکھائے بغیر پھینکنا پڑی۔ میں نے پانی میں بیسن کھول کر پتیلی چولھے پر چڑھادی۔ کچھ دیر بعد دیکھا تو لئی نما ملغوبہ تیار ہوا تھا۔ مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ کڑھی میں چھاچھ یا دہی ڈَلتا ہے!“

بیسن کے لئی نُما ملغوبے کو پھینک دینا آپا کے خلوص اور نیک طینتی کا مظہر تھا۔ اگر اُس دور میں کوکنگ شو ہوا کرتے تو کوئی آپا کی اِس ناکام کوشش کو ”پھیکی، بیسنی کڑھی“ کے نام سے مارکیٹ میں پیش کردیتا!

آپا نے ”پہلی ڈِش“ کی وضاحت نہیں کی۔ بات کچھ یوں ہے کہ کسی بھی نئی دلہن کی جو ڈِش گھر کے افراد سچّے دِل سے قبول، تسلیم اور منظور کرتے ہیں وہی عملاً پہلی ڈِش ہوتی ہے! اور اِس ڈِش کی تیاری میں خدا جانے کِتنی ہی ”پہلی ڈِشیں“ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں! کوئی ڈِشز کی کیژیوئلٹیز کو کہاں تک شُمار کرے!

آپا نے مزید بتایا ”طارق (شوہر) آفس سے آئے تو میں نے بتایا کہ ایسی کڑھی بنی ہے جو کیاری میں الٹانی پڑے گی۔ وہ فراخ دلی سے مُسکراتے ہوئے میری دل جوئی کرنے لگے کہ کوئی بات نہیں، ایسا بھی ہوتا ہے شروع شروع میں۔ پھر اِسی ’خوشی‘ میں ہم نے باہر ڈنر کیا۔“

آپا نے بتایا ہے تو اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بہت سے نئے جوڑے شاندار ریسٹورنٹس میں خوشی خوشی ڈنر کر رہے ہوتے ہیں تو در اصل وہ ”خوشی“ منا رہے ہوتے ہیں! نئے دولھے بے چارے دِل جُوئی کے چکر میں کیاریوں میں پتیلیاں اُلٹواتے رہتے ہیں! اب اگر آپ کو کسی کیاری سے پھولوں کے ساتھ ساتھ کسی سالن نما چیز کی خوشبو بھی آئے تو سمجھ لیجیے گا کہ کچن میں کھلائے ہوئے گل پھولوں میں پھینکے گئے ہیں اور کوئی جوڑا ”خوشی“ منانے نکلا ہے!

آپا کہتی ہیں ”پہلی گھریلو دعوت کی تیاری کے دوران میں ہر وقت اللہ سے مدد مانگتی رہی۔ تمام کھانے تیار کرنے کے بعد میز موم بتیوں اور پھولوں سے سجائی۔ اللہ نے کرم کیا اور تمام مہمانوں نے کھانے کی تعریف کی، بلکہ تعریفوں کے پُل باندھ دیئے۔ تمام بچیوں کو اکثر یہ تلقین کرتی ہوں کہ ہر مشکل میں اللہ کو یاد کرو، اُسی سے مدد مانگو اور پھر جی لگاکر کام کرو۔“

بالکل درست۔ آج کی لڑکیوں کو شادی کے بعد گھریلو اور بالخصوص کچن کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اللہ سے ضرور مدد مانگنی چاہیے۔ بصورت دیگر گھر کے تمام افراد اللہ کے سامنے دست بہ دُعا رہنے پر مجبور ہوں گے!

آج کل کی دلہنیں جس قسم کے کھانے تیار کرتی ہیں اور جس طرح اہل خانہ سے انتقام لیتی ہیں اُس کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے کہ جب وہ اپنے پکائے ہوئے کھانوں کو میز پر سجائیں تو پھول رکھنے کے بعد موم بتیوں کے ساتھ ساتھ چند اگر بتیاں بھی سُلگائیں!

آپا ہمارے لیے بہت قابل احترام ہیں مگر سچ یہ ہے کہ کوکنگ چینلز نے قوم کی بیٹیوں کو سِکھانے سے زیادہ سیکھے ہوئے کو ذہنوں سے مٹادیا ہے۔ لوگ اپنے روایتی ذائقوں کو ترس گئے ہیں۔ ٹٰی وی پر طرح طرح کی تراکیب دیکھ کر لڑکیاں جب کچھ پکانے کی ٹھانتی ہیں تو اچھا خاصا کچن تجربہ گاہ میں تبدیل ہو جاتا ہے! سائنس دان جس طور کوئی بھی نئی دوا چوہوں پر آزماتے ہیں، بالکل اُسی طرح نئی ڈِشیں اہل خانہ کو چوہوں کی صف میں کھڑا کردیتی ہیں! اِن تجربوں نے قوم کے منہ کا ذائقہ کچھ کا کچھ کردیا ہے۔ اب اگر کوئی ڈھنگ کی چیز کھانے کو ملے تو زبان اور منہ کو عجیب سی لگتی ہے! اللہ کرے کہ کیاریوں کو آلودہ کر کے ”خوشی“ منانے کا سلسلہ ختم ہو اور کھانے کی میز پر موم بتیوں کے ساتھ اگربتیاں جلانے تک نوبت نہ پہنچے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484350 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More