عمر شریف کی روح

جب کوئی کِسی کے حواس پر سوار ہو جائے تو کوئی بھی بات کی جائے، گفتگو کا سلسلہ اُسی شخص تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔ فرید جاوید مرحوم نے کیا خوب کہا تھا۔
گفتگو کسی سے ہو، تیرا دھیان رہتا ہے

کسی بھی بم دھماکے یا شرپسندوں کے ہاتھوں قتل و غارت کے بعد بھارت کے انٹیلی جنس حکام کے ذہن میں شک کی سُوئی آئی ایس آئی پر اٹک جاتی ہے۔ یہ ادارہ اُن کے حواس پر ایسی سوار ہے کہ بات کو گھما پھراکر، اور بالعموم ذرا بھی گھمائے پھرائے بغیر، آئی ایس آئی پر الزام دھر دیتے ہیں! یہ بالکل ویسی ہی حالت ہے کہ کوئی سر پر گٹھڑ رکھے جا رہا ہو اور پیٹ میں اُبھرنے والی ”فطرت کی پُکار“ پر گٹھڑ ایک طرف پھینک کر فراغت پانے کے لیے بھاگ نکلے!

مرزا تنقید بیگ کا خیال ہے کہ ہمارا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ کالم لکھتے وقت ہمارے ذہن پر خواتین سوار رہتی ہیں اور ہم اپنے بیشتر کالموں میں، ضرورت نہ ہو تب بھی، خواتین کا ذکر کربیٹھتے ہیں! کل جب اِس موضوع پر بات ہوئی تو کہنے لگے ”تم اپنے بیشتر کالموں میں کسی بھی موضوع پر بحث کی تان خواتین کے تذکرے پر توڑتے ہو۔ ضروری ہو یا نہ ہو، خواتین کو کالم میں گھسیٹ لاتے ہو!“

ہم نے قطع کلامی کی اور اِس پر معذرت چاہے بغیر عرض کیا کہ ہم اپنے کسی بھی کالم میں خواتین کو جس انداز سے شامل کرتے ہیں اُس کے لیے ”گھسیٹنے“ کا لفظ ہرگز استعمال نہ کیا جائے! ہم نے مرزا پر واضح کیا کہ خواتین کو ہم جس احترام سے اپنے کالموں میں داخل کرتے ہیں اگر وہی احترام آپ کے لیے بھی مختص ہو تو آپ خود پر رشک اور ہم پر شک کریں! مگر مرزا اِس وضاحت سے رام نہ ہوئے۔ وہ یہ جاننے کے لیے بضد تھے کہ ہم اپنے کالموں میں خواتین کو تند و تیز جملوں کا ہدف کیوں بناتے ہیں۔ اُن کا گمان یہ ہے کہ ہم پچھلے جنم کا کوئی اُدھار اِس جنم میں چُکتا کرنا چاہتے ہیں! اب ہم مرزا کوکیا بتائیں کہ اُن سے دوستی البتہ ہمارے کسی پچھلے جنم کے کردہ و ناکردہ گناہوں کی سزا ضرور ہے!

ہم بھی چاہیں تو یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ جس طرح امریکی حکومت کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا ہو تو القاعدہ سے لاحق خطرے کا رونا روکر اپنے شہریوں کو ڈراتی اور سیکورٹی اپ گریڈیشن کے نام پر کچھ رونق میلہ لگاتی ہے بالکل اُسی طرح مرزا کی سمجھ میں جب کچھ نہیں آتا تو ہمارے کالموں پر اعتراض کر بیٹھتے ہیں!

جس طرح افغانستان کسی بلا کی طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے چمٹ چکا ہے اور اب جان چھڑانا دشوار ہوگیا ہے بالکل اُسی طرح مرزا بھی ہمارے لیے جی کا جنجال ہیں اور اُن سے بچ پانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ مرزا کی رُوح گھر کے اندر بھی ہمیں گھیر لیتی ہے۔ گھریلو حدود میں مرزا کے حصے کا کام یعنی ہمارے کالموں پر اعتراضات کا فریضہ اہلیہ انجام دیتی ہیں۔ ایک دن ہمارا کالم پورے انہماک سے پڑھ کر اہلیہ نے کہا ”آپ میں شاید عمر شریف کی روح ٹُھنس گئی ہے!“

یہ سُن کر پہلے تو ہم ذرا خوفزدہ ہوئے کہ پتہ نہیں اہلیہ نے ہمیں کِس گیٹ اپ میں دیکھ لیا ہے! عمر بھائی ماشاءاللہ بھرپور ٹائپ کے فنکار ہیں۔ وہ دنیا بھر کے گیٹ اپس میں اِتنے زیادہ دکھائی دیتے ہیں کہ اب اُن کی اپنی (اصل) شخصیت ڈھونڈے سے نہیں ملتی! پھر یہ سوچ کر دل کو عجیب سی خوشی ہوئی کہ کامیڈی سمجھ کر ہی سہی، ہماری مزاح نگاری کو گھر کی حدود میں بھی تسلیم تو کیا گیا! مگر ساری خوشی اہلیہ کی وضاحت سے کافور ہوگئی۔ ”عمر شریف کو بھی عجیب بیماری ہے کہ جب ہنسانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو جناب خواتین کا مذاق اڑانے لگتے ہیں! آپ بھی یہی کرتے ہیں۔ آئے دن خواتین ہی آپ کے طنز کا نشانہ بنتی ہیں۔“

ہم نے وضاحت کی کہ علامہ اقبال کی زبانی ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اس کائنات میں رنگ خواتین کے وجود سے ہے۔ ہم اپنے کالموں کو رنگین بنانے کے لیے ڈسٹمپر یا برانڈیڈ اینیمل پینٹ تو استعمال کرنے سے رہے، اِس لیے، علامہ اقبال کے فرمائے ہوئے کو مستند جان کر، خواتین کے ذکر سے تحریر میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں! اور یہ کہ فیشن، میک اپ، این جی اوز، تعلیم و تعلم، شوبز اور دوسرے بہت سے موضوعات پر کچھ بھی لکھنا ہو تو خواتین کا ذکر کئے بغیر بات بنتی نظر نہیں آتی۔ ایک مشکل یہ ہے کہ مہنگائی اور افلاس کا ذکر کیجیے تو بات باورچی خانے اور چولھے تک پہنچ جاتی ہے۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ باورچی خانے اور چولھے پر کچھ بھی لکھتے وقت خواتین کو کَس طرح سائڈ لائن کیا جائے!

وضاحت پورے انہماک سے سُننے کے بعد اہلیہ نے قدرے جَل بُھن کر کہا ”خواتین کا ذکر کرتے ہوئے یاد رکھا کریں کہ اُن کا تعلق صرف میک اپ، فیشن اور کچن سے نہیں بلکہ چپل اور سینڈل سے بھی ہے! اگر کبھی ایک آدھ سینڈل نشانے پر لگ گیا تو کالم کے ساتھ ساتھ آپ خود بھی کسی حد تک رنگین ہو جائیں گے!“ اِس انتباہ کے پہلو بہ پہلو اُن کا شِکوہ برقرار تھا ”آپ اپنے کالموں میں خواتین کو تنقید ہی کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟“

ہم نے عرض کیا کہ کالموں میں خواتین کے تذکرے کو سسپنس یا ہارر پیدا کرنے کی خواہش ہرگز نہ سمجھا جائے، ہم تو بس مزاح پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اب اگر بات کہیں سے کہیں جا نکلتی ہے تو ہم کیا کریں۔ اِس میں بھی قصور خواتین کا ہے۔

”وہ کیسے؟“ اہلیہ نے حیران ہوکر پوچھا۔

ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ خواتین کے وجود میں اتنی وسعت اور معنویت ہے کہ بات سے بات نکلتی جاتی ہے اور ہم تجاہل کالمانہ کی لہروں میں بہتے چلے جاتے ہیں!

یہ سُن کر اہلیہ نے کہا ”بھاری بھرکم الفاظ اور اصطلاحات سے ہمیں کنفیوز مت کیجیے۔ یہ تجاہل کالمانہ یا جاہلانہ جو کچھ بھی ہے سب اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ مزاح پیدا کرنے کی کوشش بھرپور طنز کے اہتمام ہی پر کیوں منتج ہوتی ہے؟“

ہم نے سوال کیا کہ عمر شریف کی اسٹینڈ اپ کامیڈی میں اپنے ذکر کو خود خواتین اِس قدر انجوائے کیوں کرتی ہیں؟ سو سُنار ایک لوہار کی کے مصداق اِس برجستہ سوال نے گھریلو عدالت کی پوری کارروائی کو سمیٹ کر کوزے میں بند کردیا!

اب ہم کیا بتائیں کہ کالم نگاری کا معاملہ بھی کچھ یوں ہے کہ
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر!

مزاح کی ہانڈی میں جب تک طنز کا بھرپور تڑکا نہ لگایا جائے، کالم کی ڈش میں لذت پیدا ہی نہیں ہوتی! ہم کالم نگاری میں ڈائجسٹوں کے سِکّہ بند رائٹرز کی روش پر گامزن رہتے ہیں یعنی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایک کالم میں کئی کالموں کا مزا، موڈ اور رنگ ہو۔ ہم چونکہ اپنے کالموں میں رنگ بھرنا چاہتے ہیں اِس لیے قلم خود بخود وجودِ زن کے ذکر کی طرف جانکلتا ہے! ہلکا پھلکا لکھنے کا معاملہ دراصل بات سے بات نکالنے کا فن ہے۔ اور یہ فن خواتین کے سِوا کسے آتا ہے؟
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525272 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More